"سرمایہ کاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏top: صفائی بذریعہ خوب, replaced: ہوجائے ← ہو جائے (2)
←‏top: درستی املا
سطر 23:
* پہلے سال میں شرح ترقی مشینری میں اضافہ 20 کو شروع سال کی سرمایاکاری 500 پر تقسیم کرکے حاصل ہوگی یعنی 500 / 20 جو 4 فیصد کے برابرہے۔
دوسرے سال میں سرمایاکاری ’K‘ 500 جمع 20 ہو جائے گی۔ قومی آمدنی ’Y‘ 100 جمع 4 کے حساب سے ترقی 104 ہو جائے گی۔ مزدوری ’W‘ 104 کی 60 فیصد کے حساب سے62,4 کے برابر ہوگی۔ نفع ’P‘ 104 کا 40 فیصدی کے حساب سے 41,6 کے برابر ہو گا۔ اخراجات ضروریات ’C‘ 104 کا 80 فیصد یعنی 83,2کے برابر ہوگی۔ بچت ’S‘ یا سرمایا کاری I 104 کا 20 فیصد یعنی 20,2 ہوں گے۔ دوسرے سال میں شرح ترقی سرمایاکاری میں اضافہ 20,8 کو دوسرے سال میں شروع کی سرمایاکاری 520 پر تقسیم کرکے حاصل ہوگی یعنی 520 / 20,8 جو چار فیصد کے برابر ہے۔ ملک کی معشت 4 فیصد سالانہ سے ترقی کرتی رہے گی، اگر اوسط مزدوری 1 رکھی جائے۔
* اب فرض کریں ایک سال میں مزدوروں کی اوسط 1,1 تک بڑھا دی جاتی ہے اور اس سال میں مجموعی سرمایاکاری ’K‘ 550 ہے۔ قومی آمدنی ’Y‘ 100 ہے، مجموعی مزدوری ’W‘ 10 فیصد بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اوسط مزدوری اس سال 1,1 ہو گئی ہے، اس لیے یہ ا ب 66 ہوجاتی ہے۔ مجموعی نفع ’P‘ قومی آمدنی 100 اور مجموعی مزدوری کا اوسط کا فرق یعنی 34 ہے۔ اب یہ بھی فرض کریں کہ سرمایاکاروں Entrepreneurs اخرجات صرف رجحا ن2 / 1 ہے۔ یعنی جب ان کی آمدنی میں 6 کی کمی ہوجاتی ہے تو ان کی ضروریات میں 3 کی تخفیف ہوجاتی ہے۔ لیکن مزدورں کی آمدنی میں 6 کا اضافہ ہوگیاہےہو گیاہے اور انہوں نے وہ سب آمدنی خرچ کردی کیوں، کہ ہم فرض کرچکے ہیں کہ مزدور طبقہ بچت نہیں کرتا ہے، اس لیے اخراجات میں ضروریات میں اضافہ صرف 6 تفریق 3 یعنی 3 ہے۔ اس لیے مجموعی اخراجا ت صرف ’� C‘ 83 ہے۔ ہم نے فرض کیا ہے کہ تمام بچت سرمایا کار طبقہ class Entrepreneurs کرتا ہے۔ ان کی مجموعی آمدنی ’P‘ میں 6 کی تخفیف ہوگئی ہے اور انہوں نے اپنے اخراجات ضروریات میں 3 کی کمی کردی ہے، جیسا کہ ہم نے بتایا ہے۔ اس لیے وہ اپنی بچت میں بھی 3 کمی کردیں گے تاکہ وہ اپنی آمدنی کی 6 تخفیف پورا کرسکیں۔ اس لیے بچت ’S‘ یا سرمایاکاری ’I‘ 20 تفریق 3 یعنی 17 ہوگا۔ پہلے سال کی ترقی، سرمایاکاری میں اضافہ 17 کو سال کی سرمایاکاری 550 پر تقسیم کرکے حاصل ہوگی، یعنی 500 / 17 جو تین فیصدی کے برابر ہے۔
اس طرح ملک کی معیشت میں 3 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کرتی رہے گی۔ اگر اوسط مزدوری 1,1 رکھی جائے۔
* فرض کریں کسی سال مزدوری گھٹ کر 0,9 فیصد رہ جاتی ہے اور اس سال مجموعی سرمایاکاری ’K‘ 450 ہے۔ قومی آمدنی ’Y‘ 100، مجموعی مزدوری ’W‘ 10 فیصد کم ہونے کی وجہ سے 54 ہے تو مجموعی نفع ’P‘ مجموعی قومی آمدنی 100 اور مجموعی آمدنی 54 کا فرق یعنی 46 ہوگا۔ پہلے یہ فرض کرلیاگیا ہے کہ سرمایاکار طبقہ کا رجحان صرف 2 / 1 ہے۔ اس لیے جب ان کی آمدنی میں 6 فیصد کا اضافہ ہوتا ہے توان کے اخراجات صرف میں بھی 3 فیصدکا اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن مزدوروں کی آمدنی میں 6فیصد کی تخفیف ہوگئی ہے اور وہ اپنی تمام آمدنی خرچ کرڈالتے ہیں، اس لیے اخراجات ضروریات 80 جمع 3 منفی 6 = 77 ہو گا۔ سرمایاکار طبقہ اپنی اضافہ آمدنی کا نصف حصہ یعنی 3 فیصد اپنے اخراجات صرف میں لے آیا ہے۔ اس لیے باقی ماندہ 3 فیصد کو وہ بچت ’S‘ یا سرمایا کاری ’I‘ پر لگائیں گے، اس لیے بچت ’S‘ یا سرمایاکاری ’I‘ 20 فیصدجمع 23 فیصد کے برابر ہوگی، پہلے سال کی شرح ترقی سرمایا کاری میں اضافہ 23 کو شروع سال کی سرمایا کاری 450 پر تقسیم کرکے حاصل ہوگی یعنی 450 / 23 جو 5 فیصد کے برابر ہے۔
سطر 39:
* ماہرین معاشیات نے ریاضیاتی زائچہ کے ذریعے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچادی ہے کہ تعمیر عامہ یا سرمایا کاری کے ابتدائی اضافہ شدہ بڑھتی ہوئی قومی آمدنی کی وجہ سے طلب اشیائے ضروریات میں 10 فیصدی کو قائم رکھنے کے لیے مجموعی ثانوی سرمایا کاری میں 100 فیصدی اضافہ کرنا ضروری ہے۔ اس لیے وہ کہ نجی سرمایا کاروں کے مقابلہ خود بخود سرمایا کاری کے عمل یعنی حکومت کے وسیلہ سے سرمایاکاری کی حمایت کرتے ہیں۔ کیوں کہ نجی ادارے نفع کے چکر میں پڑ کر ثانوی سرمایاکاری میں یکساں شرح کو برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک حکومت کی ابتدائی سرمایا کاری کا تعلق ہے کینز Keynes اس کے لیے رفع عامہ کے شعبے میں سرمایاکاری کی سفارش کرتا ہے۔
* کینز Keynes کا کہنا ہے کہ کساد بازاری کے زمانے میں جب حکومت سرمایا کاری پر روپیہ لگاتی ہے تو وہ مزدور جنہیں روزگارEmplyment ملتا ہے اپنی آمدنی سے اشیائے ضرورت پر خرچ کرتے ہیں، اس لیے اشیائے ضروریات کی طلب بڑھتی ہے۔ تاجر کارخانوں کو آڈر دیتے ہیں۔ کارخانہ دار اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنی مجموعی پیدا وار میں اضافہ کردیتے ہیں۔ اس مقصد کی خا طر وہ زیادہ مزدور لگادیتے ہیں اور زیادہ مشینری کا آڈر دیتے ہیں۔ مشینیں تیار کرنے والے کارخانے بھی زیادہ مشینیں بنانے لگتے ہیں۔ جس کے لیے انہیں زیادہ مزدور لگانے پڑتے ہیں اس طرح روزگار میں ہر طرف اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور نتیجتأئ قومی آمدنی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ کینز Keynes اس حاصل ضرب کو جو قومی آمدنی کے تغیر اور ابتدائی خرچ کے تغیر کا تناسب ہے (یہاں مراد اس خرچ سے ہے جو حکومت کی سرمایاکاری کے متعلق ہے) مضروب فیہ Multiplier کہتا ہے۔ اس تناسب کی دائمی بقا یعنی قومی آمدنی یا سطح روزگار کے استقلال کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس بچت کو جو اضافہ شدہ آمدنی سے حاصل ہو دوبارہ سرمایاکاری پر لگایا جائے یا دوسرے الفاظ میں ابتدائی خرچ جو سرمایا کاری پر خرچ ہوا ہو کی وجہ سے طلب اشیائے ضروریات میں جو بیشی ہوئی اس کو برقرار رکھنے کے لیے ثانوی سرمایا کاری ضروری ہے۔
* بے روز گاری جو قدیم مکتب کا لازمی نقص ہے اس کو دور کرنے کے لیے ریاست کی مداخلت ضروری ہے کہ وہ سرمایا کاری یعنی تعمیرات عامہ کے پروگراموں کو اختیار کریں۔ اس مکتبہ خیال کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب کوئی فرد نفع و نقصان کی تحریک سے محرک ہو کر قوم کی اقتصادی سعی میں حصہ لیتا ہے تب فرد کا فائدہ قوم سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے اور یہ کہ ان دونوں میں قدرتی ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ آدم اسمتھ Adem Smith نے اس کو قدرتی حرکت کہا ہے۔ لیکن کینز Keynes نے اس کو غلط ثابت کردیاہے۔کر دیاہے۔ اس کا کہنا ہے جب کوئی شخص بچت کرتا ہے تو یہ بچت اس کی اپنی ذات کے مفید ہو سکتی ہے، لیکن جب تمام معاشر ہ ضروریات اور سرمایا کاری کی مدوں سے بچانا شروع کردے تو قومی آمدنی اور نتیجیتأئ جیسا کہ کینز Keynes نے مساوات آمدنی کے ذریعے ظاہر کیا ہے کہ مجموعی قومی بچت گرجاتی ہے۔
* قدیم معاشیات دانوں کا یہ خیال تھا کہ تعمیرات عامہ مثلأئ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر تجارتی اشیاء کی قیمت میں تخفیف کا باعث ہوتی ہے۔ کیوں کہ کرایا بار برداری کم ہو جاتا ہے۔ اس طرح غریب سے غریب اشخاص بھی یہ چیزیں حاصل کرسکتے ہیں اور اس طرح ان کا معیار زندگی بہتر ہوجا تا ہے۔ لیکن کینزKeynes نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس علاوہ یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ سرمایا کاری قومی دولت میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے اور ملک میں مکمل روزگار کے مواقع پیدا کر دیتی ہے۔
* پروفیسر ہن سن Pro Hansen اپنی کتاب ’مالی نظریہ اور مالیاتی پالیسی‘ Monetary Theory and Fiscal Policy میں لکھتا ہے کہ ”ان لوگوں نے جو عوامی قرضے کی مسلسل تخفیف کے بارے میں
نہایت چرب زبانی سے گفتگو کرتے ہیں۔ مقدار زر سے تعلق کی حکمت عملی کی پیچیدگیوں پر غور کئے بغیر حقائق کو نظر انداز کردیاکر دیا ہے۔ ایک پھولتی ہوئی مشیت کے لیے کثیر زر کی ضرورت ہوتی ہے۔ تجارت کے مروجہ مالی رواج بہ شمول رائج شدہ مالی و بینکاری اداروں کے مد نظر جیسا تجربہ بناتا ہے۔ اب ہم اس مسئلہ کے فیصلہ کن مراحل پر پہنچ گئے ہیں، جب آپ زیادہ قومی آمدنی اور کامل روزگار کے خیال سے اپنی معیشت کی ترقی کے خواہاں ہوتے ہیں، تب آپ کو رسد زر یا مقدار زر میں اضافہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
* ایک وقت میں معاشرے کے اخراجات اور ضروریات تقریبأ بندھے ہوتے ہیں۔ اس لیے جو کچھ بچت یا ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے وہ سرمایا کاری کی مدمیں ہوتی ہے۔ اس بچت کو سرمایا کاری میں لگانے کے لیے (اور اگر روزگار Emplyment کامل کے مقاصد کے لیے سرمایاکاری بڑھانے کی ضرورت بھی ہو تو اس کے لیے بھی) کینز Keynesسرکاری سرمایا کاری تعمیر عامہ میں کرنے کی سفارش کرتا ہے۔
کم ترقی یافتہ ملکوں میں سرمایا کاری، نفس کشی اور رضاء کارانہ بچت کے اقدامات زیادہ نہیں ہوتے ہیں اور چوں کہ سماجی پیداوار اضافے کے لیے حکومتی سرمایا کاری ضروری ہے۔ اس کے لیے ترقی کی رفتاربڑھانے کے لیے حکومت خسارے کی سرمایا کاری کرتی ہے۔ یہ اقدام طلبی دباؤ اور رسدی سکراؤ دونوں ہی افراد زر کا باعث بنتے ہیں۔ کیوں کہ اس کے حصول کے لیے زرکی اضافی شرحوں پر اندرونی قرضوں اوربھاری پر بیرونی قرضہ جات سے پورے کئے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں افراط زر ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ قومی قرض میں غیر ملکوں کو واجب الادا رقوم زیادہ پریشان کن حالات کی حامل ہوتی ہیں۔ کیوں کہ اس پر سود کی ادائیگی زرمبادلہ میں ادا کرنی پڑتی ہے اور بیرونی کرنسیوں کی قدر کاانحصار کھلی منڈی پر ہو تا ہے۔