"راج کپور" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا
درستی املا
سطر 1:
{{خانہ معلومات شخصیت}}
 
ہندوستان کے نامور اداکار اور ہدایت کار ۔ پشاور میں پیدا ہوئے۔فلموں میں ’کلیپ بوائے‘ کے طور پر اپنی فنی زندگی کا آغاز کرنے والے '''راج کپور''' نے نہ صرف اپنے والد [[پرتھوی راج کپور]] کی فنی وراثت کے دباؤ میں اپنا تخلیقی سفر طے کیا بلکہ اس میں اپنے لیے ایک مقام کی تراش خراش بھی کر ڈالی۔ شروع ہی سے بغیر کسی تعصب اور بغض کے مقبول عام انداز کو اختیار کرکے وہ چار دہائیوں تک فلم کے افق پر اداکار اور ہدایت کار کے طور پر راج کرتے رہے۔
 
بھارت کے علاوہ روس اور مشرق وسطیٰ تک دیکھے جانے والا یہ فنکار گو میٹرک کے امتحان میں فیل ہوگیاہو گیا تھا لیکن آج ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں سینیما پر موضوع تحقیق کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔
 
== فنی سفر کا آغاز ==
راج کپور نے اپنے فنی سفر کا آغاز ہدایت کار کیدار شرما کے اسسٹنٹ کے طور پر کیا اور پھر سن انیس سو انتالیس میں بننے والی انہی کی فلم ’نیل کنول‘ میں ہیرو کے طور متعارف ہوئے۔ اس فلم میں ان کے مدمقابل مدھوبالا پہلی دفعہ ہیروئن کے طور پر آئیں۔
 
 
== ہدایت کاری ==
راج کپور نے پہلی دفعہ اپنی فلم ’آگ‘ کی ہدایات دیں جو انیس سو اڑتالیس میں بنائی گئی۔ ایک سال بعد بننے والی ان کی اگلی فلم ’برسات‘ بہت مقبول ہوئی جس میں انہوں نے نرگس کے ساتھ کام کیا۔ اس کے بعد تو جیسے کامیابی کے دروازے ان پر کھلتے ہی چلے گئے اور ان کی ایک مخصوص ٹیم بنتی چلی گئی۔
 
کہانی اور مکالمہ نگار خواجہ احمد عباس، موسیقار [[شنکر جے کشن]]، گیت نگار حسرت جئے پوری اور شیلندرا اور گلوکار مکیش اور [[لتا منگیشکر]] کے بغیر ان کی فلمیں مکمل نہیں ہوتی تھیں لیکن ان تمام فلموں میں راج کپور کے علاوہ بنیادی ترین کردار نرگس کا تھا جسے وہ اپنی فلموں کی ’ماں‘ کا درجہ دیتے تھے۔
 
 
== برسات ==
سطر 37 ⟵ 35:
میں چھ سال تک بننے والی اپنی پسندیدہ فلم ’میرا نام جوکر‘ کے فلاپ ہونے پر بہت دلبرداشتہ رہے لیکن انہوں نے اس تکلیف دہ ناکامی کی راکھ سے اٹھ کر پھرکامیاب فلمیں بنانا سیکھا۔
 
انہوں نے میرا نام ہے جوکر کے بعد مقبول اداکارہ ڈمپل کپاڈیا کو اپنی فلم ’بوبی‘ میں متعارف کرایا جس کے بعد زینت امان کی ’ستیم، شوم، سندرم‘ اور دیویا رانا کی’رام تیری گنگا میلی ہوگئی` جیسی فلمیں بنائیں۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان فلموں کی ہیروئنیں حالات کی شکار عورتوں کے کردار میں آئیں لیکن ان فلموں پر ہیروئنوں کے بدن کی نمائش کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔
 
’حنا‘ راج کپور کی آخری فلم تھی لیکن اِس کا ذمہ وہ اپنے بڑے بیٹے رندھیر کپور کو سونپ چکے تھے- ویسے بھی زیبا بختیار کے ساتھ بنائی گئی آر کے پروڈکشنس کی اِس فلم سے اُمید کم ہی تھی لیکن یہ فلم بھی کافی چلی۔
سطر 43 ⟵ 41:
== صدمے ==
 
راج کپور جی پر دو بڑے صدمے گزرے لیکن وہ اپنی طبعی خوش دلی اور ’میرا نام جوکر‘ جیسے انداز سے انہیں سہار کر آگے بڑھ گئے۔ ان میں سے پہلا صدمہ تھا جب نرگس اپنی گھریلو زندگی کو فلم کی دنیا پر فوقیت دیتے ہوئے گھر کی ہوگئیں۔ اور دوسرا ان کی چھ سالوں میں مکمل ہونے والی فلم ’میرا نام جوکر‘ کا بری طرح فلاپ ہونا تھا۔
 
کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی تھی۔ فلم کا مرکزی کردار ایک مسخرہ ہے جو دنیا کو اپنے آنسو چھپا کر ہنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ فنکار کے فن میں اس کی زندگی کے در آنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لوگ ڈائری لکھتے ہیں میں فلمیں بناتا ہوں۔ میری زندگی ان فلموں کا حصہ ہے جہاں ہر واقعے، ہر رنگ کی چمک ماضی کی یاد میں محفوظ ہو جاتی ہے۔
سطر 49 ⟵ 47:
ان کا عہد جو دلیپ کمار کی المیہ اداکاری کے سائے میں گھرا رہا، اس میں راج کپور حقیقتاً ایک جوکر ہی کی طرح لوگوں کے لیے مسکراہٹیں تخلیق کرتے تھے تاہم انکا آنسو چھپانے کا فن انہیں دلیپ کمار سے کہیں زیادہ المیہ اور بہادر کردار کا درجہ ادا کر گیا۔
 
دو مئی سن انیس سو اٹھاسی کی رات راج کپور ہندوستانی فلموں میں اپنی گراں مایہ خدمات کے لیے داد صاحب پھلکے ایوارڈ لینے کیلئےکے لیے آئے لیکن دمے کے ایک اچانک دورے کے سبب سٹیج پر آکر اپنا ایوارڈ وصول نہ کرسکے۔ اس سے ٹھیک ایک مہینے بعد وہ دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
 
== حوالہ جات ==