"زر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
درستی
سطر 6:
جب انسان نے تہذیب کی دنیا میں قدم رکھا تو اس کو لین دین کی ضرورت پیش آئی۔ اس نے لین دین کے لےے پہلے پہل اشیائ کے تبادلے کو استعمال کیا ۔ مگرجلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ اس طرح لین دین آسان نہیں ہے ۔ اس لےے اس نے تبادلے کو آسان بنانے کے لیے سوچنا شروع کیا ۔ انسان نے تبادلے کے لےے مختلف اشیائ کو استعمال کیا اور صدیوں کے تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے ل سونا سب سے بہتر ہے ۔
سونا اپنی چمک دمک اور پائیداری کے باوجود دنیا میں محدود مقدار میں ہے ۔ اس لےے اسے رفتہ رفتہ زر کی حیثیت حاصل ہو گئی اور جلد ہی اس کے سکے وجود میںآگئےمیںآ گئے اور اس نے زر مستحکم کی حیثیت حاصل کر لی اور یہ ہر طرح کے لین دین میں مستحکم طور پر تسلیم کیا جانے لگا ۔ اس سے نہ صرف لین دین آسان ہو گیا ،بلکہ کاروبارمیںتیزی آگئی ۔
سونا چوں کہ دنیا میںمحدود مقدار میں تھا ، اس لےے عام طور پر اس کی قدر مستحکم رہتی تھی ۔ اگرچہ کبھی کبھار کسی قوم یا ملک میں فتوحات یا کسی کان کی دریافت کی بدولت اس محدود خطے میں محدود وقت کے لےے سونے کی افراط ہوجاتی تھی ۔ لیکن اشیائ تعیش کی خریداری کی وجہ سے سونے کی کثیر مقدار اس خطے سے نکل کر تجار ت پیشہ لوگوں کے پاس چلی جاتی تھی ۔مگر چونکہ عام لوگوں کے پاس سونے کی محدود مقدار رہ جاتی تھی ۔ اس لےے وہ صرف اشیائ ضرورت ہی خرید پاتے تھے ۔ اس کے نتیجے میں تجارت اور دوسرے پیشوں کوزوال آجاتا تھا اور اس لیے دنیا صدیوں کے سفر میں بنیادی طور پر زر کی کمی کا شکار رہی۔
سطر 14:
1944ئ میں برٹن وڈ Bretton Wood کانفرنس میں یہ طے پایا کے کہ کرنسی کے نظام کو سونے سے علاحدہ کر دیا جائے ۔ کیوں کہ برآمد بڑھانے کے لےے ہر ملک کوشش کر رہا تھا کہ اس کی کرنسی کی قدر کم رہے اور اس طرح اس کی اشیا بیرونی ممالک میں سستی فروخت ہوں ۔ کرنسی کی قدر گرانے سے ( جو سونے کے بدلے گردش کر رہی تھی) مقدار زر بڑھ جاتی تھی ۔ اس طرح ملک میں افراط زر پیدا ہوجاتا تھا اور اس کوروکنے کا واحد ذریعہ سونے کی کرنسی سے علیحدگی تھا ۔ لہذاسونے کو کرنسی سے علیحد ہ کرنے کا عمل 1968ئ میں شروع کیا گیا اور1971ئ تک کرنسی نوٹوں کو کرنسی سے مکمل طور پر علاحدہ کر دیا گیا ۔
 
آجکل بیشتر زر کاغذی ہوتا ہے ، جس کی حیثیت صرف کاغذ کی ہے جس پر طبع کیا گیا ہے ۔ مزید یہ کہ بلعموم غیر بدل پزیر ہے ۔ یعنی بینک یا حکومت اسے سونے یا کسی اور چیز میں تبدیل کرنے کا وعدہ نہیں کرتی ہے۔ اس کے باوجود یہ اپنا کام اچھی طرح انجام دیتا ہے اور ہر شخص اسے قبول کرلیتا ہے ۔ کیوں وہ جانتا ہے اس سے وہ اشیائ یا خدمات کے خریدنے یا اپنے قرضے کے تضفیئے کے لےے استعمال کرسکتاکر سکتا ہے ۔ اس اعتمادکی و جہ سے لوگ اپنی قیمتی اشیائ اور خدمات چند پرزوں کے بدلے دے ڈالتے ہیں اور یہ اعتماد اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اس کی قدر مستحکم رہے ۔ تاہم اس کی اشاعت زیادہ ہوجاتی ہے تو بداعتمادی پیدا ہونے لگتی ہے اور اس صورت میںممکن ہے لوگ اسے قبول کر نے انکار کردیں ۔
یہ حقیقت ہے جب سے زر کا تعلق سونے سے ختم ہوا ہے ، دنیا کی کسی کرنسی میںاستحکام نہیں رہا ہے ۔ ہم اگر 1930 سے دنیا کی کرنسیوں کی قدر سے موازنہ کریں تو ہر ملک کی کرنسی سونے کے مقابلے میں گرتی رہی ہے ۔ یہ کرنسی کی گرتی قدر معاشی ترقی اور روزگار کے لےے ضروری ہے ۔ لیکن اس تیزی سے نہیں کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو جائے ۔ جیسا کہ 1997 میں آسیان کے ملکوں میں ہوا تھا ۔ اگرچہ اس کی بڑی وجہ غیر پیداواری سیکٹر میں یعنی پراپرٹی ، سٹے بازی اور سامان تعیش میں سرمایاکاری ہے ۔
سطر 87:
گزشتہ سوسال کے جائزے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیںکہ سونا کافی کامیاب معیار ہے یا دوسرے سامان کا عمدہ معیار ہے ۔ شاید اس لیے سونا فرضی طورپرایک معیاری کرنسی کو وہ اعتماد دیتا ہے جیسا کہ سونا خود کرنسی ہو جو رکھنے والے کو اعتماد دیتا ہے ۔ اس وجہ سے یہ سوال ابھرتے ہیں کہ سونے رکھنے میں کیا پریشانی ہے ؟مستحکم کرنسیوں میں سودی آمدنی کیوں نہیں حاصل کی جاتی ہے ؟ خیال رہے سونا رکھنا ایک پانی کا جہاز رکھنے سے بھی زیادہ مہنگا ہے ۔ کیوں کہ سونا دنیا کی کسی بھی کرنسی سے زیادہ سیال ہے ۔
 
سونے اور کرنسی کا تعلق 1968 سے ختم ہونا شروع ہو گیا ، خاص کر 1971 سے یہ تعلق بالکل ختم ہو گیا تھا ۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ سونے کے معیار کو کس طرح زوال آیا اور اب حکومتیں سونے کے بجائے مستحکم کرنسیوں کو حاصل کرنے کو ترجیع دیتی ہیں ۔ جب کہ لوگ اور نجی ادارے رومانوی طور پر اس پر توجہ دیتے ہیں ( امریکہ نے 1971ئ میں عام لوگوں کو سونا رکھنے کی اجازت دی تھی ) ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ سونے کی قیمتیں تیزی سے بدلتی رہتی ہیں ، اس لیے کوئی حکومت سونے کو یکساں قیمت پر خرید و فروخت نہیں کرسکتی ہے ۔ یہ صرف ایسی صورت میںممکن ہے کہ حکومت کی کرنسی کی قیمت سونے کی تیزی سے بدلتی ہوئی قیمت کا ساتھ دے ، لیکن یہ ناممکن ہے ۔ اس لیے کہ کوئی بھی حکومت اس بات کی ہمت نہیں کرسکتی ہے کہ وہ سونے کے بدلے کرنسی حاصل کرے ۔ اس لیے سونے کا کاروبار کرنے والا کوئی بھی شخص سونے کی قیمت کو سرکاری مقابلے میں بلند کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتاکر سکتا ہے ۔
 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے سونے کی قیمتوں میں پچھلے برسوں اتنی تیزی کیوں آئی ہے ؟ اس کا بہترین اور مختصر جواب یہ ہے کہ سونے کی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے والے آگئےآ گئے ہیں ۔ یہ حیرت کی بات دکھائی دیتی ہے کہ یہ مقابلہ کرنے والے لوگ آج کل کے وقت میں اپنے مال کی قیمتوں کو اس حد تک زندہ رکھتے ہیں جو آج کل کے وقت میں ایک خطرناک بات ہے ۔
 
ایک آدمی سونا حاصل کرنا کیوں پسند کرتا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے آپ فرض کریں آپ ایک دولت مند شخص ہیں اور آپ دنیا کے کسی غیر مستحکم علاقے میں رہتے ہیں ، تو آپ اپنے سرمائے کو محفوظ کس طرح کریں ؟آپ اگر چاہیں تو یقینأٔ ذاتی طور پر ایسی چیزیں رکھ سکتے ہیں جو پیداوار دیتی ہیں مثلأٔ زمین فیکٹری یا بانڈ اگرچہ ان چیزوں پر آپ حکو مت کو ٹیکس دیتے ہےں ، لیکن عدم تحفظ کی وجہ سے یہ سیاسی جوا ہے اور کسی انقلاب یا سیاسی بحران کی وجہ سے ان کے ضبط یا مجمند ہونے کا خطرہ بھی ہے ۔ مثلََا امریکہ نے 1979-81ئ کے دوران اچانک جب کہ ایران میںامریکی یرغمالیوں کے بحران کے دوران آئرن کی مصنوعات کو منجمد کر دیا تھا ۔ یاد رہے سونا کوئی پیداواری چیز نہیں ہے اور سونارکھنا بہ نسبت ایک جہاز کے زیادہ مہنگا ہے ۔ لیکن اس صورت میں آپ یقینا سونے کوترجیح دیں گے ۔ کیوں کہ سونے کو بہ نسبت دوسری چیزوں کے بغیر کسی ٹیکس کے با آسانی چھپایا اور اس کی نقل و حرکت کی جاسکتی ہے ۔
سطر 106:
* موجودہ دور سے پہلے جو چیز زر کے طور پر استعمال ہوتی تھی وہ خود مطلوب ہوا کرتی تھی ۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ زر کے طور پر استعمال ہورہی اور اس کی مانگ میں اضافہ کے باعث اس کی قدر میں اضافہ کا موجب ہوا کرتی تھی ۔ یہی حال سونے کا ہے ۔ سونے کی ما نگ کا بڑا حصہ زری اغراض پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اگر امریکہ اور دوسرے ممالک سونے کے محفوظات رکھنا چھوڑ دیں تو سونے کی قدر گھٹ جائے گی۔
 
پہلے پہل سونے کا مبادلہ اشیا کے ساتھ اسی طور پر کیا جاتا تھا اور اس کے سکے نہیں ڈھالے گئے تھے ۔ ہر شخص جو اسے حاصل کرتا تھا وہ اطمینان کرتا تھا کہ اس کا وزن اور کھرا پن درست ہے ۔ یہ عمومأٔ ٹکڑوں کی شکل میں ہوا کرتے تھے ۔ بعد میں اس کے سکے وجود میں آگئےآ گئے ، جس پر کندہ تصویراور وزن اس کے درست ہونے کی تصدیق کرتا تھا ۔ اس طرح زحمت سے چھٹکارہ مل گیا ۔
 
سترویں صدی میں لندن میںمبادلہ میں ان رسیدوں کا کثرت سے استعمال ہونے لگا ، جو ان سناروں نے اس سونے کے بدلے جاری کی تھیں ، جوان کے پاس بطور امانت رکھا گیا تھا ۔ یہ رسیدیں بڑی مقبول ہوئیں ۔ کیوں کہ ان سے لین دین میں بڑی سہولت تھی ، اس سے کاروباری دنیا میں تیزی آگئی تھی ۔
سطر 155:
اس کے نقصانات میں اعتباری زر کا بڑی تعداد میں جاری ہونا ہے ۔ اس طرح ملک میں افراط زر پیدا ہوجاتا ہے اور قیمتوں میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اعتباری زر کی بدولت غیر کاروباری افراد کاروبار کے نام سے قرضہ لے کر فضول کاموں میں اڑا دیتے ہیں ۔ اس طرح بینک کے قرضوںکی آسان دستیابی کی بدولت کاروباری لوگ مختلف اقسام کے کاروبار میں اجا رہ داری حاصل کرلیتے ہیں اور قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیتے ہیں ۔ گو کاغذی زر کی طرح اس کے بھی نقصانات ہیں اور کاغذی زرکی طرح اس میں نقصانات سے زیادہ خوبیاں ہیں ۔ اس لےے کاغذی زر کسی ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے میں اہم کردار کرتا ہے ۔ تاہم کسی بھی کرنسی کے اعتباری زر بین الاقوامی لین دین میں استعمال ہو تے ہیں تو ان کی گردش اس ملک کی کرنسی میںاستحکام پیدا کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت ور معیشت کی کرنسیوں کے اعتباری زر بین ا لاقوامی طور پر قبول کئے جاتے ہیں ۔
 
کسی بینک کے لےے ضروری نہیں ہے کہ وہ اعتباری زر جاری رکھنے کے لےے صد فیصد رقم محفوظ رکھے ۔ بلکہ وہ محفوظ رقم کا کچھ فیصد رکھ کر اعتباری زر جاری کرسکتاکر سکتا ہے ۔ مثلأٔ دس فیصد ، بیس فیصد ۔ دراصل کوئی اعتباری زر اپنے پاس رکھے تو وہ دراصل بینک کو قرض دے رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے لوگوںکی عادتوں کی وجہ سے اعتباری زر میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ نقد رقوم ملک میں با آسانی سے نہیں بڑھ سکتی ہیں ۔ لہذا ملک میںگردش کردہ نوٹوں میں جس نسبت سے نقد رقوم بینک میں جمع ہوں گی اعتباری زر اسی نسبت سے ملک میں گردش کرے گا۔
 
کسی فرد کو بینک قرضہ دیتا ہے تو واقعی اس کو بینک قرض نہیں اداہے ۔ بلکہ اس کے حساب میں رقوم بینک میں جمع کردیتا ہے ۔ قرض دار جو اشیائ یا خدمات خریدتا ہے تو اس کی ادائیگی بذریعہ چیک کرتا ہے ۔ ہو سکتا ہے چیک لینے والا یہ رقم لینے کے بجائے بینک میں اپنے حسابات میں جمع کرلے ۔ اس طرح بینکوں کی امانتوںمیں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور کسی کی امانت میں کمی نہیں ہوتی ہے ۔
سطر 161:
ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں چیک کے ذریعے لین دین عام ہے اور معمولی رقوم کے علاوہ تمام ادائیگیاں چیک کے ذریعے ہوتی ہیں ۔ وہاں نقد رقوم بینکوں میں محفوظ رہتی ہیں اور اس تناسب سے اعتباری زر کی مقدارمیں اضافہ ہوتا ہے اور سرگرمی کاربارکے لےے رقوم باآسانی میسر آجاتی ہیں ۔ اس لیے وہاں کی معیشت مستحکم ہوتی ہے اور وہاں کے اعتباری زر بین الاقوامی لین دین میں بھی قبول کئے جاتے ہیں ۔
 
اگرچہ بینک اعتباری زر تخلیق کرسکتاکر سکتا ہے لیکن اس کی تخلیق کی طاقت محدود ہوتی ہے ۔ اگرچہ بینک اپنی محفوظ رقم میں اضافہ کرکے اعتباری زر میں اضافہ کرسکتاکر سکتا ہے ۔ لیکن ترقی پزیر ملکوں میں حالات اس طرح کے نہیں ہوتے ہیں ۔ وہاں عمومأٔ مرکزی بینک کی پابندیاں ہوتی ہیں ۔ جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے ، وہاں تناسب نقد عام معاشی حالات سے متاثر ہوتے ہیں ۔ عام طور پر سرگرمی کاروبار کے امکانات کے مطابق بینک محسوس کرتا ہے کہ کس قدر معمولی تناسب کافی رہے گا ۔
 
کوئی بینک متوازن حالات میںکسی خاص عرصہ میں نہ تو زر نقدحاصل کر تا ہے اور نہ ہی ہاتھ سے جانے دیتا ہے ۔ اس لےے کسی ایک ملک میں کوئی
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/زر»