"الکافرون" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م (خودکار درستی+صفائی (9.7)) |
م (درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی) |
||
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
* قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾
آپ (ان کافروں سے ) کہہ دیجیئے کہ اے کافرو (میرا اور تمہارا طریقہ متحد نہیں ہو سکتا اور)۔ (1)
* لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾
اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرو گے۔ (5)
* لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾
تم کو تمہارا بدلہ ملے گا اور مجھ کو میرا بدلہ ملے گا۔ (6) <h2>شماریات</h2>سورہ الکافرون میں 6 آیات، 26 کلمات اور 94 حروف ہیں۔ <ref>امام خازن: تفسیر الخازن، جلد 4 صفحہ 485۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1424ھ۔</ref> 1 رکوع ہے۔
== نام ==
پہلی ہی آیت قل یایھا الکٰفرون کے لفظ الکافرون کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضر حسن بصری اور عکرمہ کہتے ہیں کہ یہ سورت مکی ہے، حضرت عبد اللہ زبیر کہتے ہیں کہ مدنی
تاریخی پس منظر
مکۂ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی {{درود}} کی دعوتِ اسلام کے خلاف قریش کے مشرک معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہو چکا تھا، لیکن ابھی قریش کے سردار اِس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضور {{درود}} کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا۔ اس لیے وقتاً فوقتاس وہ آپ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تاکہ آپ اُن میں سے کسی کو مان لیں اور وہ نزاع ختم ہو جائے جو آپ کے اور اُن کے درمیان رونما ہو چکی تھی۔ اس سلسلے میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں :
حضرت عبد اللہ بن عباس {{رض مذ}} کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ {{درود}} سے کہا ہم آپ کو اتنا مال دیے دیتے ہیں کہ آپ مکہ کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن جائیں، آپ جس عورت کو پسند کریں اس سے آپ کی شادی کیے دیتے ہیں، ہم آپ کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہیں، آپ بس ہماری یہ بات مان لیں کہ ہمارے معبودوں کی برائی کرنے سے باز
سعید بن میناء (ابو البحتری کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن المطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ {{درود}} سے ملے اور آپ سے کہا "اے محمد، آؤ ہم تمہارے معبود کی عبادت کرتے ہیں اور تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو اور ہم اپنے سارے کاموں میں تمہیں شریک کیے لیتے ہیں۔ اگر وہ چیز جو تم لے کر آئے ہو اُس سے بہتر ہوئی جو ہمارے پاس ہے تو ہم تمہارے ساتھ اُس میں شریک ہوں گے اور اپنا حصہ اُس سے پا لیں گے۔ اور اگر وہ چیز جو ہمارے پاس ہے اُس سے بہتر ہوئی جو تم لائے ہو تو تم ہمارے ساتھ اس میں شریک ہو گے اور اس سے اپنا حصہ پا لو گے۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ وحی نازل فرمائی قل یایھا الکٰفرون حوالہ ابن جریر و ابن ابی حاتم۔ ابن ہشام نے بھی سیرت میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ {{درود}} سے کہا اگر آپ پسند کریں تو ایک سال ہم آپ کے دین میں داخل ہو جائیں اور ایک سال آپ ہمارے دین میں داخل ہو جایا کریں حوالہ عبد بن حمید۔ ابن ابی حاتم
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک ہی مجلس میں نہیں بلکہ مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر کفارِ قریش نے حضور {{درود}} کے سامنے اس قسم کی تجویزیں پیش کی تھیں اور اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک دفعہ دو ٹوک جواب دے کر اُن کی اِس امید کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے کہ رسول اللہ {{درود}} دین کے معاملے میں کچھ دو اور کچھ لو کے طریقے پر اُن سے کوئی مصالحت کر لیں گے۔
موضوع اور مضمون
اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مذہبی رواداری کی تلقین کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ آج کل کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں، بلکہ اِس لیے نازل ہوئی تھی کہ کفار کے دین اور ان کی پوجا پاٹ اور ان کے معبودوں سے قطعی براءت، بیزاری اور لا تعلقی کا اعلان کر دیا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ دینِ کفر اور دینِ اسلام ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں، اُن کے باہم مل جانے کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات اگرچہ
رسول اللہ {{درود}} کی نگاہ میں اِس سورت کی کیا اہمیت تھی، اس کا اندازہ ذیل کی چند احادیث سے کیا جا سکتا ہے :
حضرت عبد اللہ بن عمر {{رض مذ}} کی روایت ہے کہ میں نے بار ہا حضور {{درود}} کو فجر کی نماز سے پہلے اور مغرب کی نماز کے بعد کی دو رکعتوں میں قل یایھا الکٰفرون اور قل ھو اللہ احد پڑھتے دیکھا ہے۔ (اس مضمون کی متعدد روایات کچھ لفظی اختلافات کے ساتھ امام احمد، ترمذی، نسائی ابن ماجہ، ابن حبان اور ابن مردویہ نے ابن عمر {{رض مذ}} سے نقل کی ہیں)۔
حضرت خباب {{رض مذ}} کہتے ہیں کہ نبی {{درود}} نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹو تو قل یایھا الکٰفرون پڑھ لیا کرو" حوالہ ابو یعلٰی طبرانی
|