"حسن بن علی عسکری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
صفائی بذریعہ خوب, replaced: ہوجائے ← ہو جائے (2)
درستی املا
سطر 54:
== نشوو نما اور تربیت ==
 
بچپن کے گیارہ سال تقریباً اپنے والد بزرگوار کے ساتھ وطن میں رہے جس کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ زمانہ اطمینان سے گزرا۔ اس کے بعد امام علی نقی علیہ السّلام کو سفر عراق درپیش ہوگیاہو گیا اور تمام متعلقین کے ساتھ ساتھ امام حسن عسکری علیہ السّلام اسی کم سنی کے عالم میں سفر کی زحمتوں کو اٹھا کر سامرا پہنچے۔ یہاں کبھی قید کبھی آزادی , مختلف دور سے گزرنا پڑا مگر ہر حال میں آپ اپنے بزرگ مرتبہ باپ کے ساتھ ہی رہے۔ اس طرح باطنی اور ظاہری طور پر ہر حیثیت سے آپ علیہ السّلام کو اپنے والد بزرگوار کی تربیت وتعلیم سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکا۔
 
== زمانہ امامت ==
سطر 64:
جیسا کہ ا س سے پہلے ضمناً بیان ہوا امام حسن عسکری علیہ السّلام کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ ان تمام تکالیف اور مصائب میںبھی شریک رہے جو آپ کے والد بزرگوور کو حراست اور نظر بندی کے ذیل میں بھی متعدد بار برداشت کرنا پڑے۔ ا س کے بعد جب آپ کا دور ُ امامت شروع ہوا ہے تو سلطنت بنی عباس کے تخت پر معتز بالله عباسی کا قیام تھا۔ معتز کی معزولی کے بعد مہدی کی سطنت ہوئی۔ گیارہ مہینے چند روز حکومت کرنے کے بعد اس کا خاتمہ ہوا اور معتمد کی حکومت قائم ہوئی , ان میں سے کوئی ایک بادشاہ بھی ایسا نہ تھا جس کے زمانہ میں امام حسن عسکری علیہ السّلام کو ارام وسکون ملتا , باوجود یہ کہ اس وقت بنی عباس بڑی سخت الجھنوں او رپیچیدگیوں میںگرفتار تھی مگر ان تمام سیاسی مسائل اور مشکلات کے ساتھ ہر حکومت نے امام حسن عسکری علیہ السّلام کو قید وبند میں رکھنا سب سے زیادہ ضروری سمجھا۔ اس کا خاص سبب رسول خدا کی یہ حدیث تھی کہ میرے بعد بارہ جانشین ہو ں گے اور ان میں سے اخری مہدی اخر الزمان اور قائمِ الِ محمد ہوگا۔ یہ حدیث برابر متواتر طریقہ سے عالم ُ اسلام میں گردش کرتی رہی تھی۔
 
خلفائے بنی عباس خوب جانتے تھے کہ سلسلہ الِ محمد کے وہ افراد جو رسول کی صحیح جانشینی کے مصداق ہوسکتے ہیں وہ یہی افراد ہیں جن میں سے گیارہویں ہستی امام حسن عسکری علیہ السّلام کی ہے اس لیے ان ہی کا فرزند وہ ہوسکتاہو سکتا ہے جس کے بارے میں رسول کی پشین گوئی صحیح قرارپاسکے۔ لٰہذا کوشش یہ تھی کہ ان کی زندگی کادنیا سے خاتمہ ہو جائے اس طرح کہ ان کا کوئی جانشین دنیا میں موجود نہ ہو۔ یہ سبب تھاکہ امام حسن عسکری علیہ السّلام کے لیے اس نظر بندی پر اکتفا نہیں کی گئی جو امام علی نقی علیہ السّلام کے لیے ضروری سمجھی گئی تھی بلکہ آپ کے لیے اپنے گھربار سے الگ قید تنہائی کو ضروری سمجھا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ قدرتی انتظام کے تحت درمیان میں انقلاب سلطنت کے وقفے آپ کی قید مسلسل کے بیچ میں قہری رہائی کے سامان پیدا کردیتے تھے مگر پھر بھی جو بادشاہ تخت سلطنت پر بیٹھتا تھا وہ اپنے پیش رو کے نظریہ کے مطابق آپ کو دوبارہ قید کرنے پر تیار ہوجاتا تھا. اس طرح آپ کی مختصر زندگی جو دور ُ امامت کے بعد اس کا بیشتر حصہ قید وبند ہی میں گزرا.
اس قید کی سختی معتمد کے زمانے میں بہت بڑھ گئی تھی , اگر چہ وہ قتل دیگر سلاطین کے آپ کے مرتبہ اور حقانیت سے خوب واقف تھا چنانچہ جب قحط کے موقع پر ایک مسیحی راہب کے دعوے کے ساتھ پانی برسانے کی وجہ سے مسلمانوں میں ارتداد کا فتنہ برپا ہوا اور لوگ عیسائت کی طرف دوڑنے لگے تو مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے وہ امام حسن عسکری علیہ السّلام ہی تھے جو قید خانے سے باہر لائے گئے ,آپ نے مسلمانوں کے شکوک کو دور کرکے انھیں اسلام کے جادہ پر قائم رکھا۔ اس واقعہ کااثر اتنا ہوا کہ اب معتمد کو آپ کے پھر اسی کو قید خانے میں واپس کرنے میں خجالت دامنگیر ہوئی۔ اس لیے آپ کی قید کو آپ کے گھر میں نظر بندی کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا مگر آزادی پھر بھی نصیب نہ ہو سکی۔
 
==سفرائی کا تقرر==
 
ائمہ اہل بیت جس حال میں بھی ہوں ہمیشہ کسی نہ کسی صورت سے امامت کے فرائض کو انجام دیتے رہتے تھے۔ امام حسن عسکری علیہ السّلام پر اتنی شدید پابندیاں عائد تھیں کہ علوم ُ اہل بیت علیہ السّلام کے طلبگاروں اور شریعت ُ جعفری کے مسائل دریافت کرنے والوں کا آپ تک پہنچنا کسی صور ت ممکن نہیں تھا۔ اس لیے حضرت علیہ السّلام نے اپنے زمانہ میں یہ انتظام کیا کہ ایسے افراد جو امانت ودیانت نیزعلمی و فقہی بصیرت کے اس درجہ حامل تھے کہ امام علیہ السّلام کے محل اعتماد ہوسکیں انھیں اپنی جانب سے آپ نے نائب مقرر کر دیا تھا۔یہ حضرات جہاں تک کہ خود اپنے واقفیت کے حدود میںدیکھتے تھے اس حد تک مسائل خود ہی بتادیتے تھے اور وہ اہم مسائل جوان کی دسترس سے باہر ہوتے تھے انھیں اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے او ر کسی مناسب موقع پر امام علیہ السّلام کی خدمت میں رسائی حاصل کرکے ان کو حل کرالیتے تھے کیونکہ ایک شخص کا کبھی کبھی امام علیہ السّلام سے ملاقات کو اجانا حکومت کے لیے اتنا ناقابل برداشت نہیںہوسکتانہیںہو سکتا تھا جتنا کہ عوام کی جماعتوں کو مختلف اوقات میں حضرت علیہ السّلام تک پہنچنا.
ان ہی سفرائ کے ذریعے سے ایک اہم خدمت بھی انجام پائی جاتی تھی. وہ یہ کہ خمس جو حکومت ُ الٰہیہ کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس نظام ُحکومت کو تسلیم کرنے والے ہمیشہ ائمہ معصومین علیہ السّلام کی خدمت میںپہنچاتے رہے او ران بزرگوں کی نگرانی میں وہ ہمیشہ دینی امور کے انصرام اور سادات کی تنظیم وپرورش میں صرف ہوتا رہا اب وہ راز دارانہ طریقہ پر ان ہی نائبوں کے پاس اتا تھا اور یہ امام علیہ السّلام سے ہدایت حاصل کرکے انھیں ضروری مصارف میںصرف کرتے تھے یہ افراد اس حیثیت میں بڑے سخت امتحان کی منزل میں تھے کہ ان کو ہ وقت سلطنت وقت کے جاسوں کی سراغرسانی کا ا ندیشہ رہتا تھا۔ اسی لیے عثمانرض بن سعید اور ان کے بیٹے ابو جعفر محمدرض بن عثمان نے جو امام حسن عسکری علیہ السّلام کے ممتاز نائب تھے ا ور عین دارلسلطنت بغداد میں مقیم تھے اپنے اس متعلقہ افراد کی امدورفت کو حق بجانب قرار دینے کے لیے ایک بڑی دکان روغنیات کی کھول رکھی تھی۔ اس طرح حکومت جو رکے شدید شکنجہ ظلم کے اندر بھی حکومتِ الٰہیہ کا ائینی نظام چل رہا تھا اور حکومت کا کچھ بس نہ چلتا تھا۔
 
سطر 80:
باوجود یہ کہ آپ کی عمر بہت مختصر ہوئی یعنی صرف اٹھائیس بر س مگر اس محدود اور مشکلات سے بھری ہوئی زندگی میں بھی آپ کے علمی فیوض کے دریا نے بڑے بڑے بلند پایہ علمائ کو سیراب ہونے کا موقع دیا نیز زمانے کے فلاسفہ کا جو دہریت اور الحاد کی تبلیغ کر رہے تھے مقابلہ فرمایا جس میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ان میں ایک اسحٰق کندی کاواقعہ یہ ہے کہ یہ شخص قران مجید کے ایات کے باہمی تناقص کے متعلق ایک کتاب لکھ رہاتھا۔ یہ خبر امام حسن عسکری علیہ السّلام کو پہنچی اور آپ موقع کے منتظر ہو گئے۔اتفاق سے ایک روز ابو اسحٰق کے کچھ شاگرد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں کوئی اتنا سمجھدارادمی نہیں جو اپنے استاد کندی کو ا س فضول مشغلے سے روکے جو انھوں نے قران کے بارے میں شروع کر رکھا ہے , ان طلاّب نے کہا , حضور ! ہم تو ان کے شاگرد ہیں , ہم بھلا ان پر کیا اعتراض کرسکتے ہیں؟
حضرت علیہ السّلام نے فرمایا ! اتنا تو تم کرسکتے ہو جو کچھ باتیں میں تمھیں بتاؤں وہ تم ان کے سامنے پیش کردو , طلاب نے کہا !جی ہاں ہم اتنا کرسکتے ہیں۔
حضرت نے کچھ ایتیں قران کی جن کے متعلق باہمی اختلاف کا تو ہم ّ ہورہا تھا پیش فرما کر ان سے کہا کہ تم اپنے استاد سے اتنا پوچھو کہ کیا ان الفاظ کے بس یہی معنی ہیں جن کے لحاظ سے وہ تنا قص ثابت کر رہے ہیں اور اگر کلام ُ عرب کے شواہد سے دوسرے متعارف معنٰی کل ائیں جن کے بنا پر الفاظ قران میں باہم کوئی اختلافات نہ رہے تو پھر انھیں کیا حق ہے کہ وہ اپنے ذہنی خود ساخة معنی کو متکلم قرآنی کی طرف منسوب کرکے تناقص واختلاف کی عمارت کھڑی کریں , اس ذیل میں آپ نے کچھ شواہد کلامِ عرب کے بھی ان طلاّب کے ذہن نشین کرائے۔ ذہین طلاّ ب نے وہ پوری بحث اور شواہد کے حوالے محفوظ کرلیے اور اپنے استاد کے پاس جا کر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد یہ سوالات پیش کر دیے۔آدمی بہرحال وہ منصف مزاج تھا اس نے طلاّ ب کی زبانی وہ سب کچھ سنا اور کہا کہ یہ باتیں تمہاری قابلیت سے بالا تر ہیں۔ سچ سچ بتانا کہ یہ تمھیں معلوم کہاں سے ہوئیں پہلے تو ان طالب علموں نے چھپانا چاہا اور کہا کہ یہ چیزیں خو د ہمارے ذہن میں ائی ہیں مگر جب اس نے سختی کے ساتھ انکار کیا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا تو انھوں نے بتایا کہ ہمیں ابو محمد, حسن عسکری علیہ السّلام نے یہ باتیں بتائی ہیں یہ سن کر اس نے کہا کہ سوائے اس گھرانے کے اور کہیں سے یہ معلومات حاصل ہی نہیں ہوسکتے تھے۔پھر اس نے اگ منگوائی اور جو کچھ لکھا تھا ,نذر اتش کردیاکر دیا ایسے کتنے ہی علمی اور دینی خدمات تھے جو خاموشی کے ساتھ انجام پارہے تھے اور حکومت وقت جو محافظت اسلام کی دعویدار تھی۔ اپنے عیش وطرب کے نشے میں مدہوش تھی یا پھر چونکتی تھی بھی تو ایسے مخلص حامی اسلام کی طرف سے اپنی سلطنت کے لیے خطرہ محسوس کرکے ان پر کچھ پابندیاں بڑھادیے جانے کے احکام نافذ کرتی تھی , مگر اس کو هِ گراں کے صبرو استقال میںفرق نہ ایا تھا۔
جو امع حدیث میں محدثین اسلام نے آپ کی سند سے احادیث نقل کیے ہیں ان میں سے ایک خاص حدیث شراب خواری کے متعلق ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ شارب الخمر کعابد الصنم«» شراب پینے والا مثل بت پرست کے ہے۔
اس کو ابن الجوزی نے اپنی کتاب تحریم الخمر میںسند ُ متصل کے ساتھ درج کیا ہے اور ابو نعیم فضل بن وکیل نے کہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ثابت ہے جس کی اہلبیت علیہ السّلام طاہرین نے روایت کی ہے اور صحابہ میں سے ایک گروہ نے بھی اس کی رسول خدا سے روایت کی ہے جیسے ابن عباس , ابو ہریرہ , احسان بن ثابت , سلمی اور دوسرے حضرات۔
سطر 102:
==شہادت==
{{اطلاع|ترتیب کی ضرورت}}
اتنے علمی و دینی مشاغل میں مصروف انسان کو کہیں سلطنت وقت کے ساتھ مزاحمت کا کوئی خیال پیدا ہوسکتاہو سکتا ہے مگر ان کا بڑھتا ہو روحانی اقتدار اور علمی مرجعیت ہی تو ہمیشہ ان حضرات کو سلاطین کے لیے ناقابل ُبرداشت ثابت کرتی رہی۔ وہی اب بھی ہوااور معتمد عباسی کے بھجوائے ہوئے زہر سے 8 ربیع الاوّل 260ھ میں آپ نے شہادت پائی اور اپنے والد بزرگوار کی قبر کے پاس سامرے میں دفن ہوئے جہاں حسن عسکری کا روضہ باوجود نامواف ق ماحول کے مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔
 
== حوالہ جات ==