"عائشہ بنت ابی بکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م حوالہ جات/روابط کی درستی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 21:
}}
 
'''عائشہ بنت ابی بکر''' (رضی اللہ عنہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد [[خلفائے راشدین]] میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیںرہی ں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت [[ابوہریرہ]] رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیاگیاکیا گیا ہے۔ آپ [[رسالت|عہدِ نبوی]] صلی اللہ علیہ وسلم،وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے [[خلافت امویہ]] کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ سنہ [[58ھ]]/ [[678ء]] میں آپ کا اِنتقال [[مدینہ منورہ]] میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔
 
== نام و القاب ==
آپ کا نام عائشہ ہے۔خطابہے۔ خطاب [[امہات المؤمنین|اُم المومنین]] ہے۔ القاب صدیقہ، حبیبۃ الرسول، المُبرۃ، المُوَفقہ، طیبہ، حبیبۃ المصطفیٰ اور حمیراء ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی آپ کو خطاب فرمایا ہے ۔<ref>امام ابوداود: سنن ابوداود، کتاب الادب۔</ref><ref>امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 6 صفحہ 93 اور 107۔</ref>۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو '''یَا عَائشُ''' کے نام سے بھی خطاب فرمایا ہے۔ <ref>امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214، الرقم الحدیث 6198 مکرر 2447۔  مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان، 1424ھ۔</ref>
== کنیت ==
آپ کی [[کنیت]] اُمِ عبداللہعبد اللہ ہے۔ عرب میں کنیت اشراف کی شرافت کا نشان ہے اور چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہ تھی، اِس لیے کنیت بھی نہ تھی۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ازراہِ حسرت عرض کرنے لگیں کہ اور خواتین نے تو اپنی سابقہ اولادوں کے نام پر اپنی اپنی کنیت رکھ لیں، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟۔ فرمایا: اپنے بھانجے عبداللہعبد اللہ کے نام پر <ref>امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 9 الرقم الحدیث 4726، حدیث مرفوع۔</ref><ref name="ابن سعد">{{cite book | author=ابن سعد | location=لاہور | page= 55 تا 70 (جلد دوم، حصہ 8) | publisher=؟ | title=طبقات ابن سعد | url=http://www.elmedeen.com/read-book-397 | year=؟}}</ref> نے والد [[زبیر ابن عوام|زبیر بن عوام]] رضی اللہ عنہ کے نام سے زیادہ مشہور ہیں یعنی حضرت عبداللہعبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، اِن کی والدہ حضرت [[اسماء بنت ابی بکر]] رضی اللہ عنہا ہیں جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں۔
 
== نسب ==
سطر 41:
* '''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب یوں ہے :'''
 
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہعبد اللہ بن عبدالمطلبعبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن کنانہ۔<h2>حلیہ و ہیئت مبارکہ اور لباس </h2>
 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خوش رو اور صاحب جمال تھیں۔ رنگ سفید تھا جس میں سرخی غالب تھی، اِسی لیے لقب حمیراء سے مشہور ہیں ۔<ref>امام احمد بن حنبل: مسند احمد، جلد 6 صفحہ 138، بابت ذکر لقب حمیراء۔</ref>۔ نو یا دس سال کی عمر تک آپ بالغ ہوچکی تھیںتھیں۔<ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب تزویج عائشہ رضی اللہ عنہا۔</ref>۔ لڑکپن میں دبلی پتلی تھیں <ref>امام بخاری: صحیح بخاری، واقعہ اِفک</ref><ref name="ReferenceB">امام ابوداود: سنن ابوداود، باب السبق</ref> مگر بعد ازاں فربہی غالب آگئی تو بدن کسی قدر بھاری ہو گیا تھا<ref name="ReferenceB"/>۔ زہد و قناعت کی وجہ صرف ایک جوڑا لباس کا اپنے پاس رکھتی تھیں،تھیں اور اُسی کو دھو دھو کر پہن لیا کرتی تھیں۔<ref>امام بخاری: صحیح بخاری، باب ہل تصلیٰ المراۃ فی ثوب حاضت فیہ۔</ref> ایک کرتا جس کی قیمت پانچ درہم تھی اور یہ اُس زمانہ کے لحاظ سے اِس قدر بیش قیمت تھا کہ تقاریب میں دلہن کے واسطے عاریتاً مانگ لیا جاتا۔ <ref>امام بخاری: صحیح بخاری، باب الاستعار للعروس۔</ref> زعفران میں رنگ کر کپڑے پہن لیا کرتی تھیں۔<ref name="ابن سعد" /><ref>امام بخاری: صحیح بخاری، باب ما یبس المحرم من الثیاب۔</ref>
 
بعض اوقات سرخ رنگ کا کرتا زیب تن فرماتیں۔<ref name="ابن سعد" /> اکثر سیاہ رنگ کا دوپٹہ استعمال فرماتیں۔<ref name="ابن سعد" /> کبھی کبھی زیور بھی پہن لیا کرتیں، گلے میں یمن کا بنا ہوا خاص قسم کا سیاہ و سفید مہروں کا ہار ہوا کرتا۔<ref>امام بخاری: صحیح بخاری، باب التیمم و الافک۔</ref> انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں بھی پہنا کرتی تھیں۔<ref name="ابن سعد" /><ref>امام بخاری: صحیح بخاری، باب الخاتم النساء۔</ref> طوافِ کعبہ کے دوران میں چہرہ اقدس پر ایک پردہ نقاب جیسا اوڑھ لیا کرتیں تاکہ لوگوں سے پردے میں رہیں۔رہی ں۔<ref name="ابن سعد" /> ایک ریشمی چادر آپ کے پاس تھی، بعد ازاں وہ چادر آپ نے اپنے بھانجے عبداللہعبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دی۔ <ref name="ابن سعد" /><ref>امام مالک: موطاء امام مالک، کتاب اللباس، باب 3: ما جاء فی لُبس الخز، صفحہ 976، مطبوعہ لاہور۔</ref> یہ ریشمی چادر آپ اوڑھا کرتی تھیں۔<ref name="ابن سعد" /> آپ فرماتی ہیں : ہم [[رسالت|عہد رسالت]] میں سیراء کے کپڑے پہنا کرتے تھے، سیرا میں کچھ ریشم ہوتا ہے۔<ref name="ابن سعد" />
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی مہندی استعمال فرماتی رہیںرہی ں اور زعفران میں رنگے ہوئے لباس میں حج ادا کرلیاکر لیا کرتیں۔<ref name="ابن سعد" /> حالتِ احرام میں سرخ لباس زیب تن بھی فرماتیں۔<ref name="ابن سعد" /> تابعی عطاء بن ابی الرباح کہتے ہیں کہ میں اور عبید بن عمیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جایا کرتے تھے جبکہ آپ کوہِ ثبیر پر ٹھہری ہوئی تھیں (یعنی موسم حج میں) ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا: اُس دِن آپ کا پردہ کیا تھا؟  فرمایا:  آپ اُس وقت اپنے ترکی خیمہ میں تھیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان میں خیمہ کی قناتیں حائل تھیں لیکن میں نے دیکھا کہ آپ زعفران میں رنگا ہوا کرتا پہنے ہوئے ہیں، اُس وقت میں بچہ تھا۔ <ref name="ابن سعد" />
 
سر اقدس پر اکثر خوشبو لگا لیا کرتیں۔ خود فرماتی ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے حتیٰ کہ ہم مقام قاحہ میں پہنچے تو میرے سر سے زردی بہہ کر چہرے پر آئی کیونکہ میں نے روانہ ہونے سے قبل سر پر خوشبو لگائی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اب تمہارا رنگ بڑا پیارا ہے۔<ref name="ابن سعد" />
سطر 55:
آپ کے والد حضرت [[ابوبکر صدیق]] ابن ابی قحافہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں جو سب سے پہلے اسلام لائے اور اُن کا اِنتقال بروز [[پیر]] 22 [[جمادی الثانی]] [[13ھ]] مطابق [[22 اگست]] [[634ء]] کو 63 سال کی عمر میں [[مدینہ منورہ]] میں ہوا، تب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک قریباً 22 سال تھی۔
 
* آپ کی والدہ حضرت [[ام رومان]] زینب بنت عامر ہیں جن کا سنہ وفات اختلافی ہے۔ بعض مورخین کے مطابق حضرت [[ام رومان]] رضی اللہ عنہا کی وفات حضرت [[عثمان بن عفان]] رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی۔ بعض مورخین نے اُن کا سال وفات [[5ھ]] اور [[6ھ]] بھی لکھا ہے، معتبر احادیث کی روشنی میں یہ صریحاً غلط معلوم ہوتا ہے کیونکہ [[6ھ]] میں پیش آنے والے واقعہ اِفک میں اُن کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے اور اِس سلسلے میں تمام روایات میں اِن کا نام آیا ہے۔ [[9ھ]] میں پیش آنے والے واقعہ تخییر کے وقت بھی وہ زِندہ تھیں۔ صحیح بخاری میں تو مسروق تابعی کی روایت حضرت [[ام رومان]] سے متصلاً مروی ہے۔ امام بخاری نے تاریخ الصغیر میں اِن کا نام اُن لوگوں میں لکھا ہے جنہوں نے حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں وفات پائی اور پہلی روایت یعنی [[5ھ]] اور [[6ھ]] پر اعتراض کیا ہے۔یہہے۔ یہ بھی مصدقہ ہے کہ حضرت [[ام رومان]] رضی اللہ عنہا کی وفات بعہد نبوی میں نہیں ہوئی، ایسا کسی روایت میں نہیں ملتا۔ الحافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اِس پر محققانہ نقد لکھا ہے اور ثابت کیا ہے کہ [[محمد بن اسماعیل بخاری|امام بخاری]] کا بیان بالکل صحیح ہے ۔<ref>سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 21، مطبوعہ لاہور 2010ء۔</ref>۔امامامام بخاری کے بیان کے مطابق حضرت [[ام رومان]] رضی اللہ عنہا کی وفات غالباً ماہِ [[ربیع الاول]] [[11ھ]] مطابق [[جون]] [[632ء]] سے ماہِ [[جمادی الثانی]] [[13ھ]] مطابق [[اگست]] [[634ء]] کے وسطی زمانہ میں ہوئی جو حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت ہے۔
 
== ولادت ==
سطر 63:
غیر معمولی اشخاص اپنے بچپن میں ہی اپنی حرکات و سکنات اور نشوونما میں ممتاز ہوتے ہیں، اُن کے ایک ایک خط و خال میں کشش ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بچپن بھی روشن اور سعادت مندی سے بھرپور گزرا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو لڑکپن میں کھیل کود کا شوق تو تھا مگر دو شوق مرغوب تھے: گڑیاؤں سے کھیلنا اور جھولا جھولنا۔<ref name="ReferenceC">امام ابوداؤد:  سنن ابوداؤد،  کتاب الادب، باب فی اللعب فی البنات، جلد 3، صفحہ 508، الرقم الحدیث 4283، مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
گڑیائیں تو مدت مدید تک آپ کے پاس رہیں۔رہی ں۔ سنن ابوداؤد کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غزؤہ خیبر یا غزؤہ تبوک سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے پاس گڑیائیں دیکھیں تھیں جو ایک طاق میں رکھی ہوئی تھیں اور اُن کھلونوں میں ایک پروں والا گھوڑا بھی تھا۔<ref>امام ابوداؤد:  سنن ابوداؤد،  کتاب الادب، باب فی اللعب فی البنات، جلد 3، صفحہ 508، الرقم الحدیث 4284، مطبوعہ لاہور۔</ref> اگر یہ روایت غزؤہ خبیر (محرم [[7ھ]]) سے متعلق ہے تو غالباً اُس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 14 برس کی تھیں اور اگر یہ روایت غزؤہ تبوک (رجب [[9ھ]]) سے متعلق ہے تو اُس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ساڑھے 16 برس کی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خود بیان ہے کہ: میں گڑیاؤں سے کھیلتی تھی۔<ref name="ReferenceC"/>
* آپ فرماتی ہیں کہ:
 
"میں گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی، بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے اور میرے پاس چھوٹی چھوٹی بچیاں بیٹھی ہوتی تھیں، جب آپ داخل ہوتے تو وہ بچیاں باہر نکل جاتیں اور جب آپ تشریف لے جاتے تو وہ داخل ہوجاتیں (یعنی میرے پاس واپس آ جاتیں)۔" <ref name="ReferenceC"/>
* رخصتی کے بعد بھی آپ گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھیں، خود بیان فرماتی ہیں کہ: رخصتی کے بعد بھی میں بچیوں کے ساتھ گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو آپ سے میری سہیلیاں چھپ جاتیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے ہٹ کر اُنہیں بھیج دیا کرتے تھے  (یعنی جب میرے پاس سے چلے جاتے تو میری سہیلیوں کو واپس میرے پاس بھیج دیتے)۔<ref name="ابن سعد" /> بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کہہ دیا کرتے: اپنی اپنی جگہ پر رہو۔<ref name="ابن سعد" /> عروہ بن زبیر تابعی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: میں عہد رسالت میں گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی۔<ref name="ابن سعد" />
* آپ فرماتی ہیں کہ: میری گڑیائیں تھیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لاتے تو میں ان پر کپڑا ڈال دیا کرتی تھی۔ <ref name="ابن سعد" />
جھولا جھولنے سے متعلق کئی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جھولا جھولنا مرغوب تھا۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے تھوڑی دیر قبل تک آپ جھولا جھول رہی تھیں۔<ref name="حوالہ 1">امام ابوداؤد:  سنن ابوداؤد،  کتاب الادب، باب فی اللعب فی البنات، جلد 3، صفحہ 509، الرقم الحدیث 4284، مطبوعہ لاہور۔</ref> اور جھولا جھولنے میں اکثر آپ کی سانس پھول جایا کرتی۔<ref name="حوالہ 1" />
 
عموماً ہر زمانہ کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات یا آٹھ سال کی عمر تک تو اُنہیں کسی بات کا مطلق بھی ہوش نہیں رہتا اور نہ ہی وہ کسی بات کی تہہتہ تک ہی پہنچ سکتے ہیں لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لڑکپن میں بھی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں، اُن باتوں کی روایت بھی کر دیا کرتی تھیں اور اُن سے اکثر احکام بھی اِستنباط فرما لیا کرتیں۔ لڑکپن کے جزئی جزئی واقعات کی مصلحتوں کو بیان فرمایا کرتیں۔  اِسی زمانہ میں اگر کھیل کود کے دوران میں کوئی سن لیتیں تو اُس کو یاد رکھتی تھیں۔
* خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: [[مکہ]] مکرمہ میں جب یہ آیت '''بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَ السَّاعَۃُ اَدْھٰی وَ اَمَرُّ''' نازل ہوئی تو میں (اُس وقت) بچی تھی اور کھیل رہی تھی۔<ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ:  بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَ السَّاعَۃُ اَدْھٰی وَ اَمَرُّ ،  جلد 2 صفحہ،  856،  الرقم 4525، مطبوعہ لاہور</ref><ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب 6: باب قولہ:  بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَ السَّاعَۃُ اَدْھٰی وَ اَمَرُّ، الرقم 4886،  مجلد اول،  صفحہ 1230،  مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، 1423ھ۔</ref> یہ  سورۃ القمر کی آیت 46 ہے اِس کا ترجمہ یہ ہے: " اصل میں اُن کے وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت تلخ ہوگی۔"
ہجرت کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سن محض 8 سال کا تھا مگر اِس کم سنی اور کم عمری میں  ہوش مندی اور قوتِ حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام واقعات بلکہ جزئیات بھی یاد تھیں، آپ سے بڑھ کر کسی صحابی نے ہجرت کے واقعات کا تمام مسلسل بیان محفوظ نہیں رکھا۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب الہجرۃ کے تحت اِن تمام روایات کو نقل کر دیا ہے۔
سطر 79:
{{اقتباس|میرا نکاح بھی شوال میں ہوا۔رخصتی بھی شوال میں ہوئی۔حضور{{درود}} کی بیویوں میں کونسی مجھ سے زیادہ نصیب ور اور حضورؐ کی محبوبہ تھی۔<ref>حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث:فضائلِ اعمال، دسواں باب: باب:عورتوں کا دینی جذبہ، عنوان: حضرت عائشہؓ کے حالات، صفحہ 141۔ مطبوعہ مکتبہ مدینہ، لاہور۔</ref>}}
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ حضرت [[خدیجہ بنت خویلد]] رضی اللہ عنہا ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آئیں تو اُس وقت اُن کا سن 40 سال کا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سن مبارک 25 سال کا تھا۔ اور حضرت [[خدیجہ بنت خویلد]] مزید 25 سال تک شرفِ زوجیت میں رہیں۔رہی ں۔ ماہِ [[رمضان]] 10 نبوی مطابق [[اپریل]] [[619ء]] میں حضرت [[خدیجہ بنت خویلد]] رضی اللہ عنہا نے 65 سال کی عمر میں [[مکہ]] مکرمہ میں وفات پائی۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سن 50 سال تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غمگین رہنے لگے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  اپنے شوہر کے ہمراہ ہر موقع پر ساتھ دیتی رہیں،رہی ں، آپ کے ساتھ ہمدردی کرتی رہیں،رہی ں، مصائب میں آپ کا ہاتھ بٹاتی رہیں،رہی ں، سب سے پہلے آپ کے رسول و نبی ہونے کا اقرار کیا، ایسی غمگسار اور رفیق زوجہ کی جدائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ملول رہا کرتے، بلکہ تنہائی کے غم میں زندگی میں دشواری آنے لگی۔
 
جانثاران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت فکر لاحق ہوئی، مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون (متوفی [[2ھ]]/ [[624ء]]) کی زوجہ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا بنت حکیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ دوسرا نکاح کر لیں۔ آپ نے فرمایا: کس سے؟  خولہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاں موجود ہیں، جس کو آپ پسند فرمائیں اُسی کے متعلق گفتگو کی جائے۔ فرمایا: وہ کون ہیں؟ خولہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیوہ تو [[سودہ بنت زمعہ]] ہیں اور کنواری ابوبکر ( رضی اللہ عنہ) کی بیٹی عائشہ (رضی اللہ عنہا)۔ ارشاد ہوا: بہتر ہے تم اِن کی نسبت گفتگو کرو۔ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پا کر حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں اور اُن سے تذکرہ کیا۔ دورِ جاہلیت میں دستور تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں، اِسی طرح [[عرب]] اپنے منہ بولے بھائی کی اولاد سے بھی شادی نہیں کیا کرتے تھے۔ اِس بناءبنا پر حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے کہا: خولہ! عائشہ (رضی اللہ عنہا)  تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بھتیجی ہے، آپ سے اُس کا کیونکر نکاح ہو سکتا ہے؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اِستفسار کیا تو آپ نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے دینی بھائی ہیں اور اِس قسم کے بھائیوں سے نکاح جائز ہے۔<ref>امام بخاری: باب تزویج الصغار من الکبار۔</ref> حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو اُنہوں نے قبول کر لیا۔
 
لیکن اِس سے قبل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے سے ہوچکی تھی، اِس لیے اُن سے پوچھنا بھی ضروری تھا۔ حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے جبیر سے جا کر پوچھا کہ تم نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی نسبت اپنے بیٹے سے کی تھی، اب کیا کہتے ہو؟ جبیر نے اپنی بیوی سے پوچھا۔ جبیر بن مطعم کا خاندان ابھی [[اسلام]] سے آشنا نہیں ہوا تھا، اُس کی بیوی نے کہا: اگر  یہ لڑکی (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بچہ بے دِین ہو جائے گا (یعنی بت پرستی چھوڑ دے گا)، ہم کو یہ بات منظور نہیں۔<ref name="ابن سعد" /><ref>امام احمد بن حنبل: مسند احمد، جلد 6 صفحہ 211۔</ref><ref>سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ،  صفحہ 25،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
===نکاح کے وقت عمر6سال===
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا تو تب آپ کی عمر 6 سال تھی۔ یہ نکاح ماہِ [[شوال]] 10 نبوی [[مئی]] [[619ء]] میں ہوا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سن 49 سال 7 ماہ تھا۔ یہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سال قبل کا واقعہ ہے۔ آپ کا مہر 500 درہم تھا۔<ref>امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، صفحہ 94۔</ref> آپ کی رخصتی ہجرت کے پہلے سال ماہِ شوال [[1ھ]]/ [[اپریل]] [[623ء]] میں عمل میں آئی۔ اُس وقت آپ کی عمر مکمل 9 سال تھی۔تابعیتھی۔ تابعی عروہ بن زبیر (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں) نے آپ سے نکاح کے متعلق پوچھا تو بیان فرمایا کہ:  جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو میں بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، مجھے معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کر لیا ہے حتیٰ کہ مجھے میری والدہ پکڑ کر گھر میں لے گئیں اور گھر ہی مجھے روک دیا، اب مجھے خیال آیا کہ میرا نکاح ہو گیا ہے۔ میں نے اِس بارے میں اپنی والدہ سے نہیں پوچھا، ہاں اُنہوں نے خود ہی مجھے بتادیا کہ تمہارا نکاح ہو گیا ہے۔<ref name="ابن سعد" />
 
تابعیہ عمرہ بنت عبدالرحمٰنعبد الرحمٰن (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی ہیں) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی تھیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال 10 نبوی میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح کیا، اُس وقت میں 6 سال کی تھی <ref name="حوالہ 6">امام ابن العمرانی: الانباء فی تاریخ الخلفاء، صفحہ 46۔  دار الآفاق العربیہ، قاہرہ، مصر۔ 1419ھ۔</ref>، پھر آپ ہجرت کرکے [[مدینہ منورہ]] [[پیر]] کے دن 12 [[ربیع الاول]] کو آئے اور ہجرت سے آٹھویں ماہ میں آپ نے مجھ سے بیاہ کیا (یعنی رخصتی) اور خلوت کے وقت میں 9 سال کی تھی۔<ref name="ابن سعد" /><ref name="حوالہ 6" />
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم [[مدینہ منورہ]] ماہ [[ربیع الاول]] [[1ھ]] کو پہنچے اور [[ربیع الاول]] سے آٹھواں مہینہ [[شوال]] ہوتا ہے ۔جس۔ جس کے مطابق یہ رخصتی ماہِ [[شوال]] [[1ھ]]/ [[اپریل]] [[623ء]] میں عمل میں آئی اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 53 سال 10 ماہ تھی۔ اِس لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں 9 سال 6 ماہ رہیں۔رہی ں۔
 
بکثرت احادیث میں آیا ہے کہ نکاح سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپ کے سامنے کوئی چیز پیش کر رہا ہے،  پوچھا: کیا ہے؟  جواب دیا کہ آپ کی زوجہ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کھول کر دیکھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: '''میں تم کو دو بار خواب میں دیکھ چکا ہوں،  میں نے دیکھا کہ ایک شخص ریشمی کپڑے میں تم کو میرے پاس لایا ہے اور کہہ رہا ہے: یہ آپ کی اہلیہ ہیں، اِن کا پردہ اُٹھا کر دیکھئیے،دیکھیے،  میں نے پردہ اُٹھا کر دیکھا تو تم تھیں۔ میں نے کہا: اگر یہ اللہ کے پاس سے ہے تو اللہ اِسے ضرور نافذ فرما دے گا'''۔ <ref name="ابن سعد" />
 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) اُن کی تصویر لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ دنیاءدنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔ <ref>امام ترمذی: السنن الترمذی، کتاب المناقب، باب 63: باب مِن فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، جلد 3 صفحہ 574،  الرقم الحدیث 3880۔ مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1420ھ۔</ref> آپ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ: میں نے خواب میں تمہیں دو بار دیکھا، میں نے فرمایا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے،  جب میں نے دیکھا تو تم ہی تھی۔ تو میں نے کہا: اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کرکے ہی رہے گا۔ <ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المناقب الانصار، باب 44: باب تزویج النبی عائشۃ، و قدومھا المدینۃ و بنائہ بھا،  الرقم الحدیث 3895،  صفحہ 954۔   مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref><ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب 9: باب نکاح الابکار،  الرقم الحدیث 5078، صفحہ 1295۔  مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref><ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب 35: باب النظر الی المراۃ قبل التزویج،  الرقم الحدیث 5125، صفحہ 1306۔ مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref><ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب 20: باب کشف المراۃ فی المنام،  الرقم الحدیث 7011، صفحہ 1737۔ مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref><ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب 21: باب ثیاب الحریر فی المنام،  الرقم الحدیث 7012، صفحہ 1737۔ مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref>
 
کم سنی کی شادی کے حوالے سے سید سلیمان ندوی کہتے ہیں: <blockquote> کم سنی کی اِس شادی کا اصل منشاءمنشا نبوت اور خلافت کے درمیان میں تعلقات کی مضبوطی تھی۔ ایک تو [[عرب]] کی گرم آب و ہوا میں خواتین کی غیر معمولی نشوونماء کی طبعی صلاحیت موجود ہے، دوسرے عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیر معمولی استعداد ہوا کرتی ہے، اِسی طرح قد و قامت میں بھی بالیدگی کی خاص قابلیت ہوتی ہے، انگریزی میں اِسے Precocious بھی کہتے ہیں۔ بہرحال اِس کمسنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی زوجیت میں قبول کرنا اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ لڑکپن سے اُن میں نشوونماء، ذکاوت، جودتِ ذہن اور نکتہ رسی کے آثار نمایاں تھے۔<ref>سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 26، مطبوعہ لاہور۔</ref></blockquote>
===نکاح لڑکپن میں===
بہت سے مسلمان مصنفین نے حضرت عائشہ کی عمر کا حساب اُن کی بہن حضرت اسماء کی عمر کی معلومات سے بھی نکالا ہے۔ جس کے مطابق شادی کے وقت اُن کی عمر 13، 17 یا 19 سال کے درمیان تھی۔<ref>{{cite book |first=Asma| last=Barlas| year=2012| title=[["Believing Women" in Islam: Unreading Patriarchal Interpretations of the Qur'an]] | publisher=[[University of Texas Press]] | page=126 | quote=On the other hand, however, Muslims who calculate 'Ayesha's age based on details of her sister Asma's age, about whom more is known, as well as on details of the Hijra (the Prophet's migration from Mecca to Madina), maintain that she was over thirteen and perhaps between seventeen and nineteen when she got married. Such views cohere with those Ahadith that claim that at her marriage Ayesha had "good knowledge of Ancient Arabic poetry and genealogy" and "pronounced the fundamental rules of Arabic Islamic ethics.}}</ref>
سطر 102:
 
== تعلیم و تربیت ==
حضرت عائشہ کی تعلیم و تربیت ان کے والد ماجد [[ابو بکر صدیق]] نے کی۔ابوکی۔ ابو بکر صدیق علم و فضل اور حکمت و دانائی کے مجموعہ تھے۔ انہوں نے بی بی عائشہ کو زیاده تر تاریخ و ادب کے علوم پڑھائے۔ مگر ان کی اصلی تعلیم و تربیت کے دور کا آغاز رخصتی کے بعد شروع ہوا۔انہوںہوا۔ انہوں نے شادی کے بعد ہی قرآن پاک کا ناظرہ پڑھا۔
 
== ہجرت ==
 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد تین سال تک میکہ میں مقیم رہیں۔رہی ں۔ 2 سال 3 ماہ [[مکہ]] مکرمہ میں اور 7 یا 8 مہینے ہجرت کے بعد [[مدینہ منورہ]] میں مقیم رہیں۔رہی ں۔ مسلمانوں نے اپنے وطن سے دو بار ہجرت کی۔ پہلے ملکہ [[حبشہ]] میں اور اُس کے بعد [[مدینہ منورہ]]۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ میرے والد حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے بھی [[حبشہ]] کی طرف ہجرت کرنا چاہی تھی اور برک الغماد نامی مقام (جو [[مکہ]] مکرمہ سے پانچ روز کی مسافت پر ہے) پہنچ چکے تھے کہ اتفاق سے ابن الدغنہ نامی ایک شخص کہیں سے آ رہا تھا، اُس نے یہ دیکھ کر کہ حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ بھی اب وطن چھوڑ رہے ہیں، قریش کی بدقسمتی پر اُس کو افسوس ہوا اور نہایت اِصرار سے اپنی پناہ میں اُن کو [[مکہ]] مکرمہ لے آیا۔ <ref>امام بخاری: صحیح بخاری، باب الہجرۃ۔</ref> ممکن ہے کہ اِس سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُن کا خاندان بھی ہمراہ ہو۔
 
دوسری بار حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ [[مکہ]] مکرمہ سے [[مدینہ منورہ]] کی جانب کی۔ اِس ہجرت کا تمام واقعہ تفصیلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اِس تفصیل کو امام بخاری نے صحیح بخاری باب الہجرۃ جلد اول میں نقل کر دیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم [[مدینہ منورہ]] پہنچے اور [[مدینہ منورہ]] میں مقیم ہوگئے،ہو گئے اور اطمینان ہوا تو آپ نے اہل و عیال کو لانے کے واسطے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور اپنے غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو [[مکہ]] مکرمہ بھیجا، حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا آدمی ساتھ بھیج دیا۔ چنانچہ حضرت عبداللہعبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنی والدہ حضرت [[ام رومان]] رضی اللہ عنہا اور دونوں بہنوں یعنی حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو [[مکہ]] مکرمہ سے لے کر روانہ ہوئے۔بیضہوئے۔ بیض منیٰ کے مقام پر جب آپ اپنی والدہ [[ام رومان]] رضی اللہ عنہا کے ہودج میں اُن کے ساتھ سوار تھیں، اِتفاق سے وہ اونٹ بھاگ نکلا اور اِس زور سے دوڑا کہ اب یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اب پالان گرا کہ اب گرا، خواتین کا یہ قاعدہ ہے کہ ماں کو اپنی پروا نہ تھی بلکہ لخت جگر کے واسطے رونے لگیں، آخر میلوں پر جاکر جب اونٹ پکڑا گیا تو اُن کو تشفی ہوئی۔ یہ مختصر سا قافلہ [[مدینہ منورہ]] پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت مسجد نبوی کے آس پاس میں مکانات تعمیر کروا رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں صاحبزادیاں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت [[سودہ بنت زمعہ]] رضی اللہ عنہا اِن نئے گھروں میں فروکش ہوئیں۔ (ابن سعد نے طبقات میں اِس واقعہ کی مکمل تفصیل بیان کردی ہے مگر ہم نے یہاں مختصراً خلاصہ پیش کیا ہے )۔ <ref name="ابن سعد" /> یہ واقعہ ماہِ [[شوال]] [[1ھ]]/ [[اپریل]] [[623ء]] کا ہے۔
== رخصتی ==
ہجرت [[مدینہ منورہ]] کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے عزیزوں کے ساتھ بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں اُتریں۔<ref>امام ابوداؤد:  سنن ابوداؤد،  کتاب الادب۔</ref> اور 7 یا 8 مہینوں تک اپنی والدہ [[ام رومان]] رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہیں۔رہی ں۔ اکثر مہاجرین کو [[مدینہ منورہ]] کی آب و ہوا موافق نہ آئی اور متعدد اشخاص بیمار پڑگئے۔پڑ گئے۔ حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ بھی سخت بیمار ہوئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے والد کی تیمارداری میں مصروف رہیں۔رہی ں۔ بعد ازاں آپ بھی بخار میں مبتلا ہوگئیں، مرض کی شدت کا یہ حال تھا کہ آپ کے سر کے تمام بال گر گئے۔<ref>امام بخاری: صحیح بخاری، باب الہجرۃ</ref> کچھ مدت بعد آپ صحت مند ہوئیں تو حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! آپ اپنی اہلیہ کو رخصت کیوں نہیں کرا لیتے؟  اِس میں کیا رکاوٹ ہے؟  (مراد یہ تھا کہ آپ اپنی زوجہ اپنے گھر کیوں نہیں بلوا لیتے؟)۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اِس وقت میرے پاس مہر اداء کرنے کے لیے رقم موجود نہیں۔ یہ سن کر حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے آپ کو ساڑھے بارہ اوقیہ یعنی 500 درہم دئیے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تمام رقم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھجوا دی اور اِس طرح آپ کی رخصتی عمل میں آئی (یہ واقعہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جسے ابن سعد نے طبقات میں نقل کر دیا ہے)۔<ref name="ابن سعد" />
* حضرت عائشہ ماہِ [[شوال]] میں خواتین کی رخصتی کو محبوب خیال فرماتی تھیں، تابعی عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے [[شوال]] میں نکاح کیا اور [[شوال]] میں ہی بیاہ کیا (یعنی رخصتی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کونسی بیوی آپ کی نگاہ میں مجھ سے زیادہ نصیبا والی تھی؟ <ref name="ابن سعد" />
دراصل دورِ جاہلیت میں [[مدینہ منورہ]] میں طاعون پھوٹ پڑا تھا جس کے سبب اہلیانِ [[مدینہ منورہ]] ماہِ [[شوال]] میں رخصتی یا نکاح کو نیک خیال نہیں کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات اقدس کے سبب یہ جاہلانہ رسم ختم ہوگئی۔ہو گئی۔<ref name="ابن سعد" />
 
== ازدواجی زندگی ==
سطر 128:
 
== غزوہ مُرَیسِیع ==
ماہِ [[شعبان]] [[5ھ]]/ [[جنوری]] [[627ء]] میں غزوہ المریسیع پیش آیا۔ مریسیع قدید کے اطراف میں ساحل کے قریب ایک چشمہ ہے <ref>دکتور شوقی ابو خلیل: اطلس سیرت نبوی، صفحہ 276،  اُردو مترجم ،مترجم، مطبوعہ لاہور 1425ھ۔</ref> جس کے گرد بنو مصطلق آباد تھے جو بنو خزاعہ کی ایک شاخ ہیں اور یہ بنی مدلج کے حلفاء میں سے تھے۔ بنو مصطلق اپنے اِس کنویں یعنی مریسیع پر اُترا کرتے تھے۔ اِس کنویں اور الضرع کے مقام کے درمیان میں ایک دن کی مسافت تھی، الضرع اور [[مدینہ منورہ]] میں 8 برد یعنی 96 میل کا فاصلہ تھا۔<ref name="حوالہ 12">ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 1، جزء 1،  صفحہ 295، تذکرہ غزوہ مریسیع،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
مریسیع میں بنو مصطلق کا سردار الحارث بن ابی ضرار تھا جو لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے پر آمادہ کر رہا تھا۔ یہ خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے بریدہ بن حصیب الاسلمی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ اِس خبر کا علم لائیں۔ اُنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو مصطلق کے حال کی خبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا اور جمع کیا اور لوگ بوقت روانگی گھوڑوں کی باگ ڈور پکڑ کر روانہ ہوئے، یہ تعداد میں 30 تھے، 10 مہاجرین کے اور 20 انصار کے افراد شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ منافقین کے بھی بہت سے آدمی روانہ ہوئے جو اِس سے قبل کسی غزوہ میں روانہ نہیں ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو [[مدینہ منورہ]] پر اپنا قائم مقام بنایا۔<ref name="حوالہ 12" />
 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم [[مدینہ منورہ]] سے 2 [[شعبان]] [[5ھ]]/ [[26 دسمبر]] [[626ء]] کو روانہ ہوئے، الحارث بن ابی ضرار اور اُس کے ساتھیوں کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر ملی اور اِس امر کی بھی خبر ملی کہ اُن کا جاسوس قتل کر دیا گیا جو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر لانے کے لیے روانہ کیا تھا، تو الحارث بن ابی ضرار کے وہ ساتھی سخت ناگواری کا اظہار کرکے اُس سے جدا ہوگئےہو گئے اور اِسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریسیع پہنچ گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ اِس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو ازواج حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بھی ہمراہ تھیں۔ بنو مصطلق سے جنگ کی تیاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو صف بستہ کیا، مہاجرین کا عَلَم حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ اور انصار کا عَلَم حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو دیا۔ تھوڑی دیر اُنہوں نے مخالفین سے تیراندازی کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو حکم دیا تو اُنہوں نے یکبارگی حملہ کر دیا۔ مشرکین میں کوئی شخص نہ بچا، 10 آدمی قتل ہوئے اور باقی گرفتار کرلیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں، عورتوں اور بچوں اور اونٹ اور بکریاں قید کرلیے۔ مسلمانوں میں ایک شخص شہید ہوا۔ اِسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا جو بنو مصطلق کے سردار الحارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔<ref name="حوالہ 12" />
 
مسلمانوں کی [[مدینہ منورہ]] آمد سے اُنہیں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا، اُن میں منافقین سر فہرست تھے۔ منافقین کا یہ گروہ مسلمانوں اور اسلام مخالف سازشوں میں مصروف رہتا تھا۔ منافقین کی سازشوں کی بروقت سرکوبی کردی جاتی تاکہ وہ کامیاب نہ ہوسکیں مگر وہ مسلمانوں کی عزت و آبرو سے متعلق طرح طرح کی سازشیں تیار کرلیتے تاکہ مسلمان قبیلوں میں پھوٹ پڑوا سکیں۔ کئی غزوات میں منافقین بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے تاکہ خونریزی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ ایسا ہی موقع غزوہ بنو مصطلق یا غزوہ بنو مریسیع (وقوعہ ماہِ [[شعبان]] [[5ھ]]/ [[جنوری]] [[627ء]]) پیش آیا جو تاریخ میں اِفک کے نام سے مشہور ہے،ہے اور یہ منافقین کی سب سے بڑی ذلیل حرکت تھی کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذات مبارکہ پر بھی اُنگلی اُٹھائی اور اِس تہمت کا بنیادی مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِیذاء پہنچانا تھا، نعوذ باللہ ۔باللہ۔ چونکہ منافقین  کو یہ معلوم تھا کہ یہاں (یعنی مریسیع کے مقام پر) کوئی خونریز جنگ نہ ہوگی اِس لیے منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد فوج میں شریک ہوگئیہو گئی تھی۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ منافقین کے بھی بہت سے آدمی روانہ ہوئے جو اِس سے قبل کسی غزوہ میں روانہ نہیں ہوئے تھے۔" <ref name="حوالہ 12" /> منافقین ہر چند اِس غزوہ میں اپنی شریر حرکات سے باز نہ آئے، ایک دفعہ قریب تھا کہ مہاجرین اور انصار تلوار کھینچ کر باہم لڑتے، آخر مشکل سے معاملہ رفع دفع کیا گیا۔ اِن شریروں نے انصار کو کہا کہ وہ مسلمانوں یعنی مہاجرین کی مالی خدمت کرنا چھوڑ دیں،  عبداللہعبد اللہ بن اُبی جو منافقین کا سردار تھا، اُس نے تو برملا کہا کہ: ہم عزت والے اِن ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال دیں گے (نعوذ باللہ)۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی کے قول کو سورہ منافقون میں دہرا دیا ہے کہ
* '''هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنْفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ''' O '''يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ O'''
* یہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس (رہتے) ہیں ان پر (کچھ) خرچ نہ کرو۔ یہاں تک کہ یہ (خود بخود) بھاگ جائیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے خدا ہی کہ ہیں
لیکن منافق نہیں سمجھتے۔<ref>سورۃ المنافقون: آیت 7، پارہ 28</ref> کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹ کر مدینے پہنچے تو عزت والے ذلیل لوگوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے۔ حالانکہ عزت خدا کی ہے اور اس کے رسول کی اور مومنوں کی لیکن منافق نہیں جانتے۔<ref>سورۃ المنافقون: آیت 8، پارہ 28</ref>
 
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے عبداللہعبد اللہ بن اُبی کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا۔ آپ نے لشکر کے کوچ کا حکم دیا اور اُسی وقت مریسیع سے روانہ ہوئے۔<ref name="حوالہ 2">ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 1، جزء 1،  صفحہ 297، تذکرہ غزوہ مریسیع،  مطبوعہ لاہور۔</ref> رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ کو جمع کرکے اِس واقعہ کی اطلاع دی گو کہ وہ اِس جرم میں شریک نہ تھے مگر اُن کو ندامت ہوئی اور عبداللہعبد اللہ بن اُبی کی نسبت اُن میں نفرت سی پیدا ہوگئی۔ہو گئی۔ خود اُس کے بیٹے نے جب یہ سنا تو اُس نے باپ کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور کہا: میں اُس وقت تک تجھے نہ چھوڑوں گا جب تک تو یہ اقرار نہ کرلے کہ تو ہی ذلیل ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) عزت والے ہیں۔<ref name="حوالہ 2" /><ref>سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 72/73،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
== واقعہ اِفک ==
سطر 145:
واقعہ اِفک (واقعہ تہمت) یعنی اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا واقعہ غزوہ بنو مصطلق (جسے غزوہ بنو مریسیع بھی کہا جاتا ہے) سے واپسی پر ماہِ شعبان 5ھ/ جنوری 627ء سے واپسی پر پیش آیا۔ واقعہ اِفک کی تفصیل خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی صحیح بخاری میں موجود ہے، یہاں یہ واقعہ اِختصار سے تحریر کیا گیا ہے۔
 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غزوہ مریسیع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں، [[مدینہ منورہ]] سے روانگی سے قبل اُنہوں نے اپنی بہن حضرت [[اسماء بنت ابی بکر]] رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریتہً پہننے کو مانگ لیا تھا، ہار کی لڑیاں کمزور تھیں کہ ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں، اِس وقت آپ کی عمر بھی 14/15 سے زائد نہ تھی، یہ دور خاتون کے لیے ایسا ہے کہ اُن کے نزدیک معمولی سا زیور بھی گراں قیمت ہوتا ہے۔چونکہہے۔ چونکہ پردہ کا حکم اِس غزوہ سے قبل ہی نازل ہوچکا تھا اِسی لیے آپ دورانِ سفر محمل یعنی ہودج میں سوار ہوتی تھیں جس پر پردے لٹکے رہتے تھے، ساربان ہودج سمیت آپ کی سواری کو اُتار لیتے اور یونہی ہودج سمیت آپ اونٹ پر سوار ہوجاتیں۔ اُس زمانہ میں حضرت عائشہ دبلی پتلی تھیں،تھیں اور ساربانوں کو یہ مطلق معلوم نہ ہوتا تھا کہ آپ ہودج میں سوار ہیں بھی کہ نہیں۔
 
بنو مصطلق سے واپسی پر [[مدینہ منورہ]] سے ایک منزل پہلے ذی قرع کی بستی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کا حکم دیا،<ref>امام ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 4 صفحہ 131، واقعہ اِفک، ذکر تحت سنۃ الہجریہ 6ھ۔ مطبوعہ لاہور</ref> یہاں ایک رات لشکر نے پڑاؤ کیا، پچھلے پہر لشکر روانگی کو تیار تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لشکر کے کوچ سے قبل قضائے حاجت کے لیے لشکر سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں۔ واپس لوٹیں تو اِتفاقاً ہاتھ گلے پر پڑا تو ہار نہیں تھا، وہیں تلاش کرنے لگیں، اُدھر لشکر تیار تھا، سفر کی ناتجربہ کاری سے اُن کو یقین تھا کہ لشکر کی روانگی سے قبل ہی ہار تلاش کرکے میں واپس آجاؤں گی مگر ہار تلاش کرنے میں دیر ہوگئی،ہو گئی،  جاتے وقت آپ کسی کو مطلع کیے بغیر چلی گئیں تھیں، ساربانوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں سوار ہیں، ہودج کے پردے چھٹے ہوئے تھے، سو اُنہوں نے ہودج اونٹ پر رکھا جو دراصل خالی تھا،تھا اور لشکر روانہ ہو گیا۔ اُس زمانہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غالباً 14/15 سال کی تھیں اور دبلی پتلی تھیں اِسی لیے ہودج رکھنے والوں کو معلوم نہ ہو سکا کہ آپ سوار ہیں کہ نہیں؟۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب میں ہار کے بغیر واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر کوچ کو تیار ہے، میں پھر ہار تلاش کرنے چلی گئی، اب کی بار وہ ہار مجھے مل گیا، جب دوبارہ واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہوچکا تھا اور لوگ مجھ کو ہودج میں بیٹھا ہوا سمجھ کر میرا ہودج اونٹ پر کس کر لے گئے تھے۔<ref>ابن ہشام:  سیرت النبی،  باب 116 تذکرہ تحت واقعہ اِفک،  جلد 2  صفحہ 201۔  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref name="حوالہ 15">امام ابن کثیر الدمشقی: سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 219۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
جب آپ ہار مل جانے کے بعد واپس اُسی مقام پر آئیں تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہوچکا ہے اور وہاں کوئی بھی نہ تھا۔  اِس خیال سے کہ جب لوگ مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں واپس یہیں آئیں گے، آپ چادر لپیٹ کر لیٹ گئیں۔ اِسی اثناء میں نیند آگئی۔  حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ جو لشکر کی گری پڑی اشیاء اُٹھانے کے لیے پیچھے رہا کرتے تھے، وہ وہاں پہنچے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہچان لیا۔ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ نے آپ کو پردہ کے حکم نازل ہونے سے قبل دیکھا تھا ۔تھا۔ آپ کو دیکھتے ہی بلند آواز سے '''اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ'''  پڑھا۔ غالباً حضرت صفوان رضی اللہ عنہ نے با آوازِ بلند اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ اِس لیے پڑھا کہ اُم المومنین بیدار ہوجائیں اور خطاب و کلام کی نوبت نہ آئے،آئے اور ایسا ہی ہوا کہ کلام کی نوبت نہیں آئی جیسا کہ آپ خود فرماتی ہیں کہ: '''اللہ کی قسم! صفوان نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور نہ اُن کی زبان سے سوائے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ کے میں نے کوئی کلمہ سنا'''۔ <ref name="حوالہ 17">ابن ہشام:  سیرت النبی،  باب 116 تذکرہ تحت واقعہ اِفک،  جلد 2  صفحہ 202۔  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref name="حوالہ 15" /> آپ فرماتی ہیں کہ: کہ صفوان نے اپنا اونٹ میرے قریب کیا اور خود پیچھے ہٹ گئے، میں اُس پر سوار ہوئی اور صفوان اُس اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے ہو لیے اور لشکر کی تلاش میں تیزی سے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی اور لشکر ٹھہرا تو صفوان مجھ کو لے کر لشکر جا پہنچے،پہنچے اور تمہت لگانے والوں کو جو کچھ کہنا تھا، اُنہوں نے کہا اور مجھ کو اِس کی کوئی خبر نہ تھی۔<ref name="حوالہ 17" /> آپ خود فرماتی ہیں کہ: لوگ پڑاؤ میں اُتر چکے تھے اور اطمینان سے بیٹھے تھے کہ صفوان مجھے لیے ہوئے آ گئے تو اہل اِفک اور تہمت تراشوں نے جو کہنا تھا، کہا اور لشکر میں تہلکہ مچ گیا،  واللہ!  مجھے اِس ہیجان کا کچھ علم نہ تھا۔<ref name="حوالہ 15" />
 
[[ابن ہشام]] نے آپ کی لشکر میں آمد کا وقت صبح لکھا ہے جبکہ مستند تواریخ کے مطابق آپ کی لشکر میں آمد دوپہر کے وقت ہوئی،ہوئی اور دوپہر کا وقت زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے جسے امام بخاری نے خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے نقل کیا ہے <ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1017۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref> کیونکہ منافقین نے دوپہر میں واضح دیکھا تو خباثت بکنا شروع کی، صبح کا وقت صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اگر صبح کا وقت ہوتا تو منافقین دیکھ نہ پاتے۔ منافقین کے سردار عبداللہعبد اللہ ابن اُبی بن سلول اور اُس کے ساتھیوں نے یہ منظر دیکھتے ہی اپنی خباثت بکنا شروع کردی کہ اُم المومنین اب پاکدامن نہ رہیںرہی ں  (نعوذ باللہ)<ref>سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 74،  مطبوعہ لاہور۔</ref> اور جس کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا۔<ref>محمد ادریس کاندھلوی: سیرت المصطفیٰ، جلد 2 صفحہ 274، مطبوعہ لاہور</ref> رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس غزوہ میں 28 دن [[مدینہ منورہ]] سے باہر رہے اور [[رمضان]] [[5ھ]] کو بوقت رؤیتِ ہلال شب [[جمعرات]] [[22 جنوری]] [[627ء]] کو [[مدینہ منورہ]] پہنچے۔<ref>ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 1 جزء 1، صفحہ 297۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
[[مدینہ منورہ]] پہنچ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوگئیں۔ تقریباً ایک مہینہ بیماری میں گزرا۔ اِفتراء پرداز اور طوفان برپا کرنے والے اِسی چرچہ میں تھے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مطلق بھی اِس کا علم نہ تھا لیکن آپ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس تلطف اور مہربانی میں کمی آ جانے کی وجہ سے جو سابقہ بیماریوں میں مبذول رہی، دل کو خلجان اور تردد تھا کہ کیا بات ہے کہ آپ گھر تو تشریف لاتے ہیں اور دوسروں سے میرا حال دریافت کرکے واپس ہوجاتے ہیں، مجھ سے دریافت نہیں کرتے، آپ کی اِس بے التفاتی سے میری تکلیف میں مزید اضافہ ہوتا تھا۔ ابن ہشام نے آپ کا قول نقل کیا ہے کہ:  آپ فرماتی ہیں کہ یہاں تک کہ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں بیمار ہوگئیہو گئی اور تہمت لگانے کی خبر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش زد ہوئی اور میرے والدین کو بھی پہنچی، مگر کسی نے مجھ سے ذکر تک نہ کیا۔ صرف اِتنی بات ہوئی کہ اِس سے قبل جب میں بیمار ہوتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری دِلجوئی فرمایا کرتے تھے، اِس مرتبہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ توجہ اپنے حال پر نہ دیکھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آتے تو میری والدہ اُم رومان سے جو بیماری میں میرے پاس تھیں، فقط اِتنا پوچھتے کہ اب یہ کیسی ہیں؟۔  بس، اِس سے زیادہ اور کچھ نہ فرماتے۔<ref>ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 202۔ ذکر واقعہ اِفک، مطبوعہ لاہور</ref> آپ فرماتی ہیں کہ:  اِن حالات میں، میں دل گرفتہ ہوگئیہو گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   اگر آپ مجھے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں اور میں وہاں منتقل ہوجاؤں تو وہ میری تیمارداری اچھی طرح سے کرسکیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی ہرج نہیں۔<ref name="حوالہ 20">امام ابن کثیر الدمشقی: سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 220۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> ابن ہشام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اِختیار ہے۔<ref name="حوالہ 7">ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 202۔ ذکر واقعہ اِفک، مطبوعہ لاہور۔</ref> چنانچہ میں اپنی والدہ کے پاس چلی آئی اور میں اِن باتوں سے قطعاً بے خبر تھی اور قریباً ایک ماہ کی بیماری میں نہایت کمزور ہوچکی تھی۔ ہم عرب لوگ تھے، ہمارے گھروں میں اہل عجم کی طرح بیت الخلا نہ تھا۔ قضائے حاجت کے لیے مدینہ کی کھلی فضاء میں چلے جاتے تھے (یعنی کھلے جنگل میں شہر کے باہر) اور خواتین حوائج ضروریہ کے لیے رات کو باہر جایا کرتی تھیں۔ چنانچہ میں بھی ایک شب رفع حاجت کے لیے باہر گئی اور میرے ہمراہ اُم مسطح بنت ابی رہم بن مطلب تھیں،  چلتے چلتے وہ اپنی چادر میں اُلجھ کر ٹھوکر لگی اور گر گئیں تو اُن کے منہ سے نکلا: مسطح ہلاک ہو (مسطح اُن کا بیٹا تھا، لقب مسطح تھا اور نام عوف تھا)۔ یہ سن کر میں نے کہا: اللہ کی قسم! تم نے ایک بدری مہاجر کو بددعاء دے کر برا کیا۔ تو اُم مسطح نے کہا: اے دختر ابی بکر! کیا تم کو وہ بات معلوم نہیں؟ میں نے پوچھا کونسی؟  تو اُم مسطح نے مجھے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: کیا یہ بات ہوچکی ہے؟۔ اُم مسطح نے کہا: ہاں واللہ!  یہ بات پھیل چکی ہے۔ میرے اوسان خطاء ہوگئےہو گئے اور میں رفع حاجت کے بغیر ہی واپس چلی آئی، واللہ! میں رات بھر روتی رہی، میں نے محسوس کیا کہ روتے روتے میرا کلیجا پھٹ جائے گا۔ یہ سنتے ہی مرض میں اور شدت آگئی۔<ref name="حوالہ 7" /><ref name="حوالہ 20" />
 
میں اپنے والدین کے پاس آئی اور اپنی ماں سے کہا: اے میری ماں آپ کو معلوم ہے کہ لوگ میری بابت کیا کہہ رہے ہیں؟۔  ماں نے کہا: اے میری بیٹی تو رنج نہ کر، دنیاءدنیا کا قاعدہ یہی ہے کہ جو عورت خوبصورت اور خوب سیرت ہو اور اپنے شوہر کے نزدیک بلند مرتبہ ہو تو حسد کرنے والی عورتیں اُس کے ضرر کے درپے ہو جاتی ہیں اور لوگ بھی اُس پر تمہتیں تراشتے ہیں <ref name="حوالہ 7" /><ref name="حوالہ 20" />(صحیح بخاری میں واقعہ اِفک کے اِس موقع پر لفظ ضرائر آیا ہے جو سوکن کے معنی میں مستعمل ہے، چونکہ اِس واقعہ میں کوئی بھی زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہ تھی، اِس لیے یہاں اِس لفظ سے مراد حاسد عورتیں ہیں جو [[زبان عربی]] میں مستعمل بھی ہے)۔<ref>محمد ادریس کاندھلوی: سیرت المصطفیٰ، جلد 2 صفحہ 275۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> ابن ہشام کی روایت ہے کہ میں نے کہا:  کیا میرے باپ کو بھی اِس کا علم ہے؟  ماں نے کہا: ہاں۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ میں نے کہا: اے میری ماں! اللہ تمہاری مغفرت کرے، لوگوں میں تو اِس کا چرچہ ہے اور تم نے مجھ سے اِس کا ذکر تک نہ کیا، یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میری چیخیں نکل گئیں۔ میرے والد بالاخانہ پر تلاوت قرآن میں مصروف تھے کہ میری چیخ سن کر نیچے آ گئے اور میری ماں سے دریافت کیا۔ ماں نے کہا کہ اِس کو قصے کی خبر ہوگئیہو گئی ہے۔ یہ سن کر میرے والد رونے لگے۔ مجھ کو شدت کا لرزہ آیا کہ میری والدہ اُم رومان نے گھر کے تمام کپڑے مجھ پر ڈال دئیے اور یونہی تمام رات روتے ہوئےگزر گئی۔ایکگئی۔ ایک لمحہ کے لیے آنسو نہیں تھمتے تھے کہ اِسی طرح صبح ہوگئی۔ہو گئی۔ حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے شدت غم سے صرف ایک بار یہ کہا کہ: اللہ کی قسم! یہ بات تو ہمارے حق میں زمانہ جاہلیت میں بھی نہیں کہی گئی، پھر جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام سے عزت بخشی تو اِس کے بعد کیسے ممکن ہے؟<ref>امام ابن حجر عسقلانی:  فتح الباری فی شرح الصحیح البخاری، جلد 8 صفحہ 369۔ مطبوعہ قاہرہ، مصر۔</ref> جب اِس معاملہ میں نزول وحی میں تاخیر ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرمایا۔ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ آپ کے اہل ہیں، جو آپ کے شایانِ شان اور منصبِ نبوت و رِسالت کے مناسب ہیں۔ اُن کی عصمت و عفت کا کیا پوچھنا؟۔  آپ کی حرم محترم کی طہارت و نزاہت تو اظہر من الشمس ہے، اِس میں رائے اور مشورہ کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر حضور کو ہمارا مشورہ اور خیال معلوم فرمانا ہے تو یہ عرض کرتا ہوں کہ جہاں تک ہم کو معلوم ہے، آپ کے اہل اور ازواج المطہرات میں ہم نے کبھی سوائے خیر اور خوبی، نیکی اور بھلائی کے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رنج و غم اور حزن و ملال کے خیال سے یہ عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! اللہ نے آپ پر تنگی نہیں کی، عورتیں اُن کے سواء اور بہت ہیں، آپ اگر گھر کی لونڈی سے دریافت فرمائیں تو وہ سچ سچ بتا دے گی (یعنی آپ مجبور نہیں، مفارقت آپ کے اِختیار میں ہے لیکن گھر کی لونڈی سے تحقیق فرمالیں، وہ آپ کو بالکل سچ سچ بتلادے گی  اِس لیے کہ گھر کی لونڈی بہ نسبت مردوں کے زیادہ خانگی حالات سے باخبر ہوتی ہیں۔معاذہیں۔ معاذ اللہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اُم المومنین کی برات و نزاہت میں ذرہ برابر شک بھی نہ تھا، یہ کلمات محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے فرمائے، مطلب یہ تھا کہ حزن و ملال کی شدت کی وجہ سے مفارقت میں عجلت نہ فرمائیں، فی الحال تحقیقِ حال سے پہلے کوئی خیال قائم نہ فرمائیں اور بریرہ باندی سے حالت دریافت کرنے کا آپ کو مشورہ دیا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یقین کامل تھا کہ مجھ سے زیادہ گھر کی لونڈی زیادہ اُم المومنین کی طہارت و نزاہت کو جانتی ہیں)۔<ref>محمد ادریس کاندھلوی: سیرت المصطفیٰ، جلد 2 صفحہ 276۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کی باندی بریرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ گچھ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلا کر اُن سے پوچھا:  کیا تو گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟،  بریرہ نے کہا: ہاں۔آپہاں۔ آپ نے فرمایا:  میں تجھ سے کچھ دریافت کرنا چایتا ہوں، چھپانا  نہیں، ورجہ اللہ تعالیٰ مجھ کو بذریعہ وحی بتلاد دے گا۔ بریرہ نے کہا: جی میں چھپاؤں گی نہیں، آپ دریافت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی ہے؟   بریرہ کہنے لگیں: نہیں۔ [[صحیح بخاری]] میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا:  اے بریرہ!  اگر تو نے ذرہ برابر بھی کوئی شے ایسی دیکھی ہو جس میں تجھ کو شبہ اور تردد ہو تو بتلا۔<ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1016۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref> بریرہ کہنے لگیں:  قسم ہے اُس ذات پاک کی، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، میں نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی کوئی بات معیوب اور قابل گرفت کبھی نہیں دیکھی، سوائے اِس کے کہ وہ ایک کمسن لڑکی ہیں، آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر سو جاتی ہیں،ہیں اور بکری کا بچہ آکر اُسے کھا جاتا ہے۔<ref name="حوالہ 19">امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1018۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref>
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بریرہ کا یہ جواب سن کر [[مسجد نبوی]] چلے گئے اور [[منبر]] پر کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا، اول حمد و ثناء بیان فرمائی اور بعد ازاں عبداللہعبد اللہ بن اُبی کا ذکر کرکے یہ ارشاد فرمایا: اے گروہ مسلمین! کون ہے کہ جو میری اُس شخص کے مقابلہ میں مدد کرے؟  جس نے مجھ کو میرے اہل بیت کے بارے میں اِیذاء پہنچائی ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے اہل سے سوائے نیکی اور پاکدامنی کے کچھ نہیں دیکھا،دیکھا اور علیٰ ہذا جس شخص کا اُن لوگوں نے نام لیا ہے اُس سے بھی سوائے خیر اور بھلائی کے کچھ نہیں دیکھا" <ref name="حوالہ 19" /> (یہ اشارہ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ کے متعلق تھا)۔ یہ سن کر قبیلہ اَوَس کے سرداد حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ کھڑے ہوگئےہو گئے اور عرض کیا:  یا رسول اللہ! میں آپ کی اعانت اور امداد کو حاضر ہوں، اگر یہ شخص ہمارے قبیلہ اَوَس کا ہوا تو ہم خود ہی اُس کی گردن اُڑا دیں گے اور اگر قبیلہ خزرج سے ہوا اور آپ نے حکم دیا تو ہم تعمیل کریں گے۔<ref name="حوالہ 19" /> حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہا جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے، کو یہ خیال ہوا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہم پر تعریض کر رہے ہیں کہ اہل اِفک قبیلہ خزرج میں سے ہیں، اِس لیے اُنہیں جوش آ گیا۔  [[ابن اسحاق]] کی روایت میں اِس کی تصریح ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مخاطب بناکر کہا: اللہ کی قسم! تم اُس کو ہرگز قتل نہ کرسکو گے، یعنی اگر وہ ہمارے قبیلہ کا ہوا تو ہم خود اُس کو قتل کردیںکر دیں گے، اگرچہ وہ شخص قبیلہ خزرج کا ہو یا کسی اور قبیلہ کا ہو، کوئی بھی ہم کو روک نہیں سکتا اور کیا تو منافق ہے جو منافقین کی طرف سے جوابدہی کرتا ہے؟  یہ تلخ کلامی حد سے بڑھ گئی، خدشہ تھا کہ کہیں قبیلہ اَوَس قبیلہ خزرج سے لڑ پڑیں۔  اِسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اُتر آئے اور لوگوں کو خاموش کروایا۔<ref name="حوالہ 14">ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 203/204،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:  یہ دن بھی تمام کا تمام روتے ہوئے گزرا، ایک دقیقہ کے لیے بھی آنسو نہیں تھمتے تھے۔ رات بھی اِسی طرح گزری، میری اِس حالت میں میرے والدین کو گمان ہونے لگا تھا کہ اب اِس کا کلیجا پھٹ جائے گا۔ جب صبح ہوئی تو بالکل میرے قریب آکر میرے والدین بیٹھ گئے اور میں رو رہی تھی اتنے میں انصار کی ایک عورت آگئی اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی<ref name="حوالہ 14" /><ref name="حوالہ 19" /> کہ اِسی حالت میں اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کرکے میرے قریب بیٹھ گئے۔ اِس واقعہ کے بعد سے کبھی آپ میرے پاس آکر نہیں بیٹھے تھے اور وحی کے اِنتظار میں ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ آپ بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان فرمائی۔ اِس کے بعد یہ فرمایا:
سطر 165:
'''اے عائشہ! مجھ  کو تیری جانب سے ایسی خبر پہنچی ہے، اگر تو بَری ہے تو عنقریب اللہ تجھ کو ضرور بَری کرے گا اور اگر تو نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو اللہ سے توبہ اور استغفار کر، اِس لیے کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ اُس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔''' <ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1018/1019۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref><ref>ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 204،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
آپ فرماتی ہیں کہ:  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کلام کو ختم فرمایا اُسی وقت میرے آنسو منقطع ہوگئے۔ہو گئے۔ آنسو کا ایک قطرہ میری آنکھ میں نہ رہا اور میں نے اپنے والد سے کہا:  آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں، اُنہوں نے کہا:  میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب دوں؟۔  پھر میں نے یہی الفاظ اپنی ماں سے کہے تو ماں نے بھی یہی جواب دیا۔ اِس کے بعد میں نے خود جواب دیا کہ:  اللہ کو خوب معلوم ہے کہ میں بالکل بَری ہوں لیکن یہ بات سب لوگوں کے دلوں پر اس درجہ راسخ ہوگئیہو گئی ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین نہ کرو گے اور اگر بالفرض میں اقرار کرلوں حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین کروگے اور میں نے روتے ہوئے یہ کہا کہ:  اللہ کی قسم! میں اُس چیز سے کبھی توبہ نہ کروں گی جو یہ لوگ مجھ سے منسوب کرتے ہیں، بس میں وہی کہتی ہوں کہ جو یوسف علیہ السلام کے باپ نے کہا تھا (آپ فرماتی ہیں کہ:  میں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کیا تو نام یاد نہ آیا تو اِس لیے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کہا)، اور پھر کہا:  '''فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ''' ( پس صبر وشکرو شکر بہتر ہے اور اللہ ہی مددگار ہے اُس بات کے آشکارا کرنے پر جو تم بیان کرتے ہو)۔
 
آپ فرماتی ہیں کہ: اُس وقت قلب کو یقینِ کامل اور جزمِ تام تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ضرور بَری فرمائے گا، لیکن یہ وہم و  گمان نہ تھا کہ میرے بارے میں اللہ تعالیٰ ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی ہمیشہ تلاوت ہوتی رہے گی، میں خیال کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ شاید کوئی خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس طرح کا دکھا دے گا جس میں میری بریت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو جائے گی۔<ref name="حوالہ 21">امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1019۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref><ref>ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 204۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> آپ فرماتی ہیں کہ:  ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اقدس کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ رکھ دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چادر اوڑھا دی گئی۔<ref name="حوالہ 16">ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 205۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> باوجود شدید سردی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبین مبارک سے پسینے کے قطرات ٹپکنے لگے۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب وحی کا نزول شروع ہوا تو میں بالکل نہیں گھبرائی، کیونکہ میں جانتی تھی کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں فرمائے گا، لیکن میرے والدین کا خوف سے یہ حال تھا کہ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ اُن کی جان ہی نہ نکل جائے۔ اُن کو یہ خوف تھا کہ مباداء وحی اُسی کے موافق نہ نازل ہو جائے جیسا کہ لوگ کہہ رہے ہیں۔<ref name="حوالہ 21" />
 
میرے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب دیکھتے اور کبھی میری طرف،  تو اُنہیں یہ اندیشہ ہوتا کہ آسمان سے کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ جو قیامت تک نہ ٹل سکے گا،گا اور جب میری طرف دیکھتے تو میرے سکون و اطمینان کو دیکھ کر اُنہیں ایک گونہ اُمید ہوتی۔  سوائے آپ کے تمام گھر والے اِسی خوف سے گھبرائے جا رہے تھے کہ وحی آسمانی کا نزول ختم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبین مبارک سے پسینہ صاف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انوار پر مسرت و بشاشت کے آثار نمودار ہوگئے۔ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے اور دست مبارک سے جبین مبارک سے پسینہ صاف کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی جانب متوجہ ہوئے، پہلا کلمہ جو زبان مبارک سے نکلا، وہ یہ تھا:  '''يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ بَرَّأَکِ ('''اے عائشہ! اللہ نے تمہاری پاکدامنی بیان فرما دی)۔<ref name="حوالہ 21" /> آپ فرماتی ہیں کہ: میری والدہ نے کہا: اُٹھ اے عائشہ!  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ اداء کر۔ میں نے کہا:  اللہ کی قسم!  سوائے اللہ تعالیٰ کے جس نے میری براءت نازل فرمائی، کسی کا شکر اداء نہ کروں گی <ref name="حوالہ 21" /><ref name="حوالہ 16" /> (یہ شکر الٰہی اور انعامِ یزدانی کے باعث کہا وگرنہ اُم المومنین کا اس حالت میں شکر نبوی سے انکار محض ناز محبوبی کے مقام سے تھا اور ناز محبوبی کی یہ حقیقت ہے کہ جس چیز سے لبریز ہو، زبان سے اُس کے خلاف اِظہار ہو، ظاہر میں ایک ناز ہی تھا اور صد ہزار نیاز مستور میں تھے )۔<ref>محمد ادریس کاندھلوی:  سیرت المصطفیٰ،  جلد 2 صفحہ 281۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
'''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی براءت میں سورۃ النور کی آیات 11 سے 20 تک نازل ہوئیں:'''
* '''إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ O '''لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُبِينٌ O '''لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَٰئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ O '''وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ O '''إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ O '''وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ O '''يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ O '''وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ O '''إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ O '''وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ O'''''  
* جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا۔ بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اس کے لیے اتنا ہی وبال ہے۔ اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا O جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے O یہ (افتراء پرداز) اپنی بات (کی تصدیق) کے (لیے) چار گواہ کیوں نہ لائے۔ تو جب یہ گواہ نہیں لاسکے تو خدا کے نزدیک یہی جھوٹے ہیںO اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس بات کا تم چرچا کرتے تھے اس کی وجہ سے تم پر بڑا (سخت) عذاب نازل ہوتا O جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تم کو کچھ علم نہ تھا اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے تھے اور خدا کے نزدیک وہ بڑی بھاری بات تھی O اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر نہ لائیں۔ (پروردگار) تو پاک ہے یہ تو (بہت) بڑا بہتان ہے O خدا تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر مومن ہو تو پھر کبھی ایسا کام نہ کرنا O اور خدا تمہارے (سمجھانے کے لیے) اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔ اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے O اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائیبے حیائی یعنی (تہمت بدکاری کی خبر) پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے O اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو کیا کچھ نہ ہوتا مگر وہ کریم ہے) اور یہ کہ خدا نہایت مہربان اور رحیم ہے۔(سورۃ النور،  آیات 11 تا 20)
 
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِن آیاتِ مبارکہ کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ اُٹھے اور لخت جگر کی جبین مبارک پر بوسہ دیا ۔دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اے میرے باپ! پہلے سے آپ نے مجھ کو کیوں نہ معذور اور بے قصور نہ سمجھا؟۔ حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کون سا آسمان مجھ پر سایہ ڈالے اور کون سی زمین مجھ کو اُٹھائے اور تھامے جبکہ میں اپنی زبان سے وہ بات کہوں جس کا مجھ کو علم نہ ہو۔<ref>محمد ادریس کاندھلوی:  سیرت المصطفیٰ،  جلد 2 صفحہ 283/284 ۔284۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ کے مکان سے مسجد نبوی تشریف لائے اور مجمع عام میں خطبہ دیا اور یہ آیات تلاوت فرمائیں۔
 
اِس فتنہ کا اصل بانی تو عبداللہعبد اللہ ابن اُبی تھا اور اُس کے ہمراہ منافقین کا گروہ اِس فتنہ کے پھیلاؤ میں سرگرم تھا۔ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اِس فتنہ میں مبتلاء نہ ہوا، سوائے تین افراد کے جو منافقین کے بہکاوے میں آ گئے تھے:  مسطح بن اثاثہ،  حسان بن ثابت،  حمنہ بنت جحش۔  اِن تینوں افراد پر حد قذف جاری گئی اور 80، 80 کوڑے مارے گئے اور وہ اپنی غلطی سے تائب ہوئے۔<ref name="حوالہ 16" /> عبداللہعبد اللہ ابن اُبی کو سزا نہیں دی گئی کیونکہ وہ منافق تھا۔حضرتتھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کود فرماتی ہیں کہ اِس تمہت کا بانی عبداللہعبد اللہ بن اُبی بن سلول تھا اور قبیلہ خزرج کے چند لوگ جن میں مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش بھی اُس کے ساتھ شریک تھے۔ حمنہ بنت جحش کے شریک ہونے کا مقصد یہ تھا کہ حمنہ اُم المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو التفات مجھ سے تھا، وہ کسی اور زوجہ سے نہیں تھا، اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے زینب رضی اللہ عنہا کو اُن کی دینداری کے سبب سے رشک و حسد سے محفوظ رکھا، مگر حمنہ بنت جحش بہن کی خاطر مجھ سے ضد رکھتی تھی اور اِسی سبب سے اِس تمہت میں شریک ہوئی۔ <ref name="حوالہ 16" />
 
مسطح بن اثاثہ حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ عسرت و تنگدستی کے سبب سے حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ اُن کو خرچ دیا کرتے تھے۔ مسطح چونکہ اِفک کے فتنہ میں شریک تھے اِسی لیے حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اب مسطح کو کبھی خرچ نہ دوں گا۔ اُن کی اِس قسم پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:
* '''وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ O'''
* اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے۔ ان کو چاہیے کہ معاف کردیںکر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ خدا تم کو بخش دے؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے۔ ( سورۃ النور:  آیت 22)
جب یہ آیت حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے سنی تو کہا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم البتہ تحقیق میں اِس کو بہت ہی زیادہ محبوب رکھتا ہوں کہ اللہ میری مغفرت فرمائے۔<ref>ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 206۔ مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>محمد ادریس کاندھلوی:  سیرت المصطفیٰ،  جلد 2 صفحہ 284/285 ۔285۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
==واقعہ اِفک کے زمانہ کا تعین==
واقعہ اِفک کے متعلق مؤرخین کے کئی اقوال ہیں کہ یہ سنہ ماہِ [[شعبان]] [[5ھ]] میں غزوہ مُرَیسیع کے بعد پیش آیا جبکہ بعض مؤرخین کے مطابق یہ سنہ [[6ھ]] میں پیش آیا۔ سنہ [[5ھ]] کے متعلق قول قوی ہے کیونکہ اِس واقعہ میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موجودگی کا پتا چلتا ہے جبکہ وہ اِسی سال کے اواخر میں ماہِ ذوالحجہ [[5ھ]]/ [[اپریل]]/[[مئی]] [[627ء]] میں فوت ہوگئےہو گئے تھے <ref>امام الحافظ الذھبی:  سیر اعلام النبلاء،  جلد 1 صفحہ 289/290، الرقم الترجمہ 56:  سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1401ھ۔</ref> اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غزوہ خندق میں موجود تھا حو غزوہ مُرَیسیع کے بعد ماہِ [[ذوالقعدہ]] [[5ھ]]/ [[مارچ]] [[627ء]] میں پیش آیا تھا۔ سو واقعہ اِفک کےسنہکے سنہ [[5ھ]] میں پیش آنے کا قوی ثبوت حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات کا ہے جو اِس واقعہ کے 5 ماہ بعد فوت ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ مُرَیسیع سے واپسی پر [[مدینہ منورہ]] ماہِ [[رمضان]] [[5ھ]] کی رؤیتِ ہلال کے وقت پہنچے تھے، علاوہ ازیں اِس واپسی پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک مہینہ بیمار رہیں،رہی ں، غالباً اِمکان ہے کہ [[النور|سورۃ النور]] کی آیات 11 تا 20 جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شانِ اقدس میں نازل ہوئیں، ماہِ [[شوال]] [[5ھ]]/ [[فروری]]/ [[مارچ]] [[627ء]] میں نازل ہوئیں۔ اِس طرح ماہ [[شوال]] کو یہ نسبت خاص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہے۔
 
== آیات تیمّم کے نزول کا سبب ==
سطر 195:
 
{{اقتباس|ایک دن آپ حفصہ بنت عمر کے پاس آ‎ئے اور اس نے یہ بات کی تو آپ نے فرمایا: میں نے '''مغافیر''' نہیں بلکہ زینب بنت جحش کے ہاں شہد کھایا ہے اور قسم کھاتا ہوں کہ آیندہ کبھی نہیں کھاوں گا لیکن تم اس بات کے کسی کے پاس مت بتانا کیونکہ اگر یہ بات لوگوں تک پہنچ جا‎ئے تو وہ یہ نہ کہیں کہ کیوں پیغمبر نے حلال چیز کو اپنے پر حرام کیا ہے؟ یا کہیں لوگ بھی اس کام میں پیغمبر اکرم کی پیروی نہ کریں، یا اگر یہ بات زینب کے کان تک پہنچ جا‎ئے تو اس کی دل آزاری نہ ہوجا‎ئے۔<ref>بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ج5، ص222</ref>}}
یہ روایت مختلف تحریروں میں تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ نقل ہو‎ئی ہے<ref>حسینی فاطمی، نقد و بررسی دیدگاہ‌ہای موجود دربارہ افشای راز پیامبر(ص) در آیات ابتدایی سورہ تحریم</ref> اور امام بخاری نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔<ref>صحیح البخاری، ج 5، ص4964، ح4966، کتَاب الطَّلَاقِ، بَاب '''لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللہ لک'''،</ref><ref>صحیح البخاری، ج 4، ص1868، ح4630، کتَاب التفسیر، بَاب: '''وَإِذْ أَسَرَّ النبی إلی بَعْضِ أَزْوَاجِہ حَدِیثًا'''</ref> اس واقعے میں اللہ کے رسول ان دونوں سے ناراض ہوتے ہیں اور [[امام قرطبی]] نے ناراض گی کی مدت کو ایک مہینہ ذکر کیا ہے۔ <ref>الأنصاری القرطبی، أبو عبد اللہ محمد بن أحمد، الجامع لأحكام القرآن، ج 5، ص 172، دار الشعب – القاہرة۔</ref> امام قرطبی اور [[ابن قیم]] اس یہاں تک کہتے ہیں کہ سورہ تحریم کی دسویں آیت (:'''ضَرَبَ اللَّہ مَثَلاً لِلَّذینَ کفَرُوا امْرَأَةَ نُوحٍ وَامْرَأَةَ لُوطٍ کانَتا تَحْتَ عَبْدَینِ مِنْ عِبادِنا صالِحَینِ فَخانَتاہما فَلَمْ یغْنِیا عَنْہما مِنَ اللَّہ شَیئاً وَقیلَ ادْخُلاَ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلینَ''')۔عا‎ئشہ۔ عا‎ئشہ ({{رض مذ}}) اور حفصہ ({{رض مذ}}) کو ڈرانے کے لیے ہی نازل ہو‎ئی ہے۔<ref>قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ج 18، ص202</ref><ref>ابن قیم، إعلام الموقعین عن رب العالمین، ج 1، ص179؛ ابن قیم،الأمثال فی القرآن الکریم، ج 1، ص57،</ref>
 
== زمانہ بیوگی ==
بروز [[پیر]] 12 [[ربیع الاول]] [[11ھ]] مطابق [[8 جون]] [[632ء]] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [[مدینہ منورہ]] میں واقع مسجد نبوی سے ملحقہ [[حجرہ عائشہ]] میں وفات پائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک اُس وقت 18 سال تھی۔ آپ 9 سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہیں۔رہی ں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تب آپ کی عمر 18 سال تھی <ref name="ابن سعد" /><ref>امام ابن حبان: کتاب الثقات، جلد 3، صفحہ 323۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدر آبادحیدرآباد دکن، ہند۔ 1393ھ۔</ref> اور قریباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال 6 ماہ 5 یوم (قمری) اور 46 سال 1 ماہ 5 یوم (شمسی) تک بقید حیات رہیں۔رہی ں۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے 9 سال، خلافت راشدہ کے مکمل 30 سال اور امیر [[معاویہ بن ابو سفیان]] رضی اللہ عنہ کی خلافت کے 17 سالوں کی وہ عینی شاہد تھیں۔اِستھیں۔ اِس تمام عرصہ میں آپ کی شخصیت نمایاں نظر آتی ہے، کبھی آپ لوگوں کو [[مناسک حج]] کی تعلیم دیتی نظر آتی ہیں،ہیں اور کبھی آپ عبادات و ایمانیات کے متعلق تعلیم دیتی ہیں، کبھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اقدس کے روشن پہلو بیان فرماتی ہیں اور کبھی امت میں اصلاح کے واسطے مہمل و کجاوے میں مسند نشیں نظر آتی ہیں۔ گویا اِس تمام مدت میں آپ کی شخصیت محور و مرکز بنی ہوئی تھی،تھی اور تمام مملکت اسلامیہ میں آپ بحیثیت مرکز و محور تسلیم کی جاتی تھیں، خلافت راشدہ کے اختتام پر اور اُموی خلافت کے زمانہ میں یہ شانِ جلالت اوجِ کمال پر رہی۔ حرم نبوت کی یہ شمع اپنی آب و تاب سے ملت اسلامیہ کو ہر وقت روشن کرتی رہی، اِس بات کا اندازہ اِس سے کیا جاسکتا ہے کہ جس روز آپ کا اِنتقال ہوا تو [[مدینہ منورہ]] میں کثرت اژدھام کی وجہ سے عید کا گماں ہونے لگا تھا۔
 
== عہد خلفائے راشدین ==
سطر 205:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اول منتخب کیا گیا اور اُنہیں خلیفۃ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کے لقب سے پکارا گیا۔ حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ بروز [[پیر]] 12 [[ربیع الاول]] [[11ھ]]/ [[8 جون]] [[632ء]] کو خلیفہ منتخب ہوئے اور بروز [[پیر]] 22 [[جمادی الثانی]] [[13ھ]]/ [[22 اگست]] [[634ء]] کو [[مدینہ منورہ]] میں اِنتقال فرمایا۔ آپ کا عہدِ خلافت 2 سال 3 ماہ 10 دن بلحاظ قمری سال کے ہے۔
 
[[ربیع الاول]] [[11ھ]]/ [[جون]] [[632ء]] میں حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوگئےہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کے بعد ازواج المطہرات نے چاہا کہ [[عثمان بن عفان]] رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجیں تاکہ وہ وراثت کا مطالبہ کرسکیں لیکن عائشہ رضی اللہ عنہ نے یاد دلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: میرا کوئی وارث نہ ہوگا، میرے تمام متروکات صدقہ ہوں گے۔ یہ سن کر سب خاموش ہوگئیں۔<ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب الفرائض</ref>
 
* '''حضرت [[عمر بن خطاب]] رضی اللہ عنہ:'''
سطر 212:
 
== امیر معاویہ کے عہد میں ==
بروز [[بدھ]] 25 [[ربیع الاول]] [[41ھ]]/ [[28 جولائی]] [[661ء]] کو حضرت امام [[حسن ابن علی]] رضی اللہ عنہ نے خلافت حضرت امیر [[معاویہ بن ابو سفیان]] کو سپرد کردی۔ سنہ [[41ھ]] سے سنہ [[60ھ]] تک تقریباً 20 سال تک حضرت امیر [[معاویہ بن ابو سفیان|معاویہ بن ابوسفیان]] مسلم دنیاءدنیا پر حکمرانی کرتے رہے، حضرت امیر [[معاویہ بن ابو سفیان|معاویہ بن ابوسفیان]] کی مدت خلافت کے اِختتام سے 2 سال قبل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے [[58ھ]]/ [[678ء]] میں وفات پائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کم و بیش 18 سال حضرت امیر [[معاویہ بن ابو سفیان|معاویہ بن ابوسفیان]] کی خلافت میں بسر کیے،کیے اور یہ تمام زمانہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خاموشی سے گزارا، مگر کئی مواقع پر یہ سکوت ختم بھی ہوتا رہا بلکہ آپ براہِ راست حکمران پر تنقید کر لیا کرتی تھیں، ایسے کئی مواقع تاریخ میں محفوظ ہوچکے ہیں۔
* ایک بار امیر معاویہ رضی اللہ عنہ [[مدینہ منورہ]] آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملنے گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تم اِس طرح بے خطر تنہا میرے گھر آ گئے، ممکن تھا کہ میں کسی کو چھپا کر کھڑا کردیتی کہ جیسے ہی تم آتے وہ تمہارا سر اُڑا دیتا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ دارالامان ہے، یہاں آپ ایسا نہیں کرسکتی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ایمان قتل ناگہانی کی زنجیر ہے۔ پھر دریافت کیا کہ میرا برتاؤ آپ کے ساتھ کیسا ہے؟ آپ بولیں: ٹھیک ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میرا اور اُن (یعنی بنو ہاشم) کا معاملہ چھوڑ دیجئیے، اللہ کے ہاں سمجھا جائے گا۔<ref>امام احمد بن حنبل: مسند عائشہ، ج 4 صفحہ 92، مطبوعہ قاہرہ، مصر۔</ref><ref>ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، ج 4 حصہ اول، صفحہ 102، تذکرہ تحت سنہ ہجریہ 51ھ۔مطبوعہ51ھ۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
* صحابی رسول حضرت [[حجر بن عدی]] رضی اللہ عنہ ،عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں [[کوفہ]] میں علوی فرقہ کے سرکردہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرفدار تھے۔ [[کوفی]] کے والی نے کچھ لوگوں کی شہادت پر اُن تمام اشخاص کو گرفتار کروا کر [[دمشق]] بھیج دیا۔ حجر بن عدی [[یمن]] کے خاندان حجر سے تعلق رکھتے تھے، [[کوفہ]] عرب کے بڑے بڑے قبائل کا مرکز بن چکا تھا، خود قبیلہ کندہ یہاں موجود تھا، لیکن کسی نے حجر بن عدی کی حفاظت میں انگلی تک نہ اُٹھای، تاہم حجر بن عدی کا صحابہ میں اِس قدر نہایت اقتدار تھا کہ تمام ملک عرب میں اِس واقعہ کے خلاف ناگواری محسوس کی گئی۔ رئیسانِ قبائل نے اُن کے حق میں سفارش کی لیکن قبول نہ ہوئی۔ [[مدینہ منورہ]] خبر پہنچی تو اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی طرف سے ایک قاصد اُن کی سفارش میں [[دمشق]] روانہ فرمایا لیکن افسوس کے قاصد کے پہنچنے سے قبل ہی حجر بن عدی قتل کیے جاچکے تھے۔<ref>ابن جریر طبری: تاریخ الامم والملوک، جلد 7 صفحہ 145، مطبوعہ قاہرہ، مصر۔</ref> کچھ عرصہ بعد حب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ [[مدینہ منورہ]] آئے اور آپ سے ملاقات کو آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے جو گفتگو کی وہ حجر بن عدی رضی اللہ عنہ سے متعلق تھی، آپ نے فرمایا: "معاویہ! حجر کے معاملہ میں تمہارا تحمل کہاں تھا؟ حجر کے قتل میں تم خدا سے نہ ڈرے؟" امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:  اِس میں میرا قصور نہیں، قصور اُن کا ہے جنہوں نے گواہی دی۔<ref>ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، ج 4 حصہ اول، صفحہ 101، تذکرہ تحت سنہ ہجریہ 51ھ۔مطبوعہ51ھ۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کی شہادت مع اُن کے اصحاب کے [[51ھ]]/ [[671ء]] میں بمقام [[دمشق]] میں ہوئی۔<ref>ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، ج 4 حصہ اول، صفحہ 82، تذکرہ تحت سنہ ہجریہ 51ھ۔</ref>
* سنہ [[56ھ]]/ [[676ء]] میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا۔<ref>ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، ج 4 حصہ اول، صفحہ 114، تذکرہ تحت سنہ ہجریہ 51ھ۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> [[مروان بن حکم]] [[مدینہ منورہ]] کا والی تھا، مجمع عام میں اُس نے یزید کا نام بطور جانشین امیر معاویہ پیش کیا تو عبدالرحمٰنعبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ (عبدالرحمٰنعبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سگے بھائی تھے ) نے اُٹھ کر مخالفت کی، [[مروان بن حکم]] نے اُن کو گرفتار کرنا چاہا ،چاہا، وہ دوڑ کر اپنی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں گھس گئے۔ [[مروان بن حکم]] گھر کے اندر گھسنے کی جرات نہ کرسکا، کھسیانا ہوکر بولا: یہی وہ ہے جس کی شان میں یہ آیت اُتری: '''وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا'''، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اوٹ کے پیچھے سے فرمایا: ہم لوگوں (یعنی آل ابوبکر) کی شان میں اللہ نے  کوئی آیت نہیں اُتاری، بجز اِس کے کہ میری برات فرمائی۔<ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا، جلد 2 صفحہ 840، الرقم الحدیث 4478،  مطبوعہ لاہور۔</ref> (یہ سورۃ الاحقاف کی آیت 17 ہے جس کا ترجمہ ہے: اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ اُف اُف! ) اِس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ یزید کی جانشینی سے خوش نہ تھیں۔
 
== وفات حضرت امام حسن اور تدفین کا مسئلہ ==
حضرت امام [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ عنہ نے ماہِ [[ربیع الاول]] [[49ھ]]/ [[اپریل]] [[669ء]] میں [[مدینہ منورہ]] میں وفات پائی۔ [[حجرہ عائشہ]] میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ اور حضرت [[عمر بن خطاب]] رضی اللہ عنہ مدفون ہیں۔ [[حجرہ عائشہ]] کے ایک گوشہ میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ حضرت [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ عنہ نے اِسی گوشہ مین مدفون ہونے کی وصیت کی تھی اور مزید یہ کہا تھا کہ اگر کوئی تدفین میں مزاحمت کرے تو جنگ و جدل کی ضرورت نہیں، مجھے میری والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا  کے قریب قبرستان بقیع الغرقد میں دفن کر دینا۔ جب حضرت [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ فوت ہوگئےہو گئے تو آپ کے بھائی [[حسین ابن علی|حسین بن علی]] رضی اللہ عنہ نے اِس وصیت کی تکمیل کرنا چاہی تو [[مروان بن حکم]] مخالفت پر اُتر آیا اور کہنے لگا کہ جب یہاں باغیوں نے حضرت [[عثمان بن عفان]] رضی اللہ عنہ کو دفن نہ ہونے دیا تو کسی اور کو بھی اجازت نہیں ہوسکتی۔ [[مروان بن حکم]] بنو اُمیہ کی معیت میں ہتھیار لگائے باہر نکل آیا اور حضرت [[حسین ابن علی|حسین بن علی]] رضی اللہ عنہ بنو ہاشم کی معیت میں ہتھیار لگائے سامنے آ گئے، قریب تھا کہ خونریز جنگ و جدل کی اِبتداء ہوجاتی مگر درمیان میں حضرت [[ابوہریرہ]] رضی اللہ عنہ آ گئے اور [[مروان بن حکم]] سے کہا: نواسہ اگر اپنے نانا کے پہلو میں دفن ہوتا ہے تو تم کو اِس میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ اور حضرت [[حسین ابن علی|حسین بن علی]] رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی: امام مرحوم کی یہ بھی تو وصیت تھی کہ اگر میری تدفین میں کوئی مزاحمت ہو تو جنگ و جدل سے پرہیزپ رہی ز کیا جائے۔ غرض یہ کہ امام [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ عنہ کی تدفین قبرستان بقیع الغرقد میں اُن کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں کی گئی۔
 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس سارے معاملہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا طرز عمل کیا تھا؟ بعض شیعی مؤرخین نے اِس واقعہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کردار کو منفی انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے جو دراصل بے سرو پا کذاب روایات ہیں اور شیعی مؤرخیں کی یہ بے سرو پا روایات گستاخئ حرم نبوی (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) پر دلالت کرتی ہیں۔ اِن تمام بے سرو پا روایات کا کوئی راوی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سند۔اِنسند۔ اِن شیعی روایات کی بناءبنا پر یہ کہا گیا ہے کہ تدفین حضرت [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ عنہ کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود سفید خچر پر سوار ہو کر حضرت [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ عنہ کے جنازہ کو روکنے کے لیے نکلیں۔ سپاہیوں نے تیر چلائے اور اِتنی دیر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی آئے اور اُنہوں نے کہا: ابھی [[جنگ جمل]] کی شرم ہمارے خاندان سے مٹی نہیں کہ تم ایک اور جنگ کے لیے آمادہ ہو۔ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا واپس چلی گئیں۔
 
یہ موضوع روایت [[ابن جریر طبری]] کی تاریخ الرسل والملوک کی ایک فارسی ترجمہ میں جو برصغیر میں اُنیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں طبع ہوا تھا، پڑھنے کو ملتی ہے۔ اصل نسخہ عربی میں یہ روایت ہی موجود نہیں بلکہ یہ تو شیعی مؤرخین کا [[فارسی زبان|فارسی]] ترجمہ میں اضافہ کیا ہوا ہے، اِس فارسی ترجمہ میں دراصل کئی اضافے موجود ہیں جن میں کئی ضعیف اور کذاب روایات بیان کی گئی ہیں جو عربی کے اصل نسخہ میں موجود نہیں ہیں۔ فارسی کے مترجم نے اِس کتاب کے مقدمہ میں اِس بات کی تصریح بھی کردی ہے کہ بعض روایات موضوع اور من گھڑت ہیں جو فارسی کے اِس ترجمہ میں اضافہ شدہ ہیں یا جن کی کوئی اصل موجود ہی نہیں۔ یعقوبی جو تیسری صدی ہجری کا شیعہ مؤرخ ہے وہ بھی اِس واقعہ کو بغیر کسی سند کے بیان کرتا ہے۔ بغیر کسی سند کے کوئی واقعہ مصدقہ نہیں ہو سکتا۔ اصل واقعہ کے بیان کے بعد کہ در حقیقت فعل [[مروان بن حکم]] کا تھا، قیل یعنی ضعفِ روایت کے ساتھ صیغہ کے ساتھ اِس کا ذکر کیا گیا لیکن یہ نہیں لکھا گیا کہ اُنہوں نے نعوذ باللہ تیر چلائے یا جنگ کی۔
 
تمام معتبر کتب ہائے تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بطیب خاطر حضرت [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ عنہ کی تدفین کی اجازت دے دی تھی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سعید ابن ابی العاص جو والئ [[مدینہ منورہ]] تھا، اُس نے بھی تدفین سے نہیں روکا، مگر [[مروان بن حکم]] چند افراد کو لے کر فساد برپا کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ امام موصوف نے یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری تدفین میں جنگ و جدل کا خطرہ ہو تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان یعنی بقیع میں دفن کردینا۔ [[مروان بن حکم]] کی اِس شرارت سے حضرت [[حسین ابن علی|حسین بن علی]] رضی اللہ عنہ کو نہایت غصہ آیا اور آپ حضرت [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ عنہ کو بذریعہ زور [[حجرہ عائشہ]] میں دفن کرنے پر تیار ہوگئےہو گئے اور اپنے بھائی کی وصیت سے گو اِنحراف کرنا چاہا۔ <ref>ابن اثیر الجزری:  التاریخ الکامل لابن اثیر،  جلد 3 صفحہ 383،  مطبوعہ لائیڈن، جرمنی یورپ۔</ref><ref>ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 8 صفحہ 63/64،  تذکرہ سنہ ہجریہ 49ھ۔  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>سید سلیمان ندوی:  سیرت عائشہ، ملخصاً از صفحہ 123 تا 125،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
محدث ابن عبدالبرعبد البر نے الاستیعاب میں اور امام [[جلال الدین سیوطی]] نے تاریخ الخلفاء میں ایک راوی سے روایت بیان کی ہے جو امام موصوف حضرت [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ عنہ کی وفات کے اُن کے پاس موجود تھا: امام [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ عنہ وصیت فرماتے ہیں کہ میں نے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے درخواست کی تھی کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے گھر (یعنی [[حجرہ عائشہ]]) میں دفن ہونے کی اجازت دیں، اُنہوں نے مجھے اجازت دے دی، لیکن معلوم نہیں کیا اُنہوں نے شرما شرمی میں مجھے اجازت دی یا نہیں۔ میرے مرنے ک بعد اُن سے جا کر پھر اجازت لینا، اگر وہ خوشی سے اجازت دیں تو وہیں دفن کرنا۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ تم کو ایسا کرنے سے روکیں گے، اگر واقعتاً وہ روکیں تو اِس میں اُن لوگوں سے ردوکد کرنے کی ضرورت نہیں، مجھے بقیع میں دفن کردینا۔ جب حضرت [[حسن ابن علی|حسن بن علی]] رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت [[حسین ابن علی|حسین بن علی]] رضی اللہ عنہ نے جا کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت طلب کی، اُنہوں نے کہا: بخوشی۔[[مروان بن حکم]] کو واقعہ معلوم ہوا تو اُس نے کہا: حسین (رضی اللہ عنہ) اور عائشہ (رضی اللہ عنہا) غلط کہتے ہیں، حسن (رضی اللہ عنہ) کبھی وہاں دفن نہیں کیے جاسکتے، عثمان (رضی اللہ عنہ) کو قبرستان تک میں دفن کرنے نہ دیا گیا اور حسن (رضی اللہ عنہ) عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر ([[حجرہ عائشہ]]) میں دفن ہوں گے؟۔ (خلیفہ سوم حضرت [[عثمان بن عفان]] رضی اللہ عنہ کو باغیوں نے بقیع میں دفن نہیں کرنے دیا تھا مگر اصحاب کبار نے بقیع سے متصل باغ حش کوکب میں آپ کو دفن کیا، بعد ازاں وہ باغ قبرستان بقیع میں ضم کر لیا گیا تھا، [[مروان بن حکم]] کا اِشارہ اِسی جانب تھا)۔
 
[[مروان بن حکم]] کی مخالفت کا بڑا سبب یہ تھا کہ وہ اُن دِنون امارت [[مدینہ منورہ]] سے معزول تھا، [[مروان بن حکم]] کو [[48ھ]]/ [[668ء]] میں امارت [[مدینہ منورہ]] سے معزول کر دیا گیا تھا۔ اِس بہانے سے [[مروان بن حکم]] امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خوشنودی کا طلب گار تھا کیونکہ [[35ھ]]/ [[656ء]] میں جب خلیفہ سوم حضرت [[عثمان بن عفان]] رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو باغی اُن کی [[حجرہ عائشہ]] میں تدفین میں آڑے آئے اور اُنہیں [[حجرہ عائشہ]] میں دفن نہیں کیا گیا بلکہ تدفین بقیع الغرقد میں کی گئی۔ حضرت [[عثمان بن عفان]] رضی اللہ عنہ چونکہ اُموی تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خاندان بنو اُمیہ سے تھے، اِسی لیے[[مروان بن حکم]] نے خاندان بنو ہاشم اور خاندان بنو اُمیہ کی قدیمی مخاصمت کو دوبارہ چھیڑنا چاہا جس میں ہرگز بھی کامیاب نہ ہو سکا۔
 
== صحابہ میں ممتاز حیثیت ==
حضرت [[عروہ بن زبیر]] {{رض}} فرماتے ہیں "میں نے کسی ایک کو بھی معانی قرآن ،قرآن، احکام حلال و حرام ،حرام، اشعار عرب اور علم الانساب میں حضرت عائشہ {{رض}} سے بڑھ کر نہیں پایا" ۔ حضرت عائشہ {{رض}} کی خصوصیت تھی کہ جب کوئی نہایت مشکل و پیچیدہ مسئلہ صحابہ میں آن پڑتا تھا تو وہ آپ ہی کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے اور آپ {{رض}} کے پاس اس سے متعلق علم ضرور موجود ہوتا تھا۔ حضرت عائشہ کو علمی حیثیت سے عورتوں میں سب سے زيادہ فقیہہ اور صاحب علم ہونے کی بناءبنا پر چند صحابہ کرام پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ فتوے دیا کرتی تھیں اور بے شمار احادیث ان سے مروی ہیں۔ خوش تقریر بھی تھیں۔
* مسروق تابعی سے پوچھا گیا: کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرائض میں ماہر تھیں؟ فرمایا: ہاں! اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے مشائخ و اکابر صحابہ کرام کو دیکھا کہ آپ سے فرائض کے مسائل پوچھا کرتے تھے۔<ref name="ابن سعد" />
* حضرت [[ابوموسٰی اشعری|ابو موسیٰ الاشعری]] رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جب کبھی کوئی حدیث مشکل ہوجاتی (یعنی کوئی مسئلہ درپیش آ جاتا) تو ہم اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اِس کے بارے میں پوچھتے تو اُن کے ہاں اِس حدیث کا صحیح علم پالیتے۔ <ref>امام ترمذی:  السنن الترمذی، کتاب المناقب، باب 63: باب مِن فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، جلد 3 صفحہ 575/576،  الرقم الحدیث 3883۔  مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1420ھ۔</ref>
* تابعی حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر قرآن، فرائض، حلال و حرام، شعر، عربوں٘ کی باتیں،باتیں اور نسب کا عالم نہیں دیکھا۔ <ref>امام ابو نُعَیم الاصبہانی: حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء،  جلد 2 صفحہ 49/50،  مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1400ھ۔</ref><ref>امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 32، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔</ref>
* تابعی حضرت عطاء بن ابی الرباح بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔<ref>امام الحاکم:  مستدرک علی الصحیحین ،الصحیحین، جلد 4 صفحہ 15،  الرقم الحدیث 6748۔ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع، مکہ مکرمہ، سعودی عرب، 1400ھ۔</ref><ref name="حوالہ 9">امام الحافظ الذھبی: سیر اعلام النبلا، جلد 2 صفحہ 185۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1413ھ۔</ref><ref name="حوالہ 4">امام یوسف المزی: تہذیب الکمال، جلد 35 صفحہ 234۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1400ھ۔</ref><ref name="حوالہ 8">امام ابن عبد البر:  الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد 4 صفحہ 1883۔ مطبوعہ دارالجیل، بیروت، لبنان، 1412ھ۔</ref><ref name="حوالہ 5">امام ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب،  جلد 12 صفحہ 463۔ مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان، 1404ھ۔</ref><ref name="حوالہ 3">امام ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمیز الصحابہ،  جلد 8 صفحہ 18۔ مطبوعہ دارالجیل، بیروت، لبنان، 1412ھ۔</ref>
* تابعی حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر شعر، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا۔ <ref>امام ابن ابی شیبہ:  المصنف،  جلد 5 صفحہ 286،  الرقم 26044۔ مطبوعہ مکتبۃ الرشد، الریاض، سعودی عرب، 1409ھ۔</ref><ref name="حوالہ 5" /><ref name="حوالہ 4" /><ref name="حوالہ 8" /><ref name="حوالہ 3" />
* تابعی حضرت امام زہری (متوفی 124ھ) بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اِس اُمت کی تمام عورتوں کے جن میں اُمہات المومنین بھی شامل ہوں، علم کو جمع کر لیا جائے تو عائشہ کا علم اُن سب کے علم سے زیادہ ہے۔<ref name="حوالہ 18">امام طبرانی: المعجم الکبیر، جلد 23 صفحہ 184،  الرقم الحدیث 299۔ مطبوعہ مطبعۃ الزہراء الحدیثہ، موصل، عراق، 1380ھ۔</ref><ref name="حوالہ 5" /><ref>امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 33، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔</ref><ref name="حوالہ 9" /><ref name="حوالہ 11">امام ہیثمی: مجمع الزوائد،  جلد 9 صفحہ 243۔ مطبوعہ  دارالریان للتراث، قاہرہ، مصر، 1407ھ۔ مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1407ھ۔</ref> امام ہیثمی نے کہا ہے کہ اِس حدیث کے تمام رجال ثقہ ہیں۔<ref name="حوالہ 11" />
* حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کسی بھی خطیب کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر بلاغت و فطانت (ذہانت) والا نہیں دیکھا۔<ref name="حوالہ 18" /><ref>امام ابن ابی عاصم:  الآحاد والمثانی، جلد 5 صفحہ 398،  الرقم 3027۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1400ھ۔</ref><ref name="حوالہ 11" />
سطر 243:
آپ سے احادیث کو روایت کرنے والے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں مشہور حضرات یہ ہیں:
 
ابراہیم بن یزید النخعی (مرسلاً)، ابراہیم بن یزید التمیمی، اسحاق بن طلحہ، اسحاق بن عمر، الاسود بن یزید، ایمن المکی، ثُمامہ بن حزن، جُبیر بن نُفیر، جُمَیع بن عمیر، الحارث بن عبداللہعبد اللہ بن ابی ربیع ہ المخزومی، الحارث بن نوفل، [[حسن ابن علی]]، حمزہ بن عبداللہعبد اللہ بن عمر، [[خالد بن سعید]]، خالد بن معدان، خباب، خبیب بن عبداللہعبد اللہ بن الزبیر، خلاس الہجری، خیار بن سلمہ، خیثمہ بن عبدالرحمن،عبد الرحمن، ذکوان السمان، مولیٰ ذکوان، ربیع ہ الجرشی، زاذان ابو عمر الکندی، زُرار ہ بن اوفی، زِر بن حُبَیش، زید بن اسلم، سالم بن ابی الجعد، زید بن خالد الجُہنی، سالم بن عبداللہ،عبد اللہ، سالم سبلان، سائب بن یزید، سعد بن ہشام، سعید المَقبری، سعید بن العاص، [[سعید بن مسیب]]، سلیمان بن یسار، سلیمان بن بریدہ، شریح بن ارطاہ، شریح بن ھانی، شریق الہوزنی، شقیق ابو وائل، شہر بن حوشب، صالح بن ربیع ہ بن الہدیر، صعصہ، طاووُس، طلح ہ بن عبداللہعبد اللہ التیمی، عابس بن ربیعہ، عاصم بن حمید السکونی، عامر بن سعد، الشعبی، عباد بن عبداللہعبد اللہ بن الزبیر، عباد ہ بن الولید، عبداللہعبد اللہ بن بریدہ، ابوالولید عبداللہعبد اللہ بن الحارث البصری، عبداللہعبد اللہ ابن الزبیر، عرو ہ ابن الزبیر، عبداللہعبد اللہ بن شداد اللیثی، عبداللہعبد اللہ بن شقیق، عبداللہعبد اللہ بن شہاب الخولانی، عبداللہعبد اللہ بن عامر بن ربیعہ، عبداللہعبد اللہ ابن عمر، عبداللہعبد اللہ ابن عباس، عبداللہعبد اللہ بن فروخ، عبداللہعبد اللہ بن ابی مُلَیکہ، عبداللہعبد اللہ بن عبید ابن عمیر، ابن عمیر، عبداللہعبد اللہ بن حکیم، عبداللہعبد اللہ بن ابی قیس، عبداللہعبد اللہ و القاسم، ابنا محمد، عبداللہعبد اللہ بن ابی عتیق محمد، عبدالرحمنعبد الرحمن بن ابی عتیق، عبداللہعبد اللہ بن واقد العمری، عبداللہعبد اللہ بن یزید، عبداللہعبد اللہ البھی، عبدالرحمنعبد الرحمن بن الاسود، عبدالرحمنعبد الرحمن بن الحارث بن ہشام، عبدالرجمنعبد الرجمن بن سعید بن وہب الہمدانی، عبدالرحمنعبد الرحمن بن شُماسہ، عبدالرحمنعبد الرحمن بن عبداللہعبد اللہ بن سابط الجُمَحی، عبدالعزیز،عبد العزیز، والد ابن جُریج، عبید اللہ بن عبداللہ،عبد عبیداللہاللہ، عبید اللہ بن عیاض، عرو ہ المزنی، عطاء بن ابی رباح، عطاء ابن یسار، عکرمہ، علقمہ، علقمہ بن وقاص، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، عمرو بن سعید الاشدق، عمرو بن شرحبیل، عمرو بن غالب، عمرو ابن میمون، عمران بن حطان، عوف بن الحارث، عیاض ابن عروہ، عیسیٰ بن طلحہ، غُضیف بن الحارث، فرو ہ بن نوفل، القعقاع بن حکیم، قیس بن ابی حازم، کثیر بن عبید الکوفی، کُریب، مالک بن ابی عامر، مجاہد، محمد بن ابراہیم التیمی، محمد بن الاشعث، محمد بن زیاد الجُمَحی، ابن سیرین، محمد بن عبدالرحمنعبد الرحمن بن الحارث بن ہشام، ابوجعفر محمد الباقر، محمد بن قیس بن مخرمہ، محمد بن المنتشر، محمد ابن المنکدر، مروان العقیلی ابولبابہ، مسروق، مصدع ابو یحیی، مُطرف بن الشِخِیر، مِقسَم، مولیٰ ابن عباس، المطلب بن عبداللہعبد اللہ بن حنطب، مکحول شامی، موسیٰ بن طلحہ، میمون بن ابی شبیب، میمون بن مہران، نافع بن جُبیر، نافع ابن عطاء، نافع العمری، نعمان بن بشیر، ہمام بن الحارث، ہلال ابن یساف، یحیی بن الجزار، یحیی بن عبدالرحمنعبد الرحمن بن حاطب، یحیی بن یعمر، یزید بن بابنوس، یزید بن الشِخِیر، یعلیٰ بن عقبہ، یوسف بن ماھَک، ابواُمام ہ بن سہل، ابوبرد ہ بن ابی موسیٰ، ابوبکر بن عبدالرحمنعبد الرحمن بن الحارث، ابوالجوزاء الربعی، ابو حذیفہ الارحبی، ابو حفصہ، ابو الزبیر المکی، ابو سلمہ بن عبدالرحمن،عبد الرحمن، ابو الشعشاء المحاربی، ابو الصدیق الناجی، ابو ظبیان الجنبی، ابو العالیہ رُفَیع الریاحی، ابوعبداللہ الجدلی، ابوعبید ہ بن عبداللہعبد اللہ بن مسعود، ابوعثمان النہدی، ابو عطیہ الوادعی، ابو قلابہ الجرمی، ابو الملیح الہذلی، ابو موسیٰ الاشعری، ابو ہریرہ، ابو نوفل بن ابی عقرب، ابو یونس مولیٰ عائشہ، بُھَیَّہ، مولا ہ الصدیق، جسر ہ بنت دُجاجہ، ذِفر ہ بنت غالب، زینب بن ابی سلمہ، زینب بنت نصر، زینب السہمیہ، سمیہ البصریہ، شُمَیسہ العتکیہ، صفیہ بن شیبہ، صفیہ بنت ابی عبید، عائشہ بنت طلحہ، عمر ہ بنت عبدالرحمن،عبد الرحمن، مرجانہ، والدہ علقمہ بن ابی علقمہ، معاذ ہ العدویہ، ام کلثوم بنت ابی بکر (بہن) ، اُم محمد۔<ref>الحافظ الذہبی: سیر اعلام النبلا، جلد 2، صفحہ 136 تا 139۔ مطبوعہ بیروت لبنان۔</ref>
 
== جودو سخاء ==
ایک صحابی کا بیان ہے کہ آپ نے ایک روز میں 70 ہزار درہم اللہ کی راہ میں صرف کیۓکیئے اور خود پیوند لگے کپڑے پہنا کرتی تھیں۔ طیبہ صدیقی اثر ترقی اسلام پر ہے جو تفقہ آپ نے دین میں حاصل کیا اور جو تبلیغ آپ نے امت کو فرمائی اور علم نبوت کی اشاعت میں جو مساعی انہوں نے کیں اور حو علمی فوائد انہوں نے فرزندان امت کو پہنچائے وہ ایسک درجہ ہے جو کسی اور زوجہ محترمہ کو حاصل نہیں۔
* آپ کے بھانجے حضرت عروہ تابعی کہتے ہیں کہ میں نے صدیقہ (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کو دیکھا کہ آپ نے 70 ہزار درہم خیرات کیے اور اپنے کرتے کا دامن جھاڑ کر کھڑی ہوگئیں۔<ref name="ابن سعد" />
* ایک بار حضرت عبداللہعبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس دو تھیلے بھر کر ایک لاکھ کی رقم بھیجی، آپ نے ایک طباق منگوایا، اُس دن آپ کا روزہ تھا۔ آپ وہ رقم لوگوں میں بانٹنے لگیں۔ جب شام ہوگئیہو گئی تو کنیز کو افطاری لانے کا حکم دیا، اُمِ ذرہ بولیں: اُم المومنین! آپ اِن درہموں میں سے ایک درہم کا گوشت منگو لیتیں جس سے آپ روزہ کھول لیتیں۔ فرمایا: مجھے مت کہو، اگر تم مجھے یاد دلا دیتی تو میں گوشت منگوا لیتی۔<ref name="ابن سعد" /> واضح رہے کہ آپ کی خدمت میں ایسے نذرانے حضرت امیر معاویہ {{رض}} اور حضرت عبداللہعبد اللہ بن زبیر {{رض}} کی جانب سے پیش کیۓکیئے جاتے تھے کہ اس زمانہ میں افواج اسلامی کثرت سے فتوحات حاصل کررہیکر رہی تھیں۔
امام ابو نُعَیم الاصبہانی نے اِس روایت کو تفصیلاً بیان کیا ہے کہ:
* اُم ذرہ جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ (کنیز) تھیں، وہ بیان کرتی ہیں کہ: حضرت عبداللہعبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو تھیلوں میں آپ کو 80 ہزار یا ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا، آپ نے (مال رکھنے کے لیے) ایک تھال منگوایا اور آپ اُس دن روزے سے تھیں۔ آپ وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے بیٹھ گئیں۔ پس شام تک اُس مال سے آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا، جب شام ہوگئیہو گئی تو آپ نے فرمایا: اے لڑکی! (دراصل جاریہ کنیز کو [[عربی زبان]] میں کہتے ہیں، ہم نے یہاں جاریہ کا معنی کنیز نہیں بلکہ لڑکی سے کیا ہے) میرے افطار کے لیے کچھ لاؤ،  وہ لڑکی ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر حاضر ہوئی۔  پس اُم ذرہ نے عرض کیا:  کیا آپ نے جو مال آج تقسیم کیا ہے، اُس میں سے ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید سکتی تھیں؟ جس سے آج ہم افطار کرتے،  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اب میرے ساتھ اِس لہجے میں بات نہ کرو، اگر اُس وقت (جب میں مال تقسیم کر رہی تھی) تو نے مجھے یاد کرایا ہوتا تو شاید میں ایسا کر لیتی۔ <ref>امام ابو نُعَیم الاصبہانی: حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء،  جلد 2 صفحہ 47،  مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1400ھ۔</ref><ref>امام ہناد بن سری الکوفی (متوفی 243ھ): کتاب الزھد، جلد 1 صفحہ 337۔ مطبوعہ دارالخلفاء للکتاب الاسلامی، کویت، 1406ھ۔</ref><ref>الحافظ الذھبی: سیراعلام النبلا، جلد 2 صفحہ 187، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1413ھ۔</ref>
* تابعی حضرت عطاء بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سونے کا ایک ہار بھیجا جس میں ایک ایسا جوہر لگا ہوا تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی، پس آپ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات المومنین میں تقسیم فرما دیا۔ <ref>امام ہناد بن سری الکوفی (متوفی 243ھ): کتاب الزھد، جلد 1 صفحہ 337، الرقم 618، مطبوعہ دارالخلفاء للکتاب الاسلامی، کویت، 1406ھ۔</ref><ref>امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 29، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔</ref>
* حضرت عبداللہعبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:  میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر سخاوت کرنے والی عورت نہیں دیکھی،دیکھی اور دونوں کی سخاوت میں فرق ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھوڑی تھوڑی اشیاء جمع فرماتی رہتی تھیں اور جب کافی ساری اشیاء آپ کے پاس جمع ہوجاتیں تو آپ اُنہیں (غرباء اور محتاجوں میں) تقسیم فرما دیتیں،  جبکہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اپنے پاس کل کے لیے بھی کوئی چیز نہیں بچا رکھتی تھیں۔<ref>امام بخاری:  الادب المفرد،  صفحہ 106،  الرقم 286،  مطبوعہ دارالبشائر الاسلامیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔</ref><ref>امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 58/59، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔</ref>
 
== فضائل و مناقب ==
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " عورتوں پر عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔ <ref name="ابن سعد" /> ثرید اُس کھانے کو کہتے ہیں جس کے شوربے میں روٹی بھگودی جائے اور بعد میں تناول کی جائے۔ عہدِ نبوی {{درود}} میں ثرید تمام کھانوں میں ممتاز سمجھا جاتا تھا۔
 
تابعی قاسم بن محمد بن ابی بکر  (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:  مجھے ازواج المطہرات پر دس وجوہات سے فضیلت حاصل ہے۔ پوچھا گیا:  اُم المومنین وہ دس وجوہات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:
* نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سواء کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔ <ref name="حوالہ 6" />
* میرے سواء کسی ایسی خاتون سے نکاح نہیں کیا جس کے والدین مہاجر ہوں۔
* اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری براءت نازل فرمائی۔
* نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل امین علیہ السلام ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لائے اور فرمایا: اِن سے نکاح کرلیجئیے، یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔
* میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے۔ <ref>امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 11 صفحہ 4، الرقم 24515۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
* میرے سواء اِس طرح آپ اپنی کسی اور بیوی کے ساتھ غسل نہیں کیا کرتے تھے۔
* آپ میرے پاس ہوتے تو وحی آ جایا کرتی تھی،تھی اور اگر کسی اور بیوی کے پاس ہوتے تو وحی نہیں آیا کرتی تھی۔
* نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے گلے اور سینہ کے درمیان میں ہوئی  (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا سر اقدس صدیقہ رضی اللہ عنہ کی رانِ مبارک اور زانوئے مبارک کے درمیان میں تھا)۔
* نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری باری کے دن فوت ہوئے (یعنی جب میرے یہاں مقیم تھے)۔
* نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں مدفون ہوئے۔<ref>ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 4 جز 8، صفحہ 59، مطبوعہ لاہور۔</ref>
دوسری روایت میں ہے کہ تابعی عمیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی ہیں کہ: مجھے چند چیزیں حاصل ہیں جو کسی عورت کو حاصل نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت میری عمر سات سال تھی، آپ کے پاس فرشتہ اپنے ہاتھ میں میری تصویر لے کر آیا اور آپ نے میری تصویر دیکھی، رخصتی کے وقت میں نو سال کی تھی، میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، اُنہیں میرے سواء کسی عورت نے نہیں دیکھا، میں آپ کی سب سے زیادہ چہیتی تھی، میرے والد آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں مرض الموت کے ایام گزارے،گزارے اور میں نے آپ کی تیمارداری کی پھر جب آپ نے وفات پائی تو آپ کے پاس صرف میں اور فرشتے تھے، کوئی اور نہ تھا۔<ref>ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 4 جز 8، صفحہ 60، مطبوعہ لاہور۔</ref> بکثرت احادیث و روایات سے یہ مسلمہ ہے کہ بوقت نکاح آپ کی عمر 6 سال تھی، یہاں سات سال سے مراد یہ ہے کہ بوقت نکاح 6 سال مکمل ہوکر ساتویں سال کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔
* ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ!   جنت میں آپ کی بیویاں کون ہیں؟  فرمایا:  '''اُن میں سے ایک تم بھی ہو۔''' <ref name="ابن سعد" />
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  '''مجھے جنت میں عائشہ دکھائی گئیں تاکہ مجھ پر موت آسان ہو جائے، گویا میں اُن کے دونوں ہاتھ دیکھ رہا ہوں۔'''<ref name="ابن سعد" />
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  '''عائشہ جنت میں بھی میری بیوی ہوں گی۔''' <ref name="ابن سعد" />
تابعی عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے اُم المومین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے!  مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  تمہاری ناراضی اور رضا مجھ سے چھپی نہیں رہتی۔ میں بولی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،  آپ کس طرح پہچان جاتے ہیں؟  فرمایا:  رضا کے وقت جب تم قسم کھاتی ہو تو محمد کے رب کی قسم کہتی ہو اور ناراضی کے وقت ابراہیم کے رب کی قسم کہتی ہو۔ میں بولی:  یارسول اللہ!   آپ سچ فرماتے ہیں۔ <ref name="ابن سعد" /><ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب 108: باب غیرۃِغیر ۃِ النساء ووَجْدِھن،  صفحہ 1332،  الرقم الحدیث 5228۔  مطبوعہ دار ابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref><ref>امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 11 صفحہ 4، الرقم 24513۔ مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>امام ابن حبان: صحیح ابن حبان، جلد 16 صفحہ 49، الرقم الحدیث 7112۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1414ھ۔</ref>
 
تابعی مسروق جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں، جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی حدیث بیان کرتے تو فرماتے: مجھ سے یہ حدیث صدیقہ بنت صدیق نے اور اللہ کے محبوب کی معصومہ محبوبہ نے بیان فرمائی۔ <ref name="ابن سعد" />  یہ اُن کی اُم المومنین سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہے۔
 
حضرت ابی حازم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:  یا رسول اللہ!  آپ کو سب سے زیادہ کون پیارے ہیں؟  فرمایا:  عائشہ،  بولے: میں مردوں میں سے پوچھ رہا ہوں۔ فرمایا:  اُن کے والد۔<ref name="ابن سعد" />
 
حضرت عبداللہعبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث روایت کرتے تو فرماتے:  اللہ کی قسم! عائشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی بھی جھوٹ نہیں باندھ سکتیں۔<ref name="ابن سعد" />
== زیارت حضرت جبرائیل علیہ السلام ==
آپ فرماتی ہیں کہ: میں انے اپنے اِس حجرے کے دروازے پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کو گھوڑے پر سوار دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے، پھر جب آپ اندر تشریف لائے تو میں نے پوچھا: یا رسول اللہ {{درود}}! یہ کون تھے جن سے آپ چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے؟ فرمایا: کیا تم نے اُنہیں دیکھا تھا؟ میں بولی: جی۔ فرمایا: تم نے اُنہیں کس کے مشابہ پایا؟ میں بولی: دحیہ کلبی کے۔ فرمایا: تم نے فراوانی کے ساتھ خیر دیکھی، وہ جبرئیل علیہ السلام تھے، تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا: عائشہ یہ جبرئیل ہیں، تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔ میں بولی: وعلیہ السلام، اللہ تعالیٰ اِس آنے والے کو بہتر صلہ عطاء فرمائے۔<ref name="ابن سعد" /> دوسری روایت میں ہے کہ آپ فرماتی ہیں کہ: میں نے اُن کو (یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام) کو نہیں دیکھا تھا اور نبی {{درود}} وہ دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔ <ref name="ابن سعد" /><ref>مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4436 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23366۔  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
امام بخاری نے ابو سلمہ سے روایت کیا ہے کہ:  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اے عائشہ! یہ جبرائیل  (علیہ السلام) ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا: اُن پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکات ہوں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ دیکھ سکتے ہیں، وہ میں نہیں دیکھ سکتی۔<ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب 30: باب فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 924،  الرقم الحدیث 3768۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔</ref><ref>امام بخاری: صحیح بخاری،  کتاب بدء الخلق، باب 6: باب ذکر الملائکۃ، صفحہ 796، الرقم الحدیث 3217۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔</ref><ref>امام بخاری: صحیح بخاری،  کتاب الادب، باب 111: باب من دَعا صاحبہ فنَقص من اسمہ حرفاً،  صفحہ 1547،  الرقم الحدیث 6201۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔</ref><ref>امام بخاری: صحیح بخاری،  کتاب الاستئذان، باب 16: باب تسلیم الرجال علی النساء، والنساء علی الرجال،  صفحہ 1559،  الرقم الحدیث 6249۔   مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔</ref><ref>امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6195  مکرر 2447۔</ref><ref>امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6196  مکرر 2447۔</ref><ref>امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6197  مکرر 2447۔</ref><ref>امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6198  مکرر 2447۔</ref><ref>امام ترمذی: السنن الترمذی، کتاب الاستئذان، باب 5: باب ما جاء فی تبلیغ السلام،  جلد 3 صفحہ 76، الرقم الحدیث 2693۔  مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1420ھ۔</ref><ref>امام ابوداؤد:  السنن ابوداؤد،  کتاب الادب، باب 166: باب فی الرجل یقول: فلان یقرئک السلام،  جلد 3 صفحہ 284،  الرقم الحدیث 5232۔  مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1419ھ۔</ref><ref>مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4260 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23190۔  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4785 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23715۔  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4826 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23756۔  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 5092 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 24022۔  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 5132 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 24062۔  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 5807 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 24737۔  مطبوعہ لاہور۔</ref>
== روایت کردہ احادیث کی تعداد ==
آپ سے 2210 احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم روایت ہیں جبکہ اِن میں سے 174 متفق علیہ ہیں، یعنی اِن کو امام بخاری نے صحیح بخاری اور امام مسلم نے صحیح مسلم میں سنداً روایت کیا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے متفق روایات 174 لی ہیں جن میں امام بخاری 54 میں منفرد ہیں اور امام مسلم 69 احادیث میں منفرد ہیں ۔<ref>الحافظ الذہبی: سیر اعلام النبلا، جلد 2، صفحہ 139۔ مطبوعہ بیروت لبنان۔</ref>۔ 2210 احادیث والی تعداد کو سید سلیمان ندوی نے سیرت عائشہ میں لکھا ہے مگر یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ صرف مسند احمد بن حنبل میں ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 2524 ہے۔
 
اگر [[صحاح ستہ]] میں مکرر رویات حذف نہ کی جائیں تو روایات عائشہ رضی اللہ عنہا کی تعداد یوں ہے:
سطر 301:
 
== علالت وفات و تدفین ==
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقیدِ حیات رہیں۔رہی ں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اواخر سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے اواخر سال ہیں۔ سنہ [[58ھ]] مطابق [[678ء]] میں جب آپ کی عمر مبارک 67 سال کے قریب قریب تھی کہ ماہِ [[رمضان]] [[58ھ]]/ [[جولائی]] [[678ء]] میں علیل ہوگئیں اور چند روز تک علیل رہیں۔رہی ں۔ کوئی حال پوچھتا تو فرماتیں: اچھی ہوں۔ <ref name="ابن سعد" />
 
جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگیں: کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی، کاش میں ایک درخت ہوتی کہ اللہ کی پاکی میں رطب اللسان رہتی اور پوری طرح سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی، کاش میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی، کاش اللہ تعالیٰ مجھے پیدا نہ فرماتا، کاش میں زمین کی بوٹیوں میں سے کوئی بوٹی ہوتی اور قابل ذکر شے نہ ہوتی۔<ref name="ابن سعد" />
سطر 309:
اسماعیل بن قیس کہتے ہیں کہ بوقت وفات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئی نئی باتیں اِختیار کر لی تھیں، لہٰذا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج المطہرات کے پاس دفن کرنا (یہ آپ نے کسر نفسی میں فرمایا تھا)۔<ref name="ابن سعد" />
 
ذکوان جو آپ کے غلام تھے، کہتے ہیں کہ جب آپ علیل ہوئیں تو میں اجازت حاصل کرکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا،  آپ کے سرہانےس رہانے آپ کے بھتیجے عبداللہعبد اللہ بن عبدالرحمٰنعبد الرحمٰن تھے۔ میں نے کہا:  آپ کے پاس عبداللہعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آنا چاہتے ہیں، اُس وقت آپ دنیاءدنیا سدھارنے والی تھیں، بولیں: ابن عباس کو نہ آنے دو،  اِس وقت مجھے اُن کی اور اُن کی تعریفوں کی ضرورت نہیں۔ ذکوان نے کہا: اُم المومنین! ابن عباس آپ کے ایک نیک و صالح فرزند ہیں۔ آپ کو سلام کرنے اور رخصت کرنے آئے ہیں۔ بولیں: اچھا تو اگر تم چاہو تو اُنہیں بلا لو،  آخر کار میں نے اُنہیں بلا لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آتے ہی آپ کو سلام کیا اور بیٹھ گئے اور بولے: بشارت ہو۔  بولیں:  کس چیز کی؟   کہنے لگے:  اُس کی جو آپ کے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور دیگر احباب کی ملاقات کے درمیان میں ہے،  بس جسم سے روح نکلنے کی دیر ہے آپ اُن سب سے جاکر ملاقات کریں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی لاڈلی بیوی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاکیزہ چیز سے ہی محبت کیا کرتے تھے اور دیکھیے ابواء کے دن آپ کا ہار کھو گیا تھا، اُسے ڈھونڈنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منزل میں صبح تک ٹھہرے رہے، لوگوں کے پاس پانی نہ تھا پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ مسلمانوں کو یہ سہولت آپ کی بدولت نصیب ہوئی پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی براءت ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اُتاری جسے روح الامین لے کر آئے، اب ایسی کوئی مسجد نہیں جس میں آپ کی براءت کی آیتیں صبح و شام نہ پڑھی جاتی ہوں۔  آپ فرمانے لگیں:  ابن عباس! تعریفیں چھوڑو، اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،  میری تو یہ تمناء ہے کہ میں بھولی بسری ہوئی جاتی۔<<ref name="ابن سعد" />
 
تابعی ابن ابی عتیق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے جب کہ وہ علیل تھیں، بولے:  اُم المومنین کسی طبیعت ہے؟  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، فرمانے لگیں:  اللہ کی قسم  یہ موت ہے۔<ref name="ابن سعد" />
سطر 315:
عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ آپ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کے پیچھے آگ لے کر نہ جانا اور میری میت پر سرخ مخملی چادر نہ بچھانا۔<ref name="ابن سعد" /> اپنے غلام ذکوان کو آزاد کرنے کی وصیت کی تھی۔<ref name="ابن سعد" />
 
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے [[منگل]] 17 [[رمضان]] [[58ھ]] مطابق [[13 جولائی]] [[678ء]] کی شب کو اِس دارِ فانی سے عالم بقاء کو لبیک کہا۔<ref>امام محمد بن عبداللہعبد اللہ بن زبر الربعی متوفی 379ھ<span role="navigation" aria-labelledby=".D8.A7.D9.85.DB.81.D8.A7.D8.AA_.D8.A7.D9.84.D9.85.D8.A4.D9.85.D9.86.DB.8C.D9.86"> </span>:  تاریخ مولد العلماء وَ وفیاتہم، صفحہ 66، ذکر تحت سنۃ الہجریہ 58ھ۔ مطبوعہ منشورات مرکز المخطوطات والتراث و الوثائق، الکویت، 1410ھ۔</ref><ref name="ابن سعد" /><ref>امام ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب، جلد 4 صفحہ 681، مطبوعہ موسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1416ھ۔</ref><ref name="حوالہ 6" /> آپ کی وفات کی خبر اچانک ہی تمام [[مدینہ منورہ]] میں پھیل گئی اور انصارِ [[مدینہ منورہ]] اپنے گھروں سے نکل آئے۔ جنازہ میں ہجوم اِتنا تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اِتنا مجمع کبھی نہیں دیکھا گیا، بعض عورتوں کا اژدھام دیکھ کر روزِ عید کے ہجوم کا گماں گزرتا تھا۔ آپ کی مدتِ حیات شمسی سال کے اعتبار سے 64 سال اور قمری سال کے اعتبار سے 66 سال 11 ماہ تھی۔ نمازِ جنازہ حضرت [[ابوہریرہ]] رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کی تجہیز و تکفین شب میں ہی عمل میں آئی۔ حضرت [[ابوہریرہ]] رضی اللہ عنہ اُن دِنوں [[مدینہ منورہ]] کے قائم مقام امیر تھے کیونکہ [[مروان بن حکم]] [[مدینہ منورہ]] میں موجود نہ تھا، وہ عمرہ کے لیے [[مکہ]] مکرمہ گیا ہوا تھا اور [[مدینہ منورہ]] میں حضرت [[ابوہریرہ]] رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب اور قائم مقام امیر بنا کر گیا تھا۔<ref name="ابن سعد" /> بوقت تدفین آپ کی قبر اطہر کے چاروں اطراف ایک کپڑے سے پردہ کر دیا گیا تھا تاکہ آپ کے احترام میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔ <ref name="ابن سعد" /> آپ کو قبر اطہر میں آپ کے بھانجوں، بھتیجوں یعنی جناب قاسم بن محمد بن ابی بکر، حضرت عبداللہعبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر، عبداللہعبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمٰنعبد الرحمٰن بن ابی بکر اور عبداللہعبد اللہ بن عبدالرحمٰنعبد الرحمٰن بن ابی بکر نے قبر اطہر میں اُتارا۔<ref name="ابن سعد" /> شب [[بدھ]] میں تہجد کے وقت تدفین عمل میں آئی۔
 
اُم المومنین حضرت ام سلمہ [[ہند بنت ابی امیہ]] رضی اللہ عنہا لوگوں کی آہ و فغاں سن کر بولیں: عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے لیے جنت واجب ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیوی تھیں <ref name="حوالہ 10">سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 126، مطبوعہ لاہور۔</ref>۔ امام ابوداؤد طیالسی نے اُم المومنین حضرت ام سلمہ [[ہند بنت ابی امیہ]] کا قول نقل کیا ہے کہ جب اُنہیں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی وفات کی خبر معلوم ہوئی تو بولیں: اللہ اُن پر رحمت بھیجے کہ اپنے باپ کے سواء وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ <ref>امام ابوداؤد طیالسی: مسند طیالسی، من مسند اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 224۔</ref><ref name="حوالہ 10" />
 
عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے میرے والد سے پوچھا: لوگوں نے اُم المومنین کا غم کیا کیا؟  بولے:  آپ کی وفات پر ہر وہ غمگین تھا جس جس کی آپ ماں تھیں۔<ref name="ابن سعد" />
== واقعات و تعینِ عمر مبارکہ ==
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت نبوی کے چوتھے سال ماہِ شوال مطابق [[جولائی]] [[614ء]] میں ہوئی اور آپ کی وفات بروز منگل 17 [[رمضان]] [[58ھ]] مطابق [[13 جولائی]] [[678ء]] کو ہوئی۔ شمسی سال کے اعتبار سے مدت حیات مکمل 64 سال ہوتی ہے اور قمری سال کے اعتبار سے 66 سال 11 ماہ ہوتی ہے یعنی ماہِ [[شوال]] 4 نبوی سے ماہِ [[رمضان]] [[58ھ]] تک۔ اِس کو باآسانی یوں شمار کیا جاسکتا ہے کہ 4 نبوی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 44 سال تھی یعنی 44 سال میلادی۔ [[11ھ]] میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی تو وہ 64 سال میلادی تھا۔ ہجرت کا سال میلادی 53 تھا۔ اگر [[58ھ]] میں سال میلادی 53 جوڑ دئیے جائیں تو 111 سال ہوتے ہیں۔ اِن 111 سالوں میں 44 سال نفی کردیںکر دیں (جو ولادت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سال ہے اور اُس میں سال میلادی 44 تھا) تو باقی رہے 67 سال۔ یعنی 4 نبوی سے [[58ھ]] تک 67 سال قمری ہوتے ہیں جو قریب قریب آپ کی مدت حیات 66 سال 11 ماہ کے ہے۔{{سخ}}
ایک ﺩﻥ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺟﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨہ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ،{{سخ}}
ﺍﮮ ﻋﺎﺋﺸﮧ ،ﻋﺎﺋﺸﮧ، ﺁﺝ ﻣﺎﻧﮕﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﯽ ﮨﻮ . ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮕﻮ ﮔﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ .{{سخ}}
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ،{{سخ}}
ﺣﻀﻮﺭ ،ﺣﻀﻮﺭ، ﺍﮔﺮ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﺮﻟﻮﮞ ؟ﮐﺮﻟﻮﮞ؟{{سخ}}
ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺭﺣﻤﺖ ﺟﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ . ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮩﺎ، ،ﺟﺎﻭﺀ ﮐﺮﻟﻮ ﻣﺸﻮﺭﮦ .{{سخ}}
ﺟﺎﻭﺀ ﮐﺮﻟﻮ ﻣﺸﻮﺭﮦ .{{سخ}}
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯽ . ﭘﮭﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﮕﻮﮞ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ .{{سخ}}
ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ،ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺟﺎ ﮐﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﯽ ﺷﺐ ﻗﺮﺑﺖ ﺧﺎﺹ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺭﺍﺯ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﮟ۔{{سخ}}
ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺟﺎ ﮐﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﯽ ﺷﺐ ﻗﺮﺑﺖ ﺧﺎﺹ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺭﺍﺯ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﮟ۔{{سخ}}
ﻣﺎﻧﮕﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻋﻠﻢ ﻣﺎﻧﮕﺎ ۔ ۔ ۔ {{سخ}}
ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ،{{سخ}}
ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺳﻨﻮ ،ﺳﻨﻮ، ﺟﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﻭﮦ ﺁﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﻧﺎ .{{سخ}}
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻭﺍﭘﺲ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎﭘﻮﭼﮭﺎ، ،ﻋﺎﺋﺸﮧ، ﮨﻮﮔﯿﺎ ﻣﺸﻮﺭﮦ؟{{سخ}}
ﻋﺎﺋﺸﮧ ، ﮨﻮﮔﯿﺎ ﻣﺸﻮﺭﮦ ؟{{سخ}}
ﮐﮩﺎ ،{{سخ}}
ﺟﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ .{{سخ}}
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ،{{سخ}}
ﺑﺘﺎؤ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﯽ ﮨﻮ ؟ﮨﻮ؟{{سخ}}
ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ،{{سخ}}
ﺣﻀﻮﺭ ،ﺣﻀﻮﺭ، ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﻗﺮﺑﺖ ﺧﺎﺹ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺩﯾﮟ .{{سخ}}
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﺌﮯ . ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻭ ﻭﺟﮧ ﺗﮭﯿﮟ . ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻏﺎﺭ ﯾﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺭﺍﺯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺩﻭﮞ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺭﺍﺯ ﺗﻮ ﺭﺍﺯ ﻧﮧ ﺭﮨﺎ . ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮕﻮ ﮔﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ . ﺍﺳﻠﯿﺌﮯ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ،{{سخ}}
ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺳﻨﻮ ﭘﮭﺮ . . . ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺑﺖ ﺧﺎﺹ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ، ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ! ﺁﭖ ﮐﯽ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﭨﻮﭨﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﻝ ﺟﻮﮌ ﺩﮮ ﺗﻮ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ،ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺣﺴﺎﺏ ﮐﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﺩﻭﻧﮕﺎ .{{سخ}}
ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ، ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ! ﺁﭖ ﮐﯽ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﭨﻮﭨﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﻝ ﺟﻮﮌ ﺩﮮ ﺗﻮ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺣﺴﺎﺏ ﮐﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮﺩﻭﻧﮕﺎ .{{سخ}}
ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﯿﮟ . ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﻪ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﯿﮟ . ﺁﭖ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ،{{سخ}}
ﻋﺎﺋﺸﮧ ،ﻋﺎﺋﺸﮧ، ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ؟ﻧﮯ؟
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺩﯼ . ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﻪ ﺧﻮﺵ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺳﻨﺎ ﺗﻮ ﺯﺍﺭ ﻭ ﻗﻄﺎﺭ ﺭﻭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎ . ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﻪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ،{{سخ}}
ﺍﺑﺎ ﺟﯽ ،ﺟﯽ، ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ . ﺑﺴﺎ ﺍﻗﺎﺕ ﮨﻢ ﺩﮐﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﺨﺸﺶ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ .{{سخ}}
ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺑﮑﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﻪ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ،{{سخ}}
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻟﭧ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ . ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﭨﻮﭨﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﻝ ﺟﻮﮌﺩﮮ ﺗﻮ ﺑﻐﯿﺮ ﺣﺴﺎﺏ ﮐﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺗﻮﮌ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ . ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺩﻝ ﻧﮧ ﭨﻮﭦ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ.
سطر 354 ⟵ 350:
== عبادت اور خشیتِ الٰہی ==
* نماز چاشت پابندی سے اداء فرماتیں۔<ref>امام مالک: موطاء امام مالک،  کتاب قصر الصلٰوۃ،  باب 11: باب صلاۃ الضحیٰ، الرقم الحدیث 391، جلد 2، صفحہ 30۔ مطبوعہ مکتبۃ الفرقان، دوبئی، 1424ھ۔</ref><ref>امام احمد بن حنبل:  مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 9،  الرقم الحدیث 5386۔  مطبوعہ لاہور۔</ref> چاشت کی 8 رکعت ادائیگی آپ کا معمول تھا۔<ref name="حوالہ 13">امام مالک: موطاء امام مالک،  کتاب قصر الصلٰوۃ،  باب 11: باب صلاۃ الضحیٰ، الرقم الحدیث 391، جلد 2، صفحہ 31۔ مطبوعہ مکتبۃ الفرقان، دوبئی، 1424ھ۔</ref> اکثر فرمایا کرتیں:  اگر میرے والدین کو بھی زندہ کر دیا جائے، میں پھر بھی یہ رکعتیں ترک نہ کروں گی<ref name="حوالہ 13" /> (مراد اِس سے یہ تھا کہ اگر میرے والدین زندہ ہوکر آئیں اور مجھے اِس نماز سے روکیں تو میں اِس نماز کی ادائیگی نہیں چھوڑوں گی)۔
* نمازِ چاشت کی ادائیگی میں اکثر طویل وقت صرف ہوجاتا، عبداللہعبد اللہ بن ابی موسیٰ تابعی کہتے ہیں کہ ایک بار مجھے ابن مدرک نے کچھ سوالات کے جوابات کی خاطر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا کہ جوابات دریافت کرکے لاؤ، جب میں حجرہ کے قریب پہنچا تو آپ چاشت کی نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے سوچا کہ اُن کے فارغ ہونے تک بیٹھ کر اِنتظار کرلیتا ہوں لیکن لوگوں نے مجھے بتایا کہ اُنہیں بہت دیر لگے گی، میں نے اُسی اطلاع دینے والے سے پوچھا کہ میں اُن سے کس طرح اجازت طلب کروں؟  اُس نے کہا کہ یوں کہو:  السَلَامُ عَلَیکَ اَیُھَا النَبِیُ وَرَحمَتُ اللہِ  وَ بَرَ کَاتُہ، السَلَامُ عَلَینا وَ عَلَی عِبَادِ اللہِ الصَالِحِینَ السَلاَ مُ عَلیَ اُمَھِاتِ المُومِنِینَ،   میں اِس طرح سلام کرکے اندر داخل ہوا اور آپ سے سوالات کے جوابات دریافت کرنے لگا۔<ref>امام احمد بن حنبل:  مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 9،  الرقم الحدیث 4911۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
* تابعی حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مسلسل روزے سے ہوتی تھیں۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مسلسل روزہ سے ہوتی تھیں اور صرف عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کو افطار فرماتی تھیں (یومِ عیدین کو روزہ نہیں رکھا جا سکتا اِس لیے اِس روایت میں افطار سے مراد یہی ہے)۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر بیان کرتے ہیں کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے سلام کرنے کی غرض سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاتا،  پس ایک صبح میں آپ کے گھر گیا تو آپ حالت قیام میں تسبیح فرما رہی تھیں اور یہ آیت مبارکہ پڑھ رہی تھیں: '''فَمَنَّ اللہُ عَلَیْنَا وَ وَقَانًا عَذَابَ السَّمُوْمِ'''،  اور دعاء کرتی اور روتی جا رہی تھیں اور اِس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں،  پس میں (انتظار کی خاطر) کھڑا ہو گیا، یہاں تک کہ میں کھڑا ہو ہو کر اُکتا گیا اور اپنے کام کی غرض سے بازار چلا گیا،  پھر میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اِسی حالت میں کھڑی نماز اداء کر رہی ہیں اور مسلسل روئے جا رہی ہیں۔ <ref>امام عبدالرزاقعبد الرزاق بن ہمام الصنعانی: المصنف، جلد 2 صفحہ 451،  الرقم الحدیث 4048۔ مطبوعہ  المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ۔</ref><ref>الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ۔
 
امام بیہقی: شعب الایمان، جلد 2 صفحہ 375۔  مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1410ھ۔</ref><ref>امام ابن ابی عاصم<span role="navigation" aria-labelledby=".D8.B5.D8.AD.D8.A7.D8.A8.DB.8C.D8.A7.D8.AA_.DA.A9.DB.8C_.D9.81.DB.81.D8.B1.D8.B3.D8.AA"> </span>:  کتاب الزھد،  جلد 1 صفحہ 164۔ مطبوعہ دارالریان للتراث، قاہرہ، مصر، 1408ھ۔</ref><ref>امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 31، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔</ref>
سطر 381 ⟵ 377:
* [[واقعہ افک]]
 
== بیرونی روابط ==* [https://www.dawateislami.net/bookslibrary/373/page/26]* [https://m.urdupoint.com/women/article/khanwada-e-rasool/ummul-mumineen-hazrat-ayesha-siddiqua-razi-allah-taala-anha-1123.html]* [http://forum.mohaddis.com/threads/ام-المومنین-حضرت-سیدہ-عائشہ-صدیقہ-بنت-ابی-بکر-رضی-اللہ-عنہما-کی-سیرت-و-فضائل۔5505/]* [http://www.javedahmadghamidi.com/ishraq/view/hazrat-asma-bint-e-abu-bakar-razi-allah-anhaa]* [http://www.urduencyclopedia.org/general/index.php?title=حضرت_اسماء_بنت_ابی_بکر_رضی_اللہ_تعالی_عنہا]* [http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=62821]
== بیرونی روابط ==
*[https://www.dawateislami.net/bookslibrary/373/page/26]
*[https://m.urdupoint.com/women/article/khanwada-e-rasool/ummul-mumineen-hazrat-ayesha-siddiqua-razi-allah-taala-anha-1123.html]
*[http://forum.mohaddis.com/threads/ام-المومنین-حضرت-سیدہ-عائشہ-صدیقہ-بنت-ابی-بکر-رضی-اللہ-عنہما-کی-سیرت-و-فضائل.5505/]
*[http://www.javedahmadghamidi.com/ishraq/view/hazrat-asma-bint-e-abu-bakar-razi-allah-anhaa]
*[http://www.urduencyclopedia.org/general/index.php?title=حضرت_اسماء_بنت_ابی_بکر_رضی_اللہ_تعالی_عنہا]
*[http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=62821]
 
== مزید مطالعہ ==
سطر 397 ⟵ 387:
* ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، علی بن الحسین بن محمد بن أحمد بن الہیثم المروانی الأموی القرشی، أبو الفرج الأصبہانی(۳۵۶ق)، المحقق السید أحمد صقر،‌دار المعرفۃ، بیروت۔
* بابایی، احمد علی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۲ش۔
* ابن ہشام، عبدالملکعبد الملک (م۲۱۸)، السیرہ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت،‌دار المعرفۃ، بی‌تا۔
* ابن الاثیر، عزالدین (م۔۶۳۰)، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت،‌دار الفکر، ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔
* ابن اثیر، علی بن أبی الکرم(۶۳۰ق)،الکامل فی التاریخ، تحقیق عمر عبد السلام تدمری،‌دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، الطبعۃ: الأولی، ۱۴۱۷ق۔
* ابن الجوزی، عبد الرحمن بن علی(۵۹۷ق)، زاد المسیر فی علم التفسیرالمکتب الإسلامی، بیروت، الطبعۃ: الثالثۃ، ۱۴۰۴ق۔
* ابن سعد، محمد (م۔۲۳۰)، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت،‌دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰
* ابن عبدالبر،عبد البر، یوسف بن عبداللہعبد اللہ (م۔۴۶۳)، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌دار الجیل، ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
* ابن قتیبہ، عبداللہعبد اللہ بن مسلم (م۔۲۷۶)، المعارف، تحقیق ثروت عکاشۃ، القاہرۃ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ط الثانیۃ، ۱۹۹۲
* ابن قتیبہ، عبداللہعبد اللہ بن مسلم(م۔۲۷۶)، الإمامۃ و السیاسۃ المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ط الأولی، ۱۴۱۰ق۔* أبی حیان، محمد بن یوسف(۷۴۵ق)، تفسیر البحر المحیط، تحقیق الشیخ عادل أحمد عبد الموجود،‌دار الکتب العلمیۃ، لبنان، بیروت، الطبعۃ الأولی، ۱۴۲۲ق۔
*أبی حیان، محمد بن یوسف(۷۴۵ق)، تفسیر البحر المحیط، تحقیق الشیخ عادل أحمد عبد الموجود،‌دار الکتب العلمیۃ، لبنان، بیروت، الطبعۃ الأولی، ۱۴۲۲ق۔
* ابن خلکان، أحمد بن محمد بن إبراہیم بن أبی بکر ابن خلکان برمکی إربلی (۶۸۱ق)، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، محقق إحسان عباس، دارصادر، بیروت۔
* ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، مصر، دارالحیاء الکتب العربیہ، ۱۳۸۷ش۔
سطر 414 ⟵ 403:
* سمرقندی، نصر بن محمد(۳۶۷ق)، بحر العلوم، تحقیق د۔ محمود مطرجی،‌دار الفکر، بیروت۔
* سید بن طاوس، الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، الخیام، قم، چاپ اول، ۱۳۹۹ق۔
* صالحی الشامی، محمد بن یوسف (۹۴۲م۔ق۔۹۴۲م۔ ق۔)، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت،‌دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۴۔
* عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۶ق۔
* [[:fa:سید مرتضی عسکری|عسکری،‌ مرتضی]]، [[نقش عا‎ئشہ در احادیث اسلام (کتاب)|احادیث ام المومنین عا‎ئشہ]]، بیروت، مجمع العلمی الاسلامی۔
سطر 429 ⟵ 418:
* بخاری، محمد بن إسماعیل(۲۵۶ق)، صحیح البخاری،، تحقیق د۔ مصطفی دیب البغا،‌دار ابن کثیر، الیمامۃ، بیروت، الطبعۃ الثالثۃ، ۱۴۰۷ش۔
* بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف، ج۱، تحقیق محمد حمید اللہ، مصر،‌دار المعارف، ۱۹۵۹۔
* تقی زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دایرہ المعارف اسلام، قم، شیعہ شناسی۔* ثعالبی، عبد الرحمن بن محمد(۸۷۵ق)، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن،مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، بیروت۔
*ثعالبی، عبد الرحمن بن محمد(۸۷۵ق)، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن،مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، بیروت۔
{{ستون خ}}
</div>
=== عربی مآخذ ===
<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >
{{ستون آ|2}}* الطبري‌، تاريخ‌ الطبري، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، بيروت‌.* المسعودي، مروج الذهب و معادن الجواهر، ترجمة أبو القاسم باينده، انتشارات علمي و فرهنكي، طهران۔* خليفة ‌بن‌ خياط‌، تاريخ‌ خليفة ‌بن‌ خياط‌، طبعة مصطفى‌ نجيب‌ فوّاز و حكمت‌ كشلي‌ فوّاز، بيروت‌.* ابن سعد، الطبقات الكبرى* الذهبي، سير أعلام النبلاء* ابن عبد البر، الاستيعاب* ابن حبان، الثقاة* ابن حجر، الإصابة في تمييز الصحابة ج* ابن قتيبة، المعارف* البخاري، الجامع الصحيح* مسلم النيسابوري، الجامع الصحيح* ابن هشام، السيرة النبوية* ابن أبي الحديد، شرح نهج البلاغة* البلاذري، أنساب الأشراف* القاضي أبو بكر بن العربي، العواصم من القواسم، تحقيق محب الدين الخطيب* الحاكم النيسابوري، المستدرك على الصحيحين* ابن الجوزي، صفة الصفوة* المزي، تهذيب الكمال* ابن عساكر، تاريخ مدينة دمشق* الذهبي، تاريخ الاسلام* ابن الأثير، البداية والنهاية
{{ستون آ|2}}
*الطبري‌، تاريخ‌ الطبري، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، بيروت‌.
*المسعودي، مروج الذهب و معادن الجواهر، ترجمة أبو القاسم باينده، انتشارات علمي و فرهنكي، طهران.
*خليفة ‌بن‌ خياط‌، تاريخ‌ خليفة ‌بن‌ خياط‌، طبعة مصطفى‌ نجيب‌ فوّاز و حكمت‌ كشلي‌ فوّاز، بيروت‌.
*ابن سعد، الطبقات الكبرى
*الذهبي، سير أعلام النبلاء
*ابن عبد البر، الاستيعاب
*ابن حبان، الثقاة
*ابن حجر، الإصابة في تمييز الصحابة ج
*ابن قتيبة، المعارف
*البخاري، الجامع الصحيح
*مسلم النيسابوري، الجامع الصحيح
*ابن هشام، السيرة النبوية
*ابن أبي الحديد، شرح نهج البلاغة
*البلاذري، أنساب الأشراف
*القاضي أبو بكر بن العربي، العواصم من القواسم، تحقيق محب الدين الخطيب
*الحاكم النيسابوري، المستدرك على الصحيحين
*ابن الجوزي، صفة الصفوة
*المزي، تهذيب الكمال
*ابن عساكر، تاريخ مدينة دمشق
*الذهبي، تاريخ الاسلام
*ابن الأثير، البداية والنهاية
{{ستون خ}}
</div>