"اسامہ بن لادن" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
||
سطر 6:
== سوانح ==
=== خاندانی پس منظر ===
اسامہ بن لادن کا تعلق سعودی عرب کے مشہور رئیس خاندان [[بن لادن خاندان]] سے ہے۔ اسامہ بن لادن [[محمد بن عوض بن لادن]] کے صاحبزادے ہیں جو [[شاہ فیصل]] کے خاص دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ بن لادن کا کاروبار پورے [[مشرق وسطیٰ]] میں پھیلا ہوا ہے۔ اسامہ کے بقول ان کے والد نے [[امام مہدی]] علیہ اسلام کی مدد کے لیے کروڑوں ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا تھا۔ اور وہ ساری زندگی امام مہدی کا انتظام کرتے رہے۔ ایک انٹرویو میں اسامہ بن لادن نے اپنے والد کے بارے بتاتے ہوئے کہا کہ "شاہ فیصل دو ہی شخص کی موت پر روئے تھے، ان دو میں سے ایک میرے والد محمد بن لادن تھے اور دوسرے
|1=واقعے میں تضاد ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ شاہ فیصل کی شہادت 1975ء میں ہوئی اور ذوالفقارعلی بھٹو کی 1978ء میں
}}
سطر 15:
=== عملی میدان ===
80 کے عشرے میں اسامہ بن لادن مشہور عرب عالم دین [[شیخ عبد اللہ عظائم]] کی تحریک پر اپنی تمام خاندانی دولت اور عیش و آرام کی زندگی کو خیر باد کہہ کر کمیونسٹوں سے جہاد کرنے کے لیے [[افغانستان]] آ گئے۔ جب [[مجاہدین]] کے ہاتھوں [[روس]] کی شکست کے بعد جب مجاہدین کی قیادت افغانستان میں اقتدار کے حصول کے لیے آپس میں جھگڑ پڑی تو اسامہ بن لادن مایوس ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔ جب اسامہ بن لادن سعودی عرب میں تھے تو [[صدام حسین]] نے 1991ء میں [[کویت]] پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس موقع پر جہاں دنیا کے اکثر ممالک نے [[عراق]] کے اقدام کو کھلی جارحیت قرار دیا وہاں باقی عرب ممالک عراق کے اس قدم کو مستقبل میں اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہو جہاں
اسامہ بن لادن نے سوڈان میں بیٹھ کر مقدس سرزمین پر ناپاک امریکی وجود کے خلاف عرب نوجوانوں میں ایک تحریک پیدا کی اور اس کے ساتھ دنیا بھر میں جاری دیگر اسلامی تحریکوں سے رابطے قائم کیے۔ اسی دوران اسامہ بن لادن نے دنیا بھر میں امریکی مفادات پر حملوں کا مشہور فتویٰ بھی جاری کر دیا۔ جس کو ساری دنیا میں شہرت ملی یہاں تک کہ اسامہ بن لادن کی
اسی دوران طالبان پاکستانی ایجینسیوں کی مدد سے [[کابل]] فتح کر کے تقریباً 60 فیصد [[افغانستان]] پر قدم جما کر ایک مستحکم حکومت قائم کر چکے تھے۔ اسی سال یعنی 1996ء میں اسامہ بن لادن اپنے ایک پرائیویٹ چارٹرڈ جہاز کے ذریعے افغانستان پہنچے جہاں انہیں طالبان کے امیر ملا محمد عمر اخوند کی جانب سے امارات اسلامیہ افغانستان میں سرکاری پناہ حاصل ہو گئی۔ اسامہ بن لادن نے افغانستان کے مانوس ماحول میں بیٹھ کر اپنی تنظیم القاعدہ کو ازسر نو منظم کیا اور دنیا بھر میں آمریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی کاروائیاں تیز کر دیں۔ اسامہ بن لادن نے اپنے جہادی ٹھکانے زیادہ تر [[جلال آباد]] سے قریب [[تورا بورا]] میں قائم کیے۔ 1997ء میں امریکی صدر [[بل کلنٹن]] نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کے لیے طالبان پر دباؤ ڈالا مگر [[طالبان]] نے اپنے مہمان کو
=== القاعدہ کا قیام ===
[[1998ء]] میں
امریکی حکومت نے [[11 اکتوبر2001ء]] کو
=== آخری ایام ===
اسامہ بن لادن کی زندگی کی طرح ان کی موت بھی ساری دنیا کے لیے ایک معما رہی۔ اور اس کی وجہ بھی خود امریکی حکام کا رویہ ہی تھا۔ ایک نکتۂ نظر کے مطابق ان کی موت کچھ اس طرح ہوئی۔ 10 مئی کو ڈان نیوز ٹی وی پر خبر القاعدہ کی وضاحت شائع ہوئی ،جس میں بتایا گیا کہ شیخ اسامہ بن لادن 2003ء میں انتقال کر گئے تھے۔ حالانکہ 4 مئی کو ایک جہادی ویب سائٹ کے حوالے سے یہ بات پھیلائی گئی کہ القاعدہ نے اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق کی ہے۔
▲10 مئی کو ڈان نیوز ٹی وی پر خبر القاعدہ کی وضاحت شائع ہوئی ،جس میں بتایا گیا کہ شیخ اسامہ بن لادن 2003ء میں انتقال کر گئے تھے۔ حالانکہ 4 مئی کو ایک جہادی ویب سائٹ کے حوالے سے یہ بات پھیلائی گئی کہ القاعدہ نے اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق کی ہے۔ <ref>{{حوالہ خبر | عنوان =ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی | مصنف =محمد عطاء اللہ صدیقی | مصنف ربط = | ربط =http://forum.mohaddis.com/threads/ایبٹ-آباد-میں-اسامہ-بن-لادن-کی-موجودگی.937/#post4686 | اخبار = | تاریخ = 25 مئی 2011ء| صفحہ = | صفحات = | زبان =}}</ref>
القاعدہ کے رابطوں کا کئی سال تک تعاقب اور پکڑے گئے قیدیوں سے تفتیش کے نتیجے میں سی آئی اے نے پتہ لگایا کہ پاکستانی علاقے ایبٹ آباد میں ایک مکان ایسا ہے جس کے رہائشی پراسرار حد تک خود کو سماجی و معاشرتی معاملات میں محدود رکھتے ہيں۔
سطر 35 ⟵ 33:
یکم اور دو مئی 2011ء کی درمیانی شب تین امریکی فوجی ہیلی کاپٹر نے پاکستانی سرحد عبور کر کے اس مکان پر دھاوا بول دیا۔ آپریشن کے ابتدائی مرحلے میں ہی ایک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا ۔ (جس کے متعلق یہ بھی شبہ ہے کہ اسے امریکی حکام نے خود مار کر گرایا تا کہ آپریشن میں اپنے لیے ہمدردی کا جواز پیدا کر سکیں) آپریشن جاری رہا۔ مکان میں اسامہ بن لادن کے ساتھ اس کے بیوی بچے بھی موجود تھے۔ بعض القاعدہ ارکان کے بقول اسامہ بن لادن ہر وقت خود کش جیکٹ پہنے رہتے تھے۔ لہذا انہوں نے گرفتاری سے پہلے ہی خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ جب کہ امریکی فوجیوں کے دعوے کے مطابق بن لادن کو گولی ماری گئی۔ ایک امریکی فوجی کے بیان کے مطابق بن لادن گرفتاری کے وقت غیر مسلح تھا <ref>{{حوالہ جال| مصنف = | ربط = http://waqtnews.tv/46678| تاریخ اشاعت =اگست 2012 | عنوان = بن لادن غیر مسلح تھا . امریکی فوجی کا بیان | ترجمہ عنوان = | ناشر = وقت نیوز| زبان =}}</ref>
اس آپریشن کے مناظر براہ راست مختلف مقامات پر نشر کیے جاتے رہے جس میں پینٹاگان اور وائٹ ہاؤس بھی شامل ہیں۔ آپریشن چند ہی منٹوں میں ختم ہو گیا۔ پاکستانی حکام کو جتنی دیر میں امریکی دراندازی کے بارے میں معلوم ہوا اور ان کے جیٹ طیاروں نے مذکورہ مکان کی طرف آنے کے لیے پرواز کی اس سے پہلے ہی آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں نے اسامہ بن لادن کی لاش، اس کی بیوی بچوں، اس کے مکان سے ملنے والے تمام اہم سامان لٹریچر ہیلی کاپٹر میں ڈال کر افغانستان میں اپنے اڈے پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر ڈی این اے کے ذریعے اسامہ بن لادن کی میت کی پہچان کی گئی۔ مگر بن لادن کے لاش کی تصویر کبھی منظر عام پر نہيں آئی۔ جب کہ اس کی میت کو بھی بحیرہ عرب میں موجود امریکی بحری بیڑے پر پہنچایا گیا بعد ازاں اس کو بحیرہ عرب میں سمندر برد کر دیا گیا۔ ▼
▲آپریشن چند ہی منٹوں میں ختم ہو گیا۔ پاکستانی حکام کو جتنی دیر میں امریکی دراندازی کے بارے میں معلوم ہوا اور ان کے جیٹ طیاروں نے مذکورہ مکان کی طرف آنے کے لیے پرواز کی اس سے پہلے ہی آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں نے اسامہ بن لادن کی لاش، اس کی بیوی بچوں، اس کے مکان سے ملنے والے تمام اہم سامان لٹریچر ہیلی کاپٹر میں ڈال کر افغانستان میں اپنے اڈے پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر ڈی این اے کے ذریعے اسامہ بن لادن کی میت کی پہچان کی گئی۔ مگر بن لادن کے لاش کی تصویر کبھی منظر عام پر نہيں آئی۔ جب کہ اس کی میت کو بھی بحیرہ عرب میں موجود امریکی بحری بیڑے پر پہنچایا گیا بعد ازاں اس کو بحیرہ عرب میں سمندر برد کر دیا گیا۔
مشہور امریکی صحافی [[سیمور ہرش|سیمور حرش]] نے اسامہ کی اس حملہ میں موت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی روئداد جھوٹ پر مبنی ہے۔
{{cite news |title=Seymour Hersh on Obama, NSA and the 'pathetic' American media |author= |url=http://www.theguardian.com/media/media-blog/2013/sep/27/seymour-hersh-obama-nsa-american-media |newspaper=گارجین |date= |accessdate=}}
</ref>
سطر 52 ⟵ 49:
=== الزامات ===
اسامہ بن لادن پر [[کینیا]] کے دار الحکومت [[نیروبی]] کے دھماکوں سے لیکر [[ورلڈ ٹریڈ سینٹر]] اور پینٹاگون پر حملوں کے کئی الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے پہلے جہاز ٹکرائے جانے کے صرف پندرہ منٹ کے اندر امریکی میڈیا اور حکومت نے اس کا الزام نیویارک سے ہزاروں میل دور افغانستان کے پہاڑوں میں روپوش اسامہ بن لادن پر عائد کر دیا تھا، تاہم ان پر مختلف حملوں کے ذریعے لگ بھگ 6000 افراد کو لقمہ اجل بنانے کا الزام بھی ہے۔ تاہم اب تک دنیا کی کسی بھی عدالت میں آج تک ان پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔
ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن سی آئی اے کے پرانے کارندے ہیں اور سی آئی اے نے ہی انہیں اس جگہ پہنچایا جہاں وہ آج کھڑے ہیں۔ سی آئی اے کے ملٹ بیرڈن (Milt Bearden ) نے بھی ٹی وی پر اس بات کی تصدیق کی ہے۔ یہی تصدیق ریکس ٹومب (Rex Tomb) نے بھی کی جو سابقہ ایف بی آئی سے تعلق رکھتے تھے۔
=== روپوشی ===
سطر 58 ⟵ 55:
=== متضاد اطلاعات ===
2001ء میں امریکی حملے کے بعد سے اسامہ بن لادن کے بارے مختلف متضاد اطلاعات ہر وقت گردش میں رہتی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے اسامہ بن لادن آمریکی فوجیوں کے گھیرے میں آ گئے ہیں تو کبھی یہ مشہور ہوجاتا ہے کہ اسامہ بن لادن انتقال کر گئے ہیں۔ بعض لوگ اسامہ بن لادن کی بیماری کی خبریں بھی دیتے ہیں اور کچھ کے خیال میں اسامہ 2001ء میں تورا بورا پر آمریکی حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے تھے ان لوگوں کے مطابق اسامہ کی بعد کے تمام پیغامات جعلی ہیں۔ تاہم ان خیالات میں سے کسی ایک کی بھی تصدیق آج تک نہ ہو سکی اور غالب گمان یہی ہے کہ اسامہ بن لادن پاک افغان سرحد کے قریب کہیں روپوش ہیں۔ امریکی اہلکار بھی اسامہ کی موت کے بارے بیانات دیتے رہے ہیں۔
{{cite news |title=Inside Sources: Bin Laden’s Corpse Has Been On Ice For Nearly a Decade |author= |url=http://www.eutimes.net/2011/05/inside-sources-bin-ladens-corpse-has-been-on-ice-for-nearly-a-decade/ |newspaper=ای یو ٹائمز |date=2 مئی 2011ء |accessdate=18 August 2011}}
</ref>
|