"امراؤ جان ادا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خانہ معلومات کے پیرامیٹر کا ترجمہ
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 35:
”امراؤ جان ادا کا کردار اردو زبان میں اہم ترین کردار ہے۔ یہ پہلا سنجیدہ کردار ہے جو اپنی زندگی کا ضامن ہے۔ اب تک اس کردار کا ثانی کردار تخلیق نہیں ہوا۔ “
 
امراؤ جا ن پیدائشی طوائف نہ تھی وہ شریف ذادی تھی اور شریف گھرانے میں پیدا ہوئی تھی۔ دس برس تک شریف والدین کے زیرسایہ زندگی بسر کی۔ پھر ایک منتقم مزاج شخص کے انتقام کی بھینٹ چڑھ کر اغوا ہوکر خانم کے کھوٹے پر پہنچی۔ جہاں تعلیم و تربیت پا کر طوائف بنا دی گئی۔ شاعرہ تھی۔ ادب سے مس تھا۔ قبول صورت تھی، رقص و سرور میں ماہر تھی۔ ان خوبیوں کی بنا پر مشہور ہوئی جہاں جاتی سر آنکھوں پر بٹھائی جاتی ۔امراؤ۔ امراؤ جان ادا کے کردار پر مراز رسوا نے بڑی محنت کی ہے۔ امراؤ کے کردار میں تدریجی تبدیلیاں دراصل اس کی فطرت کی شریفانہ جوہر کی پیداوار ہیں۔ یہ جو ہر اسے ورثہ میں ملاتھا۔ اب اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب وہ چکلے کے گھناونے ماحول سے متنفر ہو چکی ہے اور اسے رنڈی بن کر جینا پسند نہیں۔ اس کردار کا یہ ارتقاءاس کی شخصیت و کردار میں عجیب مقناطیسی کشش پیدا کر دیتا ہے۔ اور قاری کی نظر میں مطعون اور مقہور ہونے کی بجائے رحم اور ہمدردی کی مستحق ٹھہر تی ہے۔ آخر ی عمر میں وہ سب کچھ ترک کر دیتی ہے۔ اور عام لوگوں سے بھی ملنے جلنے سے احتراز کرتی ہے۔ اور نماز روزے کی سختی سے پابندی کرنے لگتی ہے۔ آخر ی عمر میں کربلا معلی کی زیارت سے بھی فیض یا ب ہوئی۔ اس طرح اس کردار کی تشکیل میں رسوا نے گہرا نفسیاتی مطالعے سے کام لیا ہے۔
 
=== خانم ===
سطر 59:
=== نواب چھبن ===
 
مصنف نے ان کی گوری رنگت، کسرتی بند اور بسم اللہ جان کا دم بھرنے کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس سے نواب چھبن کے ظاہری خدوخال ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ بسم اللہ جان کے دام میں اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ اپنی منگیتر بڑے چچا کی بیٹی کو بھی ٹھکرانے پر تلا ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ نواب چھبن کا ضمیر اور غیر کس قدر زندہ ہے۔ اس لیے خانم کی طعن و تشنیع سے دل برداشتہ ہو کر پانی میں ڈوب مرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ مگر زندہ بچ جانے کے باوجود دوبارہ خانم کے نگار خانے پر حاضری نہیں دیتا.دیتا۔
 
== پلاٹ==
سطر 78:
ناول نگار نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ پورا معاشرہ ایک طرح سے طوائف کا بالا خانہ بنا ہوا ہے۔ طوائفوں نے مختلف لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی خاطر ایک مخصوص منشور بنا رکھا ہے۔ وہ منشور”مسی “ کی رسم سے شروع ہوتا ہے۔ جو صرف اور صرف کوئی نواب ہی سر انجام دے سکتا ہے۔ اور جس کی منہ مانگی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ اور اس طرح معصوم بچیوں کی عزت و آبرو کی قیمت خانم جیسی گھاک طوائف کے صندوق میں پہنچ جاتی ہے۔
 
ناول سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ لکھنؤ کی زوال پزیر معاشرت میں طوائفوں کا دور دورہ تھا۔ نوابوں کے محلوں اور عملداری پر طوائفوں کا سکہ چلتا تھا۔ نوابین سیر و سیاحت، شکار اور کھیل تماشوں کے موقعوں پر طوائفوں کی فوج ظفر موج اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ بڑی بری ڈیر ہ دار طوائفوں کا ساز و سامان نوابوں کے خر چ پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا۔ نوابزادے بلکہ حرامزادے طوائفوں کے نخرے اٹھانے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے ۔طوائف۔ طوائف اس وقت کی معاشرت میں اس قدر سرائت کر چکی تھی کہ طوائفوں کے کوٹھوں اور بالاخانوں کو تہذیب کا مرکز سمجھا جانے لگا۔ شرفاءاپنی اولاد کو گناہ کی ان بھٹیوں میں آداب سکھانے بھیجا کرتے تھے۔ تاکہ وہ کند ن بن کر نکلیں، لیکن صاف ظاہر ہے کہ وہ کندن کی بجائے گندے بن کر نکلتے تھے۔
 
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فکری لحاظ سے ناول امراؤ جان ادا لکھنؤ ی معاشر ت کے زوال کی داستان ہے لیکن اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس ناول میں ہمیں الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ اپنی معاشرت اور سماج کی زوال پذیری بھی دکھائی دینے لگتی ہے۔ عظیم ادب وہی ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے عہد بلکہ آنے والے ادوار کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ کے ا آج ہمارے ہاں بردہ فروشی کا گھنائونا کاروبار نہیں؟ کیا آج ہمارے ہاں ہیرا منڈیاں، شاہی محلوں، نائٹ کلبو ں، بیوٹی پالروں اور فلمی دنیا کی صورت میں طوائفوں کے بالاخانے موجود نہیں؟ رسوا کے عہد کی طوائف اور ہمار ے عہد کی ماڈل گرل اور اداکارہ میں کیا فرق ہے کوئی فرق نہیں چنانچہ