"افراط زر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 11:
برطانیہ میں 300 فیصد، جرمنی میں 960 فیصد، فرانس میں 850 فیصد، کنیڈا میں 570 فیصد، آسٹریلیا میں 500 فیصد، جنوبی افریقہ میں 670 فیصد، سوئیڈن میں 440 فیصد، سوئزر لینڈ میں 360 فیصد، ارجنٹینا میں 190 فیصد اور چلی میں 740 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
 
غیر جانب دارممالک میں نوٹوں کی گردش میں اضافہ کا باعث وہ موافق توازن تجارت تھا، جو محارب ملکوں کے متوازن سے پیدا ہوا تھا۔ محارب ملکوں میں جنگ کے اخراجات کا بڑا حصہ جنگی قرضوں سے پورا ہوا تھا۔ ان جنگی قرضوں کا اجرا نہیں ہوتا تو محارب ملکوں میں جنگ کے اختتام پر دوران گردش نوٹوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی۔ 1929 سے 1933 کا زمانہ شدید کسادبازاری اور بیکاریUnemplyment کا زمانہ تھا۔ اس کسادبازاری کے دور میں قرض کو سہل الحصول بنانے کے لیے دوران گردش زر کے اضافے کے ساتھ ساتھ ریاستہائے متحدہ امریکہامریکا اور برطانیہ میں مرکزی بینک کی شرح سود بھی گھٹادی گئی تھی، لیکن سرمایا کار اس ارزاں مالی پالیسی کے باوجود کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے تھے۔
گردش زر کی اس کثرت کے باعث رسد زر Money Supply پرقابو پانے کے عام ذرائع اور مرکزی بینک کی شرح کٹوتی کی کارستانی غیر موثرہو کر رہ گئی۔ ڈیکاک Dekok مزید لکھتا ہے کہ تقریبأئ 1933
سطر 17:
# تمام ممالک میں محفوظ سونے کی دوبارہ قیمت بندی۔ جس کا تعلق کم و بیش سابقہ مساوات زر طلائی کے پیش نظر ان ممالک کے سکہ کی قیمت گھٹ جانے سے ہوا ہے یا نئے سونے کی بہت زیادہ بڑھی ہوئی
قیمتوں کے مد نظر سونے کی مجموعی قیمت میں غیر معمولی بیشی مقدار زر میں اضافہ باعث ہوئی ہے۔
# ریاستہائے متحدہ امریکہ،امریکا، سوئیڈن، سوئزرلینڈ، پرتگال، انڈیا، ارجنٹینا اور جنوبی افریقہ، جیسے ممالک کی صورت میں زیر تبصرہ سالوں میں موافق توازن اد ائیگی بہ حیثیت مجموعی اس کا باعث ہوئی ہے۔
# مرکزی بینکوں کا بلواسطہبالواسطہ یا بلاواسطہ افزائش زر جو انہوں نے حکومت کے ایما پر یا دوسرے مقاصد کے پیش نظر جنگ سے پہلے اور بعد جنگ کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے کیا۔
 
بالخصوص ریاستہائے متحدہ امریکہامریکا میں ان تمام اسباب نے زیر بحث زمانے میں ایک ساتھ مل کر اثر ڈالا۔ جب کہ جرمنی میں تیسرا سبب اس تمام مدت میں بنیادی حیثیت سے کار فرما رہا برطانیہ عظمیٰ میں بھی تینوں اسباب کسی وقت اثر انداز ہوتے رہے، لیکن یہ آخری یعنی تیسرا سبب تھا جس نے بازار زر کو مسلسل طور پر متاثر کیا۔
 
ڈیکاک Dekok مزید لکھتا ہے کہ عامۃ الناس کے فائدے کے لیے منظم کرنسی کی ترویج اور سہل الحصول Cheap Money کی برقراری کے مد نظر بہت سے اشخاص کو کینزKeynes کے اس نظریہ سے
سطر 29:
آر ایس سیرز R S sayers اپنی کتاب جدید بینکاری Modern Banking میں لکھتا ہے کہ 47۔ 1945 میں یہ بات نہیں تھی کہ حکام شرح سود گھٹانے میں عجلت کر رہے تھے۔ جو کے ان حالات میں گھٹنے والی تھی اور یہ احساس کہ سرکاری پالیسی معاشیات کے وقتی تقاضوں کے منافی تھی، افراط زر کے ظہور کا باعث ہوا، جس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا یا اس کوشش میں سارا مالیاتی نظام Monetary System بدنام ہوکررہ گیا۔
بڑے پیمانے پر تخلیق زر کی یہ کوششیں جو تمام بڑے ملکوں کی حکومتوں نے اختیار کیں، تجارتی بینکوں کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیئں۔ سرمایا کار ان سے قرض لینے نہیں آ رہے تھے۔ آر۔ ایس۔ سیرز R S sayers اپنی کتاب’متحرک اقتصادیات کی راہ پر‘Towards Dynamic Ecnomice میں لکھتا ہے کہ موجودہ صدی میں خصوصا 1920 سے بینک کاری کے اعداد شمار کی ایک خصوصیت (کرنسی کی گھٹتی ہوئی قیمت کو ملحوظ رکھ کر) بینک کے قرضوں میں نشیبی کا رجحان رہا ہے۔ اس تحریک کے نتائج اتنے دور رس ہیں کہ ان پر خصوصی بحث کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف انگلینڈ بلکہ ریاستہائے متحدہ امریکہامریکا اور کنیڈا میں بھی بہت نمایاں ہے اور اس کا اثر کافی سنگین ہے۔ جب کہ بینکاری کے دوسرے نظام بھی کم و بیش اسی تجربہ سے دوچا رہی ں۔
 
== توسیع زر اور التباس زر ==
سطر 35:
ترقی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ تب آپ کو رسد زر یا مقدار زر میں اضافہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کو نوٹوں کے جاری کرنے کے موجودہ طریقہ کار میں مرکزی بینک کو حامل سود کفالتیں دیتی ہے کہ نوٹ چھاپے جائیں اور جب مرکزی بینک یہ محسوس کرتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ نوٹ گردش کر رہے ہیں تو وہ نوٹوں کی واپسی کے لیے مرکزی بینک سرکاری کفالتیں تجارتی بینکوں کو فروخت کردیتا ہے۔
ہن سن Hansenکا کہنا ہے کہ ’یہ درست ہے ہم اپنے مالی اداروں کو کلی طور پر بدل سکتے تھے، ہم پرانے طریق کار کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ جب کہ حکومت بغیر اپنی کفالت کے خودکاغذی نوٹ چھاپتی تھی۔ جدید بادی النظر میں معقول طریقہ سرکاری کفالتوں کی بنا پر مرکزی بینک کی طرف سے کاغذی نوٹ چھاپتا ہے۔ وفاقی محفوظ بینک (امریکہامریکا کا مرکزی نظام بینکاری) سرکاری کفالتیں بازار سے خرید کرلوگوں کے پاس نوٹوں کی تعداد یا بینکوں کے پاس نقد روپیہ بڑھا سکتا ہے۔ یہ سرکاری کفالتیں بغیر سود کے ہونا چاہیے۔ اس طریق کار میں بمقابلہ دوران جنگ کے مروجہ تقلیدی طریقہ کار کے جس میں وفاقی بینک اور تجارتی بینک دونوں نے سرکاری کفالتوں کی خریداری میں حصہ لیا تھا، کچھ اچھائیاں اور بہت سی برائیاں ہیں ‘۔
نوٹوں کی کفالت کے لیے ہن سن Hansen حامل سودی کفالتوں کی بجائے غیر حامل سودی کفالتوں کے رواج کے حق میں ہے، لیکن وہ کچھ برائیوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ یہ برائیاں ملک میں مقدار
زر کے بڑھ جانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ جب آپ کے ملک میں مقدار زر بڑھ جائے تو آپ کس طرح روپیہ واپس لائیں گے۔
سطر 52:
ملک میں مالیاتی پالیسی کے تحت حکومت ملک میں استحکام کی خاطر سرکاری خرچ و ٹیکس کے متعلق اقدامات کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف ملک کو معاشی استحکام حاصل ہوتا ہے بلکہ قومی آمدنی بڑھتی ہے اور
لوگوں کو روزگار emplyment بھی ملتا ہے۔ <ref>نصیر احمد شیخ اسلامی دستور اور اسلامی اقتصادیات کے چند پہلو۔ 9591؁ء نصیر احمد شیخ میکلوڈ روڈ کراچی</ref><ref>BOOK OF ECONOMIC & THEORRY . SIONIER & HAGUE</ref>
 
== انفلیشن انڈیکس ==
افراط زر کا تخمینہ لگاتے وقت اسٹاک (شیئرز)، ٹریژری بونڈز اور جائیدادوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو شامل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے افراط زر کم ظاہر ہوتا ہے۔ <ref>[http://www.zerohedge.com/news/2017-12-07/finally-honest-inflation-index-–-guess-what-it-shows Finally, An Honest Inflation Index – Guess What It Shows]</ref>
 
== مزید دیکھیے ==