"سعد بن معاذ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
درستی املا
سطر 5:
اگرچہ عقبہ اولیٰ میں [[یثرب]] میں اسلام آ چکا تھا،لیکن [[مصعب بن عمیر]] کی وجہ سے بہت لوگ مسلمان ہوئے شروع میں سعد بن معاذ ابھی حالت کفر میں تھے، ان کو مصعب کی کامیابی پر سخت حیرت اور اپنی قوم کی بے وقوفی پر انتہا درجہ کا حزن وملال تھا۔<ref>خلاصۃ الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ :92</ref>
[[اسعد بن زرارہ]] نے مصعب سے کہا تھا کہ سعد بن معاذ مسلمان ہوجائیں گے تو کوئی کافر نہ رہ سکے گا، اس لیے آپ کو ان کے مسلمان کرنے کی فکر کرنی چاہیے، سعد بن معاذ مصعب کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں،آپ بیٹھ کر سن لیجئے،ماننے نہ ماننے کا آپ کو اختیار ہے سعد نے منظور کیا تو مصعب نے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں جن کو سن کر سعد بن معاذ کلمۂ شہادت پکار اٹھے اورمسلمان ہوگئے۔
قبیلہ عبدالاشہل میں یہ خبر فوار پھیل گئی، سعد نے سب کو کہا جب تک مسلمان نہ ہوگے میں تم سے بات چیت نہ کروں گا،سعدکو اپنی قوم میں جو عزت حاصل تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ شام ہونے سے قبل تمام قبیلہ مسلمان ہوگیا۔مسلمانہو گیا۔مسلمان ہوکرسعدنے مصعب کو اسعد بن زرارہ کے مکان سے اپنے ہاں منتقل کر لیا۔
== غزوات میں شرکت ==
سعد عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے اور [[امیہ بن خلف]] کے مکان پر (جو مکہ کا مشہور رئیس اوران کا دوست تھا)قیام کیا (امیہ مدینہ آتا تھا تو انکے ہاں ٹھہرا کرتا تھا) اورکہا کہ جس وقت حرم خالی ہو مجھے خبر کرنا، چنانچہ دوپہر کے قریب اس کے ساتھ طواف کے لیے نکلے راستہ میں [[ابو جہل]] سے ملاقات ہوئی ،پوچھا یہ کون ہیں؟ امیہ نے کہا"سعد" ابو جہل نے کہا تعجب ہے کہ تم صابیوں (بے دین ،آنحضرتﷺ اورصحابہ مراد ہیں) کو پناہ دے کر اوران کے انصار بن کر مکہ میں نہایت اطمینان سے پھر رہے ہو ،اگر تم ان کے ساتھ نہ ہوتے توتمہارا گھر پہنچنا دشوار ہوجاتا، سعد نے غضب آلود لہجہ میں جواب دیا، تم مجھے روکو پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے؟ میں تمہارا مدینہ کا راستہ روک دونگا امیہ نے کہا "سعد ابو الحکم (ابو جہل) مکہ کا سردار ہے،اس کے سامنے آواز پست کرو" سعدنے فرمایا،چلو ہٹو، میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ مسلمان تم کو قتل کریں گے،بولا کیا مکہ میں آکر ماریں گے؟ جواب دیا اس کی خبر نہیں۔<ref>بخاری:2/563</ref>
سطر 13:
[[غزوۂ خندق]] میں جو [[5ھ]] میں ہوا، اس میں شریک تھے۔
بنو قریظہ کو آنحضرتﷺ نے جلا وطن کرنا چاہا تو چونکہ وہ قبیلۂ اوس کے حلیف تھے کہلا بھیجا کہ ہم سعد کا حکم مانیں گے، آنحضرتﷺ نے سعد کو اطلاع کی وہ گدھے پر سوار ہوکر آئے، مسجد کے قریب پہنچے تو آنحضرتﷺ نے انصار سے کہا کہ اپنے سردار کی تعظیم کے لیے اٹھو۔
پھر سعدسے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارے حکم کے منتظر ہیں،عرض کیاتو میں حکم دیتا ہوں کہ جو لوگ لڑنے والےہیں قتل کئے جائیں،اولاد غلام بنائی جائے اور مال تقسیم کردیاکر دیا جائے، آنحضرتﷺ نے یہ فیصلہ سن کر کہا کہ تم نے آسمانی حکم کی پیروی کی ؛چنانچہ اس کے بموجب اپنے سامنے 400 آدمی قتل کرائے۔
== وفات ==
غزوہ خندق میں حبان بن عبد مناف نے جو عرقہ کا بیٹا تھا، ہاتھ پر ایک تیر مارا جس سے ہفت اندام کٹ گئی زخمی ہونے کے بعدمسجد نبوی کے خیمہ میں رہتے تھے اور حضور ﷺ روزانہ ان کی عیادت کو تشریف لاتے تھے ؛چونکہ زندگی سے مایوس ہوچکے تھے ،خدا سے دعا کی کہ قریش کی لڑائیاں باقی ہوں تو مجھے زندہ رکھ ان سے مجھ لڑنے کی بڑی تمنا ہے؛ کیونکہ انہوں نے تیرے رسول کو اذیت دی ،تکذیب کی اور مکہ سے نکال دیا اور اگر لڑائی بند ہونے کا وقت آگیا ہے تو اس زخم سے مجھے شہادت دے اور بنی قریظہ کے معاملہ میں میری آنکھیں ٹھنڈی کر، اس دعا کا دوسرا ٹکڑا مقبول ہوا، <ref>بخاری:2/91</ref>
سطر 20:
اخلاقی حیثیت سے سعدبڑے درجہ کے انسان تھے ، عائشہ فرماتی ہیں، رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بڑھ کر عبدالاشہل کے تین آدمی تھے،سعدبن معاذ، [[اسید بن حضیر]] اور [[عباد بن بشر|عبادہ بن بشر]]۔
وہ خود کہتے ہیں کہ یوں تو میں ایک معمولی آدمی ہوں؛ لیکن تین چیزوں میں جس رتبہ تک پہنچنا چاہیے پہنچ چکا ہوں ،پہلی بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جو حدیث سنتا ہوں اس کے منجانب اللہ ہونے کا یقین رکھتا ہوں،دوسرے نماز میں کسی طرف خیال نہیں کرتا، تیسرے جنازہ کے ساتھ رہتا ہوں تو منکر نکیر کے سوال کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ یہ خصلتیں پیغمبروں میں ہوتی ہیں۔
آنحضرتﷺکو ان کے اعمال پر جو اعتماد تھا وہ اس حدیث سے معلوم ہوسکتاہو سکتا ہے جس میں مردہ کو قبر کے دبانے کا ذکر آیا ہے،اس کا ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ اگر قبر کی تنگی سے کوئی نجات پاسکتا تو سعد بن معاذ نجات پاتے۔<ref>مسنداحمد عن عائشہ</ref>
ایک مرتبہ کسی نے آنحضرتﷺ کے پاس حریر کا جبہ بھیجا تھا،صحابہ اس کو چھوتے اور اس کی نرمی پر تعجب کرتے تھے،آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم کو اس کی نرمی پر تعجب ہے ،حالانکہ جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بھی زیادہ نرم ہیں۔<ref>بخاری:1/536</ref><ref> اسد الغابہ جلد 1 صفحہ912 حصہ چہارم،مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور</ref>
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{صحابہ}}
 
[[زمرہ:620ء کی دہائی کی وفیات]]
[[زمرہ:نو مسلمین]]