"سورہ یوسف" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
درستی
سطر 63:
پھر اس قصے سے قرآن حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی{{ا}} جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہوکر رہتا ہے۔ انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بلکہ بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر ماردیا مگر نتیجے میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹادیا۔ مگر فی الواقع انہوں نے یوسف کو ا{{پیش}}س بام عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لا کھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انہوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انہیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کو قید خانے میں بھجوا کر اپنے نزدیک تو ان سے انتقام لے رہی تھی مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تخت سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرمانروائے ملک کی مربیہ کہلانے کے بجائے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اٹھانی پڑی۔ یہ محض دو چار مستثنی{{ا}} واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی بلکہ دنیا جس تدبیر کو اس کے گرانے کی نہایت کارگر اوریقینی تدبیر سمجھ کر اختیار کرتی ہے، اللہ اسی تدبیر سے اس کے اٹھنے کی صورتیں نکال دیتا ہے اور ان لوگوں کے حصے میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا جنہوں نے اسے گرانا چاہتا تھا اور اسی طرح اس کے برعکس خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں الٹی پڑتی ہیں اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
اس حقیقت حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر، دونوں میں ان حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہیے جو قانون ال{{ا}}ہی میں اس کے لیے مقرر کردی گئی ہیں۔ کامیابی و ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن جو شخص پاک مقصد کے لیے سیدھی سیدھی جائز تدبیر کرے گا وہ اگر ناکام بھی ہوا تو بہرحال ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہوگا اور جو شخص ناپاک مقصد کے لیے ٹیڑھی تدبیریں کرے گا وہ آخرت میں تو یقینا{{دوزبر}} رسوا ہوگا ہی مگر دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی کا خطرہ کچھ کم نہیں ہے۔ دوسرا اہم سبق اس سے توکل علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملتا ہے۔ جو لوگ حق و صداقت کے لیے سعی کر رہے ہوں اور دنیا انہیں مٹا دینے پر تلی ہوئی ہو وہ اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انہیں اس سے غیر معمولی تسکین حاصل ہوگی اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوفناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعا{{دوزبر}} ہراساں نہ ہوں گے بلکہ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنا اخلاقی فرض انجام دیے چلے جائیں گے۔
مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرد مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کرسکتاکر سکتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھیے، 17 برس کی عمر، تن تنہا، بے سر و سامان، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بنا کر بیچے گئے ہیں۔ تاریخ کے اس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگاکر انہیں جیل بھیج دیا گیا جس کی میعاد سزا بھی کوئی نہ تھی۔ اس حالت تک گرادیے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کر لیتے ہیں۔
 
== تاریخی و جغرافیائی حالات ==
سطر 73:
مصر پر اس زمانے میں پندرہویں خاندان کی حکومت تھی جو مصری تاریخ میں چرواہے بادشاہوں (
HIKSOS Kings
) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ عربی النسل تھے اور فلسطین و شام سے مصر جاکر 2 ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں سلطنت مصر پر قابض ہوگئے۔ عرب مؤرخین اور مفسرین قرآن نے ان کے لیے "[[عمالیق]]" کا نام استعمال کیا ہے جو مصریات کی موجودہ تحقیقات سے ٹھیک مطابقت رکھتا ہے۔ مصر میں یہ لوگ اجنبی حملہ آور کی حیثیت رکھتے تھے اور ملک کی خانگی نزاعات کے سبب انہیں وہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ یہی سبب ہوا کہ ان کی حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کو عروج حاصل کرنے کا موقع ملا اور پھر بنی اسرائیل وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، ملک کے بہترین زرخیز علاقے میں آباد کیے گئے اور ان کو وہاں بڑا اثر و رسوخ حاصل ہوا کیونکہ وہ ان غیر ملکی حکمرانوں کے ہم جنس تھے۔ پندرہویں صدی قبل مسیح کے اواخر تک یہ لوگ مصر پر قابض رہے اور ان کے زمانے میں ملک کا سارا اقتدار عملا{{دوزبر}} بنی اسرائیل کے ہاتھ میں رہا۔اسی دور کی طرف سورۂ مائدہ آیت 20 میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ملک میں ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اٹھی جس نے ہکسوس اقتدار کا تختہ الٹ دیا۔ ڈھائی لاکھ کی تعداد میں عمالقہ ملک سے نکال دیے گئے۔ ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان برسر اقتدار آگیاآ گیا اور اس نے عمالقہ کے زمانے کی یادگاروں کو چن چن کر مٹادیا اور بنی اسرائیل پر ان مظالم کا سلسلہ شروع کیا جن کا ذکر حضرت موسی{{ا}} علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے۔
مصری تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان چرواہے بادشاہوں نے مصری دیوتاؤں کو تسلیم نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے دیوتا شام سے اپنے ساتھ لائے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ مصر میں ان کا مذہب رائج ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام کے ہم عصر بادشاہ کو "[[فرعون]]" کے نام سے یاد نہیں کرتا۔ کیونکہ فرعون مصر کی مذہبی اصطلاح تھی اور یہ لوگ مصری مذہب کے قائل نہ تھے۔ لیکن بائبل میں غلطی سے اس کو بھی فرعون ہی کا نام دیا گیا ہے۔ شاید اس کے مرتب کرنے والے سمجھتے ہوں گہ کہ مصر کے سب بادشاہ فراعنہ ہی تھے۔
موجودہ زمانے کے محققین جنہوں نے بائبل اور مصری تاريخ کا تقابل کیا ہے، عام رائے یہ رکھتے ہیں کہ چرواہے بادشاہوں میں سے جس فرمانروا کا نام مصری تاریخ میں اپوفیس ملتا ہے، وہی حضرت یوسف کا ہم عصر تھا۔