"نصیر الدین محمد ہمایوں" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ مساوی زمرہ جات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 46:
 
[[تصویر:Humanyu.JPG|thumb|ہمایوں کا مقبرہ]]
[[1537ء]] تا [[1540ء]] اور پھر [[1550ء]] تا [[1556ء]] [[مغلیہ سلطنت]] کا حکمران۔ بانئ سلطنت [[ظہیر الدین محمد بابر|ظہیر الدین بابر]] کا بیٹا تھا۔ اس کے تین اور بھائی [[کامران مرزا|کامران]]، عسکری اور ہندالی تھے۔ [[4 مارچ]]، [[1508ء]] میں [[کابل]] میں پیدا ہوا۔ اس کی والدہ کا نام [[ماہم بیگم]] تھا۔ ہمایوں نے [[ترک]]، [[فارسی]] اور [[عربی زبان|عربی]] کی تعلیم حاصل کی۔ اسے [[حساب]]، [[فلسفہ]]، [[دست شناسی|علم نجوم]] اور علم [[فلکیات]] سے خصوصی دلچسپی تھی۔ سپہ گری اور نظم و نسق کی اعلی{{ا}} تربیت حاصل کی اور صرف 20 سال کی عمر میں [[بدخشاں]] کا گورنر مقرر ہوا۔ اس نے [[پانی پت]] اور [[کنواہہ]] کی لڑائیوں میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی خدمات کے صلے میں اسے حصار فیروزہ کا علاقہ دے دیا گیا ۔گیا۔ [[1527ء]] کے بعد اسے دوبارہ [[بدخشاں صوبہ|بدخشاں]] بھیج دیا گیا۔ [[1529ء]] جب وہ [[آگرہ]] واپس لوٹا تو اسے سنبھل کی جاگیر کے انتظامات سونپے گئے۔
 
==تخت نشینی==
 
[[بابر]] کی وفات کے بعد نصیر الدین ہمایوں [[29 دسمبر]] [[1530ء]] کو تخت نشین ہوا۔ [[بابر]] کی آخری علالت کے دوران وزیراعظموزیر اعظم [[نظام الدین خلیفہ]] نے سازش کی کہ مہدی خواجہ، جو ہمایوں کا بہنوئی اور تجربہ کار سپہ سالار تھا، کو تخت پر بٹھادیا جائے لیکن یہ سازش ناکام رہی اور [[بابر]] نے پہلے ہی امراءامرا کو وصیت کی کہ وہ ہمایوں کو تخت نشین کریں اور اس سے وفاداری نبھائیں۔ اس طرح [[بابر]] کی وفات پر ہمایوں تخت نشین ہوا۔
 
==ہمایوں کی مشکلات==
سطر 60:
==سلطنت کی تقسیم==
 
[[بابر]] نے بستر مرگ پر ہمایوں کو یہ وصیت کی تھی کہ وہ اپنے بھائیوں سے فیاضانہ سلوک کرے اور ہمایوں نے تخت نشین ہوتے ہی کچھ زیادہ فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ اس نے اپنی سلطنت بھائیوں میں تقسیم کردی۔ اس نے [[کامران مرزا]] کو [[کابل]] اور [[قندھار]]، ہندال کو [[میوات]] اور عسکری کو [[سنبھل]] کا علاقہ بطور جاگیر دے دیے۔ اپنے چچیرے بھائی [[سلیمان مرزا]] کو بدخشاں کا علاقہ عطا کیا۔ ہمایوں کے اس فیاضانہ سلوک کے باوجود اس کے بھائی مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے ہمایوں کا ساتھ دینے کےکی بجائے اس کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ [[کامران مرزا|کامران]] نے بعد میں [[پنجاب]] پر قبضہ کر لیا۔ ہمایوں نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ بلکہ حصار فیروزہ کا علاقہ بھی اس کے حوالے کر دیا۔ یہ ہمایوں کی سیاسی غلطی تھی کہ اس نے اپنے اہم علاقے فوجی قوت کے حامل تھے۔ حصار فیروزہ کا پایۂ تخت اور کابل و [[قندھار]] کے درمیان ایک اہم فوجی چوکی تھا اور اس علاقے کے ہاتھ سے نکل جانے سے اس کی فوجی طاقت کمزور پڑ گئی۔ ان علاقوں کی آمدنی ہاتھ سے چلی جانے سے مالی نقصان بھی ہوا۔
 
==بغاوتیں اور سازشیں==
 
[[بابر]] کی وفات کے فورا{{دوزبر}} بعد ملک میں چاروں طرف بغاوتیں پھیل گئیں۔ [[بابر]] نے ہندوستانی حکومت اور سلطنت افغان حکمران [[ابراہیم لودھی]] کو قتل کرکے حاصل کی تھی اب افغانوں کو شدت سے احساس ہواکہ افغان حکومت جیسی بھی تھی ان کی اپنی تھی مگر اب وہ مغلوب ہو چکے تھے اس لیے وہ اپنی حکومت کی بحالی کے لیے میدان میں آ گئے انہیں محمود لودھی، بہادر شاہ اور [[شیر شاہ سوری|شیر خان سوری]] جیسے سردار مل گئے افغان امراءامرا کو اس بات کا احساس تھا کہ [[ہندوستان]] پر ان کا حق ہے اور مغلوں کو وہ ملک سے نکال باہر کرسکتے ہیں۔ افغانوں کو محمود لودھی پر پورا اطمینان تھا۔ تمام افغان سرداروں نے تخت کے حصول کے لیے ہرطرح کی ممکن کوششیں شروع کردیں۔کر دیں۔ اس کے علاوہ بہار میں [[شیر شاہ سوری|شیر خان]] نے اپنی فتوحات و مہمات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ [[گجرات (بھارت)|گجرات]] میں بہادر شاہ ہمایوں کو [[ہندوستان]] سے نکال دینے کے لیے مصروفِ جِدوجُہد تھا۔ ہمایوں کے کردار کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ اپنے دشمنوں کا مکمل خاتمہ نہیں کرتاتھا بلکہ ایک معمولی فتح کے بعد جشن مناتا اپنے امراءامرا میں تمغے اور انعامات تقسیم کرتا ۔جبکہ۔ جبکہ اس کے دشمن اس کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہوتے تھے جبکہ وہ کتب خانوں میں مطالعہ میں مصروف رہتاتھا دشمن کو معاف کرنا اس کی فطرت تھی اس نے بار بار [[شیر شاہ سوری|شیرخان سوری]] کے حلف ،قسموں اور وعدوں پر اعتبار کیا اور اسے بار بار معاف کیا اور اسے ایک معمولی باغی سے زیادہ اہمیت نہ دی یہاں تک کہ اس نے [[1540ء]] میں ہمایوں کو شکست دے کر [[ہندوستان]] سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اب وہ شیر خان سے [[شیر شاہ سوری|شیر شاہ]] بن گیا افغانوں نے اسے اپنا متفقہ بادشاہ تسلیم کر لیا۔
 
== ہمایوں کی [[ایران]] میں آمد ==
 
[[شیر شاہ سوری]] نے [[ہمایوں]] کو [[ہندوستان]] سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہمایوں نے [[لاہور]] کی راہ لی مگر افغان فوج نے اسے یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا وہ [[ملتان]] جا پہنچا مگر وہاں سے بھی نکلنا پڑاوہ [[سندھ]] میں [[عمر کوٹ]] پہنچا جہاں کے راجہ نے اسے خوش آمدید کہا یہاں [[اکبر]] کی ولادت ہوئی ۔مگر۔ مگر افغانوں نے اسے چین سے نہ بیٹھنے دیا وہ [[ایران]] کی طرف نکل گیا مگر اس کا بیٹا اکبر اپنے چچا [[کامران مرزا]] کے ہاتھ لگ گیا ایران کے بادشاہ [[طہماسپ]] نے اسے خوش آمدید کہا اور ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا ۔
 
==ذاتی کردار==
 
ہمایوں کے تخت نشین ہوتے ہی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے سیاسی بصیرت اور قابلیت کی ضرورت تھی لیکن ہمایوں عزم و استقلال سے عاری تھا۔ وہ وقت کی قدر و قیمت نہ جانتا تھا۔ اس نے سب سے پہلے مشرق میں محمود لودھی پر حملے کئےکیے اور انہیں پسپا کیا لیکن ان حریفوں کا قلع قمع کئےکیے بغیر والئ گجرات سے نبرد آزما ہونے کی ٹھانی۔ اگر وہ دور اندیش ہوتا تو شیر خان کو طاقتور بن جانے کی مہلت نہ دیتا اور گجرات کی تسخیر میں وقت ضائع نہ کرتا۔ اسی طرح جب اس نے گجرات پر حملہ کیا تو والئ گجرات [[چتوڑ]] کی مہم میں مصروف تھا۔ چتوڑ کی رانی نے ہمایوں سے امداد طلب کی اوراسے اپنا منہ بولا بھائی کہتے ہوئے فوجی مددمانگی مگر اس نے ایک مسلمان کے خلاف کافر کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اگرچہ مذہبی نکتہ نظر سے یہ فیصلہ درست تھا مگر سیاسی نقطہ نظر سے اس کی بہت بڑی غلطی تھی ۔تھی۔ اس طرح اس نے راجپوتوں کی دوستی کا موقع ضائع کر دیا۔وہدیا۔ وہ راجپوتوں سے مل کر افغانوں کو شکست دے سکتاتھا مگر اس نے یہ موقع گنواکرسیاسی غلطی کی ۔کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمایوں کی مشکلات کے حل میں ناکامی اس کے اپنے کردار کی خامیوں کی بدولت تھی۔ اگر وہ مستقل مزاجی، دور اندیشی اور سیاسی بصیرت سے کام لیتا تو باآسانی مشکلات پر قابو پاسکتا تھا۔استھا۔ اس میں قوت فیصلہ کی کمی تھی وہ سیاسی فوائد حاصل کرنے سے عاری تھا دراصل اس کا کردار ہی اس کا دشمن تھا ۔
== ہمایوں کی وفات 1556ء ==
 
[[ہندوستان]] کی حکومت دوبارہ حاصل کرنے کے بعد ہمایوں طویل عرصہ زندہ نہ رہاوہ ایک شام کو اپنے کتب خانہ کی سیڑھیاں اتر رہاتھا کہ اذان مغرب کی آواز سنی وہ سیڑھیوں پر ہی رک گیا مگر بدقسمتی سے اس کی لاٹھی پھسل گئی اور وہ سیڑھیوں سے گر کر شدید زخمی ہو گیا اور انہیں زخموں سے اس کا انتقال ہو گیا ۔مشہور۔ مشہور یورپی مؤرخ لین پول کے مطابق “اس نے تما م عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھاکر مرا“
 
{{s-start}}