"اسلامی سکہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 3:
==اموی عہد==
 
عبد الملک کا دوسرا قابل فخر کارنامہ اسلامی سکوں کا اجرا ہے ابھی تک اسلامی مملکت کے تمام علاقوں میں [[بازنطینی سلطنت|رومی]] اور [[ساسانی سلطنت|فارسی]] سکے رائج تھے۔ یہ سکے سونے اور چاندی سے بنائے جاتے تھے۔ اور تمام تجارتی اور سرکاری لین دین ان ہی سکوں کے توسط سے ہوتا تھا۔ [[خلافت راشدہ]] کے زمانہ میں ابھی [[ساسانی سلطنت|فارسی]] [[درہم]] کے نمونہ پر سکے بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ [[معاویہ بن ابو سفیان|امیر معاویہ]] نے بھی اپنی عہد حکومت میں اپنے سکے جاری کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس ناتمام کوشش کے بعد کسی بھی مسلمان حکمران سوائے حضرت [[عبداللہ ابن زبیر]] کے بھائی [[مصعب بن زبیر]] کے اس اہم قومی ضرورت کی طرف توجہ نہ دی مگر مصعب کے جاری شدہ سکے معیاری نہ تھے اور انھیں قبول عام حاصل نہ ہو سکا۔ عبد الملک نے خالص اسلامی سکوں کی ترویج کا آغاز کیا۔ اس نے [[بازنطینی سلطنت|رومی]] [[دینار]] و [[ساسانی سلطنت|فارسی]] [[درہم]] کے مقابلہ میں نئے درہم اور دینار جاری کیے جن پر '''(قل ھو اللہ احد)''' کی عبارت کندہ تھی۔ یہ سکے علی الترتیب چاندی اور سونے کے تھے۔ اس کے علاوہ ان سکوں پر تاریخ اور ٹکسال کا نام بھی درج کیا جاتا تھا۔ شہشاہ [[بازنطینی سلطنت]] نے اس انقلابی تبدیلی پر دھمکی دی کہ اگر عبد الملک نے اسلامی سکوں کا ڈھالنا بند نہ کیا تو وہ اپنے سکوں پر ایسے نازبیا کلمات درج کروائے گا جن سے '''رسول اللہ''' کی شان میں گستاخی ہو۔ عبد الملک نے اس دھمکی کا کوئی اثر نہ لیا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ اسی وجہ سے شہشاہ [[بازنطینی سلطنت]] ، [[جستینی دوم]] نے اعلان جنگ کر دیا، جس کے نتیجے میں [[جنگ سباستوپولیس]] 692ء میں لڑی گئی جس میں عبد الملک بن مروان کے سوتیلے بھائی [[محمد بن مروان]] نے بازنطینی سپہ سالار [[لئونتیوس]] کو شکست دے کر اس بحث کا خاتمہ کر دیا-
 
695ء، 76ھ میں [[دمشق]] میں ٹکسال تعمیر کی گئی۔ [[حجاج بن یوسف]] نے [[کوفہ]] میں بھی ایسی ہی ایک ٹکسال قائم کی۔ [[سونا|سونے]] اور [[چاندی]] کے [[دینار]] میں بالعموم ایک اور دس کی نسبت تھی۔ اگرچہ اس نسبت میں بعض اوقات تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ں۔ اسلامی سکے کی معیار قدرو قیمت اور خوبصورتی کی بدولت بہت جلد اقوام عالم نے ان کو قبول کر لیا۔