"غزوہ بدر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
درستی
سطر 113:
=== دشمن میں بددلی اور اختلاف رائے ===
 
اگرچہ لشکر قریشی خاندانی شرافت کو برقرار رکھنے کے لیے میدان جنگ میں آگیاآ گیا لیکن اس مسئلہ پر ان کے درمیان میں اختلاف رائے اور بددلی پائی جاتی تھی۔ ابوسفیان جب اپنے قافلے کو بچا کر نکل گیا تو اس نے پیغام بھیجا کہ جنگ کیے بغیر واپس لوٹ آؤ لیکن ابوجہل نہ مانا۔ اس پر بنی زہرہ اور بنی عدی واپس لوٹ گئے۔ بنو ہاشم سے مغرور قریشی سرداروں نے کہا۔ ’’اے بنو ہاشم ! اگرچہ تم ہمارے ساتھ چلے آئے لیکن تمہارا دل تو محمد {{درود}} کے ساتھ ہے۔‘‘ اس پر بنی ہاشم میں ایک گروہ طالب بن ابی طالب کی سرکردگی میں واپس لوٹ گیا۔ حکیم بن حزام اور عتبہ نے بھی جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن ابوجہل اور حضرمی کے خاندان کے اصرار پر معرکہ کارزار گرم ہو کر رہا اور سرداروں نے بادل ناخواستہ اس جنگ میں شرکت کی۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض قریشی پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان سے ہم پر بلائیں نازل ہو رہی ہیں۔ ان کے بعض افراد نے ایسے خواب دیکھے تھے جن میں ان کی تباہی کی خبر دی گئی تھی۔ ان تمام چیزوں کی حقیقت یہ تھی کہ جو لوگ اسلام کی حقانیت کو سمجھتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ ہم ’’خدا کا مقابلہ‘‘ کرنے جا رہے ہیں۔ اس لیے وہ خواب دیکھتے تھے کہ ان خوابوں کے عام چرچوں سے لشکر قریش میں اندر ہی اندر بددلی پھیلی ہوئی تھی۔
 
=== متفرق وجوہات ===
سطر 158:
== غزوہ بدر کی اہمیت ==
 
غزوہ بدر اسلام اور کفر کا پہلا اور اہم ترین تصادم ہے اس سے دنیا پر واضح ہو گیا کہ نصرت الہی کی بدولت مومنین اپنے سے کئی گناہ فوج کو شکست دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے [[قرآن پاک]] میں سو مومنوں کو ہزار کافروں پر فتح کی بشارت دی۔ غزوہ بدر میں شامل مسلمانوں نے جس قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ باپ بیٹے کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف۔ بھانجا ماموں کے خلاف اور چچا بھتیجے کے خلاف میدان میں آیا۔ [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] نے اپنے ماموں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ [[ابوبکر صدیق|حضرت ابوبکر]] کے صاحبزادے عبدالرحمن نے جو [[قریش]] کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ایک دفعہ حضرت ابوبکر کو بتایا کہ جنگ میں ایک مرتبہ آپ میری زد میں آگئےآ گئے تھے لیکن میں نے آپ پر وار کرنا پسند نہ کیا۔ [[ابوبکر صدیق|حضرت ابوبکر]] نے فرمایا خدا کی قسم اگر تم میری زد میں آجاتے تو کبھی لحاظ نہ کرتا۔ حضرت حذیفہ کا باب عتبہ بن ربیعہ لشکر قریش کا سپہ سالار تھا اور سب سے پہلے قتل ہونے والوں میں شامل تھا۔ اس جنگ کاایک اور پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت نظم و ضبط سے دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی صفیں نہیں ٹوٹنے دیں۔ جنگ کے خاتمے پر خدا اور رسول کے حکم کے تحت مال غنیمت کی تقسیم ہوئی۔ مال غنیمت کی اتنی پر امن اور دیانت دارانہ تقسیم کی مثال کم ہی ملتی تھی۔ القصہ مسلمانوں کے تقوی اور اطاعت رسول کی وجہ سے ان کی برتری روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی اور کفار کے حوصلے پست ہوئے۔ جب کی مسلمانوں کا اللہ پر توکل بہت بڑھ گیا۔
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}