"ایران عراق جنگ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 27:
[[ایران]] [[عراق]] جنگ کا باعث [[شط العرب|دریائے شط العرب]] ہے۔ مگر بعض مبصرین کے خیال میں شط العرب کو محض ایک بہانہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور عراق نے امریکہ کی ایما پر ایران پر حملہ کیا۔ اس دریا کے علاقے میں [[ایران]] [[عراق]] سرحد کا تعین کرنے کے لیے ایران اور [[سلطنت عثمانیہ|خلافت عثمانیہ]] کے مابین [[1823ء]] میں [[ارض روم]] میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس پر بوجوہ عمل نہ ہو سکا۔ [[1847ء]] میں ایک دوسرے معاہدے ([[ارض روم]] [[ترکی]]) کے ذریعے [[ایران]] نے [[سلیمانیہ]] کا علاقہ [[سلطنت عثمانیہ|خلافت عثمانیہ]] کی تحویل میں دے دیا۔ جبکہ [[ایران]] کو [[محمرہ]] ([[خرم شہر]]) اور [[خضر علیہ السلام|خضر]] ([[آبادان]]) اور [[شط العرب]] کی مشرقی آبادیاں دے دی گئیں۔ تاہم ایران کو بھی اس دریا میں جہاز رانی کا حق دے دیا گیا۔ [[1911ء]] میں تہران میں ایران اور عراق کے مابین یہ طے پایا کہ دونوں ملک سرحدوں کی نشاندہی کے سلسلے میں مشترکہ کمیشن قائم کریں لیکن یہ کمیشن بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا۔
=== معاہدہ استبنول ===
بالاخر [[ترکی]]، [[روس]] اور [[برطانیہ]] کی کوششوں سے [[17 نومبر]] [[1913ء]] کو [[استنبول]] کے مقام پر [[ایران]] اور [[سلطنت عثمانیہ]] کے مابین ایک معاہدہ طے پایا۔ جس کی رو سے برطانیہ، روس، سلطنت عثمانیہ اور ایران کے نمائندوں پر مشتمل چار رکنی کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ کمیشن نے ایک سال کی کوششوں کے بعد اکتوبر 1914ء میں ایران اور عراق کے مابین سرحدوں کا تعین کیا۔نتیجےکیا۔ نتیجے کے طور پر [[محمرہ]] کی بندرگاہ کے نواح میں دریا کے وسط میں سرحد قائم کی گئی اور فوری طور پر بندرگاہ کا نظم و نسق عراق کے حوالے کر دیا گیا۔
==== منسوخی اور اقوام انجمن ====
[[1932ء]] میں [[ایران]] میں جب [[رضا شاہ پہلوی]] کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے [[1913ء]] اور [[1914ء]] میں ہونے والے معاہدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ [[عراق]] نے اس مسئلے کو [[جمعیت الاقوام|انجمن اقوام]] (League of Nations) میں پیش کر دیا۔ [[جمعیت الاقوام|جمعیت اقوام]] نے مشورہ دیا کہ دونوں ممالک اس مسئلے کو آپس میں مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ چنانچہ دونوں ممالک کے مابین [[4 جولائی]] [[1937ء]] کو ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ جس میں [[1913ء]] اور [[1914ء]] کے معاہدوں کو دوبارہ تسلیم کر لیا گیا۔ [[1937ء]] میں یہ معاہدہ نافذ العمل ہوا۔
 
== 1937ء کے معاہدہ سے انکار اور الجزائر کی مداخلت ==
[[9 اپریل]] [[1969ء]] میں [[ایران]] نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے ([[1937ء]]) کو ماننے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ چھ سال بعد [[5 مارچ]] [[1975ء]] کو [[الجزائر]] کے دار الحکومت میں [[الجزائر]] کے صرد [[بومدین]] کی نگرانی میں دونوں ملکوں کے مابین ایک معاہدہ طے پایا۔ گواہ کے طور ہر الجزائر کے صدر نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے اہم نکات یہ تھے
 
[[فائل:Jang2.jpg|بائیں|تصغیر|240px|ایران فوجی جنگ کے شمالی محاذ ہر CH-47 Chinook ہیلی کاپٹر سے اتر رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں صرف ایران کا نقصان 350 بلین امریکی ڈالر تھا۔]]
 
:* 1937ء میں لندن میں ہونے والے معاہدے (معاہدہ لندن) کو منسوخ تصور کیا جائے۔ ( اس معاہدے میں شط العرب پر ایرانی حاکمیت کی نفی کی گئی تھی۔ )
 
:* 1913ء کا معاہدہ جو میثاق استنبول کے نام سے مشہور ہوا تھا اور خلافت عثمانیہ اور سلطنت قاچار کے مابین طے پایا تھا دوبارہ بحال تصور ہوگا۔
 
:* معاہدہ استنبول کے تحت ایران اور عراق کے درمیان جن سرحدوں کا تعین کیا گیا تھا وہ درست تصور کی جائیں گی ار نیا سرحدی کمیشن اسی معاہدے کے مطابق حد بندی کرے گا۔
 
:* [[ایران]] میں عرب [[کرد|کردوں]] کا داخلہ بند کر دیا جائے گا۔
 
:* [[ایران]] اور [[عراق]] ملکر پورے خطے کو بیرونی یعنی غیر ملکی اثرات سے محفوظ رکھيں گے۔
 
:* [[ایران]] کی جانب سے کردوں کی مالی امدار بند کر دی جائے گی۔
 
:* کسی مسلے کی صورت میں [[الجزائر]] کے صدر کی جانب رجوع کیا جائے گا۔
 
:* دونوں ملکوں میں سے کسی نے بھی اس کی خلاف ورزی کی تو یہ معاہدہ نا قابل عمل تصور کیا جائے گا۔
 
=== 1975معاہدے کی خلاف ورزی ===
[[فائل:Saddam7.jpg|تصغیر|بائیں|180px|[[22 ستمبر]] ،[[1980ء]] کو [[ایران]] پر حملہ کرنے کے بعد [[صدام حسین]] نے شیخی بگھاری کہ وہ 3 دن میں تہران پر قبضہ کر لیں گے .]]
:[[محمد رضا شاہ پہلوی]] کے دور تک اس کی خلاف ورزی نہ کی گئی لیکن [[ستمبر]] [[1980ء]] میں عراقی فوجوں نے مشترکہ سرحد عبور کر کے [[1975ء]] کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کر دیا۔ اور اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
 
=== [[اقوام متحدہ]] کی کوششیں ===
اس دوران [[سلامتی کونسل]] نے قرار دادقرارداد نمبر 479 کے ذریعے دونوں ممالک سے جنگ بندی کی درخواست کی۔ اس کے لیے عراق کے صدر [[صدام حسین]] نے یہ شرائط پیش کیں
 
:* [[ایران]] [[عراق]] کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔
:* [[شط العرب]] پر [[عراق]] کا حق تسلیم کیا جائے۔
:* ایران [[آبنائے ہرمز]] پر واقع تین جزیروں [[تنب اکبر]]، [[تنب اصغر]] اور [[جزیرہ ابو موسی]] کو عرب ریاستوں کو واپس کر دے جن پر اس نے [[1971ء]] میں قبضہ کر لیا تھا۔
 
=== اسلامی ممالک کی تنظیم کی کوششیں ===
[[ایران]] نے بھی اس وقت جنگ بند نہ کرنے کا اعلان کیا۔ پھر [[امہ امن کمیٹی]] (اسلامی ممالک کی تنظیم کے ذیلی ادارے) نے بھی چار نکاتی امن منصوبہ بیش کیا جس میں کہا گیا تھا:۔
 
:* دونوں ممالک فورا جنگ بند کریں۔
:* امن عامہ کی صورت حال کے بارے میں بین الاقوامی ضمانت حاصل کی جائے۔
:* عراقی فوجیوں کی ایرانی سر زمین سے واپسی اور
:* اسلامی کانفرنس کے زیر اہتمام مذاکرات ہوں۔
 
[[غیر جانبدار ممالک]] کی تنظیم نے بھی جنگ بندی کروانے کی کوششیں کیں۔
 
== عراقی فوجیوں کا انخلاء ==
بعد ازاں کسی شرط کے بغیر [[عراق]] نے مقبوضہ علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا لیکن [[ایران]] نے عراق کی اس پیش کش کو مسترد کر دیا اور یہ شرائط پیش کیں
* ایرانی سر زمین سے تمام عراقی فوجی نکال لیے جائیں۔
* عراق خود کو جارحیت کا مرتکب قرار دے
* عراق ایران جنگ جت نقصانات کا تاوان ادا کرے اور
* صدر [[صدام حسین]] کو صدارت سے علاحدہ کیا جائے۔
 
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عراق نے پہلی تین شرائط مان لی ہیں لیکن چوتھی کو تسلیم نہیں کیا۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین جنگ بند کروانے کی مثبت کوششیں نہ ہو سکیں اور یہ تنازعہتنازع پہلے سے کہیں زیادہ خونی شکل اختیار کر گیا۔
 
== اقوام متحدہ کی قرار دادقرارداد نمبر 598 ==
بعد ازاں 20 جون 1987ء کو [[اقوام متحدہ]] کی [[سلامتی کونسل]] کے پانچ مستقل اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جو ملک جنگ بندی کو قبول نہیں کرے گا اس کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی جائے گی۔ بات چیت کی روشنی میں قرار دادقرارداد نمبر 598 منظور کی گئی جس میں دونوں ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ:۔
 
:* وہ اپنی فوجیں بین الاقوامی سرحدوں پر واپس لے جائیں۔
:* مبصروں کی ایک ٹیم مقرر کی جائے جو جنگ بندی کے عمل کی نگرانی کرے۔
:* دونوں ممالک [[اقوام متحدہ]] کے سیکرٹری جنرل سے تعاون کریں۔
:* دوسرے ممالک سے بھی کہا گیا کہ وہ جنگ بندی کے لیے کوششیں کریں۔
 
=== ایران کا رد عمل ===
[[ایران]] نے اس قرار دادقرارداد کو مسترد کر دیا۔ ستمبر [[1987ء]] میں [[اقوام متحدہ]] کے سیکرٹری جنرل [[پیرز ڈی کوئیا]] نے ایران کے حکام کے ساتھ مذاکرات کیے جن کے نتیجے میں ایران نے نومبر [[1987ء]] میں جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کر دی۔ جبکہ جنوری اور فروری [[1988ء]] میں جنگ نے پھر شدت اختیار کر لی۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے دارالحکومتوں پر ميزائل داغے جس سے متعدد شہرى ہلاک ہوئے۔ جون 1988ء میں ایران نے جنوبی عراق پر حملے کیے۔
 
== مستقل جنگ بندی ==
تاہم [[18 جولائی]] [[1988ء]] میں [[ایران]] نے ڈرامائی طور پر جنگ بندی پر رضامندی کا اظہار کیا۔ چنانچہ 8 اگست 1988ء کو دونوں ممالک میں جنگ بندی ہوگئی۔ہو گئی۔ بعد ازاں تنازعات کے حل کے لیے [[جنیوا]] میں مذاکرات ہوئے جو ناکام رہے۔ یہ جنگ دس سال تک جاری رہى جس میں دونوں اطراف سے کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
 
== مزید دیکھیے ==