"موریا سلطنت" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م ←‏بیرونی روابط: صفائی بذریعہ خوب
درستی املا
سطر 60:
اور مزید ان کا کہنا ہے اس کی حقیقت وسط ایشیائی کلمہ ’مور‘ جس کے معنی تاج کہ ہے، یہ وہی کلمہ ہے جس کو موڈ بھی بولا جاتا یعنی وہ تاج جو دولہا شادی کہ موقع پہنتا ہے۔ کیوں وسط ایشا کہ لوگ کلمہ کو ڑ اور ڈ ساتھ بھی بھی بولتے ہیں، اس لیے اسے سنسکرت کو ’موڈ‘ سمجھا گیا، جس کے معنی مسرت اور خوشی کے ہیں۔ انہوں نے اس کلمہ پر تفصیلی بحث کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ کڑٹس کہتا ہے سندھ میں پٹالا کے بادشاہوں نے بھی اس کلمہ کو اپنے ناموں کے ساتھ لگایا ہے اور یہ کلمہ وہی ہے جس کو یونانیوں نے موئز کہا ہے، یہ کلمہ وسطہ ایشیا میں بھی ایک قبیلہ کا نام تھا اور وہاں اب بھی موجود ہے اور اس کا نام بھی یہی ہے۔ موریا، خوتان ترکستان اور دیگر علاقوں کے علاوہ کشمیر کے بھی حکمران تھے۔ پاپا اول سے پہلے موریا راجھستان میں جتوڑ کے حکمران تھے، وہ خود مور راجہ کی لڑکی کا بیٹا تھا۔ اس طرح مہرت راجہ چتوڑ جس کا ذکر چچ نامہ میں ذکر ملتا ہے مور یا موری قبیلہ کی شاخ اور سندھ کے رائے ساسی کا رشتہ دار تھا۔ نیل گری کے پہاڑوں پر چند قدیم مجسموں کا حوالہ دیتے ہوئے فادر مٹز کہتا ہے کہ وہ موریا ری مان (موریا گھرانا کہلاتے تھے۔ وہ انہیں تار تار یا ازبک تسیلم کرتا ہے۔
== چندر گپت موریا ==
[[چندرگپت موریا]]سے تاریخ ہند کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جو شمالی ہند کے اتحاد اور ہندو تمذن کی نشونماہ نظام حکومت کی توسیع اور برہمنت کے اثر و رسوخ کے لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ پہلا حکمران ہے جس نے شمالی ہند کی تمام ریاستوں کو زیر کرکے ایک متحدہ حکومت کی بنیاد رکھی اور اپنی مملکت کو خلیج بنگال سے لیکر بحیرہ عرب تک وسیع کیا۔ اس نے اپنے چوبیس سالہ (322ء؁ تا 298ء؁ ق م) دور میں بڑی بڑی جنگیں لڑیں، جس میں سب سے اہم جنگ سکندر کے سالار سلوکس Seleuces سے لڑی۔ سلوکس نے سکندر کے مفتوع علاقوں کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ سلوکس نے 305 ؁ ق م میں پاک وہند کی طرف قدم بڑھایا، مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پنجاب کی سرزمین پر شکست کھانے کے بعد ایک شرمناک معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔ جس کے رو سے وہ نہ صرف ہندی مقبوضات سے بلکہ کابل، قندھار، ہرات، اور بلوچستان سے بھی دستبردار ہوگیا۔ہو گیا۔ نیز تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لئےلیے اس نے اپنی بیٹی کی شادی چندر گپت سے کردی۔ چندر گپت نے محض اس کی بات رکھنے کے لئےلیے پانسو ہاتھیوں کا تحفہ بھیجا۔
سلوکس نے اپنے ایک سفیر میگھستینز Maghasthenes کو اس کے دربار میں بھیجا، جس نے اس عہد کے حالات تفصیل سے قلمبند کئے ہیں۔ اس جنگ کے بعد موریا سلطنت کی سرحدیں مکران و افغانستان تک وسیع ہوگئیں۔ جین روایات کے مطابق چندر گپت نے آخری زمانے میں جین مت قبول کر لیا تھا اور اس نے تخت سے دست بردار ہوکر حکومت اپنے بیٹے بندو سار Bindusara کو سونپ دی تھی۔ مگر دوسری روایات سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ہے۔
سطر 71:
بندوسار کے بعد273 ؁ یا 273 ؁ق م میں اشوک Ashoka اس کا بیٹا جانشین ہوا۔ اس حالات خود اس کے لاٹوں اور کتبوں سے ملتے ہیں۔ اس کی تاجپوشی کی رسم چار سال کے بعد269 ؁ ق م میں ادا کی گئی۔ مگر اس کی حکومت کے ابتدائی چارسال کے حالات بالکل معلوم نہیں ہیں اور جو کچھ مذہبی کتابوں میں ملتے ہیں ان پر مذہبی رنگ غالب ہے۔ ان مذہبی روایات میں بتایا گیا ہے، کہ اشوک اپنے 99 بھائیوں کو قتل کرکے تخت حاصل کیا تھا۔ مگر دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی حکومت کے سترویں یا اٹھارویں برس تک اس کے بھائی زندہ تھے اور وہ ان کی خبر گیری کرتا تھا۔ پھر بھی یہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ تخت نشینی کی عام روایات کے مطابق اسے اپنے بھائیوں جنگ کرنی پڑی ہو اور چند کا اسے خون بھی بہانا پڑا ہو، جیسا کہ اس کی پانچویں لاٹ سے پتہ چلتا ہے۔ غرض اس کی حکومت کے ابتدائی حالات کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ تخت نشینی کے بارہ سال تک وہ غیر اہم زندگی بسر کرتا تا رہا اور شاید اپنا وقت انتظامی امور پر توجہ دی اور 261 ق م میں مہاندی اور گوادری کے درمیان غیر آریائی ریاست کلنگاKulinga پر حملہ کر کے اس ریاست کو فتح کر لیا۔ اس طرح موریا کی توسیع جنوبی ہند تک ہو گئی۔
کلنگا کی فتح نے اشوک کے دماغ پر گہرا اثر دالا۔ کیوں کہ اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ جنگی تباہ کاریاں دیکھ کر اشوک سخت متاسف ہوا اور اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ کبھی جنگ نہ کرے گا۔ اس واقع کے بعد اس نے اپنی بقیہ زندگی اخلاقی تعلیمات پھیلانے، برائیوں کو روکنے اور بھلائیوں سے آشنا کرنے میں صرف کردی۔
اشوک نے دور دراز کے ملکوں مثلاََ لنکا، برما، سیام، سماٹرا، شام، مقدونیہ اور مصر میں اپنے مغلبین بھیجے۔ انہوں نے جنوبی ملکوں میں شاندار کامیابی حاصل کیں۔ اشوک نے بدھ کی اخلاقی تعلیمات کو عام کرنے کے لئےلیے انہیں پتھروں کی سلوں کی پر کندہ کرا کر انہیں شاہراؤں پر نصب کروائے۔ اس کی تعلیمات جو بدھ سے ماخذ ہیں ان میں عدم تشد، جانداروں کی زندگی کی تحریم، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک، ماں اور باپ اور استادوں کی تعظیم، راست گوئی، عام ہمدردی اور فیاضی پر ذور دیا گیا ہے۔ اس نے مختلف مقامات پر مسافر خانے، کنوئیں اور شفاخانے تعمیر کرائے۔ نیز جانوروں کو ہلاک کرنا ممنوع قرار دیا۔ اشوک نے اپنی حکومت کے چوبیسویں سال مقدس مقامات کی زیارت کی اور گوتم کی یاد میں لمبنی باغ قریب جہاں گوتم پیدا ہوا تھا ایک مینار نصب کرایا۔ علاوہ ازیں اشوک نے بدھ مت کے فرقوں کے اختلاف ختم کروانے کے لئےلیے ایک مجلس منعقد کروائی۔
اشوک کو عمارتیں بنوانے کا شوق تھا۔ اس نے مختلف مقامات پر عالی شان محلات، خانقائیں اوراسٹوپے Stups تعمیر کروائے جن کے نشانات اب نہیں ملتے ہیں۔ اس نے سنیاسیوں کی عبادت کے لئےلیے گیا کے قریب برابر کے پہاڑوں میں چٹانوں کو کاٹ خوب صورت اور بہت ہی صاف سفاف خانقائیں بنوائیں جو اب بھی باقی ہیں۔ مگر اس کی تمام یادگاروں میں اہم اس کے کتبہ ہیں جو تعداد میں تیس ہیں۔ یہ کتبہ زیادہ تر چٹانوں کی سلوں، غاروں کی دیواروں اور ستونوں پر کندہ ہیں برصغیر کے بہت سے حصوں میں پائے گئے ہیں۔ ان کی زبان پراکرت ہے، یعنی وہ مقامی زبانوں میں ہیں۔ ان کتبوں میں دو کا رسم الخط وہ ہے جسے آج کل کروشتھی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔یہ رسم الخظ قدیم آرامی رسم الخظ سے ماخوذ ہے اور دائیں سے بائیں لکھا جاتا تھا۔ بقیہ کتبے براہمی حروف کے کسی نہ کسی شکل میں کندہ۔ یعنی ان حروف میں ہیں جن سے موجودہ دیوناگری رسم الخط نکلا ہے۔ یہ حروف دائیں سے بائیں لکھے جاتے تھے۔ یہ کتبات شاہی فرامین ہیں اور زیادہ تر اخلاخی اصول بدھ کی عام تعلیمات، نظم و نسق اور اصول سلطنت پر مشتمل ہیں۔
== موریہ سلطنت کا زوال ==
یہ حقیقت ہے جوحکومت قیام امن کے لیے قائم ہوتی ہے خود بغیر جنگ اور عسکری طاقت کے بغیر قائم رہے نہیں سکتی ہے۔ اشوک نے اپنی تمام زندگی میں عدم تشدد کی پر زور تبلیغ کی اور ان کے اصولوں سیاسی اور اجتماعی زندگی میں اپنانے اور قابل عمل بنانے کی کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی دنوں کے اندر سطنت کی حربی طاقت ختم ہوگئی اور فوج کا جنگی جذبہ سرد ہوگیا،ہو گیا، نظام حکومت کمزور ہوگیاہو گیا اور اس کی ہیبت لوگوں کے دلوں سے اٹھ گئی۔ ساتھ ہی ساتھ بدھ مت کی تبلیغ کی وجہ سے برہمنیت جاگ اتھی اور وہ نچ ذات کے بدھ فرمانروا کو اکھاڑ پھیکنے پر تل گئی۔ طاقت کے استعمال کا خوف تھا ہی نہیں اس لیے بڑی بیباکی کے ساتھ اعلیٰ اور ادنیٰ ذاتوں کا مسلہ کھڑا کر کے مذہبی جذبات بھڑکا دیا گیا، اشوک کے موت کے بعد موریاسلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ ایک طرف اشوک کے بیٹوں اور پوتوں نے حصہ بخرے کر لئے اور دوسری طرف بعض حوصلہ مندوں نے بعض مقامات پر قبضہ جمالیا اور یہ بتانا مشکل ہوگیاہو گیا کہ اشوک کے بعد اس کا جانشین کون ہوا۔ پران کی روایت میں کنال kunak جو اشوک کا بیٹا تھا پہلا جانشین بتاتا ہے۔ مگر کشمیر کے واقع نگار ایک شخص جلوک Jalauka اس کا بیٹا اور جانشین کہتے ہیں۔ تیسری بدھ مت کی روایتں ہیں جو بتاتی ہیں کہ بڑھاپے میں اشوک کا انہماک مذہب کی طرف اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ حکومت کے کاموں سے غفلت برتنے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کے سلطنت کے کل پرزے ڈھیلے پڑگئے اور آمدنی بے جا طور پر صرف ہونے لگی۔ یہ حالات دیکھ کر وزراء نے اشوک کے اختیارات سلب کر کے اس کے پوتے سمپری Samprti جو کنال کا بیٹا تھا تخت پر بیٹھا دیا۔ ان روایات کے مطابق سمپرتی کے بعد موریا خاندان کے چار اور حکمران برشین Brashisin، پسی Pushydrman دھرمن، اور پشی متر Pushidhrman تخت پر بیٹھے۔ جین روایت بھی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ سمپرتی اشوک کا جانشین ہوا۔ ان روایات کے پہلو بہ پہلو وہ کتبے ہیں جو ناگرجنیNagarjuni کے پہاڑ کے غاروں میں کندہ ہیں جو اشوک کے پوتے دسرتھ Dasartha نے بنوائے تھے۔ یہ غار اشوک کے کھدوائے ہوئے برابر پہاڑ Brabar Hillکے غاروں کے قریب واقع ہیں۔ ان کتبوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اشوک کی موت کے بعد دسرتھ تخت پر بیٹھا، یا کم از کم مشرقی صوبوں میں اس کا جانشین ہوا۔ دسرتھ اشوک کے ایک بیٹے تیور Tivra کا بیٹا تھا جو شاید باپ کی زندگی میں مر گیا تھا، کیوں کہ اشوک کے بعد اس کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ حلانکہ اشوک کا یہی ایک بیٹا تھا جس کا ذکر کتبوں میں آیا ہے۔ وشنو پران کی روایات کے مطابق موریا خاندان کے چار حکمران شالی شوک Sali suka، دیو ورمن Devavarman، ستمدہنوس Satamdhmus اور برہدرتھ Brihadrtha پاٹلی کے تخت پر بیٹھے۔ ہر نیا حکمران سابق حکمران سے کمزور تر نکلا۔ آخر انحاط اس حد تک پڑھا کے فوج کے سالار پشی متر Pushyammitra نے راجہ (برہدرتھ) کو قتل کرکے موریا خاندان کا خاٹمہ کردیا۔کر دیا۔
 
== نظام حکومت ==
سطر 90:
== فوج ==
اس عہد کی طرح موریہ بھی نیم فوجی حکومت تھی اور طاقت کا دارو مدار فوج پر تھا۔ وہ اپنی فوج کے بل پر ہی اپنی حکومت قائم کی اور لوگوں کے دلوں پر اپنی ہیبت قائم رکھ سکے۔ موریا عہد میں فوج کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کی تعد بڑھ کر چھ لاکھ سے بھی تجاوز ہوگئی۔ پلینی Pliny کے بیان کے مطابق چندر گپت کی فوج میں چھ لاکھ 600000 پیادہ 30000 تیس ہزار سوار اور نو ہزار 9000 ہاتھی شامل تھے۔ مگھشنز کے بیان کے مطابق اس عظیم انشان فوج کی نگرانی ایک مجلس کے سپرد تھی جو تیس اراکین پر مشتمل تھی اور جو مزید چھ ذیلی مجلسوں میں تقسیم بٹی ہوئی تھی۔ ہر ذیلی مجلس کے سپرد فوج کا خاص حصہ تھا۔ پہلی دریائی بیڑا کی دیکھ بھال۔ دوسری پیادہ افوج کا انتظام۔ تیسر سوار فوج کا انتظام۔ چوتھی رتھوں کا انتطام۔ پانچویں ہاتھیوں کا انتظام۔ چھٹی سامان رسد م بار برداری، طبلچی، سائیس، گھسیارے اور کاری گروں کی دیکھ بھال پر معمول تھا۔
مگھیشنز کے بیان کی تصدیق کسی اور ذرائع سے نہیں ہوتی ہے پھر بھی اس سے اتنا اندازہ ہوجاتا ہے کہ موریا عہد میں فوج کا محکمہ منظم اور مستحکم تھا۔ اشوک نے عدم تشدد کے اصول کو اپنایا اور اس محکمہ کی طرف سے غفلت برتی۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ملک فوجی لحاظ سے کمزور ہوگیاہو گیا اور داخلی انتشار کے ساتھ عرصہ تک بیرونی حملوں کا شکار ہوتا رہا۔
مذہبی تقسیم کے لحاظ سے ملک کی آبادی چار ذاتوں برہمن، کشتری، دیش اور شودر میں بٹی ہوئی تھی حکومت و سیاست اور جنگ و جدل سے متعلق تمام باتیں کشتری کے متعلق تھیں۔ صرف وہی فوجی خدمت کے لائق سمجھے جاتے تھے، مگر غالباً موریاؤں نے اسے نظر انداز کیا فوج کے تمام اعلیٰ اختیارات راجہ کو حاصل تھے۔ وہی سپہ سالاری کا کام بھی انجام دیتا تھا۔ خود خون و کشت میں حصہ لیتا تھا اور سپاہیوں لڑاتا تھا وہ رتھ یا ہاتھی پر سوار ہو کر میدان جنگ میں آتا تھا۔ ارتھ شاستر میں اسے پیچھے رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ وہ دشمنوں کے نرغے سے بچ سکے۔ راجہ کی عدم موجودگی میں سپہ سالار جسے سینہ پتی کہتے تھے فوج کی قیادت کا کام انجام دیتا تھا۔ سینہ پتی بہت با اثرعہدہ تھا۔ عملی طور پر وہی پوری فوج کا قائد تھا۔ راجہ اس پر اپنے کسی عزیز یا خاص معتدی کو اس عہدے پر فائز کرتا تھا۔ اس کے تحت دوسرے بہت سے فوجی سالار تھے جو نایک Nayaka اور دندا نایک Danda Nayakaکہلاتے تھے۔
اپنی ترکیب کے لحاظ سے فوج پیادہ، سوار، جنگی رتھوں اور ہاتھیوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ ہاتھیوں پر زیادہ بھروسا کیا جاتا تھا۔ موریہ عہد میں رتھوں کو اہمیت حاصل رہی۔