"مشتری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م اضافہ زمرہ جات
درستی
سطر 125:
* [[ammonium hydrosulfide]] (NH<sub>4</sub>SH)
}}
 
 
'''مشتری''' {{دیگر نام|انگریزی=Jupiter}} ہمارے نظام شمسی کا [[سورج]] سے پانچواں اور سب سے بڑا سیارہ ہے۔ گیسی دیو ہونے کے باوجود اس کا وزن سورج کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم ہے لیکن [[نظام شمسی]] کے دیگر سیاروں کے مجموعی وزن سے زیادہ بھاری ہے۔ [[زحل]]، [[یورینس]] اور [[نیپچون]] کی مانند مشتری بھی گیسی دیو کی درجہ بندی میں آتا ہے۔ یہ سارے گیسی دیو ایک ساتھ مل کر جووین یعنی بیرونی سیارے کہلاتے ہیں<ref>{{cite web | last = De Crespigny | first = Rafe | title = Emperor Huan and Emperor Ling | url = http://www.anu.edu.au/asianstudies/decrespigny/HuanLing_part2.pdf | archiveurl = http://web.archive.org/web/20060907044624/http://www.anu.edu.au/asianstudies/decrespigny/HuanLing_part2.pdf | archivedate = September 7, 2006 | work = Asian studies, Online Publications | accessdate = May 1, 2012 | quote = Xu Huang apparently complained that the astronomy office had failed to give them proper emphasis to the eclipse and to other portents, including the movement of the planet Jupiter (taisui). At his instigation, Chen Shou/Yuan was summoned and questioned, and it was under this pressure that his advice implicated Liang Ji.}}</ref>۔
سطر 133 ⟵ 132:
|year=2001|title=Solar system evolution: a new perspective : an inquiry into the chemical composition, origin, and evolution of the solar system
|edition=2nd, illus., revised|publisher=Cambridge University Press
|isbn=0-521-64130-6|page=208}}</ref>۔ زمین سے دیکھا جائے تو رات کے وقت آسمان پر چاند اور زہرہ کے بعد مشتری تیسرا روشن ترین اجرام فلکی ہے<ref>{{cite web|url=http://blogs.discovermagazine.com/badastronomy/2011/11/18/young-astronomer-captures-a-shadow-cast-by-jupiter/#.UaDO1UAoNAU |title=Young astronomer captures a shadow cast by Jupiter : Bad Astronomy |publisher=Blogs.discovermagazine.com |date=November 18, 2011 |accessdate=May 27, 2013}}</ref>۔
 
مشتری کا زیادہ تر حصہ [[ہائیڈروجن]] سے بنا ہے جبکہ ایک چوتھائی حصہ [[ہیلیئم]] پر بھی مشتمل ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس کے مرکزے میں بھاری دھاتیں بھی پائی جاتی ہوں<ref name=coreuncertainty>{{cite journal
سطر 143 ⟵ 142:
|bibcode = 2004ApJ...609.1170S |doi = 10.1086/421257
|arxiv = astro-ph/0403393 }}</ref>۔ تیز محوری حرکت کی وجہ سے مشتری کی شکل بیضوی سی ہے۔ بیرونی فضاء مختلف پٹیوں پر مشتمل ہے۔ انہی پٹیوں کے سنگم پر طوفان جنم لیتے ہیں۔ عظیم سرخ دھبہ نامی بہت بڑا طوفان سترہویں صدی سے دوربین کی ایجاد کے بعد سے مسلسل دیکھا جا رہا ہے۔ مشتری کے گرد معمولی سا دائروی نظام بھی موجود ہے اور اس کا مقناطیسی میدان کافی طاقتور ہے۔
مشتری کے کم از کم 63 چاند ہیں جن میں چار وہ ہیں جو [[1610]] میں [[گلیلیو]] نے دریافت کئے تھے۔ ان میں سے سب سے بڑا چاند عطارد یعنی مرکری سے بھی بڑا ہے۔
 
مشتری پر خودکار روبوٹ خلائی جہاز بھیجے گئے ہیں جن میں سے پائینیر اور وائجر اہم ترین ہیں جو اس کے قریب سے ہو کر گذرے تھے۔ بعد میں اس پر گلیلیو نامی جہاز بھیجا گیا تھا جو اس کے گرد محور میں گردش کرتا رہا۔ اس وقت تک کا سب سے آخری جہاز نیو ہورائزن ہے جو فروری 2007 میں اس کے قریب سے گذرا تھا اور اس کی منزل [[پلوٹو]] ہے۔ مشتری کی کشش ثقل کی مدد سے اس جہاز نے اپنی رفتار بڑھائی ہے۔ مستقبل کے منصوبوں میں برف سے ڈھکے مائع سمندروں والے چاند یوروپا کی تحقیق شامل ہے۔
سطر 150 ⟵ 149:
مشتری زیادہ تر گیسوں اور مائع جات سے بنا ہے۔ نہ صرف بیرونی چار سیاروں میں بلکہ پورے نظام شمسی میں سب سے بڑا سیارہ ہے۔ اس کے خط استوا پر اس کا قطر 1،42،984 کلومیٹر ہے۔ مشتری کی کثافت 1.326 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے جو گیسی سیاروں میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہے تاہم چار ارضی سیاروں کی نسبت یہ کثافت کم ہے۔
==ساخت==
مشتری کی بالائی فضاء کا 88 سے 92 فیصد حصہ [[ہائیڈروجن]] سے جبکہ 8 سے 12 فیصد [[ہیلیئم]] سے بنا ہے۔ چونکہ ہیلیئم کے ایٹم کا وزن ہائیڈروجن کے ایٹم کی نسبت 4 گنا زیادہ ہوتا ہے اس لئےلیے مختلف جگہوں پر یہ گیسیں مختلف مقداروں میں ملتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی فضاء کا 75 فیصد حصہ ہائیڈروجن جبکہ 24 فیصد ہیلئم سے بنا ہے۔ باقی کی ایک فیصد میں دیگر عناصر آ جاتے ہیں۔ اندرونی حصے میں زیادہ وزنی دھاتیں پائی جاتی ہیں اور ان میں 71 فیصد [[ہائیڈروجن]]، 24 فیصد [[ہیلیئم]] اور 5 فیصد دیگر عناصر بحساب وزن موجود ہیں۔ فضاء میں میتھین، آبی بخارات، امونیا اور سیلیکان پر مبنی مرکبات ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کاربن، ایتھین، ہائیڈروجن سلفائیڈ، نیون، آکسیجن، فاسفین اور گندھک بھی انتہائی معمولی مقدار میں ملتی ہیں۔ سب سے بیرونی تہہ میں جمی ہوئی امونیا کی قلمیں ملتی ہیں۔<ref name=voyager>{{cite journal
|author=Gautier, D.; Conrath, B.; Flasar, M.; Hanel, R.; Kunde, V.; Chedin, A.; Scott N.
|title = The helium abundance of Jupiter from Voyager
سطر 193 ⟵ 192:
|format=PDF|title = Outer Planets: The Ice Giants
|publisher = Lunar & Planetary Institute
|accessdate = February 1, 2007}}</ref> تاہم چونکہ مشتری سے آگے کسی سیارے کی سطح پر مشاہداتی خلائی جہاز نہیں اتارے گئے اس لئےلیے ان کی فضائی ساخت کے متعلق تفصیل سے کچھ بتانا مشکل ہے۔
 
==کمیت==
سطر 201 ⟵ 200:
|title=By Jupiter: Odysseys to a Giant
|publisher=Columbia University Press|location=New York
|isbn=0-231-05176-X}}</ref> مشتری کا قطر سورج کے قطر کا دسواں حصہ ہے,<ref name=shu82>{{cite book
|first=Frank H.|last=Shu|year=1982
|title=The physical universe: an introduction to astronomy
|page=426|series=Series of books in astronomy
|edition=12th|publisher=University Science Books
|isbn=0-935702-05-9}}</ref> اور اس کی کمیت سورج کی کمیت کے صفر اعشاریہ صفر صفر ایک فیصد کے برابر ہے۔ اس لئےلیے سورج اور مشتری کی کثافت برابر ہے<ref name=davis_turekian05>{{cite book
|author=Davis, Andrew M.; Turekian, Karl K.
|title=Meteorites, comets, and planets
سطر 238 ⟵ 237:
|pmid=10506563|bibcode = 1999Sci...286...72G }}</ref>۔
 
اگرچہ مشتری کو ستارہ بننے کے لئےلیے 75گنا زیادہ کمیت درکار ہوگی تاکہ وہ ہائیڈروجن کے ملاپ سے ستارہ بن سکے۔ سب سے چھوٹا سرخ بونا ستارہ دراصل مشتری کےقطر سے محض تیس فیصد بڑا ہے<ref>{{cite journal
|author = Burrows, A.; Hubbard, W. B.; Saumon, D.; Lunine, J. I.
|title=An expanded set of brown dwarf and very low mass star models
سطر 294 ⟵ 293:
|format=PDF|title = Dynamics of Jupiter's Atmosphere
|publisher = Lunar & Planetary Institute
|accessdate = February 1, 2007}}</ref>۔ <br />
 
[[File:PIA02863 - Jupiter surface motion animation thumbnail 300px 10fps.ogv|right|thumb|اس متحرک تصویر میں مشتری پر گھڑیال موافق حرکت کرتے بادلوں کی پٹیاں دکھائی دے رہی ہیں: [[:File:PIA02863 - Jupiter surface motion animation thumbnail 720px 10fps.ogv|720 پکسل]]، [[:File:PIA02863 - Jupiter surface motion animation 1fps.ogv|1799 پکسل]].]]
سطر 352 ⟵ 351:
==مقناطیسی میدان==
{{main|مشتری کا مقناطیسی میدان}}
[[File:Jupiter.Aurora.HST.UV.jpg|thumb|مشتری پر[[انوار قطبی|انوار قطبی]] ]]
مشتری کا مقناطیسی میدان زمین کی نسبت 14 گنا زیادہ طاقتور ہے اور اس کی پیمائش 4.2 سے 10-14 گاز تک ہے۔ یہ مقدار ہمارے نظامِ شمسی میں سورج کے دھبوں کے بعد سب سے زیادہ طاقتور ہے<ref name="worldbook" />۔ مشتری کے چاند آئی او کے آتش فشاں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی بہت بڑی مقدار خارج کرتے ہیں۔ <br />
مشتری کی 75 جسامتوں کے فاصلے پر اس کا مقناطیسی میدان اور شمسی ہوا ٹکراتے ہیں۔ مشتری کے چاروں بڑے چاند اس کے مقناطیسی میدان میں ہی حرکت کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ شمسی ہوا سے بچے رہتے ہیں<ref name="elkins-tanton" />۔
سطر 385 ⟵ 384:
مشتری آسمان پر سورج، چاند اور زہرہ کے بعد چوتھا روش ترین اجرام فلکی ہے<ref name="worldbook" />۔ تاہم بعض اوقات مریخ اس سے زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ مشتری کے مقام کا دارومدار زمین کی نسبت سے ہے، اس کا وہ نظارہ جو نظر آتا ہے حقیقت میں اس سے مختلف ہو سکتا ہے، یہ سورج کے عطف سے−2.9 سے −1.6 تک نیچے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مشتری کے زاویاتی قطر 50.1 سے 29.8 آرک سیکنڈ پر مختلف ہوتی ہے<ref name="fact" />۔
زمین اپنے مدار میں گردش کرتے وقت ہر 398.9 دن بعد مشتری کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ اس وجہ سے جب زمین آگے نکلتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے مشتری نے اچانک ہی اپنی حرکت کی سمت الٹ دی ہو۔مشتری کی سورج کے گرد بارہ سال میں ایک چکر علم نجوم میں اہمیت رکھتا ہے اور شاید برجوں کا سلسلہ اسی کے مشاہدے سے شروع ہوا تھا<ref name="burgess" />۔
چونکہ مشتری کا مدار زمین کے مدار سے باہر کی جانب ہے، اس لئےلیے مشتری ہمیشہ زمین سے روشن دکھائی دیتا ہے۔ خلائی جہاز سے کھینچی گئی تصویر میں مشتری ہلال کی شکل میں بھی دکھائی دے سکتا ہے<ref>{{cite web
|year=1974|url = http://history.nasa.gov/SP-349/ch8.htm
|title = Encounter with the Giant|publisher = NASA
سطر 426 ⟵ 425:
|title = Galilei, Galileo
|publisher = The Galileo Project
|accessdate = January 10, 2007}}</ref>۔
 
[[1660]] کی دہائی میں کسینی نے ایک نئی دوربین کی مدد سے مشتری پر دھبوں اور دیگر نشانات کو دریافت کیا اور بتایا کہ مشتری گول نہیں بلکہ بیضوی شکل کا ہے اور اس کے قطبین نسبتاً پچکے ہوئے ہیں<ref name="cassini">{{cite web
سطر 434 ⟵ 433:
|title = Giovanni Domenico Cassini
|publisher = University of St. Andrews
|accessdate = February 14, 2007}}</ref>۔ [[1690]] میں کسینی نے دریافت کیا کہ مشتری کی پوری فضاء یکساں رفتار سے حرکت نہیں کرتی<ref name="elkins-tanton" />۔
 
مشتری کا عظیم دھبہ جو کہ مشتری کی اہم اور مستقل نشانی ہے، کو پہلی بار [[1664]] میں رابرٹ ہک نے اور پھر [[1665]] میں جیوانی کسینی نے الگ الگ دیکھا۔ [[1831]] میں فارماسیسٹ ہنرچ شوابے نے اس عظیم دھبے کی شکل پہلی بار بنا کر پیش کی<ref>{{cite book
سطر 440 ⟵ 439:
|title=Encyclopedia of Astronomy and Astrophysics
|publisher=Institute of Physics Publishing
|location=Bristol|isbn=0-12-226690-0}}</ref>۔
 
[[1665]] سے [[1708]] کے دوران یہ دھبہ مشاہدے سے اوجھل رہا اور پھر [[1878]] میں پھر واضح دکھائی دینے لگا۔ [[1883]] اور پھر 20ویں صدی کے آغاز میں پھر یہ دھندلا ہوتا دکھائی دیا<ref>{{cite web
سطر 446 ⟵ 445:
|url = http://history.nasa.gov/SP-349/ch1.htm
|title = SP-349/396 Pioneer Odyssey—Jupiter, Giant of the Solar System
|publisher = NASA|accessdate = August 10, 2006}}</ref>۔
 
جیوانی بوریلی اور کسینی نے مشتری کے بڑے چاندوں کی گردش کے جدول بنائے کہ کب کون سا چاند مشتری کے سامنے آئے گا اور کب اس کے پیچھے چھپ جائے گا۔ تاہم [[1670]] میں جب یہ بات پتہ چلی کہ مشتری زمین سے سورج کی دوسری جانب ہے تو یہ حرکات توقع سے 17 منٹ زیادہ تاخیر سے ہوں گی، کیسنی نے پہلے ہی اسے مسترد کر دیا تھا.<ref name="cassini" /> اور اس وقت کے اختلاف سے روشنی کی رفتار کا اندازہ لگانے کے لئےلیے استعمال کیا گیا<ref>{{cite web
|url = http://www.mathpages.com/home/kmath203/kmath203.htm
|title = Roemer's Hypothesis|publisher = MathPages
|accessdate = January 12, 2007}}</ref>۔
 
[[1892]] میں برنارڈ نے 36 انچ دوربین کی مدد سے کیلیفورنیا کی لِک رصد گاہ سے مشتری کا پانچواں چاند دریافت کیا۔ اس چھوٹے چاند کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی شہرت جلد ہی ہر طرف پھیل گئی۔ بعد میں اس چاند کو امالتھیا کا نام ملا<ref>{{cite web
سطر 461 ⟵ 460:
|url = http://www2.jpl.nasa.gov/galileo/education/teacherres-amalthea.html
|title = Amalthea Fact Sheet|publisher = NASA JPL
|accessdate = February 21, 2007}}</ref>۔ دیگر آٹھ چاند [[وائجر اول]] کے [[1979]] کے چکر سے قبل دریافت ہو گئے۔
 
[[1932ء]] میں، روپرٹ والڈ نے مشتری کے طیف میں امونیا اور میتھین کے بینڈ کی نشاہدہی کی<ref>{{cite journal
سطر 477 ⟵ 476:
}}</ref>۔
===ریڈیائی دوربین سے تحقیق===
1955 میں برنارڈ برک اور کینیتھ فرینکلن نے مشتری سے 22.2 میگا ہرٹز کے سگنل وصول کئے جو اس کی محوری گردش کے ساتھ منسلک ہے<ref name="elkins-tanton" />۔ اسی کی بنیاد پر مشتری کی محوری گردش کی رفتار معلوم کی گئی ہے۔ یہ سگنل دو طرح کے دورانیئے کے ہوتے ہیں۔ لمبے سگنل کئی سیکنڈ تک جبکہ مختصر سگنل ایک سیکنڈ کے سوویں حصے سے بھی کم عرصے کے لئےلیے آتے ہیں<ref>{{cite web
|last = Weintraub|first = Rachel A.
|date = September 26, 2005
سطر 483 ⟵ 482:
|title = How One Night in a Field Changed Astronomy
|publisher = NASA|accessdate = February 18, 2007}}</ref>
۔
 
===خلائی جہازوں سے تحقیق===
[[1973]] سے کئی خودکار خلائی جہاز مشتری تک پہنچ چکے ہیں جن میں سے پاینئر 10 سب سے زیادہ مشہور ہے کیونکہ یہ سب سے پہلے مشتری کے قریب پہنچا تھا اور نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے کے بارے معلومات دی تھیں<ref>[http://quest.nasa.gov/sso/cool/pioneer10/mission/ NASA – Pioneer 10 Mission Profile]. NASA. Retrieved on December 22, 2011.</ref><ref>[http://www.nasa.gov/centers/glenn/about/history/pioneer.html NASA – Glenn Research Center]. NASA. Retrieved on December 22, 2011.</ref>۔ عموماً دوسرے سیاروں کو جانے والے راکٹوں پر توانائی پر سب سے زیادہ خرچہ آتا ہے۔ زمین کے نچلے مدار سے مشتری کو جانے کے لئےلیے درکار رفتار 6.3 کلومیٹر فی سیکنڈ درکار ہوتی ہے<ref>Fortescue, Peter W.; Stark, John and Swinerd, Graham ''Spacecraft systems engineering'', 3rd ed., John Wiley and Sons, 2003, ISBN 0-470-85102-3 p. 150.</ref> جبکہ زمین کی کشش پر قابو پانے کے لئےلیے خلائی جہازوں کو 9.7 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار درکار ہوتی ہے<ref>{{cite web|last = Hirata|first = Chris|url = http://www.pma.caltech.edu/~chirata/deltav.html|title = Delta-V in the Solar System|publisher = California Institute of Technology|accessdate = November 28, 2006|archiveurl = http://web.archive.org/web/20060715015836/http://www.pma.caltech.edu/~chirata/deltav.html |archivedate = July 15, 2006|deadurl=yes}}</ref>۔ اس کے علاوہ گریوٹی اسسٹ نامی تکنیک کی مدد سے دیگر سیاروں کی کشش سے رفتار کم کرتے ہوئے خلائی جہاز آسانی سے مشتری کو جا سکتے ہیں لیکن اس سے کل درکار وقت بہت بڑھ جاتا ہے<ref name="delta-v">{{cite web
|last = Wong|first = Al |date= May 28, 1998
|url = http://www2.jpl.nasa.gov/galileo/faqnav.html
سطر 507 ⟵ 506:
|title = Pioneer Project Home Page
|publisher = NASA Space Projects Division
|accessdate = November 28, 2006}}</ref>۔
 
چھ سال بعد وائجر جہازوں کی وجہ سے مشتری کے چاندوں اور اس کے دائروں کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت ہوا کہ عظیم سرخ دھبہ اینٹی سائیکلونک ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں لی گئی تصاویر سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاینئر مشنز کے بعد سے اس دھبے کا رنگ بدل رہا ہے اور نارنجی سے گہرا بھورا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ آئی او پر آتش فشاں بھی موجود ہیں جن میں سے کئی لاوا اگل رہے ہیں۔ مشتری کے پیچھے جب خلائی جہاز گئے تو تاریک حصے میں چمکتی آسمانی بجلیاں بھی دکھائی دی ہیں<ref name="voyager">{{cite web |date= January 14, 2003|url = http://voyager.jpl.nasa.gov/science/jupiter.html|title = Jupiter|publisher = NASA Jet Propulsion Laboratory|accessdate = November 28, 2006}}</ref><ref name="burgess" />۔
 
مشتری کو جانے والا اگلا مشن الائسیس کا سورج کو جانے والا خلائی جہاز سورج کے گرد اپنا مدار قائم کرنے کے لئےلیے مشتری کے پاس سے گذرا۔ چونکہ اس پر کوئی کیمرہ نصب نہیں، اس لئےلیے تصاویر نہیں لی جا سکیں۔ دوسری بار یہ خلائی جہاز چھ سال بعد بہت دور سے گذرا۔ پہلی بار گذرتے ہوئے اس خلائی جہاز نے مشتری کے مقناطیسی میدان پر کافی تحقیق کی<ref name="ulysses">{{cite web|author = Chan, K.; Paredes, E. S.; Ryne, M. S.|year = 2004|url = http://arc.aiaa.org/doi/abs/10.2514/6.2004-650-447 |title = Ulysses Attitude and Orbit Operations: 13+ Years of International Cooperation|publisher = American Institute of Aeronautics and Astronautics|accessdate = November 28, 2006}}</ref>۔
 
زحل کو جانے والا کسینی خلائی جہاز [[2000]] میں مشتری کے پاس سے گذرا اور اب تک کی بہترین تصاویر بھیجیں۔ 19 دسمبر [[2000]] کو اس نے ہمالیہ نامی چاند کی تصاویر لیں لیکن دھندلے ہونے کی وجہ سے سطح کے بارے کچھ خاص معلومات نہیں مل سکیں<ref>{{cite journal|author=Hansen, C. J.; Bolton, S. J.; Matson, D. L.; Spilker, L. J.; Lebreton, J.-P.|title=The Cassini–Huygens flyby of Jupiter|bibcode=2004Icar..172....1H|journal=Icarus|year=2004|volume=172|issue=1|pages=1–8|doi = 10.1016/j.icarus.2004.06.018}}</ref>۔
سطر 520 ⟵ 519:
تاحال مشتری کے مدار میں پہنچنے والا واحد خلائی جہاز گلیلیو ہے۔ یہ جہاز 7 دسمبر 1995 کو مدار میں پہنچا اور سات سال تک کام کرتا رہا۔ اس نے کئی بار تمام چاندوں کے گرد بھی چکر لگائے۔ اسی خلائی جہاز کی مدد سے شو میکرِلیوی 9 نامی دمدار ستارے کو مشتری پر گرتے دیکھا گیا جو ایک انتہائی نادر واقعہ ہے۔ اگرچہ گلیلیو سے بہت قیمتی معلومات ملیں لیکن ایک خرابی کی وجہ سے اس کا اصل اینٹینا کام نہیں کر سکا جس کی وجہ سے ڈیٹا بھیجنے کا عمل سخت متائثر ہوا<ref name="galileo">{{cite web|last = McConnell|first = Shannon |date= April 14, 2003|url = <!-- http://www2.jpl.nasa.gov/galileo/ -->http://solarsystem.nasa.gov/galileo/|title = Galileo: Journey to Jupiter|publisher = NASA Jet Propulsion Laboratory|accessdate = November 28, 2006}}</ref>۔
 
جولائی 1995 کو گلیلیو نے ایک مشین نیچے اتاری جو پیراشوٹ کی مدد سے 7 دسمبر کو مشتری کی فضاء میں اتری۔ اس نے کل 57.6 منٹ تک کام کیا اور 150 کلومیٹر نیچے اتری اور آخرکار انتہائی دباؤ کی وجہ سے ناکارہ ہو گئی۔ اس وقت اس پر پڑنے والا فضائی دباؤ زمین سے 22 گنا زیادہ اور درجہ حرارت 153 ڈگری سینٹی گریڈ تھا<ref>{{cite web|first = Julio|last = Magalhães|date = December 10, 1996|url = http://spaceprojects.arc.nasa.gov/Space_Projects/galileo_probe/htmls/probe_events.html|title = Galileo Probe Mission Events|publisher = NASA Space Projects Division|accessdate = February 2, 2007}}</ref>۔ اندازہ ہے کہ پگھلنے کے بعد شاید تبخیر کا شکار ہو گئی ہو۔ 21 ستمبر 2003 کو گلیلیو کو بھی اسی مقصد کے لئےلیے مشتری کے مدار سے سطح کی طرف گرایا گیا۔ اس وقت اس کی رفتار 50 کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ناسا نے یوروپا کو کسی قسم کی ملاوٹ سے پاک رکھنے کے لئےلیے یہ فیصلہ کیا تاکہ خلائی جہاز راستے میں ہی تباہ ہو جائے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یوروپا پر زندگی کے امکانات ہیں<ref name="galileo" />۔
=== مستقبل میں بھیجی جانے والی اور منسوخ شدہ مہمات===
مشتری کے قطبین کے بہتر مطالعے کے لئےلیے ناسا جونو نامی کلائی جہاز [[2011]] میں بھیجنے لگا تھا جو [[2016ء]] میں واپس آتا<ref>{{cite web
|first=Anthony|last=Goodeill|date=March 31, 2008
|url=http://newfrontiers.nasa.gov/missions_juno.html
سطر 528 ⟵ 527:
|accessdate=January 2, 2007}}</ref>۔
 
یوروپا جیوپیٹر سسٹم مشن ناسا اور یورپی خلائی ادارے کا مشترکہ منصوبہ ہے جس میں مشتری اور اس کے چاندوں کے لئےلیے مہم بھیجی جائے گی۔ فروری [[2009]] میں ناسا اور یورپی خلائی ادارے نے اعلان کیا کہ اس مہم کو ٹائٹن سیٹرن سسٹم مشن پر ترجیح دی ہے۔ یہ مہم [[2020]] کے آس پاس بھیجی جائے گی۔ اس مہم میں ناسا مشتری اور یوروپا کے لئےلیے جبکہ یورپی خلائی ادارہ مشتری اور گینی میڈ کے گرد گردش کرنے والا خلائی جہاز بھیجے گا<ref>{{cite web|url=http://sci.esa.int/science-e/www/area/index.cfm?fareaid=107|title=Laplace: A mission to Europa &amp; Jupiter system|publisher=ESA|accessdate=January 23, 2009}}</ref>۔
 
چونکہ مشتری کے چاندوں یوروپا، گینی میڈ اور کالیسٹو کی سطح پر مائع سمندر پائے جانے کا امکان ہے اس لئے ان کے تفصیلی مشاہدے کا منصوبہ ہے۔ تاہم سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبے رکے ہوئے ہیں۔ ناسا کا جیمو یعنی جیوپیٹر آئسی مون آربیٹر مشن [[2005]] میں منسوخ ہو گیا ہے<ref name=esaled>[http://sci.esa.int/science-e/www/object/index.cfm?fobjectid=48661 New approach for L-class mission candidates], ESA, April 19, 2011</ref>۔
 
چونکہ مشتری کے چاندوں یوروپا، گینی میڈ اور کالیسٹو کی سطح پر مائع سمندر پائے جانے کا امکان ہے اس لئےلیے ان کے تفصیلی مشاہدے کا منصوبہ ہے۔ تاہم سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبے رکے ہوئے ہیں۔ ناسا کا جیمو یعنی جیوپیٹر آئسی مون آربیٹر مشن [[2005]] میں منسوخ ہو گیا ہے<ref name=esaled>[http://sci.esa.int/science-e/www/object/index.cfm?fobjectid=48661 New approach for L-class mission candidates], ESA, April 19, 2011</ref>۔
 
==چاند==
سطر 541 ⟵ 539:
 
=== یوروپا چاند ===
ماہر فلکیات کا خیال ہے کہ مشتری کے چاند یوروپا کی برفانی سطح کے نیچے پانی کے ذخائر موجود ہیں جن میں زندگی کے آسار متوقع ہیں<ref>یوروپا: مشتری کا زندگی کے لیئے معاون چاند https://falkiyat.com/ur/europa-life-supportive-moon-jupiter/ </ref>۔
 
===گلیلین چاند===
{{main|گلیلین چاند}}
[[File:The Galilean satellites (the four largest moons of Jupiter).tif|thumb|right|325px|گلیلین چاند. دائیں سے بائیں, ترتیب بلحاظ مشتری سے دوری: [[Io (moon)|Io]], [[Europa (moon)|Europa]], [[Ganymede]], [[Callisto (moon)|Callisto]].]]
آئی او، یوروپا، گینی میڈ اور چند دیگر بڑے چاندوں کی گردش میں لیپلاس ریزونینس پائی جاتی ہے۔ مثلاً آئی او کے مشتری کے گرد ہر چار چکر پر یوروپا اس وقت میں پورے دو چکر کاٹتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں گینی میڈ صرف ایک۔ اس وجہ سے ہر چاند دوسرے چاند کو ایک ہی مقام پر ملتا ہے جن کی باہمی کشش کی وجہ سے ان کے مدار گول کی بجائے بیضوی ہیں<ref>{{cite journal|author= Musotto, S.; Varadi, F.; Moore, W. B.; Schubert, G.|title=Numerical simulations of the orbits of the Galilean satellites|url=http://cat.inist.fr/?aModele=afficheN&cpsidt=13969974|journal=Icarus|year=2002|volume=159|issue= 2|pages=500–504 |doi = 10.1006/icar.2002.6939|bibcode=2002Icar..159..500M}}</ref>۔
 
مشتری کی کشش کی وجہ سے ان چاندوں کے اندر رگڑ کی وجہ سے حرارت پیدا ہوتی ہے اور آئی او پر آتش فشاں کی یہی وجہ ہے۔
سطر 622 ⟵ 620:
 
==نظامِ شمسی کے ساتھ عمل دخل==
سورج کے ساتھ ساتھ مشتری کی کششِ ثقل کی وجہ سے ہمارے نظامِ شمسی کی شکل بنانے میں مدد ملی ہے۔
 
اس کے علاوہ کوئیپر کی پٹی میں بننے والے دمدار ستارے بھی مشتری کی وجہ سے اپنا مدار چھوڑ کر نظامِ شمسی کے اندر کا رخ کرتے ہیں۔
سطر 631 ⟵ 629:
|publisher=National Geographic News
|date=December 15, 2006|url=http://news.nationalgeographic.com/news/2006/12/061215-comet-stardust.html
|accessdate = January 8, 2007}}</ref>۔ نظامِ شمسی کے سیاروں میں سب سے زیادہ اسی کے ساتھ دمدار ستارے اور شہابیئے ٹکراتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سیارہ نظامِ شمسی کے اندرونی سیاروں کو شہابیوں سے بچانے کے لئےلیے ڈھال کا کام کرتا ہے۔ تاہم حالیہ کمپیوٹر سمولیشن کی مدد سے پتہ چلا ہے کہ مشتری جتنے شہابیئے یا دمدار ستارے اپنے مدار میں کھینچتا ہے، اتنے ہی اس کی وجہ سے اپنے مدار سے نکل کر اندرونی نظامِ شمسی کا رخ کرتے ہیں<ref>{{cite journal
|author=Horner, J.; Jones, B. W. |year=2008
|title=Jupiter – friend or foe? I: the asteroids
سطر 637 ⟵ 635:
|volume=7|issue=3–4|pages=251–261
|doi=10.1017/S1473550408004187
|arxiv=0806.2795|bibcode = 2008IJAsB...7..251H }}</ref>۔ بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مشتری اوورت بادل سے آنے والے دمدار ستاروں سے بچاؤ کا کام کرتا ہے۔
 
16 جولائی سے 22 جولائی [[1994]] کے دوران شو میکر لیوی 9 دمدار ستارے کے 20 ٹکڑے مشتری کے جنوبی نصف کرے سے ٹکرائے تھے اور نظامِ شمسی میں ایسا پہلی بار دیکھا گیا کہ نظامِ شمسی کے دو اجسام ایک دوسرے سے ٹکرائے ہوں۔ اس ٹکراؤ کے مشاہدے سے ہمیں مشتری کی فضاء کے بارے قیمتی معلومات ملی ہیں<ref>{{cite web
سطر 648 ⟵ 646:
|publisher=space.com|date=August 23, 2004
|url=http://www.space.com/273-remnants-1994-comet-impact-leave-puzzle-jupiter.html
|accessdate = February 20, 2007}}</ref>۔
 
19 جولائی [[2009]] کو ایک جگہ دمدار ستارے کے ٹکراؤ کے نشان ملے تھے جسے زیریں سرخ روشنی سے دیکھنے پر پتہ چلا ہے کہ یہاں کا درجہ حرارت کافی بلند ہے<ref>{{cite news|author=Staff|url=http://www.abc.net.au/news/2009-07-21/amateur-astronomer-discovers-jupiter-collision/1362318
سطر 657 ⟵ 655:
|id=IceInSpace News
|title=Breaking News: Possible Impact on Jupiter, Captured by Anthony Wesley
|publisher=IceInSpace|accessdate=July 19, 2009}}</ref>۔
 
اسی طرح کا ایک اور چھوٹا نشان آسٹریلیا کے شوقیہ فلکیات دان نے 3 جون [[2010]] کو دریافت کیا۔ اسے فلپائن میں ایک اور شوقین نے وڈیو پر ریکارڈ بھی کیا تھا<ref>{{cite web|url=http://www.astronomy.com/news-observing/news/2010/06/another%20impact%20on%20jupiter | title=Another impact on Jupiter| date=June 4, 2010| first=Michael| last=Bakich| publisher=[[Astronomy Magazine]] online| accessdate=June 4, 2010}}</ref>۔
سطر 736 ⟵ 734:
{{مشتری کے چاند}}
{{منتخب مقالہ}}
 
[[زمرہ:فلکیات]]
[[زمرہ:کائنات]]