"مانویت" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
درستی
سطر 8:
بہرام کے دور میں مانی واپس ایران آیا، مگر ایک سال زندہ رہ سکا۔ موبدوں نے اس کے خلاف پھر اس کے خلاف شورش کی اور بہرام کو اس کے قتل پر آمادہ کیا۔ چنانچہ مانی گرفتار ہوا اور بڑی بے دردی سے مارا گیا۔ اس کی زندہ کھال کھنچی گئی اور بھس بھر کر جندی شاپور شہر کے دروازے پر لٹکا دی گئی (۵۷۲ء؁)۔ موت کے وقت مانی کی عمر ساٹھ سال تھی۔ اس کے بعد اس کے پیرؤں پر مصیبت آئی اور ہزاروں کی تعداد میں بے رحمی سے ہلاک ہوئے۔
== کتب ==
مانی کی کتابوں کی تعداد سات بتائی جاتی ہے۔ جو خود اس کی تصنیف یا وحی بتائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب شاہ برقان یا شاپورگان پہلوی زبان میں باقی سریانی زبان میں تھیں۔ چوں کہ اس کی کتابیں نقش و نگار اور حسین تصاویر سے آرستہ تھیں، اس لئےلیے مانی کی شہرت رسول کے بجائے نقاش و مصور سے زیادہ ہوئی۔ اس کی ایک کتاب خصوصیت کے ساتھ نادر تصاویر پر مشتمل تھی اور ازژتگ یا ارتنگ کے نام سے مشہور ہوئی۔ مانی کی کتابیں مسلم ور تک باقی تھیں، شاپورگان کا البیرونی نے مطالعہ کیا تھا۔ وہ مانی کی دوسری کتب سے واقف تھا۔ پہلوی کے علاوہ مسلم مورخین نے اس کی کتابوں کے جستہ جستہ اقتسبات دیئے ہیں، مگر اب ان میں سے ایک کتاب دستیاب نہیں ہے۔ مانی نے ایک نیا رسم الخط بھی اخترح کیا تھا، جو سریانی اور پارسی کے بین بین تھا۔ <ref>ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، ۴۵۱ تا ۶۵۱</ref>
مانی نے اپنی کتب میں تمام انبیاؑ کی مخالفت کی اور غیب جوئی کی ہے اور انہیں مہتم بکذب ٹہرایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان پر شیاطین کا غلبہ تھا، وہی ان کی زبان میں بات کرتے تھے۔ بلکہ بعض مقامات پر اس نے انبیاؑ کو خود شیاطین قرار دیا ہے۔ اس نے حضرت عیسیٰ ؑ کو بھی شیطان تصور کیا ہے۔<ref>ابن ندیم، الفہرست۔ ۰۷۷ </ref>
== تعلیمات ==
مانی کادعویٰ ہے وہ [[فارقلیط]] جس کے ّآنے کی بشارت حضرت عیسیٰؑ نے دی تھی۔ وہ دوسرے انبیا کی طرح [[پیغمبر]] ہے اور اس پر [[نبوت]] کا نزول ہوتا ہے اور وہ خدا کی طرف سے لوگوں کی کی ہدایت پر مامور ہوا ہے۔ مانی گوتم بدھ اور زرتشت کی رسالت کا قائل تھا۔ چنانچہ وہ شاپور گان میں آغاز ان الفاظوں سے ہوتا ہے، جس کا البیرونی نے اقتباس دیا ہے ”دفعتاً حکمت و عمل کی باتیں خدا کے رسول کے ذریعے انسان تک پہنچائی جاتی رہی ہیں۔ ایک وقت میں انہیں خدا کے رسول بدھ نے ہندوستان میں پہنچایا، دوسرے زمانے میں زرتشت نے فارس میں، دوسرے زمانے میں یسوع نے مغرب میں اور اس کے بعد یہ وہی اور اس آخر زمانے کی پیشن گوئی خداون کے حقیقی رسول مجھ مانی کے ذریعے بابل میں پہنچائی۔“
گبن کا خیال ہے کہ مانی نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے، بلکہ [[زرتشت]] اور حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات کے درمیان مقامت پیدا کرنے کی کوشش کی اور ان مخلوط مواد سے اپنے مذہب کی تعمیر کی ہے۔اس کے اکثر تصورات ان مذاہب سے ماخوذ ہیں۔ مگر جہان زرتشت نے اس ازلی تضاد کو ایک ہی ذات بتایاہے، وہاں مانی نے مستقل طور پر دو متضاد ہستیوں کو تسلیم کرکے اپنے مذہب کو [[ثنویت]] کی بنیادوں پر رکھا ہے، جو نور و ظلمت کے نام سے موسوم ہیں، یہ پہلے جدا تھیں پھر مخلوط ہوگئیں اور یہی اختلاط کائنات کی تکوین کا باعث بنا۔ اس طرح نور و ظلمت میں سے ہر ایک خالق ہے۔ اس طرح اچھا اور سفید نور ہے اور برا اور مضر ظلمت یا شر ہے۔ چونکہ کائنات کی تخلیق دو متعضاد اصولوں سے مرکب ہے، اس لئےلیے انسان اور تمام عناصر ان ہی کا مرکب ہیں اور ان افکارسے ہی متضاد اعمال جنم لیت ہیں اور یہ انسان کو اپنے اصل یعنی نور یا ظلمت کی طرف لے جاتے ہیں۔
 
مانی نے اپنی اخلاقی تعلیم میں موسیٰ ؑ کی طرح دس احکام بتائے ہیں۔ جو بدھ اور عیسیٰ ؑ کی تعلیمات سے ماخوذ ہیں جس حسب ذیل ہیں۔
سطر 26:
# دن رات سات یا چار مرتبہ نماز پڑھو۔
 
مذکورہ احکام کے علاوہ خواص کے لئےلیے مزید چند احکام ہیں، جن میں شہوات ولذت سے پرہیز، ترک لحم و شراب اور عورت سے مکمل علحیدگی شامل ہے۔
مذہبی طبقہ میں دو طبقوں اسماعون (رشندگان)۔ یہ عام لوگ ہیں جو سرف احکام عشرہ پر عمل کرتے ہیں اور تجرد، غربت اور نفس کشی پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ دوسرا صدیقوں (برگزیدگان) یہ امارت پر غربت کو ترجیع دیتے ہیں، عضیب اور شہوت پر قابو رکھتے ہیں، تجرد کی زندگی بسر کرتے ہیں، مسلسل روزے رکھتے ہیں اور جو کچھ مل جاتا ہے، راہ خدا میں خرچ کردیتے ہیں۔
مانویت کو ساسانی حکمرانوں نے ابھرنے نہیں دیا، پھر بھی اس کی توسیع جاری رہی، خود ایران میں عباسیوں کے عہد تک ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ خود مہدی و ہارون الرشید کے زمانے میں ان کو سزا دینے کے لئےلیے باضبطہ عدالت تفتش قائم کی گئی تھی۔<ref name="ReferenceA">ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، ۵۵۱ تا ۱۶۱</ref>
مذہبی طبقہ میں دو طبقوں اسماعون (رشندگان)۔ یہ عام لوگ ہیں جو سرف احکام عشرہ پر عمل کرتے ہیں اور تجرد، غربت اور نفس کشی پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ دوسرا صدیقوں (برگزیدگان) یہ امارت پر غربت کو ترجیع دیتے ہیں، عضیب اور شہوت پر قابو رکھتے ہیں، تجرد کی زندگی بسر کرتے ہیں، مسلسل روزے رکھتے ہیں اور جو کچھ مل جاتا ہے، راہ خدا میں خرچ کردیتے ہیں۔
مانویت کو ساسانی حکمرانوں نے ابھرنے نہیں دیا، پھر بھی اس کی توسیع جاری رہی، خود ایران میں عباسیوں کے عہد تک ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ خود مہدی و ہارون الرشید کے زمانے میں ان کو سزا دینے کے لئےلیے باضبطہ عدالت تفتش قائم کی گئی تھی۔ <ref>ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، ۵۵۱ تا ۱۶۱<name="ReferenceA"/ref>
 
== مزید دیکھیے ==