"انسانی ارتقاء" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 30:
== پانچواں مرحلہ ==
 
کم نزدیکی زمانہ Mioicene (دو کروڑپچاس لاکھ سال تا ایک بیس ہزار سال قبل) آزاد شیر دارں کے ارتقا میں زبر دست اہمیت کا حامل ہے۔ اسی زمانے میں بڑے بڑے قد و قامت کے آزاد شیر دار دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔ خاص کر ایشیاء،ایشیا، افریقہ اور یورپ میں ان کی پچاس انواع کے ڈھانچے ملے ہیں۔ جن کو بیس قسموں میں تقسیم کیا گیا۔ انہی میں مشہور دیو قامت مانس DRYOIPATHCUS بھی شامل ہیں۔ اس کا ڈھانچے فرانس میں 1852ء میں ملے۔ اس کے کثیر تعداد میں ڈھانچے [[مشرقی افریقہ]] میں ملے جو اسی زمانے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ سارے جانور [[آتش فشاں]] پٹھنے اور لاوے میں دب جانے کی وجہ سے مخجر کی شکل میں محفوظ ہو گئے۔
 
اسی زمانے میں کرہ ارض کی تاریخ کا سب سے دراز قامت کا جانور بلوچی تھریم baluchitherium پاکستان میں پایا جاتا تھا۔ اس کا زمانہ دوکروڑ ساٹھ لاکھ سال قبل کا ہے۔ یہ درختوں کے پتے کھاتا تھا اور بغیر سینگ کا جانور تھا۔ اس قد کندھے تک 5.5 میٹر ( 18 فٹ ) تھا، ارتقائے حیات میں شروع سے اب تک کا یہ سب سے بھاری بھرکم اور دراز قامت جانور ہے۔ اس کی کھوپڑی گو جسم کے مقابلے میں چھوٹی ہے لیکن پھر بھی چار فٹ تھی۔ اس کی اگلی ٹانگیں نسبتاً لمبی تھیں اور یہ اونچے درختوں کے پتے کھاتا تھا۔ انڈیکو تھریم Indicotherium اس جانور کا رشتہ دار تھا۔ جدید گینڈے جس کے چہرے پر سامنے ایک یا دو سینگ ہوتے ہیں اسی کی نسل سے مانے گئے ہیں۔
سطر 38:
== اولین اجداد ==
 
یہ مسئلہ کہ کب اور کس وقت نسل آدم نسل مانس سے علاحدہ ہوئی۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہوا۔ ماہرین کی اکثریت نے جو تحقیقات کیں ہیں ان کی بناءبنا پر جو تخمینے لگائے گئے ہیں، ان کے مطابق غالباً دو کروڑ سال قبل اور اقلیتی رائے کے مطابق صرف پچاس لاکھ سال پہلے انسان کی نسل مانس نسل سے علاحدہ ہوئی اور انسانی نسل کا آغاز کا رام مانس RAMAPITECUS سے تسلیم کیا گیا ہے۔ رام مانس وہ مخلوق ہے جس نسل سے صرف انسان زندہ ہے۔ باقی شاخیں جو کوئی بھی بنیں وہ راستے میں ہی معدوم ہوگئیں۔ گو رام مانس بذات خود انسان نہیں ہے، لیکن انسان کا پیش رو ضرور ہے اور دوسرے کسی ہم عصر کا پیش رو نہیں ہے۔ یوں وہ انسان کا قدیم ترین جد ہے اور انسانیت کا نقطہ آغاز تھا۔ وہ حیوانی سرحد کو پھلانگ کر انسانی دائرے میں داخل ہونے والی سب سے پہلی مخلوق ہے۔
 
راما مانس کو نسل انسانی کی طرف آنے کا نقطہ آغاز تسلیم کریں تو اس کا شجرہ نسب کچھ یوں بنتا ہے۔
سطر 59:
 
جنوبی مانس نے اوزار بنانے سیکھے۔ اوزار بنانے کی محنت نے اس کو مزید ترقی دی اور آئندہ زمانے میں ) یعنی چوتھے زمانے میں ( وہ ارتقا کے بلند ترین مرحلے میں داخل ہوا، یعنی جدید انسان بنا۔
چوتھا زمانہ The Quarternary peroid میں انتہائی نزدیکی زمانہ Pleistocene میں زمین پر بار بار زبر دست موسمی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ بار بار زمین کے بیشتر حصوں پر خصوصاً شمالی علاقوں پر برف کی موٹی دبیز تہیں چھاگئیں۔ جن کی موٹائی دس ہزار فٹ ( تین ہزار میٹر ) یا اس سے بھی زیادہ ہوتی تھی اور پھر بار بار یہ برف پگھل گئیں۔ اسی زمانے کے دوران برف جمنے اور پگھلنے کے آٹھ ادوار کی نشاندہینشان دہی ہوتی ہے۔ آخری برف آج سے دس ہزار سال پہلے پگھل کر ختم ہوئی۔ یوں اس پورے دور کو برفانی دور کہا جاتا ہے۔ جس میں بار بار برف پگھلی اور جمی۔ اس شدید موسمی کایا پلٹ کی بناءبنا پر بہت سے جانوروں کی اقسامیں معدوم ہوگئیں اور بہتوں میں زبردست ارتقا ہوا اور ارتقا کا انقلابی مرحلہ یعنی کیفیتی تبدیلی کا مرحلہ اسی دور میں ہوا۔ اسی دور میں جدید انسان اپنی موجودہ شکل میں سامنے آیا۔ انسانیت کی [[صبح صادق]] اسی عہد میں طلوع ہوئی۔ قدیم پتھر کا زمانہ اسی دور سے تعلق رکھتا ہے۔ جو تقریبا! پچیس تیس لاکھ سال قبل سے شروع ہو کر بارہ ہزار سال قبل ختم ہوتا ہے۔ قدیم پتھر کے زمانے کے علی الترتیب تین حصہ کیئے جاتے ہیں۔ (1) نچلا قدیم [[پتھر کا دور]]۔ (2) درمیانہ قدیم پتھر کا دور۔ (3) بالائی قدیم پتھر کا زمانہ۔
پتھر کے ادوار کے بعد انسان کا جسمانی ارتقا اس مرحلے پر پہنچ گیا جہاں سے آگے ذہنی، فکری اور سماجی ارتقا کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ مقام جسمانی ارتقا کی انتہاءانتہا اور سماجی اور فکری ارتقا کی ابتدا ہے۔
 
سطر 106:
== گمشدہ کڑی ==
 
اگر انسان قدیم مانس سے ترقی پا کر بنا ہے تو پھر مانس اور انسان کے درمیان رابطہ کی کڑی کون سی ہے۔ ۔ وہ کون سی مخلوق تھی جو آدھی مانس آدھی انسان تھی۔ یہ سوال ماہرین کے درمیان خود ساختہ مفروضہ کے طور پر نکلا ہے۔ گویا کوئی ایسی رابطہ کی کڑی ہونا ضروری تھی۔ جہاں آدھا مانس اور آدھا انسان یک جا ہو۔ لیکن دریافت شدہ مجہرات میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو ان شرائط کو پورا کرتا ہو۔ لہذا اسے ’ گمشدہ کڑی ‘ کا نام دیاگیا اور کئی ماہرین اس گم شدہ کڑی ڈھوندنے نکلے۔ ان میں ایک جرمن ماہر حیاتیات ارنسٹ ہیکل نے اس کو ایک سائنسی نام پتھے کن تھروپس Pithecanthripus کا نام دیا۔ جس کا مطلب ہے مانس انسان Ape Man۔ [[ہیکل]] کا خیال تھا اس مخلوق کی ہڈیاں جنوبی ایشیاءایشیا میں مل سکتی ہیں۔
 
[[ہالینڈ]] کا ماہر [[حیاتیات]] ڈُوبوا 1858ء تا 1940ء جس نے [[ایمسٹرڈیم یونیورسٹی]] سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی تھی اور وہیں حیاتیات کا لیکچرار ہو گیا۔ ہیکل کے اس خیال سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے مانس انسان کی ہڈیاں دھونڈنے کا تہیہ کر لیا۔ سب سے پہلے اس نے ملازمت ترک کی اور ڈچ آرمی میں بطور سرجن ملازمت اختیار کی اور اپنی تعیناتی ڈچ آرمی کے ان یونٹوں میں کروائی جو جاوا میں مقیم تھیں۔ جاوا میں اس نے مختلف علاقوں میں کھدائیاں کروا کر اس کی تلاش و جستجو شروع کی۔ بعض ماہرین نے اس کی اس کوشش کا مزاق بھی اڑایا کہ وہ چیز کہاں ملے گی جو ہی نہیں، ملے گی کہاں سے؟ لیکن وارفتگان جستجو نے آخر دھونڈ ہی لیا۔ ڈوبوا کو [[سماٹرا]] میں تری نیل گاؤں کے قریب کھدائیوں میں مانس انسان کی پتھرائی ہوئی ہڈیاں ملیں۔ ان میں سے ایک ران کی ہڈی، ایک کھوپڑی کا بالائی حصہ، کئی دانت اور ان کی ہڈیوں کے کئی ٹکرے تھے۔ اس کے مغز کا خانہ نیچا، پیشانی پیچھے کو ہٹی ہوئی اور بھوؤں کی ہڈی ابھری ہوئی تھی۔ آنکھوں کے رخنوں کے پیچھے کھوپڑی نمایاں طور پر سکڑی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ڈوبوا کو جو ران کی ہڈی ملی وہ لمبی اور سیدھی تھی۔ بالکل موجودہ انسان جیسی۔ گویا یہ جاندار سیدھا چلتا تھا۔ اس کی دماغ کی گنجائش بھی پرانے بن مانسوں سے زیادہ تھی۔ ڈوبوا نے اسے پچاس فیصد انسان اور پچاس فیصد مانس قرار دیا۔
سطر 116:
دوسری کیفیتی تبدیلی اس وقت وجود میں آئی جب کھڑا آدمی Homo Erectus وجود میں آیا۔ یہ ایک ایسا جاندار تھا جو مکمل طور پر دو پایہ تھا اور مکمل طور مل جل کر رہتا تھا۔ آگ کا استعمال جانتا تھا اور اوزار بناسکتا تھا۔ اس کے انسان ہونے میں شبہ نہیں ہو سکتا ہے۔ بعض ماہریں نے تو اس کے ناطق ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ یہ یقناً پوٹھوہار مانس اور جنوبی مانس کیفیتی اور معیاری طور پر ممتاز نسل ہے۔ کیوں کے دونوں اول الذکر دونوں مانس تھے۔ گو کہ انسانی سلسلہ نسل کے، لیکن یہ خود انسان تھا۔
 
پہلی کیفیتی تبدیلی کا تعلق تشریح الاعضاء Anatomy سے سمجھنا چاہیے۔ جس میں پوٹھوہار مانس کی اناٹومی میں انقلاب برپا ہوا۔ دوسری کیفیتی تبدیلی کا تعلق دماغ کے حجم اور اس کی اندورنی اور بیرونی ہیئت میں انقلاب سے سمجھنا چاہیے۔ جسم انسانی کا سارا کنٹرول دماغ میں ہے۔ خیالات، جذبات، تصورات اور توانائیاں سب کا مرکز دماغ ہے۔ اسی نے انسان کو دیگر انواع حیات پر شرفیت دی ہے۔ لہذا دماغ میں انقلاب زبردست تبدیلی کی حیثیت رکھتا ہے اور دماغ کی بے پناہ ترقی کو ارتقائی زمرے میں رکھنا مناسب ہوگا۔ اب یہ ہے دماغ کے اندر وہ خلیے اور خانے تو تھے ہی جو نطق کو ایجاد کرسکتے تھے۔ اس لیے نطق کو ایجاد انقلابی مرحلہ نہ ہوگی بلکہ ارتقائی مرحلہ ہوگی۔ کیوں کہ خفتہ صلاحیت کا بیدار ہونا انقلاب نہیں، اس کا پیدا ہونا انقلاب ہے۔ <ref>یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور</ref>
 
== مزید دیکھیے ==