"ہیلی کا دم دار سیارہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
درستی
سطر 45:
'''ہیلی کا دُم دار سیارہ''' تقریباً ہر 76 سال بعد زمین سے گزرتا ہے، برطانوی فلکیات دان [[Edmond Halley|ایڈمونڈ ہیلی]] نے نوٹ کیا کہ یہ دم دار سیارہ 1758ء کو ایک بار پھر نمودار ہوگا اور اپنے دوست [[آئزک نیوٹن|نیوٹن]] کو اس کے بارے میں بتایا، مگر 1758ء کو جب یہ دم دار سیارہ واقعی دوبارہ نمودار ہوا تو ایڈمونڈ ہیلی اسے دیکھنے کے لیے زندہ نہیں تھا، وہ اس سے چھ سال پہلے ہی مرچکا تھا، چنانچہ اس فلکیاتی دریافت اور ایڈمونڈ ہیلی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس دم دار ستارے کا نام ہیلی کا دمدار سیارہ رکھ دیا گیا۔
 
ایڈمونڈ ہیلی کو دم دار ستاروں سے خاصی دلچسبی تھی، یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ جب 1682ء میں یہ دم دار سیارہ نمودار ہوا تو وہ بقیدِ حیات تھا (جو بعد میں اسی کے نام سے جانا گیا)، فلکیاتی ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے اسے یقین ہوگیاہو گیا کہ جس دم دار ستارے کو اس نے دیکھا تھا وہ وہی تھا جو 1530ء اور 1606ء میں دیکھا گیا تھا، اور چونکہ تینوں تاریخوں کے درمیان میں فرق 76 سال اور 10 دنوں کا تھا چنانچہ ہیلی نے پیش گوئی کی کہ یہ دم دار ستارہ ایک بار پھر 1758ء – 1834ء – 1910ء اور 1986ء میں نمودار ہوگا (آخری تاریخ یعنی 1986ء کو ہیلی کو آخری مرتبہ دیکھا گیا تھا، اب یہ 28 جولائی 2061ء میں آئے گا)، اگرچہ ہیلی اس دم دار ستارے کی دوبارہ آمد سے پہلی ہی مرگیا تھا تاہم اس کی پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی اور یہ دم دار ستارہ واقعتاً ہر 76 سال بعد نمودار ہونے لگا، عمومی طور پر دم دار ستارے سورج کے گرد ایک طویل بیضوی مدار میں چکر لگاتے ہیں، یہ مدار بعض اوقات اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ایک چکر کئی صدیوں پر مشتمل ہوسکتاہو سکتا ہے، یہ نظامِ شمسی کے کناروں سے آتے ہیں اور ایک ضخیم برفانی مرکز پر مشتمل ہوتے ہیں جس کا قطر 50 کلو میٹر تک کا ہوسکتاہو سکتا ہے، جب یہ سورج کے قریب سے گزرتے ہیں تو حرارت کے اثر سے ان میں تبخراتی عمل شروع ہوجاتا ہے جس کے اثر سے نہ صرف ان کی ایک طویل دُم نمودار ہوجاتی ہے بلکہ یہ گلنے یا پگھلنے بھی لگتے ہیں، حتی کہ ہیلی کی آخری آمد پر وہ ان قیاسات سے کافی چھوٹا معلوم ہوا جو ایڈمونڈ ہیلی نے 1682ء میں ریکارڈ کی تھیں۔
 
اگرچہ دم دار ستاروں کے چکر ایڈ مونڈ ہیلی نے دریافت کئے تاہم وہ یہ چیز دریافت کرنے والا پہلا شخص بہر حال نہیں تھا، اسلامی تاریخ کئی دم دار ستاروں کے ریکارڈ سے پُر ہے جن میں بذاتِ خود ہیلی بھی شامل ہے۔.!! مشاہدے کی تاریخ اور دم دار ستارے کی آمد کے وقت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے اور اس کے لیے زیادہ محنت کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں، بس آخری نموداری سے صرف 76 سال منفی کرتے چلے جائیں، مثلاً ابن ایاس نے 862 ہجری بمطابق 1454ء عیسوی کو بدائع الزہور میں ہیلی کی نموداری کا تذکرہ کیا ہے، ابن الاثیر نے بھی ہیلی کی آمد 619 ہجری بمطابق 1222ء عیسوی کو ریکارڈ کی اور ان سے پہلے المقریزی نے اتحاف الحنفاء میں 379ء بمطابق 989ء عیسوی کو ہیلی کو ریکارڈ کیا، اس کے علاوہ ابن الجوزی نے بھی 299 ہجری بمطابق 913ء عیسوی کو کتاب المنتظم میں ہیلی کا تذکرہ کیا ہے، جبکہ ہیلی کو ریکارڈ کرنے کی سب سے پرانی تاریخ 222 ہجری بمطابق 837ء عیسوی ہے جو عرب فلاسفر ابو اسحاق الکندی کے ایک خاص رسالہ میں ملتی ہے جو انہوں نے خصوصی طور پر اس کے لیے لکھا جس کا عنوان ہے ” رسالہ خاصہ فیما رصد من الاثر العظیم الذی ظہر فی سنہ اثنین وعشرین ومائتین للہجرہ ”، یہی تاریخ ابن الاثیر کی الکامل فی التاریخ میں بھی ملتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:
سطر 57:
}}
<td>
ترجمہ: ”سال بائیس اور دو سو ہجری کو قبلہ کی بائیں طرف سے ایک دم دار سیارہ نمودار ہوا جو کوئی چالیس راتوں تک نظر آتا رہا اور وہ پہلی بار مغرب سے نکلا اور پھر مشرق کی طرف جاتا گیا اور وہ سفید اور لمبا تھا تو لوگ ڈر گئے اور اس کا معاملہ ان پر بھاری ہوگیا”۔ہو گیا”۔
</table>
 
خبریں کہتی ہیں کہ اس وقت لوگ اس ڈر سے کہ کہیں کوئی نا معلوم سیارہ زمین پر نہ گر جائے ایک اجتماعی خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے تھے۔. اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیاہو گیا تو لوگوں کی یاداشت میں پھر بھی باقی رہا حتی کہ عرب شاعر ابی تمام نے اس پر اپنے ایک مشہور قصیدے بعنوان ” السیف اصدق انباء من الکتب ” میں ایک شعر بھی کہا ہے جو کچھ یوں ہے:
<table>
<tr>