"جمال عبد الناصر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
درستی
سطر 59:
صدر ناصر [[یمن]] کی فوجی امداد کے بعد اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اب مصر دنیائے عرب کا سب سے طاقتور ملک بن گیا ہے وہ [[اسرائیل]] کے مقابلے میں [[روس]] پر مکمل بھروسا کر سکتا ہے چنانچہ ایک طرف تو انہوں نے طاقت کے مظاہرے کے لیے ہزاروں فوجی یمن بھیج دیئے اور دوسری طرف اسرائیل کو دھمکیاں دینا اور مشتعل کرنا شروع کر دیا۔ [[اقوام متحدہ]] کی جو فوج 1956ء سے اسرائیل اور مصر کی سرحد پر تعینات تھی صدر ناصر نے اس کی واپسی کا مطالبہ کر دیا اور [[آبنائے عقبہ]] کو جہاز رانی کے لیے بند کرکے اسرائیل کی ناکہ بندی کردی۔ اسرائیل نے جو جنگ کے لیے پوری طرح تیار تھا اور جس کو امریکہ کی امداد پر بجا طور پر بھروسا تھا مصر کی کمزوری کا اندازہ کرکے جون 1967ء کے پہلے ہفتے میں بغیر کسی اعلان جنگ کے اچانک مصر پر حملہ کر دیا اور مصر کا بیشتر فضائی بیڑا ایک ہی حملے میں تباہ کر دیا۔ مصر کی فوج کا بڑا حصہ یمن میں تھا جسے بروقت بلانا نا ممکن تھا نتیجہ یہ ہوا کہ 6 دن کی مختصر مدت میں اسرائیل نے نہ صرف باقی [[فلسطین]] سے مصر اور اردن کو نکال باہر کیا بلکہ شام میں [[جولان]] کے پہاڑی علاقے اور مصر کے پورے [[جزیرہ نمائے سینا]] پر بھی قبضہ کر لیا۔ ہزاروں مصری فوجی قیدی بنالئے گئے اور روسی اسلحہ اور ٹینک یا تو جنگ میں برباد ہوگئے یا اسرائیلیوں کے قبضے میں چلے گئے۔ عربوں نے اپنی تاریخ میں کبھی اتنی ذلت آمیز شکست نہیں کھائی ہوگی اور اس کے اثرات سے ابھی تک عربوں کو نجات نہیں ملی۔ اسرائیل کے مقابلے میں اس ذلت آمیز شکست کے بعد صدر ناصر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ [[سعودی عرب]] اور [[اردن]] سے مفاہمت پیدا کی اور [[شاہ فیصل]] سے تصفیہ کے بعد جس کے تحت مصر نے یمن میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا، مصری فوجیں یمن سے واپس بلالی گئیں۔ مصر کی شکست کی سب سے بڑی وجہ مصری فوج کی نااہلی اور مصری فوجی نظام کے نقائص تھے لیکن مصری فوج اور اسلحہ کی بڑی تعداد کو یمن بھیجنا بھی شکست کی ایک بڑی وجہ تھی۔
 
جون 1967ء کی جنگ کے نتیجے میں غزہ (فلسطین)، اور جزیرہ نمائے سینا کا 24 ہزار مربع میل (ایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر) کا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں آگیا،آ گیا، [[نہر سوئز]] بند ہوگئی اور مصر [[جزیرہ نمائے سینا]] کے تیل کے چشموں سے محروم ہو گیا۔ صدر ناصر نے شکست کی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے فورا استعفی دے دیا لیکن ایک آمرانہ نظام میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ آمر کی جگہ لینے والا آسانی سے نہیں ملتا۔ مصر میں بھی یہی ہوا چونکہ کوئی متبادل رہنما سامنے نہیں آیا اس ليے 9 جون کو استعفی واپس لینے کے ليے قاہرہ میں مظاہرے کئے گئے اور صدر ناصر نے استعفی واپس لے لیا۔ اس طرح صدر ناصر کا اقتدار تو قائم رہا لیکن 1967ء کی شکست کی وجہ سے مصری فوج کی عزت خاک میں مل گئی۔ لوگ فوجیوں کو دیکھ کر فقرے چست کرنے لگے جس کی وجہ سے فوجیوں کو عام اوقات میں وردی پہن کر سڑکوں پر نکلنے سے روک دیا گیا۔
 
1967ء کی جنگ نے مصر کی معیشت کو بھی سخت نقصان پہنچایا۔ مصر کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ نہر سوئز تھی جس کی وجہ سے مصر کو ہر سال ساڑھے 9 کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ نہر کے مشرقی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ ہوجانے کے بعد نہر سوئز میں جہاز رانی بند ہوگئی۔ ایک ایسے موقع پر جبکہ مصر کو اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے ليے اور اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی نہر سوئز کی آمدنی کا بند ہونا بڑا تباہ کن ثابت ہوتا لیکن سعودی عرب، کویت اور لیبیا آڑے آئے اور تینوں نے مل کر ساڑھے 9 کروڑ ڈالر سالانہ کی امداد فراہم کرکے نہر سوئز کی بندش سے ہونے والے نقصان کی تلافی کردی۔
سطر 83:
[[ملف:Nasserf.jpg|thumb|300px|ناصر کا جنازہ]]
 
ناصر [[28 ستمبر]] [[1970ء]] کو [[قاہرہ]] میں عرب ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔کر گئے۔
 
ناصر نے زندگی میں ایک شادی کی جن سے ان کے تین بیٹے خالد، عبدالحکیم اور عبدالحمید اور دو بیٹیاں ہدی اور مونا پیدا ہوئیں۔