"اجتہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا |
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
||
سطر 1:
[[فائل:Grand Ayatollahs Qom فتوکلاژ، آیت الله های ایران-قم 02.jpg|تصغیر|330x330پکسل]]
[[شریعت]] اسلامیہ کی ایک اہم اصطلاح '''اجتہاد'''ہے ۔مخصوص شرائط کے ساتھ فقہی منابع میں سے عملی احکام اور وظائف کا استنباط کرنا '''اجتہاد''' کہلاتا ہے . انسان میں ایسی صلاحیت کا پایا جانا کہ جس کے ذریعے وہ اسلامی احکام کو اس کے مخصوص منابع اور مآخذوں سے اخذ کر سکے اس صلاحیت اور قابلیت کو '''اجتہاد''' کہا جا تا
قیاس استحسان وغیرہ کو اہل سنت نے اجتہادمیں داخل کر رکھا ہے جبکہ اہل تشیع کے یہاں قیاس استحسان اور تفسیر بالرائے کی گنجائش نہیں ہے
== لغوی معنی ==
اجتہاد کے لغوی معنی ہیں : کسی کام کی انجام دہی میں تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا۔ <ref>أبوحبيب، القاموس الفقهی : 71</ref>
گویا اجتہاد اس کوشش کو کہتے ہیں جو کسی کام کی تکمیل میں مشقت برداشت کرتے ہوئے کی جائے، اگر بغیر دقت اور تکلیف کے کوشش ہو گی تو اسے اجتہاد نہیں کہیں گے۔ مثلاً عرب یوں تو کہتے ہیں : فلاں نے بھاری پتھر اٹھانے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں کہتے کہ {{{اجتہد فلان فی حمل خردلۃ }}} فلاں نے رائی کا دانہ اٹھانے کی کوشش کی۔
== اصطلاحی معنی ==
علامہ زبیدی رح فرماتے ہیں :
## 2##
ترجمہ : اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو [[قیاس]] کے طریقے سے کتاب و سنّت کی طرف لوٹانا.<ref>تاج العروس : 2/330</ref>
## 3##
کسی [[فقیہ]] کا کسی حکم_شرعی_ظنی کو حاصل ([[استنباط]]) کرنے کے لیے اپنی (پوری) طاقت خرچ کرنا.<ref>المسلم الثبوت : 2/362</ref>
== اجتہاد کا شرعی حکم ==
جمہور مسلمین اجتہاد کی حجیت کے قائل ہیں، اجتہاد کی حجیت کتاب و سنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
## 4## <ref>4:59</ref>
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے '''"لوٹاؤ"''' اللہ (تعالیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ
اس آیت میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے : اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت"
مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا معلم (تعلیم دینے والا) اور حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں :
## 5## <ref>سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان;</ref>
ترجمہ: جب حضور اکرم
=== فقہی نکتے ===
1. قرآن میں سب مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں .
2. سنّت میں بھی "نئے پیش آمدہ" مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں، سو فقہ_دین (قرآن=9:122) کا انکار کرنے -والے غیر -مقلد عرف اہل_حدیث کا دعویٰ"قرآن-و-حدیث بس" صحیح نہیں .
3. اجتہاد تب کیا جائیگا جب اس
4. اجتہاد کا کرنے کا "اہل" ہر عامی(عام شخص) نہیں، بلکہ کوئی علمی-شخصیت کسی کے دینی علمی سمجھ میں گہرائی اور مہارت پرکھ لینے کے بعد تائیدی اجازت دے . چنانچہ اس سے مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہو حکم دینے کے لائق ہو اور جاہل کا حکم دینا درست نہیں، اگر وہ حکم کرے گا تو گناہگار ہوگا
5. شرعی فیصلہ/فتویٰ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن سے فیصلہ کیا جائیگا، نہ کے سنّت یا قیاس سے . قرآن کے بعد سنّت سے پھر قیاس سے .
6. جب یمن کے عربی عوام کو بلا واسطہ معلم (تعلیم دینے والا) اور قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے بذات خود قرآن و حدیث پڑھ سمجھکر عمل کرنے اور ہر ایک کا معلم (تعلیم دینے والا) اور قاضی (فیصلہ کرنے والا) بننے کی
== حوالہ جات ==
|