"اسٹیفن ہاکنگ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1:
{{Infobox scientist}}
 
'''اسٹیفن ہاکنگ''' {{دیگر نام | انگریزی = Stephen Hawking}} موجودہ دور کے مایہ ناز سائنسدانسائنس دان ہیں۔ انھیں گذشتہ صدی کا، [[البرٹ آئنسٹائن|آئن سٹائن]] کے بعد دوسرا بڑا سائنسدانسائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا زیادہ تر کام ثقب اسور یعنی [[ثقب اسود|بلیک ہولز]]، تھیوریٹیکل کاسمولوجی ([[علم الکائنات|کونیات]]) کے میدان میں ہے۔ ان کی ایک کتاب، [[وقت کی مختصر تاریخ]] یعنی [[A brief History of Time]] ایک شہرہ آفاق کتاب ہے جسے ایک انقلابی حیثیت حاصل ہے۔ یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی ایک نہایت اعلیٰ پائے کی کتاب ہے جس سے ایک عام قاری سے لیکر اعلیٰ تریں محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ وہ ایک خطرناک بیماری سے دو چار ہیں اور کرسی سے اٹھ نہیں سکتے، ہاتھ پاؤں نہیں ہلا سکتے اور بول نہیں سکتے۔ لیکن وہ دماغی طور پر صحت مند ہیں اور بلند حوصلگی کی وجہ سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اسے صفحے پر منتقل کرنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر، کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہیں۔انہیں۔ ان کی يۂ بیماری ان کو تحقيق کر نے سے نہیں روک سکتی۔
 
== حالات زندگی ==
 
شاید وہ شخص جس نے اپنے آپ کو بلیک ہول اور ٹائم مشین سے متعلق ریاضی کی موٹی موٹی مساوات سے سب سے زیادہ ممتاز کیا ہے وہ ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ ہے۔ اضافیت کے دوسرے طالبعلموں کی طرح جنہوں نے اکثر اپنے آپ کو ریاضیاتی طبیعیات میں اپنے عہد شباب میں ہی ممتاز منوا لیا تھا ،تھا، ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھا۔ بظاہر طور پر وہ انتہائی روشن ہونے کے باوجود اس کے استاد اکثر اس بات کو نوٹ کرتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس نے کبھی بھی اپنی پوری قابلیت کا استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر ایک 1962ء میں نقطۂ انقلاب آیا ۔آیا۔ اس نے آکسفورڈ سے جب سند حاصل کی اس کے بعد پہلی دفعہ اس نے بغلی دماغ کی خشکی یا لو گیرگ بیماری(Amyotrophic lateral sclerosis, or Lou Gehrig’s Disease) کی علامات کو محسوس کیا۔ اس خبر نے اس پر بجلی گرا دی جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ موٹر نیوران جیسے ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ مرض ان عصبانیوں کو تباہ کر دے گا جو اس کے جسم کے تمام حرکت دینے والے افعال کو قابو میں رکھتے ہیں نتیجتاً وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہے گا اور جلد ہی دار فانی سے کوچ کر جائے گا۔ شروع میں تو یہ خبر انتہائی دل گرفتہ تھی۔ پی ایچ ڈی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا جب اس نے جلد ہی مر جانا تھا ؟تھا؟
 
ایک دفعہ جب اسے یہ جھٹکا مل گیا تو پھر اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی توجہ کو ایک جگہ مرتکز کر لیا ،لیا، اس نے اضافیت کے انتہائی مشکل سوالات سے نمٹنا شروع کر دیا۔197٠ءدیا۔ 197٠ء کی دہائی کے شروع میں ہی اس نے اپنے امتیازی مقالوں کے سلسلے کو شایع کروانا شروع کیا جس میں اس نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آئن سٹائن کے نظریہ میں "وحدانیت "(جہاں ثقلی قوّت لامتناہی بن جاتی ہے ،ہے، جیسے کہ کسی بلیک ہول کے مرکز میں اور بگ بینگ کی ساعت کے وقت ہوا تھا ) اضافیت کا ایک ناگزیر حصّہ ہے اور اس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا (جیسا کہ آئن سٹائن سمجھتا تھا)۔1974ء میں ہاکنگ نے اس بات کو بھی ثابت کر دیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں ،ہیں، وہ بتدریج شعاعوں کا اخراج کر رہے ہیں جس کو اب ہاکنگ کی اشعاع کہتے ہیں کیونکہ اشعاع بلیک ہول کے ثقلی میدان سے بھی گزر کر نکل سکتی ہیں۔ اس مقالے نے پہلی دفعہ کوانٹم نظریہ کے عملی اظہار کو نظریہ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا اور یہ ابھی تک اس کا سب سے شاندار کام ہے۔
 
جیسا کہ امید تھی ویسا ہی ہوا ۔ہوا۔ اس کی بیماری نے آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ ،ہاتھ، پیر اور زبان کو مفلوج کر دیا۔ لیکن بیماری کے اثر کی شرح اس سے کہیں سست رفتار تھی جتنی کہ ڈاکٹروں کو شروع میں امید تھی۔ اس کے نتیجے میں اس نے کئی حیرت انگیز سنگ میل عبور کر لیے جو عام لوگ عام زندگی میں حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً وہ تین بچوں کا باپ بن گیا۔ (اب تو وہ دادا بھی بن گیا ہے۔ ) اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد اس نے چار سال بعد اس شخص کی بیوی سے شادی کر لی جس نے اس کے لیے آواز کو پیدا کرنے والا آلہ بنایا تھا۔ بہرحال اپنی اس بیوی کو بھی اس نے 2٠٠6ء میں طلاق دینے کے لیے دستاویز کو جمع کروا دیا ہے۔ 2٠٠7ء میں اس نے اس وقت شہ سرخیوں میں جگہ حاصل کی جب وہ غیر ملک ایک جیٹ طیارے میں گیا جس نے اس کو بے وزنی کی حالت میں فضاء میں بلند کیا اور یوں اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو گئی۔ اب اس کا اگلا مقصد خلا میں جانا ہے۔
<blockquote>
اسٹیفن ہاکنگ کا اگلا مقصد خلا میں جانا ہے۔
</blockquote>
آج تو وہ مکمل طور پر اپنی ویل چیئر پر مفلوج ہے اور دنیا سے اس کا رابطہ صرف آنکھوں کے اشاروں سے رہتا ہے۔ اس مار دینے والی بیماری کے باوجود وہ اب بھی مذاق کرتا ہے ،ہے، مقالات لکھتا ہے ،ہے، لیکچروں کو دیتا ہے اور مختلف قسم کے تنازعات میں الجھا رہتا ہے۔ وہ اپنے آنکھوں کے اشاروں کے ساتھ ان سائنس دانوں کی ٹیم کی بہ نسبت جن کو اپنے اوپر پورا قابو ہے کہیں زیادہ کام کا ہے ۔ (اس کے کیمبرج یونیورسٹی کے رفیق سر مارٹن ریس ہیں جن کو ملکہ نے شاہی فلکیات دان نامزد کیا ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہاکنگ کی بیماری اس کو تھکا دینے والے اعداد شمار کے حساب کتاب سے دور رکھتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اس کھیل میں اپنے آپ کو سر فہرست نہیں رکھ سکا لہٰذا اب وہ نئے اور تازہ خیالات کو تخلیق کرنے میں اپنی ساری توجہ صرف کیے ہوئے ہے جبکہ مشکل اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں اس کے طالبعلم ہی اس کی مدد کرتے ہیں۔ )
== کارہائےکا رہائے نمایاں ==
199٠ء میں ہاکنگ نے جب اپنے رفقائے کاروں کے مقالات کا مطالعہ کیا جس میں ٹائم مشین کو بنانے کا ذکر تھا تو وہ فوری طور پر اس بارے میں متشکک ہو گیا۔ اس کے وجدان نے اس کو بتایا کہ وقت میں سفر کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ مستقبل سے آیا ہوا کوئی بھی مسافر موجود نہیں ہے۔ اگر وقت کا سفر کرنا اتنا آسان ہوتا کہ جیسے کسی سیر و تفریح پر جانا تو مستقبل سے آئے ہوئے سیاح اپنے کیمروں کے ساتھ ہمیں تنگ کرنے کے لیے یہاں موجود ہوتے اور ہمارے ساتھ تصاویر کھنچوانے کی درخواست کر رہے ہوتے۔
 
ہاکنگ نے ایک چیلنج دنیائے طبیعیات کو بھی دیا۔ ایک ایسا قانون ہونا چاہیے جو وقت کے سفر کو ناممکن بنا دے۔ اس نے وقت کے سفر سے روکنے کے لیے قوانین طبیعیات کی طرف سے ایک "نظریہ تحفظ تقویم" (Chronology Protection Conjecture) پیش کیا ہے تاکہ "تاریخ کو مورخوں کی دخل اندازی سے بچایا جا سکے "۔