"سورہ الشعرآء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 17:
}}
 
[[قرآن|قرآن مجید]] کی 26 ویں سورت، جس میں 11 رکوع اور 227 آیات ہیں۔
 
==نام==
 
آیت 224 '''{{ع}} والشعرآء{{پیش}} یتبعھم الغاون {{ف}}''' سے ماخوذ ہے۔
 
==زمانۂ نزول==
 
==== مزید دیکھیے : [[الشعراء آیت 197]]، [[الشعراء آیت 224 تا 227]] ====
مضمون اور انداز{{زیر}} بیاں سے محسوس ہوتا ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں کہ اس سورت کا زمانۂ نزول [[مکہ]] کا دور{{زیر}} متوسط ہے۔ [[ابن عباس]] {{رض مذ}} کا بیان ہے کہ پہلے [[سورۂ ط{{ا}}ہ{{ا}}]] نازل ہوئی پھر واقعہ اور اس کے بعد الشعرآء۔ <ref>روح المعانی جلد 19 صفحہ 64</ref> اور سورۂ ط{{ا}}ہ{{ا}} کے متعلق یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت [[عمر {{رض مذ}}]] کے قبول{{زیر}} اسلام سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔
 
==موضوع اور مباحث==
 
تقریر کا پس منظر یہ ہے کہ کفار مکہ [[حضرت محمد {{درود}}]] کی تبلیغ و تذکیر کا مقابلہ پیہم جحود و انکار سے کر رہے تھے اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشے چلے جاتے تھے۔ کبھی کہتے کہ تم نے ہمیں کوئی نشانی تو دکھائی ہی نہیں، پھر ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم نبی ہو۔ کبھی آپ کو شاعر اور کاہن قرار دے کر آپ کی تعلیم و تلقین کو باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے۔ اور کبھی یہ کہہ کر آپ کے مشن کا استخفاف کرتے کہ ان کے پیرو یا تو چند نادان نوجوان ہیں،ہیں یا پھر ہمارے معاشرے کے ادنی{{ا}} طبقات کے لوگ، حالانکہ اگر اس تعلیم میں کوئی جان ہوتی تو اشراف{{زیر}} قوم اور شیوخ اس کو قبول کرتے۔ نبی {{درود}} ان لوگوں کو معقول دلائل کے ساتھ ان کے عقائد کی غلطی اور [[توحید]] و معاد کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتے کرتے تھکے جاتے تھے، مگر وہ ہٹ دھرمی کی نت نئی صورتیں اختیار کرتے نہ تھکتے تھے۔ یہی چیز آنحضور{{درود}} کے لیے سوہان{{زیر}} روح بنی ہوئی تھی اور اس غم میں آپ کی جان گھلی جاتی تھی۔
 
ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ تم ا{{زیر}}ن کے پیچھے اپنی جان کیوں گھلاتے ہو؟ ان کے ایمان لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی نشانی نہیں دیکھی ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم ہیں، سمجھانے سے نہیں ماننا چاہتے، کسی ایسی نشانی کے طالب ہیں جو زبردستی ان کی گردنیں جھکا دے،دے اور وہ نشانی اپنے وقت پر جب آ جائے گی تو انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ جو بات انہیں سمجھائی جا رہی تھی وہ کیسی بر حق تھی۔ اس تمہید کے بعد دسویں رکوع تک جو مضمون مسلسل بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ طالب{{زیر}} حق لوگوں کے لیے تو خدا کی زمین پر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر وہ حقیقت کو پہچان سکتے ہیں، لیکن ہٹ دھرم لوگ کبھی کسی چیز کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے ہیں، نہ آفاق کی نشانیاں دیکھ کر اور نہ انبیاءانبیا کے معجزات دیکھ کر۔ وہ تو ہمیشہ اس وقت تک اپنی ضلالت پر جمے رہے ہیں جب تک کہ خدا کے عذاب نے آ کر ان کو گرفت میں نہیں لے لیا ہے۔ اسی مناسبت سے تاریخ کی سات قوموں کے حالات پیش کیے گئے ہیں جنہوں نے ا{{پیش}}سی ہٹ دھرمی سے کام لیا تھا جس سے کفار مکہ کام لے رہے تھے۔ اس اسی تاریخی بیان کے ضمن میں چند باتیں ذہن نشین کرائی گئی ہیں۔
 
اول یہ کہ نشانیاں دو طرح کی ہیں۔ ایک قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو خدا کی زمین پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ ہر صاحب{{زیر}} عقل آدمی تحقیق کر سکتا ہے کہ نبی جس چیز کی طرف بلا رہا ہے وہ حق ہے یا نہیں۔ دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو [[فرعون]] اور اس کی قوم نے دیکھیں، [[قوم نوح]] نے دیکھیں، [[عاد]] اور [[ثمود]] نے دیکھیں، [[قوم لوط]] اور [[اصحاب الایکہ]] نے دیکھیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا خود کفار کا اپنا کام ہے کہ وہ کس قسم کی نشانیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔
 
دوم یہ کہ ہر زمانے میں کفار کی ذہنیت ایک سی رہی ہے۔ ان کی حجتیں ایک ہی طرح تھیں۔ ان کے اعتراضات یکساں تھے۔ ایمان نہ لانے کے لیے ان کے حیلے بہانے یکساں تھے۔ اور آخر کار ان کا انجام بھی یکساں رہا۔ اس کے برعکس ہر زمانے میں انبیاءانبیا کی تعلیم ایک تھی۔ ان کی سیرت و اخلاق کا رنگ ایک تھا۔ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں ان کی دلیل و حجت کا انداز ایک تھا۔ اور ان سب کے ساتھ اللہ کی رحمت کا معاملہ بھی ایک تھا۔ یہ دونوں نمونے تاریخ میں موجود ہیں۔ کفار خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی اپنی تصویر کس نمونے سے ملتی ہے اور محمد {{درود}} کی ذات میں کس نمونے کی علامات پائی جاتی ہیں۔
 
تیسری بات جو بار بار دہرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا زبردست، قادر و توانا بھی ہے اور رحیم بھی۔ تاریخ میں اس کے قہر کی مثالیں موجود ہیں اور رحمت کی بھی۔ اب یہ بات لوگوں کو خود طے کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے رحم کا مستحق بناتے ہیں یا قہر کا۔
 
آخری رکوع میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم لوگ اگر نشانیاں ہی دیکھنا چاہتے ہو تو آخر وہ خوفناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں۔ اس قرآن کو دیکھو جو تمہاری اپنی زبان میں ہے، [[محمد {{درود}}]] کو دیکھو، ان کے ساتھیوں کو دیکھو، کیا یہ کلام کسی شیطان کا جن کا کلام ہو سکتا ہے؟ کیا اس کلام کا پیش کرنے والا تمہیں کاہن نظر آتا ہے؟ کیا محمد {{درود}} اور ان کے [[اصحاب]] رضوان اللہ علیہم اجمعین تمہیں ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے شاعر اور ان کے ہم مشرب ہوا کرتے ہیں؟ ضدم ضدا کی بات دوسری ہے، مگر اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھو کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں۔ اگر دلوں میں تم خود جانتے ہو کہ کہانت اور شاعری سے اس کا کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے تو پھر یہ جان لو کہ تم ظلم کر رہے ہو اور ظالموں کا سا انجام دیکھ کر رہو گے۔
 
{{سورت