"ارتقائی حیاتیات" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 8:
فرانس کے ماہر حیاتیات و نباتات [[ژاں بیپتست]] نے 1809 میں اپنی کتاب ’فلسفہ حیات‘ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زندگی اپنی مختلف شکلوں میں ارتقا سے جڑی ہوئی ہے۔ الفریڈ ویلس نے 1858 میں بھی ارتقا کی حقیقت کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد چالس ڈارون نے اس نظریہ کو انقلابی شکل دی۔ اس کی کتاب آغاز انواع جو 1859 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہزاروں سائنس دانوں نے سائنس کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے ایسی بے شمار حقیقتوں کو دریافت کیا ہے۔ جس سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے اور اب ارتقا کی حقیقت سائنس کی دنیا میں مسلمہ ہوچکی ہے۔
 
اس نظرے پر وقتاً وقتاً جو اعتراضات سائنسدانوں کی طرف سے کیے گئے، وہ ضمنی حقائق پر مبنی ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تحقیق اسے مزید مستحکم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس نظریہ کو بنیادی طور پر رد کرنے والے دنیا میں صرف مذہبی مفکرین ہیں یا ایسے عینیت پسند سائنس دان جو مذہبی تبلیغ میں دلچسپی رکھتی ہیںہیں۔ گزشتہ صدی میں یہ خیال عام تھا کہ ایک بچہ ماں کے بیٹ میں قرار حمل سے لے کر پیدائش تک نو ماہ تک کے عرصہ میں ترتیب وار ان مراحل سے گزرتا ہے کہ جن سے کائنات کے اندر زندگی نے اپنے ارتقا کے سفر آغاز ظہور انسان تک ساڑھے تین ارب سال گزاری ہے۔ یہ تفصیلات میں تو درست نہیں لیکن اس میں بنیادی صداقت کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے۔ علم جنین ) ایمبر لوجی ( کی جدید ترین تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے بچے ( بشمول انسان ) حمل ٹہرنے سے لے کر پیدائش تک ایک جیسے مراحل طہ کرتے ہیں۔ ابتدا میں ایسے تمام جانداروں کے جنین ایک دوسرے کا مماثل ہوتے ہیں۔ بعد میں آہستہ آہستہ ان میں اختلاف واضح ہونے لگتے ہیں۔ آخر میں یہ بالکل الگ شکل کے ہوجاتے ہیں۔ ۔
 
گزشتہ صدی میں یہ خیال عام تھا کہ ایک بچہ ماں کے بیٹ میں قرار حمل سے لے کر پیدائش تک نو ماہ تک کے عرصہ میں ترتیب وار ان مراحل سے گزرتا ہے کہ جن سے کائنات کے اندر زندگی نے اپنے ارتقا کے سفر آغاز ظہور انسان تک ساڑھے تین ارب سال گزاری ہے۔ یہ تفصیلات میں تو درست نہیں لیکن اس میں بنیادی صداقت کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے۔ علم جنین ) ایمبر لوجی ( کی جدید ترین تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے بچے ( بشمول انسان ) حمل ٹہرنے سے لے کر پیدائش تک ایک جیسے مراحل طہ کرتے ہیں۔ ابتدا میں ایسے تمام جانداروں کے جنین ایک دوسرے کا مماثل ہوتے ہیں۔ بعد میں آہستہ آہستہ ان میں اختلاف واضح ہونے لگتے ہیں۔ آخر میں یہ بالکل الگ شکل کے ہوجاتے ہیں۔
 
اس سے ثابت ہوتا کہ تمام جانداروں کے درمیان زبردست ارتقائی رشتہ ہے۔ سائنس کے مختلف شعبے جس کے مطالعہ سے ارتقائے حیات کا ثبوت ملتا ہے، ان میں علم الابدن ( بیا لوجی ) خاص کر اس تحقیقی شعبے (علم الانواع ) ٹیکسانومی ( علم العضا، ) اناٹومی( اور علم جنین ) ایمیبریا لوجی ( شامل ہیں۔ علم الابدان کے علاوہ ماحولیات ) ایکا لوجی ( قدیم بناتات قدیم حیوانیات ) پیل اونٹالوجی ( میں سائنسی تحیقات اور علم آثار ) متجحرات ( اور زمانہ قبل از تاریخ کی قدیم مصنوعات وغیرہ کے سائنسی مطالعہ شامل ہے ۔
سطر 20 ⟵ 18:
== تقابلی علم الاعضا کی شہادت ==
 
مختلف پودووں اور جانوروں کے جسمانی ڈھانچوں کا تقابلی مطالہ بھی مشترکہ اوصاف کی نشاندہینشان دہی کرتا ہے اور یوں مشترکہ جد کا ایک اور ثبوت فراہم کرتا ہے۔ مثلاً مینڈک، چھپکلی، درندے اور شیر دار جانداروں کے جسموں میں ہڈیوں کے ڈھانچے بنیادی ساخت ایک جیسی ہے۔ جو ثابت کرتی ہے کہ ان سب کا جد امجد ایک ہی ہے جو کوئی ریڑھ کی ہڈی والا جاندار تھا۔ اسی طرح تمام شیر دار جانوروں کے اعظائ کا بنیادی نظام ایک جیسا ہے، خواہ یہ جانور تیرنے والے ہوں یا خشکی پر چلنے والے، رینگنے والے ہوں یا اڑنے والے ۔
 
== علم حنین کی شہادت ==
سطر 30 ⟵ 28:
دنیا کے کونے کونے میں بکھرے ہوئے جانداروں کی نسلیں اور دیگر زندہ اجسام کی شکلیں بعض اوقات ایسے عجیب و غریب مظاہر کو سامنے لاتی ہے ں، جن کا کوئی دوسرا سائنسی جواب نظریہ ارتقا کے ممکن نہیں ہے۔ مثلاً قریب قریب واقع کئی سمندری جزیروں میں ایسے پرندے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر اپنے قریبی براعظموں کے پرندوں سے مماثل ہیں۔ اسی طرح ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک جیسی آب و ہوا رکھنے والے دو علاقوں میں ایک جیسے جانور نہیں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً برازیل اور افریقہ کی آب و ہوا ایک جیسی ہے۔ مگر افریقہ میں گوریلے اور ہاتھی ہیں، جب کہ برازیل میں یہ جانور نہیں ہیں۔ ان پہلیوں کا جواب صرف نظریہ ارتقا کے پاس ہے کہ یہ جانور ان اجداد کی نسل سے ہیں، جو اس بر اعظموں میں وجود آئے ہیں اور بعد میں زیادہ ساز گار ماحول والے علاقوں کی طرف چلے گئے۔ اسی قسم کے سفر میں قدرتی رکاوٹیں آخری حد کا کام کرتی تھیں۔ پانی والے جانوروں کے لیے خشکی کا بڑا ٹکرا اور خشکی کے جانوروں کے لیے کوئی سمندر۔
 
اس طرح ایک دلچسپ مثال گھڑیال کی ہے، اس کی دو نسلیں دنیا میں دور دراز موجود ہیں۔ ایک مشرقی ریاست ہائے متحدہ امریکہامریکا اور دوسری عوامی جمہوریہ چین میں۔ ان کے اجداد قدیم زمانوں سے ایشیائ سے لے کر فلوریڈا تک پھیلے ہوئے تھے اور خشکی کے اس معدوم راستے پر جاتے تھے، جو کسی زمانے میں روس کو الاسکا سے ملاتا تھا۔ اس راستہ کے معدوم ہو جانے سے یہ دونوں نسلیں اپنے ماحول کے اثر سے قدرے تبدیل ہوتی گئیں۔ لیکن دو انتہائی دور دراز علاقوں میں آج بھی موجود ہیں۔ یوں نظریہ ارتقا ان جغرافیائی پہلیوں کے تسلی بخش جواب پیش کرتا ہے۔
 
== متجحرات کی شہادت ==
سطر 55 ⟵ 53:
 
ریڑھ والے جانور دنیا کی تمام جاندار اقسام کی سب سے ترقی یافتہ قسم ہے۔ ان کا ظہور آج سے تقریباً پچاس کروڑ سال پہلے ہوا تھا۔ یہ جانور ۔۔۔۔۔ دنیا کا سب سے پہلا ریڑھ دار جانور جبڑے کے بغیر
مچھلیاں تھیں۔ لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی باقیدہ کوئی ہڈی نہیں تھی ۔بلکہ۔ بلکہ پتلے سے دھاگہ کی طرح تھی، جو گوشت کے ریشوں سے قدرے سخت تھی۔
 
رفتہ رفتہ ان میں غضروف یعنی مرمری ہڈی ( نرم ہڈی ) کا ڈھانچہ نمودار ہوا اور دنیا میں سب سے پہلے ہڈیوں والا ایسا جسم نمودار ہوا اور جس کا جبڑا بھی تھا اور دو اور دو کی تعداد میں خارجی اعضائ بھی تھے۔ یہ تھی ہڈیوں اور جبڑے والی قدیم مچھلی۔ اس کا زمانہ وجود تقریباً 45 کروڑ سال پرانا ہے۔ ان مچھلیوں کے کچھ پتھرائے ہوئے ڈھانچے دستیاب ہوئے ہیں۔ جو 45 کروڑ سال پرانے ہیں۔
 
آج کل کی کئی سمندری مچھلیاں مثلاً پھیپھڑے دار مچھلیاں، ریڑھ دار، پنکھ والی مچھلیاں اور گوشت دار پنکھ والی مچھلیاں اسی زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ گوشت دار مچھلیوں کے ایسے اعضائ تھے جو بعد میں بازوؤں اور ٹانگوں میں تبدیل ہونے کی بنیاد بنےبنے۔ دوسرا ریڑھ دار جانوروں کے ارتقا کے دوران یہ ہوا کہ ایسے جانور پیدا ہوئے جو پانی اور خشکی دونوں پر رہ سکتے تھے ۔۔۔۔ جل تھلیئے جانور، یہ ایسے ہوا کہ ان کے بازو اور ٹانگیں ( یا یوں کہیے چار ٹانگیں ) نکل آئیں۔ نیز سانس لینے کے لیے گلپھڑوں کی جگہ پھیپھڑوں نے جنم لیا۔ جل تھلیئے جانوروں کے وجود کا زمانہ چالیس کروڑ سال پرانا ہے۔ ان کے چالیس کروڑ سال پرانے متجحرات بھی ملے ہیں۔ ان کے وجود میں آنے کا ایک بڑا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خشکی میں دور دراز پھیل گئے اور یوں زمینی زندگی کا آغاز ہوا۔ چونکہ پانی میں تیرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے بازوؤں اور ٹانگوں کی ضرورت تھی اور یہ بہر حال پیداوار پانی کی تھی، اس لیے جب خشکی پر آئے تو ان کی ٹانگیں چھوٹی اور جسم بھدے تھے۔ یہ جانور چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کے ساتھ رینگ کر چلتے تھے۔ ان کے ظہور کا زمانہ 38 کروڑ سال پرانا ہے۔ یہ گھنے جنگلوں میں گھوم پھر کر رفتہ رفتہ کافی تبدیل ہو گئے۔ مگر پیدائش کا عمل پانی میں جاکر کرتے تھے۔ ۔
 
دوسرا ریڑھ دار جانوروں کے ارتقا کے دوران یہ ہوا کہ ایسے جانور پیدا ہوئے جو پانی اور خشکی دونوں پر رہ سکتے تھے ۔۔۔۔ جل تھلیئے جانور، یہ ایسے ہوا کہ ان کے بازو اور ٹانگیں ( یا یوں کہیے چار ٹانگیں ) نکل آئیں۔ نیز سانس لینے کے لیے گلپھڑوں کی جگہ پھیپھڑوں نے جنم لیا۔ جل تھلیئے جانوروں کے وجود کا زمانہ چالیس کروڑ سال پرانا ہے۔ ان کے چالیس کروڑ سال پرانے متجحرات بھی ملے ہیں۔ ان کے وجود میں آنے کا ایک بڑا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خشکی میں دور دراز پھیل گئے اور یوں زمینی زندگی کا آغاز ہوا۔ چونکہ پانی میں تیرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے بازوؤں اور ٹانگوں کی ضرورت تھی اور یہ بہر حال پیداوار پانی کی تھی، اس لیے جب خشکی پر آئے تو ان کی ٹانگیں چھوٹی اور جسم بھدے تھے۔ یہ جانور چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کے ساتھ رینگ کر چلتے تھے۔ ان کے ظہور کا زمانہ 38 کروڑ سال پرانا ہے۔ یہ گھنے جنگلوں میں گھوم پھر کر رفتہ رفتہ کافی تبدیل ہو گئے۔ مگر پیدائش کا عمل پانی میں جاکر کرتے تھے۔
 
تیسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ ان جانداروں نے زمین پر انڈے دینے شروع کر دیے۔ جس کے نتیجے میں ان کا پانی سے بنیادی رشتہ ختم ہو گیا۔ اب یہ جنگل کے رینگنے والے جانور تھے، ان کا جنم 30 کروڑ سال قبل ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ ان کی لاتعداد قسموں نے جنم لیا اور یہ سب دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ ان کے تیس کروڑ سال پرانے متجحرات دریافت ہوئے۔ رینگنے والے جانوروں کی ایک خرابی یہ تھی کہ ان کا خون ٹھنڈا ہوتا تھا، جیسے کہ اب بھی رینگنے والے جانوروں کا ہے۔ اس کوتاہی کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ سخت سردی میں ان کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا تھا۔