"افراط زر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ربط+ترتیب+صفائی (9.7)
درستی املا
سطر 1:
'''افراط زر''' (Inflation) [[زری معاشیات]] کی اہم اصطلاح ہے۔ تعریف کے مطابق کسی معیشت میں موجود اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح کو افراط زر کہتے ہیں۔ افراط زر میں مسلسل اضافہ کا رجحان مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ تاہم ہر معیشت میں کم و بیش افراط زر کی موجودگی قدرتی امر ہے ۔ یہ اوسطاً 5 سے 6 فیصد سالانہ رہتا ہے۔ تاہم دیوالیہ معیشتوں میں افراط زر ہزار فیصد سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔ اس کو معقول حدود میں رکھنا [[مرکزی بینک]] کا بنیادی وظیفہ ہے۔<br/>
افراط زر کی بنیادی وجہ حکومت کا اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ نوٹ چھاپنا ہے۔
 
سطر 25:
متفق ہونا پڑا کہ مرکزی بینک کی شرح کٹوتی سود کو تنظیم زر کا متروک یا غیر مستعمل آلہ سمجھنا چاہیے۔
کینز Keynes کے پیش کردہ نظریہ ترجیح سیال کا گرم با زاری کا پہلو برطانیہ میں 47۔ 1945 میں پایا ثبوت کو پہنچا۔ 1945 میں انگلینڈ کے مرکزی بینک کی مروجہ شرح 3 فیصد تھی، اس کو گھٹا کر ڈھائی فیصد کردیاکر دیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا اور دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا، اس لیے ہر چیز کی کمی تھی اور سرمایا کاری کا زرین موقع تھا، کینز Keynes کے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’اختتامی کارکردگی اصل‘ Marginal Efficiency of Capital بڑھ گئی تھی۔ سرمایا کار اپنا سرمایا لگانے کو تیار بیٹھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اختتامی کارکردگی میں اضافہ کے باعث زیادہ شرح سودپر سرمایادار قرض لینے پر بھی مائل تھے۔ ان کے پاس سرکاری کفالتیں بھی تھیں، اگر انگلینڈ کا مرکزی بینک شرح کٹوتی میں اضافہ کردیتا تو سرمایاکار نقصان کے خوف سے کفالتیں نہیں بھناتے اور نہ تجارتی بینکوں کے پاس قرض کی خاطر جاتے۔ لیکن بینک آف انگلینڈ نے شرح سود گھٹا کر ڈھائی فیصد کردی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن اشخاص کے پاس سرکاری کفالتیں تھیں، انہوں نے یا تو وہ فروخت کردیں یا تو ان کو بھنالیا۔ کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کفالتوں کے پیسے سے کوئی کارو بار کریں، کیوں کہ گرم بازاری کا دور تھا اور اختتامی کارکردگی بڑھی ہوئی تھی۔ اس طرح بینک آف انگلینڈ کو ایک سال سے کچھ زیادہ مدت میں 90 کروڑ پونڈ اسٹرلنگ بازار زر میں لانے پڑے۔ لیکن بازارکے جذبات نہیں سرد ہوئے اور آخر کار بینک آف انگلنیڈ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ بینک آف انگلینڈ کی شرح سود پھر 3 فیصد بلکہ اس سے زیادہ ہوگئی۔ یہ ایک طرف بینک آف انگلینڈ کی حکمت عملی کی ناکامی تھی، دوسری طرف کینز Keynes کے نظریہ ترجیح سیال کی کامیابی کا ثبوت تھا۔
 
آر ایس سیرز R S sayers اپنی کتاب جدید بینکاری Modern Banking میں لکھتا ہے کہ 47۔ 1945 میں یہ بات نہیں تھی کہ حکام شرح سود گھٹانے میں عجلت کر رہے تھے۔ جو کے ان حالات میں گھٹنے والی تھی اور یہ احساس کہ سرکاری پالیسی معاشیات کے وقتی تقاضوں کے منافی تھی، افراط زر کے ظہور کا باعث ہوا، جس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا یا اس کوشش میں سارا مالیاتی نظام Monetary System بدنام ہوکررہ گیا۔
سطر 43:
پروفیسر ہن سن Hansen Pro جیک وائیر Jacob Viner کے ایک مضمون ’کیا ہم افراط زر کو روک سکتے ہیں Can we chech inflation ’جو پیل یونیور سٹی‘ کے پیل ریویو میں شائع ہوا تھا لکھتا ہے کہ اپنی دستوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسا طریقہ کار تلاش کرنا چاہیے، جو صیضہ منتظمہ کو اس بات کا مجاز کرے کہ وہ کانگریس کے تفویض شدہ خصوصی اختیارات کے تحت فوری فیصلے و اقدامات کرسکے۔ اس پروگرام کے دستوری اجزائے ترکیبی پر تفصیلی روشنی ڈالنے کا یہ موقع نہیں ہے، لیکن جن باتوں پر زور دینا چاہتا ہوں۔ ان میں کانگریس کے وضع کردہ اصول کی مطابقت سے صدر کو شرح محصول میں تغیر کرنے کا اختیار تمیزی حاصل ہونا اور وسیع اساس پر بینکوں کے افزائش زر کے اختیار کو منضبط کرنے کے لیے وفاقی محفوظ بینک کے افسروں Federal Reserve Authorities کے اختیارات میں توسیع کرنا ہیں۔ اس نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے پرفیسر ہن سن لکھتا ہے ’جس طرح کانگریس نے (قانونی حدود کے اندر) منتظمہ کو محصول درآمد برآمد کے رد وبدل کا اختیار دیا ہے اور جس طرح کانگریس نے قانون وفاقی محفوظ بینک کے تحت جو مالی افسران کو (مقنہ کی حدود کے اندر) بینکوں کے محفوظ تناسب کو گھٹانے بڑھانے کے اختیارات دیئے ہیں، اسی طرح یہ بہت ضروری ہے کہ کانگریس کی حدود متعینہ کے اندر منتظمہ کو شرح انکم ٹیکس کے رد وبدل کا اختیار دیا جائے‘۔
 
بادی النظر میں ٹیکس کے ذریعے افراط زرکو قابو میں رکھنا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ ٹیکس مالیاتی پالیسی کا اہم جز ہیں اور حکومت ان کی وصولی سے ہی اپنے اخراجات پورے کرتی ہے۔ مگر یہ حقیقت پیش نظررکھنی چاہیے کہ ٹیکس صرف حکومتی اخرجات پورے کرنے کے لیے نہیں لگائے جاتے ہیں۔ بلکہ کسی بھی حکومت کی مالیاتی پالیسی میں دوسرے مقاصد بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ خاص کر کسی معاشرے کی ضروریات اور سیاسی محرکات شامل ہوتے ہیں۔جس میں معاشرے کے کسی خاص طبقے یا کسی خاص علاقے کے علاوہ کسی خاص صنعت یا سرپرستی یا کسی خاص اشیاء پرکنٹرول کے لیے بھی خاص ٹیکس شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح بیرونی تجارت میں برآمد کے لیے خاص چھوٹ دی جاتی ہے کہ برآمد کی حوصلہ افزائی ہو، یا بعض اشیاء کی بیرون ملک برآمد کو رکنے کے لیے ان پر ٹیکس میں اضافہ کردیاکر دیا جاتا ہے کہ ان کی برآمد شکنی ہو اور ملک کے اندر ان کی قلت نہ ہو۔ اس طرح درآمد پر بھی کسی چیز کی قلت کے پیش نظر اس کو چھوٹ دی جاتی ہے۔ گویا حکومت ٹیکسوں کے ذریعے صرف اپنے اخراجات ہی نہیں برداشت کرتی ہے، بلکہ اس کے ذریعے معاشیات کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔
اگرچہ چند ٹیکس جن میں انکم ٹیکس ا ور پراپرٹی ٹیکس شامل ہیں،جو ادائیگی کرنے والے خاص طبقے پر اثر انداز ہوتے ہیں کے علاوہ اکثر ٹیکس ان اشیاء یا صنعتوں پر لگائے جاتے ہیں جن کا اثر معاشرے کے تمام