"اردو کی آخری کتاب (تصنیف)" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+صفائی (9.7) |
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
||
سطر 1:
{{اطلاع|غیر ضروری طویل اقتباسات کو نکال کر کتاب کے متعلق مواد شامل کرنے کی ضوورت ہے}}
”اردو کی آخری کتاب“محمد حسین آزاد کی” اردو کی پہلی کتاب “کی دلچسپ پیروڈی
آزاد کی اس کتاب پر ”پطرس بخاری“ ابن انشاءسے پہلے ہاتھ صاف کر چکے تھے۔ لیکن اُن کا نشانہ چند ابتدائی اسباق تھے اور دوسرا دونوں مزاح نگاروں کے نقطہ نظر میں واضح فرق ہے۔ پطرس کا نقطہ نظر محض تفریحی ہے جبکہ ابن انشاءمعاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو نشانہ بناتے ہیں اور اُ ن کا مقصد اصلا ح ہے۔
”اردو کی آخری کتاب“ 1980ءکے ہنگامی حالات کے پس منظر میں لکھے گئے روزنامچوں کا مجموعہ ہے اگرچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اخبار کی زندگی ایک روزہ ہوتی ہے اور صحافتی نثر ادبی نثر سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن ابن انشاءکا معاملہ برعکس ہے نہ تو سطحی کالم نویس تھے کہ ان کے کالم وقتی لحاظ سے تو جوش پیدا کرتے لیکن زمانے کی گرد انہیں ختم کر ڈالتی ہے اور نہ انھوں نے صحافتی زبان کو ادبی زبان میں ضم ہونے دیا۔ بلکہ اعتدال کے ساتھ عام قاری اور ادب کے طالب علم دونوں کو متاثر کیا۔
1970ء میں ملک جس سیاسی ابتری اور جوشیلی سیاست کا شکار تھا۔ اس کوایک حساس فنکار نے کس طرح محسوس کیا ہے اور برتنے کے لیے طنز و مزاح کا سانچہ اختیار کیاہے وہ قابل رشک ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کسی موقع پر ابن انشاءبھی اس ہنگامی
اردو کی آخری کتاب کا اسلوب رواں دواں اور سلیس ہے ابن انشاءنے آزاد کے انداز کو اپنانے کی کوشش کی ہے اور بنیادی طور پر ابن انشاءشاعرانہ مزاج کے حامل
مشتا ق احمد یوسفی جو خود بھی مزاح کے شہسوار ہیں ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں، ” بے شمار خوبصورت لیکن متروک اور بھولے بسرے الفاظ کوان کی رواں دواں نثر نے ایک نئی زندگی اور توانائی بخشی ہے اردو مزاح میں اُن کا اسلوب اور آہنگ نیا ہی نہیں ناقابل تقلید بھی
کتاب کی پیش کش کا انداز بہت ہی بہترین ہے کتاب کا ابھی ایک صفحہ بھی نہیں الٹا گیا اور مسکراہٹ قاری کے لبوں پر کھیلنے لگتی ہے۔ یہاں چند مثالیں دے کر اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ کتاب بے شمار مختلف اور
== طنزیہ اسلوب ==
کتاب کی سب سے اہم خصوصیت اس کا طنزیہ انداز بیان ہے ان کا طنز تلخ حقائق پر مبنی ہے لیکن اس میں تلخی
ابن انشاءکو مت پڑھ<br>
سطر 24:
ان کی اس تنبیہ کا اندازہ جلد ہونے لگتا ہے جب اسباق کے آخر میں اس قسم کے سوالات پوچھتے نظرآتے ہیں کہ<br>
”علم بڑی دولت ہے لیکن جس کے پاس علم ہوتا ہے اس کے پاس دولت کیوں نہیں ہوتی اور جس کے پاس دولت ہوتی ہے اس کے پاس علم کیوں نہیں ہوتا؟“<br>
کتاب کاآغاز ایک دعا سے ہوتا ہے اور دعا کایہ جملہ کہ ،<br> ”انسان وہی چیز مانگتا ہے جو اس کے پاس نہیں
سادگی و پرکاری کے ساتھ یہ بات ایک گہری معنی بھی رکھتی ہے اور یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم لوگ مادی اشیاءکے علاوہ روحانی پاکیزگی اور بالیدگی سے محروم ہو گئے
” پھر الگ ملک کیوں بنایا تھا غلطی ہوئی معاف کیجیے گا آئندہ نہیں بنائیں
کتاب کو پڑھ کر انکشاف ہوتا ہے کہ ابن انشاءکاسیاسی اور معاشرتی شعور کتنا پختہ اور متوازن ہے وہ کسی مخصوص نظریے کی عینک نہیں لگاتے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ منظر کو اُس رخ سے دیکھتے
== تمثیلی انداز رمزیہ انداز ==
اس کتاب کا انداز کہیں تمثیلی اور کہیں رمزیہ ہے اُن کا ہر حربہ اور تجربہ حد درجہ کامیاب
”چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اس مذہب کا بنیادی اصول
”ہمار اتمہار خدابادشاہ“ اور ”برکات حکومت انگلیشیہ “ میں ابن انشاءنے آزادی کے بعد بھی رہ جانے والی ناہمواروں کا بیان کیا ہے۔
== ریاضی کا حصہ ==
کتاب میں ریاضی کا حصہ بھی بہت دلچسپ ہے یہاں ابن انشاءکی طبیعت کی روانی قابل دید ہے جس سے مزاح کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ لیکن مزاح پیدا کرنے کی کوشش شعوری نظر نہیں
=== جمع ===
جمع کا قاعدہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہے عام لوگوں کے لیے ایک جمع ایک برابرڈیڑھ ہے کیونکہ آدھا انکم ٹیکس والے لے جاتے ہیں تجارت کے قاعدے سے ایک جمع ایک کا مطلب گیارہ ہے رشوت کے قاعدے سے حاصل جمع اور بھی زیادہ ہو جاتا
=== تقسیم ===
سطر 44:
=== الجبرا ===
حساب اعداد کا کھیل ہے الجبرا حرفوں کا ان میں سب سے مشہور حرف لا ہے جسے لہ کہتے ہیں بعض رشتوں میں الجبراء یعنی جبر کا شائبہ ہوتا
یہاں ابن انشاءکے ہاتھوں سے مزاح کا دامن چھوٹ گیا ہے اور و ہ اپنے طنز سے معاشرتی ناہمواریوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اُن کے لب و لہجے کی شگفتگی اور معصومیت نے قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھا ہے۔ اور اس طنز کو گوارا بنا دیا ہے۔
== تاریخ مغلیہ ==
کتاب کا سب سے کمزور حصہ ”تاریخ مغلیہ“ سے شروع ہوتا ہے جب ابن انشاءمکمل طور پر ہنگامی حالات کو موضوع ِ مزاح بناتے ہیں۔ اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ جب یہ اخباری کالم لکھے گئے ہوں گے تو بلا شبہ قارئین کے لیے ان میں غیر معمولی دلچسپی اور جاذبیت کا سامان تھا لیکن ادبی نقطہ نظر سے ایسی تحریروں میں زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایسے فن پاروں میں لطف کا کوئی سامان نہیں رہتا۔ مثلا اس حصے میں ”بادشاہ اکبر “ فیلڈ مارشل ایوب خان کو کہا گیا ہے۔ اور نورتن اُس دور کے مرکزی حکومت کے وزراءہیں۔ لیکن آج کے قاری کویہ باب سمجھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
== گرائمر ==
کتاب میں گرامر کا سبق ایک کامیاب پیروڈی ہے انداز بیان میں تلخی کا نام و نشان نہیں اور مزاح نگاروں کے حربوں میں سے زبان و بیان کی بازیگری سے کام لیا گیا
” فعل لازم وہ ہے جو کرنا لازم ہو مثلاً افسر کی
”فعل متعدی عموماً متعدی امراض کی طرح پھیل جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کنبہ پروری کرتا ہے دوسرے بھی کرتے
== کہانیاں ==
کتاب میں بچوں کے قدیم کہانیوں کو نئے نئے معنی پہنچائے گئے ہیں اور ڈھکے چھپے انداز میں مطلب کی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس سے قاری نہ صرف حظ اٹھاتا ہے بلکہ مقصد تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ مثلاً ”کچھوا اور خرگوش“ کی کہانی میں کچھوا اپنے عظیم ماضی کی یادوں میں کھو جاتا ہے اور اس طرح دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس میں مسلمان قوم کی خامی کو اجاگر کیاگیاہے۔ اسطرح ”ایک گرو کے دو
== قافیہ پیمائی ==
فنی لحاظ سے ابن انشاءنے جمالیاتی قدروں کو برتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے ایک خاص طریقہ قافیہ پیمائی کا تیا ر کیا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابن انشاءکو اردو نثر کے قدیم سرمائے سے نہایت دلچسپی رہی ہے اور بنیادی طور پر وہ ایک رومانی شاعر بھی
”جو زیادہ گنے کھائے گا شکر کی بیماری پائے گا سوئیاں لگوائے گا چلا ئے
”علم بڑی دولت ہے تو بھی سکول کھول، علم
”سبزی کا خیال
ابن انشاءکی یہ کتاب انسانی زندگی اور اس کے بے شمار پہلوئوں کا احاطہ
== جغرافیہ ==
جغرافیے کے اسباب میں کولمبس کا امریکہ دریافت کرنا ایک ایسا حادثہ قرار ددیا گیا
” کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی یعنی امریکہ دریافت
ابن انشاءنے ہندوستانی اور پاکستانی سیاست کو ایک ہی پس منظر میں دیکھا ہے اور مشرقی قومیں اپنی رہنمائوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتی اس پر گہرا طنز کیا ہے اُس زبردست تنقید کو گاندھی جی کے باب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
” ہمیں قائد اعظم کا ممنون ہونا چاہیے کہ خود ہی مرگئے سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کے لیے ایک جگہ پیدا کردی ورنہ ہمیں بھی گاندھی جی کی طرح ان کو مارنا
تاریخ کے حصے میں ابن انشاءکی چابکدستی قابل تعریف ہے اور بعض نکات کو ایک جملہ کے اضافے سے کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ مثلاً محمود غزنوی کے بارے میں لکھتے ہیں ”علامہ اقبال سے روایت ہے “ مثلاً<br>
”جب عین لڑائی میں وقت نماز آتا محمود و آیاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو
== سائنسی اصطلاحات ==
یہ ابن انشاءکی شوخی طبع کا خاصہ ہے کہ انھوں نے علم کے ہر شعبے کونہایت شگفتگی او ر اختصار کے ساتھ مزاح کے انداز میں پیش کیا ہے ریاضی کی طرح سائنسی اصطلاحات سے بھی بھر پور فائدہ اُٹھا یا ہے۔ مادہ کی قسم گیس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
” گرمیاں آتی ہیں تو کراچی کا محکمہ واٹر سپلائی پانی کے نلکوں میں گیس سپلائی کرنے لگتا ہے اس لیے غسل خانوں میں روٹی پکاتے اور باورچی خانوں میں (پسینہ میں ) نہاتے دیکھے جاتے
” کوئی شخص حکومت کی کرسی پر بیٹھ جائے تو اُس کے لیے اُٹھنا مشکل ہو جاتا ہے لوگ زبردستی اٹھاتے ہیں یہ بھی کشش ثقل کے باعث
== حکایات ==
ابن انشاءنے اس کتاب میں حکایات
== جانوروں اور پرندوں کا بیان ==
مختلف جانوروں اور پرندوں کا ذکر کرکے انسانوں کی خامیوں کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے جانور بن جانے سے بھی دریغ نہیں
”ایک کتا لیلیٰ کا بھی تھا لوگ لیلیٰ تک پہنچنے کے لیے اس پیار کرتے تھے اس کی خوشامد کرتے تھے جس طرح صاحب سیکرٹری یا چپڑاسی کی کرنی پڑتی
== مجموعی جائزہ ==
ابن انشاءنے عظمت خیال اور حساس تخیل کے ذریعے طنز و مزاح کو نیا انداز دیا ہے اور زندگی کے ہر پہلو سے انصاف کرنے کے پوری پوری کوشش کی ہے۔ ہمارے نثری ادب میں عمدہ مزاح نگاروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے اور ابن انشاءجیسی چلبلی نثر تو بالکل نایاب ہے ان کی شاندار پیروڈی ”اردو کی آخری کتاب“ میں ہماری ساری خود
[[سحر انصاری]] صاحب کا کہنا ہے کہ{{اقتباس| ابن انشاءکا مزاح لفظوں کا ہیر پھیر ، لطیفہ گوئی یا مضحک کرداروں کا رہین منت نہیں ہے بلکہ ان کا مزاح تخیل کی تخلیق ہے ۔}}
|