"یوسف خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

يوسف خان گبول
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
نیا صفحہ: پاکستانی فلمی اداکار۔یوسف خان اور سلطان راہی نے کم و بیش ایک ہی زمانے میں اداکاری شروع کی تھی۔ سلطان...
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 18:37، 29 مارچ 2010ء

پاکستانی فلمی اداکار۔یوسف خان اور سلطان راہی نے کم و بیش ایک ہی زمانے میں اداکاری شروع کی تھی۔ سلطان راہی سٹیج کے اردو ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کیا کرتے تھے جبکہ یوسف خان کو اردو فلموں میں سائیڈ ہیرو اور بعد میں ہیرو کا کردار بھی ملنے لگا۔ عجیب بات ہے کہ اردو میں کام شروع کرنے والے اِن اداکاروں کو اصل شہرت پنجابی سنیما میں حاصل ہوئی۔

آغاز

یوسف خان نے اگرچہ 1954 میں فلم ’پرواز‘ کے ذریعے اپنا فلی کیرئر شروع کر دیا تھا لیکن پانچ برس تک لاہور اور کراچی میں مسلسل جدو جہد کے بعد انہیں شمیم آراء اور جمیلہ رزاق کے ساتھ ایک ایسی فلم میں کام کرنے کا موقعہ ملا جس نے مستقبل کا راستہ ان کے لیے صاف کر دیا۔ یہ تھی 1959 میں بننے والی فلم ’فیصلہ‘ جہاں سے ایک چائلڈ سٹار کے طور پر اداکارہ دیبا کی فلمی زندگی کا بھی آغاز ہوا۔ سن پچاس کے عشرے میں انہوں نے حسرت، بھروسہ اور ناگن نامی فلموں میں بھی کام کیا، لیکن حسرت کی ہائی لائٹ اداکارہ صبیحہ خانم تھیں جبکہ بھروسہ میں اداکار علاءالدین نے ناظرین کو مٹھی میں لے رکھا تھا۔ ناگن میں بھی لوگوں کی توجہ کا اصل مرکز یوسف خان نہیں بلکہ سولہ سالہ نوجوان رتن کمار تھا جو کہ چائلڈ سٹار کے طور پر بمبئی اور لاہور میں بے پناہ شہرت کمانے کے بعد اب پہلی بار ہیرو کے طور پر نمودار ہوا۔

ثانوی کردار

یوسف خان کو ان فلموں میں اپنی ثانوی حیثیت کا پورا احساس تھا لیکن ساتھ ہی یہ یقین بھی تھا کہ ان فلموں سے حاصل ہونے والا تجربہ رائیگاں نہیں جائے گا۔ چنانچہ سن ساٹھ کے عشرے میں انہوں نے پوری لگن سے اپنا کام جاری رکھا اور فلم پہاڑن، خاموش رہو، دروازہ، سسرال، ملنگی، حاتم طائی، چن ویر، بدلہ، باؤ جی، تیرے عشق نچایا اور مکھڑا چن ورگا جیسی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اب فلم سازوں پر یہ واضح ہوگیا تھا کہ وہ اردو اور پنجابی میں یکساں مہارت کے ساتھ اداکاری کر سکتے ہیں۔

عروج کا زمانہ

ستّر کی دہائی یوسف خان کے فنی عروج کا زمانہ تھا جب انہوں نے غرناطہ، چن پُتر، بابل، عزت تے قانون، جنگُو، خطرناک، سِدھارستہ، ٹکراؤ، ہتھکڑی، شریف بدمعاش، وارنٹ، حشر نشر، شگناں دی مہندی اور ایکسی ڈینٹ جیسی فلموں میں کام کیا۔ لیکن اس دور کی اہم ترین فِلم ضدی تھی۔ 1973 میں بننے والی اس فلم کی یوسف خان کے لیے وہی اہمیت تھی جو اس سے ایک برس پہلے بننے والی فلم بشیرا کی سلطان راہی کے لیے تھی۔ جس طرح بشیرا کے بعد سلطان راہی فلم سازوں کی نگاہوں کا مرکز بنے اسی طرح ضدی کے بعد فلم سازوں نے یوسف خان کی شخصیت کو بنیاد بنا کر ان کے لیے خصوصی کردار لکھوانے شروع کر دیے۔ سن اسّی کی دہائی میں ہمیں اللہ راکھا، نظام ڈاکو، رستم تے خان، جھورا اور بابر خان جیسی ’مبنی برکردار‘ فلموں کے ساتھ ساتھ دھی رانی، قسمت اور غلامی جیسی فلمیں بھی نظر آتی ہیں۔ سن نوے کی دہائی میں یوسف خان کا فن پختگی کی آخری منزل کو پہنچ چکا تھا اور آسمان، خداگواہ، بت شکن، بے تاج بادشاہ، آن ملو سجنا اور عمر مختار جیسی فلمیں ان کی منتظر تھیں۔

انوکھا اعزاز

اکیسویں صدی کے دہلیز پر پہنچ کر یوسف خان کو ایک ایسا پاکستانی اداکار ہونے کا منفرد اعزاز ملا جو مسلسل نِصف صدی سے فلموں میں نمودار ہو رہا تھا۔ سن 2000 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم بُڈھا گجر نے ثابت کردیا کہ یہ ہاتھی مر کے بھی سوا لاکھ کا رہے گا۔

سیکنڈل

آدھی صدی کے فلمی سفر میں یوسف خان نے کئی اُتار چڑھاؤ دیکھے۔ فلمی زندگی اور سکینڈل لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں، یوسف خان بھی اس سے مستشنٰی نہیں تھے۔ ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ ان کی دوستی جب گہرے تعلقات میں تبدیل ہوئی تو فلم انڈسٹری میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور جب دونوں ایک ساتھ حج پر گئے تو فلمی پریس میں شہ سرخیوں کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی کہ نور جہاں اور یوسف خان کی شادی ہوگئی ہے۔ بہر حال جب دونوں نے اس کی تردید کردی تو آہستہ آہستہ اس افواہ نے دم توڑ دیا۔

ہندوستانی فلمیں

زندگی کے آخری ایام میں یوسف خان نے بڑے زور شور سے بھارتی فلموں کے خلاف تحریک شروع کی دی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے شدید تعصب کی کبھی پردہ پوشی نہیں کی تھی اور کھلے لفظوں میں ہمیشہ بھارتی فلموں اور اداکاروں کی مذمت کی تھی، انڈین فلموں کے خلاف ان کا جوش و جنوں آخری دنوں میں تشدد کی حدوں کو چھونے لگا تھا انتقال ۱۹ ستمبر ۲۰۰۹ کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔