"فلمی ہدایت کار" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1:
{{خانہ معلومات پیشہ/عربی|}}
فلم ہدایتکار فلم کی ہدایتکاری کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ہدایتکار فلم کے سکرپٹ کی تیاری، تشکیل اور نگرانی کرنے کے علاوہ فنی عملےاورعملے اور اداکاران کو ہدایت دینے کے علاوہ فلم کی ڈرامائی اور جمالیاتی شکل کو تشکیل دیتا ہے۔
== نوعیت کار ==
فلمی ہدایتکار کا کام فلم کا ایک مجموعی خاکہ ترتیب دینا ہوتا ہے۔جسہے۔ جس کے لیے اسے فلم کے فنی و تکنیکی پہلوؤں کے علاوہ فلمبندی اور دیگر فلمبندی کے اوقات کار کا بھی تعین کرنا ہوتا ہے۔ جس کے لیے اسے ایسے عملے کو بھی چننا ہوتا ہے جو اس کے خواب کو تعبیر دینے میں مددگار ثابت ہو سکے۔چونکہسکے۔ چونکہ فلم ہدایتکار کو فلم کے تمام عملے کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، لہذا اس میں ایک راہنما کی خصوصیات بدفجہ اتم ہونا ضروری ہوتی ہیں تاکہ وہ عملے میں پیدا ہونت والے کسی ممکنہ قضیئے کو نپٹا سکے، ان کو ایک مشترکہ تخلیقی عمل میں بہتر انداز سے شریک کر سکے۔ فلم ہدایتکار کو ایک بحری جہاز کے کپتان سے بھی تشبہیہ دی جاتی ہے جو دوسرے عملے کی مدد سے ایک منزل کے حصول کے لیے نکلتا ہے۔فلمہے۔ فلم ہدایتکار کا تعلق صرف عملے اور اداکاروں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے فلمساز کے ساتھ بھی بہت نزدیکی رابطے میں رہنا پڑتا ہے تاکہ فلم کی لاگت مہیا بجٹ سے باہر نہ جائے۔
 
== تربیت و تعلیم ==
سطر 8:
 
== پاکستانی فلم ==
[[پاکستان]] میں جہاں فلم اسکول نہیں ہے، وہیں فلمی صنعت میں غیر تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت ہونے کی وجہ سے معیاری کام نہیں ہو سکا۔ تجارتی سینماسے تعلق رکھنے والے ہدایتکاروں کے ہاں فنی بصیرت تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی فلمی صنعت دنیا میں اپنا نام نہیں کر سکی۔ پاکستانی فلم کی کہانی ابھی تک ہیرو، ہیروئن اور ولن کی مثلث سے باہر نہیں نکل سکی۔ ماضی میں گو کچھ اچھا کام ہوا ہے لیکن فنی طور پر اسے بھی کچھ زیادہ سراہا نہیں جا سکتا۔ پاکستانی سنجیدہ سینما کے حوالے سے [[1950ء کی دہائی]] میں اختر نواز جنگ کاردار ([[اے جے کاردار]]) کا نام لیا جاتا ہے جنہوں نے ''جاگو ہوا سویرا'' نام سے ایک فلم بنائی جو ملک میں تو کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن اسے بین الاقوامی طور پر پذیرائیپزیرائی ہوئی، اس فلم نے [[ماسکو]] کے فلمی میلے سے بہترین عکاسی کا اعزاز بھی جیتا۔ [[اے آر کاردار]] کی دوسری فلم ''دور ہے سکھ کا گاؤں'' جھگڑوں کی نذر ہو گئی، تیسری فلم ''قسم اس وقت کی'' بھی کامیاب نہ ہو پائی۔
 
[[1970ء کی دہائی]] میں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیف ڈیک) کے نام سے ادارہ قائم ہوا جس کا مقصد ملکی فلمی کی ترویج اور وسائل مہیا کرنا تھا، لیکن بھٹو حکومت کے جانے سے وہ ادارہ بھی بے اثر ہو گیا۔
سطر 14:
پچھلے چند سالوں سے جہاں پاکستانی تجارتی سینما تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے وہیں چند پڑھے لکھے ہدائتکار بھی سامنے آئے ہیں جن میں وزیر اطلاعات [[جاوید جبار]]کی بیٹی [[مہرین جبار]]کا نام آتا ہے جن کی فلم [[رام چند پاکستانی]] کو بیرون ملک خاصا سراہا گیا ہے۔ جاوید جبار خود بھی ستر کی دہائی میں بی آنڈ دی لاسٹ ماؤنٹین (Beyond the last mountain) نامی فلم بنا چکے ہیں۔ ان کے علاوہ جمیل دہلوی صاحب نے بلڈ آف حسین (Blood of Hussain)نامی فلم بنائی جو کچھ خاص کامیابی حاصل نہ کر پائی۔ پاکستانی فلم کے حوالے سے دوسرا نام [[شعیب منصور]] کا لیا جاتا ہے جن کا بنیادی تعلق تو پاکستان ٹی وی سے تھا لیکن انہوں نے اپنی پہلی ہی فیچر فلم [[خدا کے لیے]]سے سب کو چونکا دیا، ان کی دوسری فلم [[بول]] بھی بہت زیادہ پسند کی گئی۔
 
دستاویزی فلم کے حوالے سے [[شرمین عبید چنائے]] کا کام بہت اچھا ہے جس کی انہیں عالمی طور پر پذیرائیپزیرائی بھی نصیب ہوئی ہے، وہ اب تک اپنے کام کی وجہ سے [[ایمی اعزاز]] ، [[بافٹا اعزاز]] اور [[اکیڈیمی اعزاز]] جیت چکی ہیں۔
 
== حوالہ جات ==