"زرمبادلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
درستی
سطر 11:
ایک خاص موقع پر جہاں قانون رسد و طلب نے اپنی اہمیت کو واضع کیاہے، بین الاقوامی تجارت کے لیے غیر ملکی زر مبادلہ کی کرنسی کی قیمت کا نظریہ ہے۔ جب بین التجارتی ملک کی کرنسی کا معیار سونا تھا، تب کسی ملک کی کرنسی کی شرح مبادلہ دوسرے ملک کی کرنسی یا سکے کی مقابلے میں وہ نسبت تھی جو اس ملک میں سونے کی مقدار کو دوسرے ملک کے سکہ میں سونے کی مقدار سے (سونے کو ایک ملک سے دوسرے ملک لے جانے کے اخراجات کو مہیا کرکے)۔ ریکاڈو Ricardo (1772۔ 1823) نے بین الاقوامی تجارت کا سبب ایک چیز کی مختلف ممالک میں مختلف قیمتیں ہونا بتایا اور قیمت ہا تقابل Compartive Costs کا نظریہ قائم کیا اور بتایا کہ بین التجارتی ممالک کے درمیان شرح زرمبادلہ کے تعین کا بھی یہی نظریہ ہے۔ کیوں کہ ریکاڈو Ricardo محنت کو ہر چیز کا مخزن سمجھتا تھا۔ اس لیے اس کا یہ نظریہ ”نظریہ محنت“ Labour Cost Theory کے نام سے بھی مشہور ہے۔
 
[[پہلی جنگ عظیم]] کے بعد معاشین کو معلوم ہوا کہ ریکاڈو Ricardo کا نظریہ بہت سے حقائق کی وضاحت نہیں کرسکتاکر سکتا ہے، اس لیے انہوں نے اسے نظر اندازکر دیا گیا۔ سوئیڈن کے اوہلن Ohlin اور امریکہ
کے ٹاسگ Taussig اور انجل Angell نے اپنی اپنی تصانیف میں جو 1930 کے لگ بھگ شائع ہوئیں ریکاڈو Ricardoکے نظریہ کی مخالفت کی اور انہوں نے بین التجارتی ممالک کی کرنسی کی شرح مبادلہ مقرر ہونے کی یکسانی قوت خرید Purchasing Power Parity Theory بیان کی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ دو ملکوں کے سکوں کا تبادلہ اس نرخ پر ہونا چاہیے جس نرخ پر ایک ملک کے سکے کو دوسرے ملک کے سکے میں تبدیل کیا جائے، تو وہ اس ملک میں کہ جس کے سکہ میں پہلے ملک کا سکہ تبدیل کیا گیا ہے، اتنا ہی مال خرید سکے جتنا کہ یہ سکہ اپنے ملک میں خریدتا ہے۔ ان معاشین نے یہ دلیل پیش کی، کہ صرف محنت ہی عامل پیدائش نہیں ہے اور مختلف ممالک اس وجہ سے مختلف چیزیں درآمد برآمد کرتے ہیں کہ ایک قسم کی ملکی مصنوعات دیگر ممالک کی ان مصنوعات کے مقابلے میں سستی یا مہنگی ہوتی ہیں۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ کسی ملک کے کارخانہ دار کے لیے اشیاء کی تیاری کے ذیل میں ان کا سستا ہونا خاص چیز نہیں ہے، بلکہ ایک ملک میں اس تیار شدہ مال کی مانگ ہونا بھی ضروری ہے۔