"سورہ طٰہٰ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
درستی
سطر 24:
اس سورت کا زمانۂ نزول [[سورہ مریم|سورۂ مریم]] کے زمانے کے قریب ہی کا ہے۔ ممکن ہے یہ کہ [[ہجرت حبشہ]] کے زمانے میں یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔ بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ حضرت [[عمر ابن الخطاب|عمر فاروق]] رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے پہلے یہ نازل ہوچکی تھی۔
 
ان کے قبول اسلام کی سب سے زیادہ مشہور اور معتبر روایت یہ ہے کہ جب وہ [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|نبی {{درود}}]] کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تو راستے میں ایک شخص نے ان سے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری اپنی بہن اور بہنوئی اس نئے دین میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں ان کی بہن [[فاطمہ بنت خطاب]] اور ان کے بہنوئی [[سعید بن زید]] رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے حضرت [[خباب بن ارت]] رضی اللہ عنہ سے ایک صحیفے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ حضرت عمر کے آتے ہی ان کی بہن سے صحیفہ فورا{{دوزبر}} چھپالیا۔ مگر حضرت عمر اس کے پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انہوں نے پہلے پوچھ گچھ کی۔ اس کے بعد بہنوئی پر پل پڑے اور مارنا شروع کر دیا۔ بہن نے بچایا چاہا تو انہیں بھی مارا یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا۔ آخر کار بہن اور بہنوئی دونوں نے کہا کہ ہاں! ہم مسلمان ہو چکے ہیں، تم سے جو ہو سکے کرلو۔ حضرت عمر اپنی بہن کا خون بہتے دیکھ کر کچھ پشیمان سے ہوگئے اور کہنے لگے کہ اچھا مجھے وہ چیز دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے۔ بہن نے پہلے قسم لی کہ وہ اسے پھاڑ نہ دیں گے۔ پھر کہا کہ تم جب تک غسل نہ کرلو، اس پاک صحیفے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے غسل کیا اور پھر وہ صحیفہ لے کر پڑھنا شروع کیا۔ اس میں یہی سورۂ ط{{ا}}ہ{{ا}} لکھی ہوئی تھی۔ پڑھتے پڑھتے یک لخت ان کی زبان سے نکلا "کیا خوب کلام ہے"۔ یہ سنتے ہی حضرت خباب بن ارت جو ان کی آہٹ پاتے ہی چھپ گئے تھے۔ باہر آگئےآ گئے اور کہا کہ "بخدا! مجھے یہ توقع ہے کہ اللہ تعالٰی{{ا}} تم سے اپنے نبی کی دعوت پھیلانے میں بڑی خدمت لے گا، کل ہی میں نے نبی {{درود}} کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خدایا! ابو الحکم بن ہشام ([[ابوجہل|ابو جہل]]) یا عمر بن خطاب، دونوں میں سے کسی کو اسلام کا حامی بنادے۔ پس اے عمر! اللہ کی طرف چلو، اللہ کی طرف چلو''۔ اس فقرے نے رہی سہی کسر پوری کردی اور اسی وقت حضرت خباب کے ساتھ جاکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی {{درود}} کی خدمت میں اسلام قبول کر لیا۔ یہ ہجرت حبشہ سے تھوڑی مدت بعد ہی کا قصہ ہے۔
 
== موضوع و مبحث ==
سطر 30:
سورت کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ اے محمد{{درود}}! یہ [[قرآن]] تم پر کچھ اس لیے نازل نہیں کیا گیا ہے کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے تو کم ایک مصیبت میں ڈال دیا جائے۔ تم سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ پتھر کی چٹانو‎ں سے دودھ کی نہر نکالو، نہ ماننے والوں کو منوا کر چھوڑو، اور ہٹ دھرم لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرکے دکھاؤ۔ یہ تو بس ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے تاکہ جس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور جو اس کی پکڑ سے بچنا چاہے وہ سن کر سیدھا ہو جائے۔ یہ مالک{{زیر}} زمین و آسمان کا کلام ہے۔ اور خدائی اس کے سوا کسی کی نہیں ہے۔ یہ دونوں حقیقتیں اپنی جگہ اٹل ہیں، خواہ کوئی مانے یا نہ مانے۔
اس تمہید کے بعد یکایک حضرت [[موسی{{ا}} علیہ السلام]] کا قصہ چھیڑ دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ محض ایک قصے کی شکل میں بیان ہوا ہے۔ وقت کے حالات کی طرف اس میں کوئي اشارہ تک نہیں ہے مگر جس ماحول میں یہ قصہ سنایا گیا ہے اس کے حالات سے مل جل کر یہ اہل مکہ سے کچھ اور باتیں کرتا نظر آتا ہے جو اس کے الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے بین السطور سے ادا ہورہی ہے۔ ان باتوں کی تشریح سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ عرب میں کثیر التعداد [[یہودی|یہودیوں]] کی موجودگی اور اہل عرب پر یہودیوں کے علمی و ذہنی تف{{پیش}}و{{تشدید}}ق کی وجہ سے، نیز [[رومی سلطنت|روم]] اور [[حبش]] کی مسیحی سلطنتوں کے اثر سے بھی، عربوں میں بالعموم حضرت موسی{{ا}} علیہ السلام کو خدا کا نبی تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس حقیقت کو نظر میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ وہ باتیں کیا ہیں جو اس قصے کے بین السطور میں اہل مکہ کو جتائی گئی ہیں:
#اللہ تعالٰی{{ا}} کسی کو نبوت اس طرح عطا نہیں کیا کرتا کہ ڈھول تاشے اور نفیریاں بجا کر ایک خلق اکٹھی کرلی جائے اور پھر باقاعدہ ایک تقریب کی صورت میں یہ اعلان کیا جائے کہ آج سے فلاں شخص کو ہم نے نبی مقرر کیا ہے۔ نبوت تو جس کو بھی دی گئی ہے، کچھ اسی طرح بصیغۂ راز دی گئی ہے جیسے حضرت موسی{{ا}} کو دی گئی تھی۔ اب تمہیں کیوں اس بات پر اچنبھا ہے کہ محمد{{درود}} یکایک نبی بن کر تمہارے سامنے آگئےآ گئے اور اس کا اعلان نہ آسمان سے ہوا نہ زمین پر فرشتوں نے چل پھر کر اس کا ڈھول پیٹا۔ ایسے اعلان پہلے نبیوں کے تقرر پر کب ہوئے تھے کہ آج ہوتے؟
#جو بات آج محمد{{درود}} پیش کر رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) ٹھیک وہی بات منصب{{زیر}} نبوت پر مقرر کرتے وقت اللہ تعالٰی{{ا}} نے موسی{{ا}} علیہ السلام کو سکھائی تھی۔
#جس طرح تم آج محمد{{درود}} کو بغیر کسی سر و سامان اور لاؤ لشکر کے تن{{زیر}} تنہا قریش کے مقابلے میں دعوت{{زیر}} حق کا علم بردار بنا کر کھڑا کر دیا گیا ہے، ٹھیک اسی طرح موسی{{ا}} علیہ السلام بھی یکایک اتنے بڑے کام پر مامور کردیئے گئے تھے کہ جاکر [[فرعون]] جیسے جبار بادشاہ کو سرکشی سے باز آنے کی تلقین کریں۔ کوئی لشکر ان کے ساتھ بھی نہیں بھیجا گیا تھا۔ اللہ تعالٰی{{ا}} کے معاملے ایسے ہی عجیب ہیں۔ وہ مدین سے مصر جانے والے ایک مسافر کو راہ چلتے پکڑ کر بلا لیتا ہے اور کہا ہے کہ جا اور وقت کے سب سے بڑے جاکر حکمران سے ٹکرا جا۔ بہت کیا تو اس کی درخواست پر اس کے بھائی کو مددگار کے طور پر دے دیا۔ کوئی فوج اور ہاتھی گھوڑے اس کار{{زیر}} عظیم کے لیے اس کو نہیں دیے گئے۔