"انسانی ارتقاء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
صفائی بذریعہ خوب, replaced: ہوجائے ← ہو جائے (2)
درستی املا
سطر 13:
== دوسرا مرحلہ ==
 
اگلا مرحلے میں اس مخلوق کے جسمانی حجم میں اضافہ اس کے تنے پر چمٹ کر چڑھنے کے باعث ہوا۔ جس میں اس کے اگلے پاؤں بطور بازو اور پچھلے پاؤں بطور پاؤں کے استعمال ہوتے تھے۔ اس کے بعد شاخ در شاخ چھولنے لگا تو اس سے اس کی چھاتی چوڑی اور کمر سیدھی ہوگئی ، ٹانگیں بدن کی سیدھ میں آگئیں اور پاؤں کا کندھوں کے ساتھ جوڑ آزاد ہوگیا۔ہو گیا۔ جس کی بدولت بازو دائیں بائیں اور اوپر نیچے آگے ، پیچھے حرکت کرنے کے قابل ہوگیا۔ہو گیا۔ اس عمل سے گزرنے باعث دوسرے چوپایوں کے اگلے پاؤں ایسی حرکت نہیں کرسکتے ہیں۔ حلانکہ گھوڑے کا ظہور چھ کروڑ سال قبل ہوا تھا۔ لیکن ان کا ارتقاء دوسرے رخ پر ہوا۔ قدیم گھوڑے کے پاؤں میں چار کھڑ تھے اور اس کا قد کندھے تک ایک فٹ سے بھی کم تھا۔ اس دانت چھوٹے تھے اور وہ نرم گھاس کھاتا تھا۔ اس سے ترقی کرکے آج کے گھوڑے کی صورت میں سامنے آیا۔ جو سخت گھاس کھا سکتے ہیں۔
 
انسان کے اجداد شاخ در شاخ جھولنے کے مرحلے میں زیادہ نہیں رہے۔جھولنے کی عادت بندروں کے اجداد میں طویل عرصہ تک رہی۔ جس کے باعث ان کی آئندہ نسلوں کے بازوں میں بے جا طوالت پیدا ہوگئی اور ٹانگیں کمزور ہو گئیں۔
سطر 26:
اس کے بعد خفیف نزدیکی زمانہ Oligocene ( تین کروڑ چالیس لاکھ سال سے دو کروڑ پچاس لاکھ سال قبل ) قدیم بندر اور انتہائی قدیم انسان نما مانس وجود میں آئے۔ دو طرفہ مانس کے بعد اس دور میں یعنی لگ بھگ تین کروڑ سال پہلے خفیف مانس OLIGOPITHECUS وجود میں آیا۔ یعنی ایسی مخلوق کس قدر مانس تھی اور زیادہ تر ماقبل مانس یہ پرانی دنیا کا بندر تھا۔ اس کے دانت انسانوں کی طرح 32 تھے اور یوں یہ ماقبل مانس سے ایک قدم آگے تھا۔ خفیف مانس سے براہ راست بندر پیدا ہوا یعنی آج کل کے بندر کا جد امجد۔ خفیف مانس کا قدم تقریباً ایک فٹ اونچا تھا اور چوپایہ تھا اور شاید یہ براہ راست انسانوں کے جدوں میں نہیں آتا ہے اور یہ تین کروڑ سال قبل دنیا میں موجود تھا۔ اس کے مجہرات FOSSILES مصر سے جنوب و مغرب میں ایک جگہ فایوم سے ملے ہیں۔ فایوم سے جو مجہرات ملے ہیں ان میں جھاڑیوں کے وافر مجہرات ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس عہد میں وسیع جنگلات تھے اور جن میں کترنے والے جانور ، کھر دار سبزی خور شیر دار جانور ، سور ، چھوٹے ہاتھی اور شیر دار جانورں بکثرت تھے۔ ان میں بعض مشہور قسموں میں سے ایک شیر دار پیرا پتھے کس PARAPITHECUS کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسے افریقی بندروں کا پیشرو سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح پیرا پتھے کس کی ایک قسم اپیڈیم کے مجہرات بھی ملے ہیں۔ جس سے بعد میں میں آنے والے (زیادہ نزدیکی زمانہPliocene) میں یوپتھے کس جنم لیا۔ جو ایک گبن نما مخلوق تھی۔
 
مصر میں فایوم ہی سے خفیف نزدیکی زمانہ کے جو مجہرات ملے ہیں ان میں کئی قسم کے بن مانس بھی شامل ہیں۔ انہی میں ایک مشہور بن مانس ہے جس کو ماقبل زائد مانس پروپلا یوپتھے کس PIEROLALPITHECUS کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تین کروڑ سال قبل کی مخلوق ہے۔ شروع شروع میں اسے موجودہ گبن کے شجرہ نسب میں رکھا گیا۔ لیکن بعد کی تحقیقات سے اس بات کا امکان پیدا ہوا کہ یہ موجودہ انسان کے شجرہ نسب میں شامل ہوسکتاہو سکتا ہے۔ اس خیال کو اس کے دانتوں کی ساخت سے مزید تقویت ملی ہے۔ اس کی جسمانی ساخت بندروں سے زیادہ مانس سے مشابہ تھی۔ لیکن یہ بات ابھی قیاس آرائی ہے اور اس کو فیصلہ کن طور پر تسلیم کرلینے کے لیے مزید شواہد کی ضرورت ہے۔ یہ جاندار بھی چوپایہ تھا۔
 
== پانچواں مرحلہ ==
سطر 96:
بقائے اصلح کا قانون اس طرح سے عمل کرتا ہے کہ کسی بھی ایک نوع کی جتنی بھی اولادیں ہوئیں وہ کبھی بھی ساری کی ساری پروان نہیں چڑھتی ہیں۔ ان میں سے بے شمار بچے اندرونی کمزوریوں اور بیرونی نامساعد حالات کے دباؤ کے تحت ختم ہوگئے۔ کئی بچے جنین کی حالت میں فناء ہوگئے۔ کئی بچپن ، چھٹپن اور کئی لڑکپن میں۔ البتہ کچھ ضرور ایسے ہوتے ہیں جو جوان اور بالغ ہوئے اور انہوں نے پھر اپنے بچوں کو جنم دیا۔ بلوغت سے پہلے مرجانے والوں میں کوئی نہ کوئی ایسی اندرونی کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں کہ وہ خارجی مشکلات کے زور سے تلف ہوگئے اور ان مشکلات سے جنگ کرتے ہوئے اپنے آپ کو حالات کے تقاضوں کے تحت ڈھالتے ہوئے زندہ بچ نکلنے والوں میں ضرور کچھ اندرونی خصوصیات تھیں جنہوں نے ان میں مقابلے کی بہترین صلاحیت پیدا کی۔ حالانکہ راہ میں مر جانے والوں اور بچ نکلنے والوں کی نوع ایک ہی تھی۔ بعض افراد کے والدین مشترک ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان باقی گروہوں میں کوئی نہ کوئی امتیازی صفات تھیں۔ جو ایک کی تباہی اور دوسرے کی بقاء کا باعث بنیں۔ یہی صفات بقائے اصلح کی بنیاد ہیں۔ ان صفات میں ضروری خصوصیت ضروری یہ بھی تھی کہ یہ وراثتاً قابل انتقال تھیں۔ یہ صرف محض اتفاق نہیں تھیں۔
 
یوں درجہ بہ درجہ ایک نوع مقداری تبدیلی سے ہمکنار ہوتی رہی اور زبردست جدوجہد نے اسے انقلابی تبدیلی سے ہمکنار کردیا۔کر دیا۔
 
پرانی مخلوق کے معدوم ہوجانے کا ایک طریقہ تو یہی ہے تھا کہ جب حالات بدل گئے اور وہ اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق نہ ڈھال سکیں تو فنا ہوگئیں۔
 
ایک طریقہ تعدیم کا یہ رہا کہ ایک مخلوق کی اولادیں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اپنے کو تبدیل کرتی رہیں اور بچ نکلیں۔ جب کہ ان کے بے شمار ہم نسل راہ ہی میں فنا ہوگئے۔ بچ نکلنے والوں کی اندرونی صفات کے علاوہ خارجی اعضاء میں بھی اتنا فرق پیدا ہوگیاہو گیا کہ وہ اپنے اجداد کے مماثل نہ رہیں۔ ایک وقت وہ آگیا کہ پوری نئی نسل اپنے اجداد کی پوری نسل سے ممتاز نظر آنے لگی۔ یوں ایک نسل معدوم ہوگئی اور اس کی جگہ ایک اور نسل نے لے لی۔ گو کہ ان ہی کہ جنم دی ہوئی تھی۔
 
ایک طریقہ تعدیم کا یہ رہا کہ کوئی اور طاقت ور مخلوق کسی دوسری مخلوق کا قتل عام شروع کر دیتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہوسکتاہو سکتا ہے کہ یہ دونوں نسلیں تقریباً ایک درجہ حیات کی مخلوقات ہوں ، ان کے رہن سہن کے گیاہستان ، جنگلات اور میدان وغیرہ قریب قریب ہوں یا مشترک ہوں۔ ان میں خوراک کی قلت ہوئی ہو اور یوں مخاصمت اور پھر بقاء کی جنگ شروع ہوئی ہو۔ جس کا طریقہ یہ رہا ہوگا کہ طاقتور مخلوق کے افراد نے کمزور مخالفین کو جہاں دیکھا ، حملہ کیا اور مار دیا۔ اس طرح ہزاروں بلکہ لاکھوں برس میں ایک ہی مخلوق معدوم ہوئی ہوگی۔ یہ طریقہ تاریخ میں رہا تو ہے مگر بہت کم۔ زیادہ تر پہلے طریقوں سے ہی نسلیں معدوم ہوئی ہیں۔ بہر حال ماہرین کا خیال ہے کہ نازک اندام جنوبی مانس کو ہزاروں گرانڈیل جنوبی مانسوں نے چن چن کر مارا یا ختم کیا ہے۔
 
== گمشدہ کڑی ==
سطر 108:
اگر انسان قدیم مانس سے ترقی پا کر بنا ہے تو پھر مانس اور انسان کے درمیان رابطہ کی کڑی کون سی ہے۔۔ وہ کون سی مخلوق تھی جو آدھی مانس آدھی انسان تھی۔ یہ سوال ماہرین کے درمیان خود ساختہ مفروضہ کے طور پر نکلا ہے ۔ گویا کوئی ایسی رابطہ کی کڑی ہونا ضروری تھی۔ جہاں آدھا مانس اور آدھا انسان یک جا ہو۔ لیکن دریافت شدہ مجہرات میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو ان شرائط کو پورا کرتا ہو۔ لہذا اسے ’ گمشدہ کڑی ‘ کا نام دیاگیا اور کئی ماہرین اس گم شدہ کڑی ڈھوندنے نکلے۔ ان میں ایک جرمن ماہر حیاتیات ارنسٹ ہیکل نے اس کو ایک سائنسی نام پتھے کن تھروپس Pithecanthripus کا نام دیا۔ جس کا مطلب ہے مانس انسان Ape Man۔ [[ہیکل]] کا خیال تھا اس مخلوق کی ہڈیاں جنوبی ایشیاء میں مل سکتی ہیں۔
 
[[ہالینڈ]] کا ماہر [[حیاتیات]] ڈُوبوا 1858ء تا 1940ء جس نے [[ایمسٹرڈیم یونیورسٹی]] سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی تھی اور وہیں حیاتیات کا لیکچرار ہوگیا۔ہو گیا۔ ہیکل کے اس خیال سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے مانس انسان کی ہڈیاں دھونڈنے کا تہیہ کر لیا۔ سب سے پہلے اس نے ملازمت ترک کی اور ڈچ آرمی میں بطور سرجن ملازمت اختیار کی اور اپنی تعیناتی ڈچ آرمی کے ان یونٹوں میں کروائی جو جاوا میں مقیم تھیں۔ جاوا میں اس نے مختلف علاقوں میں کھدائیاں کروا کر اس کی تلاش و جستجو شروع کی۔ بعض ماہرین نے اس کی اس کوشش کا مزاق بھی اڑایا کہ وہ چیز کہاں ملے گی جو ہی نہیں ، ملے گی کہاں سے؟ لیکن وارفتگان جستجو نے آخر دھونڈ ہی لیا۔ ڈوبوا کو [[سماٹرا]] میں تری نیل گاؤں کے قریب کھدائیوں میں مانس انسان کی پتھرائی ہوئی ہڈیاں ملیں۔ ان میں سے ایک ران کی ہڈی ، ایک کھوپڑی کا بالائی حصہ ، کئی دانت اور ان کی ہڈیوں کے کئی ٹکرے تھے۔ اس کے مغز کا خانہ نیچا ، پیشانی پیچھے کو ہٹی ہوئی اور بھوؤں کی ہڈی ابھری ہوئی تھی۔ آنکھوں کے رخنوں کے پیچھے کھوپڑی نمایاں طور پر سکڑی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ڈوبوا کو جو ران کی ہڈی ملی وہ لمبی اور سیدھی تھی۔ بالکل موجودہ انسان جیسی۔ گویا یہ جاندار سیدھا چلتا تھا۔ اس کی دماغ کی گنجائش بھی پرانے بن مانسوں سے زیادہ تھی۔ ڈوبوا نے اسے پچاس فیصد انسان اور پچاس فیصد مانس قرار دیا۔
 
متفرق ماہرین کی آراء اور نت نئی دریافتوں اور تحقیقات سے زیادہ معقول نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مانس انسان جس کی ہڈیاں ڈاکٹر ڈوبوا نے ڈھوندی تھیں۔ ہر گز گمشدہ کڑی نہیں تھی۔ نیز یہ بھی جب کسی نوع میں کیفیتی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو وہاں ترقی کی اتنی بڑی چھلانگ لگتی ہے کہ اسے ارتقاء کے ضمن میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ وہ انقلاب ہوتا ہے ، کایا پلٹ ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر کوئی گمشدہ کڑی نہیں ہوتی ہے۔ یعنی کوئی گمشدہ کڑی ہونا لازمی نہیں ہوتی ہے۔ لہذا اس مفروضہ کو بنیاد نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ اگر کل کو دریافت ہو جائے اور سارے شواہد اس کا ساتھ دین تو تسلیم ہو جائے گی۔ قبل از وقت فرض کرنا غیر ضروری ہے۔
سطر 114:
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیر انسانی مانس سے لے کر جدید انسان تک کم از کم دو یا اس بھی زیادہ انقلابی مراحل آسکتے ہیں ، جن کے ذریعہ ارتقائی تسلسل نئی کیفیتی تبدیلیوں سے ہم کنار ہوا ہے۔ پہلا تو اس وقت جب ہم رام مانس ( جس کو پوٹھوہار مانس بھی کہاگیا ہے ) وجود میں آیا۔ یہ ایک انقلاب تھا ، ایک ایسی مخلوق وجود میں آگئی تھی جو انسان بننے جارہی تھی اور اس میں بعض ایسی خصوصیات ختم ہوگئیں جو اس کی آئندہ نسلوں کو جانوروںکو جنم دیں گی۔ کچھ ایسی خصوصیات پیدا ہوگئیں جو اس کے سلسلے کو موجودہ انسان تک لے کر آنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔
 
دوسری کیفیتی تبدیلی اس وقت وجود میں آئی جب کھڑا آدمی Homo Erectus وجود میں آیا۔ یہ ایک ایسا جاندار تھا جو مکمل طور پر دو پایہ تھا اور مکمل طور مل جل کر رہتا تھا۔ آگ کا استعمال جانتا تھا اور اوزار بناسکتا تھا۔ اس کے انسان ہونے میں شبہ نہیں ہوسکتاہو سکتا ہے۔ بعض ماہریں نے تو اس کے ناطق ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ یہ یقناً پوٹھوہار مانس اور جنوبی مانس کیفیتی اور معیاری طور پر ممتاز نسل ہے۔ کیوں کے دونوں اول الذکر دونوں مانس تھے۔ گو کہ انسانی سلسلہ نسل کے ، لیکن یہ خود انسان تھا۔
 
پہلی کیفیتی تبدیلی کا تعلق تشریح الاعضاء Anatomy سے سمجھنا چاہیے۔ جس میں پوٹھوہار مانس کی اناٹومی میں انقلاب برپا ہوا۔ دوسری کیفیتی تبدیلی کا تعلق دماغ کے حجم اور اس کی اندورنی اور بیرونی ہیئت میں انقلاب سے سمجھنا چاہیے۔ جسم انسانی کا سارا کنٹرول دماغ میں ہے۔ خیالات ، جذبات ، تصورات اور توانائیاںسب کا مرکز دماغ ہے۔ اسی نے انسان کو دیگر انواع حیات پر شرفیت دی ہے۔ لہذا دماغ میں انقلاب زبردست تبدیلی کی حیثیت رکھتا ہے اور دماغ کی بے پناہ ترقی کو ارتقائی زمرے میں رکھنا مناسب ہوگا۔ اب یہ ہے دماغ کے اندر وہ خلیے اور خانے تو تھے ہی جو نطق کو ایجاد کرسکتے تھے۔ اس لیے نطق کو ایجاد انقلابی مرحلہ نہ ہوگی بلکہ ارتقائی مرحلہ ہوگی۔ کیوں کہ خفتہ صلاحیت کا بیدار ہونا انقلاب نہیں ، اس کا پیدا ہونا انقلاب ہے۔ <ref>یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور</ref>