"عبد الحی فرنگی محلی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م صفائی بذریعہ خوب
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1:
'''ابو الحسنات عبدالحیعبد الحی لکھنوی فرنگی محلی''' بھارت کے ایک حنفی فقیہ اور عالم دین تھے۔
== ولادت ==
26 ذوالقعدہ [[1264ھ]] بمطابق 24 اکتوبر [[1848ء]] کو [[بانڈہ]]، [[ہندوستان]] میں  پیدا ہوئے اپنے وقت کے عظیم عالم دین اور بہت سی معروف کتب کے مصنف تھے ۔
== نسب ==
محمد عبد الحی بن محمد عبد الحليم انصاری لكھنوی ،لكھنوی، کنیت ابو الحسنات ہے۔ ہندوستان میں لکھنؤ کے رہنے والے  ابو ایوب انصاری  کی نسل سے  تھے۔
 
== ابتدائی زندگی ==
آپ کے  اجداد  نے مدینہ منورہ سے ہرات، وہاں سے لاہور، پھر دہلی اور بالآخر سہالہ اور فرنگی محل نزد لکھنؤ ہجرت کی۔ متقی اور نیک علماءعلما نے ہمیشہ اس جگہ کو اپنا مسکن  بنایا۔  
 
مولانا عبدالحئیعبد الحئی نے پانچ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا۔  اللہ  پاک  نے انہیں بچپن ہی سے اتنا عمدہ حافظہ عطا فرمایا تھا کہ ان کے اپنے بیان کے مطابق انہیں وہ سرزنش بھی یاد تھی جو ایک مرتبہ انہیں کی گئی جب وہ صرف تین سال کے تھے۔ ابتدا میں انہوں نے حافظ قاسم علی صاحب  سے قرآن سیکھا۔ اس دوران ان کے والدین نے جونپور ہجرت کی جہاں انہوں نے حافظ ابراہیم سے حفظ جاری رکھا۔ آپ نے دس سال کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا۔ دوران حفظ آپ نے اپنے والد صاحب سے کچھ فارسی کتب بھی پڑھیں۔    
 
جب آپ گیارہ سال کے ہوئے تو آپ نے اپنے والد صاحب سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کرنے شروع کر دی جو تب جونپور  میں  تدریس کر رہے تھے۔ آپ نے '''[[میزان الصرف]]''' سے لے کر '''تفسیر بیضاوی''' تک تمام کتاب سترہ سال کی عمر تک مکمل کر لیں۔ اپنے والد کی وفات کے بعد آپ نے ریاضی کی کچھ کتب اپنے والد صاحب کے استاد محترم مولانا محمد نعمت اللہ (1290ھ) سے پڑھیں۔    
 
ا للہ تعالٰی نے مولانا عبد الحئی کو بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق عطا کیا تھا۔ انہوں نے ہو وہ کتاب پڑھائی جو انہوں نے پڑھی۔ حیران کن طور پر انہوں نے ہر مضمون میں ایک پراسرار مہارت پیدا کر لی تھی۔ کوئی بھی درسی کتاب ان کے لیے مشکل نہ رہی اس حد تک کہ وہ [[شرح الاشارات]] از [[خواجہ طوسی|طوسی]]، [[افق المبین]] اور [[قانونات طب]] وغیرہ اور  کسی بھی نئے مصنف کی کتاب پڑھا سکتے تھے جو انہوں نے پہلے نہ پڑھی ہو۔   
 
انہوں نے کچھ عرصہ [[حیدرآباد، دکن|حیدر آباد]] میں پڑھایا  ۔بعد ازاں آپ [[لکھنؤ]] چلے آئے جہاں آپ نے باقی عمر دین کی خدمت میں گزاری۔  
 
== کارہائےکا رہائے  علمی ==
مولانا [[ابو الحسن علی حسنی ندوی]] کے والد اور [[نزھۃ الخواطر]] کے مصنف مولانا عبد الحئی فخر الدین ندوی (1996ء تا 1923ء) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مولانا عبد الحئی کے بیانات میں کئی مرتبہ شرکت فرمائی اور ان کو بہت ذہین، فاضل، بحر علم،علم اور اس حد تک شرعی پیچیدگیوں پر مکمل عبور  رکھنے والا پایا کہ وہ ایک بین الاقوامی طور پر معرف عالم جانے گئے۔ جب بھی کوئی مباحثہ ہوتا تو مولانا عبدالحئیعبد الحئی تب تک خاموشی اختیار کیے رہتے جب تک کہ باقی علماءعلما اپنی اپنی آراء کا اظہار نہ کر لیتے اور آخر میں علماءعلما فیصلہ کن رائے کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے۔  ہر ایک مکمل رضامندی سے ان کا فیصلہ تسلیم کرتا تھا۔ وہ بھارت کے عجائب میں سے تھے اور ان کی نیکو کاری پر کسی ایک نے بھی کوئی اختلاف نہیں کیا۔     
 
ان کے طریقہ تدریس سے  طلباءطلبہ مکمل مطمئن تھے۔ ان کے استاد مولانا نعمت اللہ ان کی تعریف میں سخاوت فرمایا کرتے تھے۔ تصنیف سے اپنی شدید محبت کی بدولت انہوں نے کئی مضامین مثلاً عربی صرف و نحو، صوریات، منطق، فقہ اور حدیث وغیرہ پر سو(100) سے زیادہ کتب تصنیف کیں۔   
ان کے والد صاحب کی وفات کے بعد انہیں [[قاضی]] کا عہدہ پیش کیا لیکن انہوں نے پیشہ سے متعلق خطرات کے پیش نظر اور موجود پر قناعت کے باعث  قبول نہ فرمایا۔  وہ سمجھے کہ اگر انہوں نے پیش کش قبول کر لی تو یہ ان کے تدریسی اور تصنیفی کام میں رکاوٹ ڈالے گا۔  
 
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو سچے خوابوں کا تحفہ بھی دیا گیا تھا جس میں ان کو کچھ ہدایات بھی دی جاتی تھیں۔ آپ نے سیدنا [[ابوبکر]]، [[عمر]]، [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]]، [[فاطمہ زھرا|فاطمہ]]، [[عائشہ]]، [[ام حبیبہ]] اور [[معاویہ بن ابو سفیان|معاویہ]] رضوان اللہ علیھم اجمعین کی زیارت کی۔ انہیں خواب میں [[امام مالک]]، امام [[شمس الدین سخاوی]]، [[جلال الدین سیوطی|امام جلال الدین سیوطی]] اور دوسرے علماءعلما دین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین  کی زیارت ہوئی  اور ان سے کسب  فیض بھی کیا جسے انہوں نے  ایک الگ کتاب میں درج کیا ہے۔    
 
ایک کتاب بعنوان غیبت کیا ہے اس موضوع پر ان کی معروف تصنیف ہے۔ <ref>https://kitaabosunnat.wordpress.com/2011/11/13/gheebat-kya-hai-by-shaykh-abdul-hayy-lakhnavi-r-a</ref> 
 
== طریق  اجتہاد ==
اللہ پاک کی ان پر بے پناہ خصوصی عنایات میں سے ایک علم حدیث اورفقہ فی الحدیث میں دسترس اور کمال تھا۔ آپ فتویٰ جاری کرتے وقت ہمیشہ درمیانی راہ  کا انتخاب کرتے، قرآن اور حدیث سے دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے مجتہدین کی آراء کو قبول فرماتے۔ یہ طریقہ کار اس وقت کے [[حنفی]] علماءعلما میں فتویٰ کے  رائج طریقہ کار سے مختلف تھا۔ مولانا بھی مذہب حنفی سے ہی  استفادہ فرماتے تھے اسی وجہ سے آپ اپنے وقت کے علماءعلما میں [[مجتہد]] کے طور پر معروف ہوئے۔ <ref>http://haqislam.org/maulana-abdul-hayy-lucknawi</ref> 
 
== مقام بطور محدث  ==
مکہ مکرمہ  کے  مفتی  [[شیخ احمد بن زین دحلان]] نے انہیں [[برہان الدین مرغینانی]] کی تصنیف [[الہدایہ]] اور اپنے تمام اساتذہ سے سیکھی گئے تمام علوم کی روایت کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ مفتی محمد بن عبداللہعبد اللہ [[حنبلی]] مکی، شیخ محمد بن محمد غربی اور شیخ عبداللہعبد اللہ غنی دہلوی نے بھی انہیں مختلف اسناد کی  اجازت عطا فرمائی۔  
عالم حديث اورتراجم کے بہت ماہر تھے، فقہا حنفیہ کے اکابرین میں شمار کئےکیے جاتے ہیں۔
== وفات ==
آپ  ربیع  الاول [[1304ھ]] ([[1886ء]]) کو جوانی میں 39 سال کی عمر میں وفات پا گئے اور اپنے بزرگوں کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
 
== تصنیفات ==
سطر 49:
* فرحة المدرسين بأسماء المؤلفات والمؤلفين -
* طرب الأماثل بتراجم الأفاضل
* إنباء الخلان بأنباء علماءعلما هندستان<ref>موسوعہ فقہیہ ،جلد10 صفحہ 376، وزارت اوقاف کویت، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا</ref>
== حوالہ  جات ==
{{حوالہ جات}}