"الانفال" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 23:
== زمانۂ نزول ==
{{اصل|الانفال آیت 30 تا 36}}
یہ سورت 2 ھ میں [[غزوۂ بدر|جنگ بدر]] کے بعد نازل ہوئی اور اس میں اسلام و کفر کی اس پہلی جنگ پر مفصل تبصرہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک سورت کے مضمون پر غور کرنے سے اندازااندازہ ہوتا ہے کہ غالبا{{دوزبر}} یہ ایک ہی تقریر ہے جو بیک وقت نازل فرمائی گئی ہوگی مگر ممکن ہے کہ اس کی بعض آیات جنگ بدر ہی سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق بعد میں اتری ہوں اور پھر ان کو سلسلۂ تقریر میں مناسب مقامات پر درج کرکے ایک مسلسل تقریر بنادیا گیا ہو۔ بہرحال کلام میں کہیں کوئی ایسا جوڑ نظر نہیں آتا جس سے یہ گمان کیا جاسکے کہ یہ الگ الگ دو تین خطبوں کا مجموعہ ہے۔
 
== تاریخی پس منظر ==
سطر 86:
قریش ان نتائج کو خوب سمجھتے تھے، جس رات [[بیعت عقبہ]] واقع ہوئی اسی رات اس معاملے کی بھنک اہل مکہ کے کانوں میں پڑی اور پڑتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو انہوں نے اہل مدینہ کو نبی {{درود}} سے توڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب مسلمان ایک ایک دو دو کرکے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے اور قریش کو یقین ہو گیا کہ اب محمد{{درود}} بھی وہاں منتقل ہوجائیں گے تو وہ اس خطرے کو روکنے کے لیے آخری چارۂ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ [[ہجرت مدینہ|ہجرت نبوی]] سے چند روز پہلے قریش کی مجلس شوری{{ا}} منعقد ہوئی جس میں بڑی رد و کد کے بعد آخر کار یہ طے پاگیا کہ [[بنو ھاشم|بنی ہاشم]] کے سوا تمام خانوادہ ہائے قریش کا ایک ایک آدمی چھانٹا جائے اور یہ سب مل کر محمد {{درود}} کو قتل کریں تاکہ بنی ہاشم کے لیے تمام خاندانوں سے تنہا لڑنا مشکل ہو جائے اور وہ انتقام کی بجائے خوں بہا قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں لیکن خدا کے فضل اور نبی {{درود}} کے اعتماد علی اللہ اور ح{{پیش}}سن{{زیر}} تدبیر سے ا{{پیش}}ن کی یہ چال ناکام ہو گئی اور حضور بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔
 
اس طرح جب قریش کو ہجرت کے روکنے میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے مدینہ کے سردار [[عبداللہ بن ا{{پیش}}بی]] کو (جسے ہجرت سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانے کی تیاری کر چکے تھے اورجس کی تمناؤں پر حضور{{درود}} کے مدینہ پہنچ جانے اور اوس و خزرج کی اکثریت کے مسلمان ہوجانے سے پانی پھر چکا تھا) خطا لکھا کہ"تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے، ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم خود اس سے لڑو یا اس سے نکال دو، ورنہ ہم سب تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے "۔ عبد اللہ بن ابی اس پر کچھ آمادۂ شر ہوا،مگر نبی {{درود}} نے بروقت اس کے شر کی روک تھام کردی۔ پھر [[سعد بن معاذ]] رئیس مدینہ عمرے کے لیے گئے۔ وہاں عین حرم کے دروازے پر [[ابوجہل|ابو جہل]] نے ان کو ٹوک کر کہا: "تم تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ان کی امداد و اعانت کا دم بھرو اور ہم تمہیں اطمینان سے مکے میں طواف کرنے دیں؟ اگر تم [[امیہ بن خلف]] کے مہمان نہ ہوتے تو زندہ یہاں سے نہیں جاسکتے تھے۔ سعد نے جواب میں کہا: "بخدا اگر تم نے مجھے اس چیز سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے شدید تر ہے، یعنی مدینہ پر سے تمہاری رہ گزر"۔یہ۔ یہ گویا اہل مکہ کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ زیارت [[خانہ کعبہ|بیت اللہ]] کی راہ مسلمانوں پر بند ہے اور اس کا جواب اہل مدینہ کی طرف سے یہ تھا کہ شامی تجارت کا راستہ مخالفین کے لیے پر خطر ہے۔
 
اور فی الواقع اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی تدبیر بھی نہ تھی کہ اس تجارتی شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کریں تاکہ قریش اور وہ دوسرے قبائل جن کا مفاد اس راستے سے وابستہ تھا، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی معاندانہ و مزاحمانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہوجائیں۔ چنانچہ مدینہ پہنچتے ہی نبی {{درود}} نے نوخیز اسلامی سوسائٹی کے ابتدائی نظم و نسق اور اطراف مدینہ کی [[یہودی]] آبادیوں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کے بعد سب سے پہلے جس چیز پر توجہ منعطف فرمائی وہ اسی شاہراہ کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے پر حضور نے دو اہم تدبیریں اختیار کیں۔
سطر 172:
 
یہ ہے وہ عظیم الشان معرکہ جس پر قرآن کی اس سورت میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ مگر اس تبصرے کا انداز تمام ا{{پیش}}ن تبصروں سے مختلف ہے جو دنیوی بادشاہ اپنی فوج کی فتحیابی کے بعد کیا کرتے ہیں۔
اس میں سب سے پہلے ان خامیوں کی نشاندہینشان دہی کی گئی ہے جو اخلاقی حیثیت سے ابھی مسلمانوں میں باقی تھیں تاکہ آئندہ اپنی مزید تکمیل کے لیے سعی کریں۔
پھر ان کو بتایا گیا کہ اس فتح میں تائید ال{{ا}}ہی کا کتنا بڑا حصہ تھا تاکہ وہ اپنی جرات و شہامت پر نہ پھولیں بلکہ خدا پر توکل اور خدا و رسول کی اطاعت کا سبق لیں۔
پھر اس اخلاقی مقصد کو واضح کیا گیا ہے جس کے لیے مسلمانوں کو یہ معرکۂ حق و باطل برپا کرنا ہے اور ان اخلاقی صفات کی توضیح کی گئی ہے جن سے اس معرکے میں انہیں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔