"بلیک ہول" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7)
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1:
{{عمومی اضافیت}}
'''ثقب اسود'''، مادے کی ایک بے پناہ کثیف و مرتکز حالت ہے جس کی وجہ سے اس کی کشش [[ثقل]] اس قدر بلند ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی شے اسکےاس کے [[افق وقیعہ]] (Event Horizon) سے فرار حاصل نہیں کرسکتی ،کرسکتی، ماسوائے اسکےاس کے کہ وہ [[کمیتی سرنگ گری]] (Quantum Tunnelling) کا رویہ اختیار کرے (اس رویہ کو Hawking Radiation بھی کہا جاتا ہے۔
 
ثقب اسود کا لفظ دو الفاظ کا مرکب ہے ،ہے، 1- ثقب ،ثقب، جس کے معنی چھید یا سوراخ کے ہیں اور 2- اسود ،اسود، جس کا مطلب ہے سیاہ یا کالا—گویا عام الفاظ میں ثقب اسود کو ،کو، سیاہ سوراخ کہا جاسکتا ہے۔ ثقب اسود کو انگریزی میں Black Hole کہتے ہیں۔
 
ثقب اسود میں موجود مادے کا [[دائرہ ثقل|دائرۂ ثقل]] اسقدر طاقتور ہوجاتا ہے کہ اس دائرے سے نکلنے کے ليے جو رفتار (سمتی رفتار - velocity) درکار ہوتی ہے وہ [[روشنی کی رفتار]] (speed of light) سے بھی زیادہ ہے اور چونکہ روشنی کی رفتار سے تیز کوئی شے نہیں لہذا اسکااس کا مطب یہ ہوا کہ کوئی بھی شے ،شے، ثقب اسود سے نکل نہیں سکتی فرار حاصل نہیں کرسکتی، یہاں تک کے روشنی بھی اسکےاس کے افق وقیعہ کے دائرہ اثر سے فرار حاصل نہیں کرسکتی۔
 
گو ثقب اسود کی اصطلاح رائج الاستعمال تو ہے لیکن جیسا کہ اوپر کے بیان سے واضح ہے کہ اصل میں یہ کوئی ثقب یا سوراخ نہیں بلکہ خلا (اسپیس) میں مادے کی کثافت کا ایک ایسا مقام ہے کہ جس سے کسی شے کو فرار حاصل نہیں۔
سطر 12:
 
== تاریخ ==
ایک ایسے جسم کا تصور کہ جس کی کشش سے روشنی سمیت کائنات کی کوئی شے فرار نہ ملے، جغرافیہ دان John Michell نے 1783 میں [http://www.royalsoc.ac.uk/ رائل سوسائٹی] کے ليے لکھے گئے ایک مقالے میں کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب [[ثقل]] کا نیوٹنی نظریہ اور [[سرعت فرار]] (escape velocity) تخیلات اپنی جگہ بناچکے تھے۔ مائکل نے حساب کتاب کے گھوڑے دوڑاۓدوڑائے کے اگر [[سورج]] سے 500 گنا بڑی جسامت کا کوئی ایسا کائناتی جسم جس کی کثافت بھی اتنی ہی ہو جتنی کے سورج کی اور اسکیاس کی سطح پر سرعت فرار ،فرار، روشنی کی رفتار کے برابر ہو جائے تو وہ [[غیرمرئی]] (invisible) یعنی موجود ہوتے ہوئے بھی غائب ہو جائے گا۔
 
اسکےاس کے اپنے الفاظ کے مطابق ۔۔۔۔۔
 
:اگر کسی کرہ کی [[کثافت]] اتنی ہی ہو جتنی کہ سورج کی اور اسکااس کا نصف قطر سورج کے مقابلے میں 1 کی نسبت 500 تک بڑھ جائے تو ایک لامحدود بلندی سے اسکیاس کی جانب گرنے والا کوئی جسمجسم، ،اس اسکیکی سطح پر آکے روشنی سے زیادہ سرعت ([[سمتار|سمتی رفتار]]) حاصل کرلے گا،گا اور اسی طرح اگر یہ فرض کیا جائے کے اسی قوت کے ساتھ روشنی کو بھی اسکےاس کے جمود (انرشیا) کے مقابلے پر کشش کیا جائے گا تو، دوسرے اجسام کے ساتھ ساتھ ،ساتھ، ایسے جسم سے نکلنے (پھوٹنے) والی تمام روشنی کو اسکیاس کی ثقل مخصوصہ کے تحت اسی کی جانب واپس پلٹا دیا جائے گا۔</font>'''
* گو کہ اسنے اس کو بعید از امکان کہا لیکن اسنے کائنات میں ایسے کسی جسم کی موجودگی کے امکان کو کہ جس کو دیکھا نا جاسکے یکسر مسترد بھی نہیں کیا۔
 
سطر 22:
[[فائل:BH LMC.png|270px|بائیں|تصغیر|[[البکر کبیر]] (Large Magellanic Cloud) کے سامنے موجود ایک ثقب اسود کے باعث پیدا ہونے والے بگاڑ (distortions) کی ایک مصوری تفسیر]]
 
زیادہ تر [[سیارے]] اور [[اجرام فلکی]] پائدار اور مستحکم حالت میں ہوتے ہیں کیونکہ [[برقات]] کے درمیان پائی جانے والی [[پالی قوت]] کی وجہ سے [[جوہر]] منہدم ہونے سے محفوظ رہتے ہیں جبکہ [[ثقل]] ، [[برقناطیسیت]] اور [[قوی تفاعل]] کی قوتیں انہیں باندھ کر رکھتی ہیں اور ان تمام [[قوتوں]] کے توازن کی وجہ سے ہی تمام مادے اپنی ساخت کو قائم اور مستقل رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انتہائی حالات پیدا ہوجائیں ،ہوجائیں، جیسے کہ کثیر المقدار مادہ کسی قلیل جگہ میں سمو دیا جائے تو پھر ثقل (gravity) دوسری تمام قوتوں سے حد سے زیادہ بڑھ کر جیت جاتی ہے اور ایسی صورت میں اوپر بیان کردہ قوتوں کا توازن ختم ہوجاتا ہے۔
 
اور اسکااس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ [[برقات]] اور [[جوہروں]] کے [[مرکزوں]] کے درمیان مقررہ فاصلہ باقی نہیں رہتا اور ایک طرح سے وہ جیسے مرکزوں کی جانب منہدم ہوجاتے ہیں یا سادہ سے الفاظ میں یوں کہ لیں کہ گویا جوہر {{ٹ}} پچک {{ن}} گئے ہوں اور نتیجتاً ظاہر ہے کہ وہ مادہ بھی پچک جاتا ہے اور بے انتہا کثیف ہو جاتا ہے (اس قسم کے مادے کے ليے Neutronium نامی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے)
 
اب اگر اسی قدر جگہ (جو اوپر فرض کی گئی تھی) میں یہی صورت حال مادے کی ایک نہایت ہی بڑی مقدار کے ساتھ پیش آجائے تو {{ٹ}} [[مرکزیہ جات]] {{ن}} (nucleons) تک کے درمیان پائی جانے والی [[پالی قوتیں]] تک کشش ثقل کی طاقت کے سامنے بے بس ہوجاتی ہیں اور{{ٹ}} یوں تمام مادی جسم ،جسم، خود اپنے ہی اندر منہدم ہوجاتا ہے یا سمٹ جاتا ہے {{ن}} جس کے نتیجے میں ثقب اسود یا black hole کی پیدائش واقع ہوتی ہے۔ ایک بار جب یہ قوتوں کے توازن میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو اور مادے کے پچکنے کے عمل کی ابتداءابتدا ہو جائے تو پھر اس عمل کو روکا نہیں جاسکتا اور مادہ اس قدر پچک جاتا ہے یا منہدم ہو جاتا ہے کہ اس میں موجود تمام بین الذراتی فضائیں ختم ہوجاتی ہیں اور یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ مادہ اپنے مرکز کی جانب سکڑ اور سمٹ کر اپنی تمام اونچائی اور چوڑائی کھو دیتا ہے اور ایک طرح سے صفر ہو جاتا ہے اسی مقام کو {{ٹ}} [[وحدانیت]] {{ن}} یا Singularity کہا جاتا ہے۔
 
<!-- یعنی آسان الفاظ میں مختصراً یوں کہ سکتے ہیں کہ یہ ایسے اجسام فلکی ہوتے ہیں جن کی قوت کشش اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ کچھ بھی ان کی حد سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ حتی کہ روشنی بھی اسکیاس کی حد کو پار نہیں کر سکتی۔ جس کی وجہ سے اسے دیکھنا ناممکن ہے۔( پہلے یہ مانا جاتا تھا کھ روشنی پر قوت کشش کا اثر نہیں ہوتا لیکن سائنس میں ترقی کی بدولت یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ روشنی پر بھی قوت کشش (Gravitational Force)اثر کرتی ہے۔
 
ثقب اسود کو دیکھنا ناممکن ہے لیکن سائنسی شواہد سے یہ تصور کیا گیا ہے کہ ایسے اجسام واقعی کائنات میں ہیں جن کی مقناطیسی قوت اتنی طاقت ور ہے کہ 299,792.458 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرنے والی روشنی بھی اس کی کشش کے سامنے دم توڑ جاتی ہے۔
سطر 34:
1784میں جان مائیکل نے نیوٹن کے قوانین ثقل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ اگر سورج کے قطر کو 500 گنا تک بڑھا دیا جائے تو اس کی کثافت اتنی ہو گی کہ روشنی اس کی دسترس کے پار نہ جاسکے گی۔
 
یوں کسی جسم کی کثافت بڑھتی ہے اس کی قوت کشش بھی بڑھتی جب ان کی کثافت اس حد تک بڑھ جاتی ہےکہہے کہ روشنی ان کی اس کشش کی حد کو پار نہیں کر سکتی تو ایسے اجسام کو دیکھنا نا ممکن ہو جاتا ہے ایسے اجسام کو ثقب اسود کہا جاتا ہے -->
 
== مزید دیکھیے ==