"تھیلیسیمیا" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، کے، سے
سطر 8:
 
ایک طرح کا تھیلیسیمیا کبھی بھی دوسری طرح کے تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا یعنی الفا تھیلیسیمیا کبھی بھی بی ٹا تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی بی ٹا کبھی الفا میں۔ اسی طرح نہ تھیلیسیمیا مائینر کبھی تھیلیسیمیا میجر بن سکتا ہے اور نہ ہی میجر کبھی مائینر بن سکتا ہے۔ اسی طرح انکے مرض کی شدت میں اضافہ یا کمی نہیں ہو سکتی۔
[[تصویر:autorecessive.svg|تصغیر|بائیں|ہر بچے میں 23 [[کروموزوم]] باپ سے آتے ہیں اور 23 ماں سے۔سے ۔ اگر باپ ماں دونوں تھیلیسیمیا مائینر کے حامل ہوں تو انکے 25 فیصد بچے تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہو سکتے ہیں]]
== تھیلیسیمیا مائینر ==
تھیلیسیمیا مائینر کی وجہ سے [[مریض]] کو کوئی تکلیف یا شکایت نہیں ہوتی نہ اس کی [[زندگی]] پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے۔ علامات و شکایات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی [[تشخیص]] صرف [[لیبارٹری]] کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔ ایسے لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں مگر یہ لوگ تھیلیسیمیا اپنے بچوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔ تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی، ذہنی اور جنسی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور نارمل انسانوں جتنی ہی عمر پاتے ہیں۔
سطر 26:
 
== پاکستان میں تھیلیسیمیا مائینر کی شرح ==
حکومتی سطح پر [[پاکستان]] میں اس کے لیے کوئی [[سروے]] نہیں کیا گیا ہے لیکن [[بلڈ بینک]] کے [[اعداد و شمار]] سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بی ٹا تھیلیسیمیا پایا جاتا ہے اور بی ٹا تھیلیسیمیا مائینر کی شرح 6 فیصد ہے یعنی سن 2000 میں ایسے افراد کی تعداد 80 لاکھ تھی۔ جن خاندانوں میں یہ مرض پایا جاتا ہے ان میں لگ بھگ 15 فیصد افراد تھیلیسیمیا مائینر میں مبتلا ہیں۔
 
کراچی میں قائم تھیلیسیمیا کے علاج اور روک تھام سے متعلق ادارے عمیر ثنا فاﺅنڈیشن کے تیار کردہ تحریری مواد کے مطابق اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور ہر سال ان مریضوں میں 6 ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔
سطر 34:
 
== تشخیص ==
خون کا ایک ٹیسٹ جسے [[ہیموگلوبن الیکٹروفوریسز]] (Hemoglobin electrophoresis) کہتے ہیں اس بیماری کی تشخیص کر سکتا ہے۔ تھیلیسیمیا کی تشخیص کے لیے یہ ٹیسٹ زندگی میں ایک ہی دفعہ کیا جاتا ہے اور چھ ماہ کی عمر کے بعد کیا جاتا ہے۔ اگست 2011 میں کراچی میں آغا خان ہسپتال کی لباریٹریاں یہ ٹسٹ 1420 روپیہ میں کرتی تھیں۔
 
چھ ماہ سے زیادہ عمر کے نارمل افراد میں [[ہیموگلوبن]] کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ہیموگلوبن A سب سے زیادہ ہوتا ہے یعنی 96%۔ ہیموگلوبن A2 صرف 3% ہوتا ہے جبکہ ہیموگلوبن F محض ایک فیصد ہوتا ہے۔ ہیموگلوبن A2 اور ہیموگلوبن F میں beta chain نہیں ہوتی۔ ہیموگلوبن A2 دو الفا اور دو ڈیلٹا زنجیروں سے ملکر بنتا ہے جبکہ ہیموگلوبن F دو الفا اور دو گاما زنجیروں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسے α<sub>2</sub>γ<sub>2</sub> سے ظاہر کرتے ہیں۔ پیدائش سے پہلے بچے کے خون میں 95% تک ہیموگلوبنF ہوتا ہے مگر 6 مہینے کی عمر تک اس کی مقدار کم ہوتے ہوتے ایک فیصد تک رہ جاتی ہے اور اس کی جگہ ہیموگلوبن A لے لیتا ہے۔ ( A برائے adult اور F برائے foetal۔)
سطر 49:
بی ٹا تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا افراد کو ہر دو سے چار ہفتوں کے بعد خون چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک بوتل خون میں تقریباً 250 ملی گرام لوہا (Iron) موجود ہوتا ہے جسے انسانی جسم پوری طرح خارج نہیں کر سکتا۔ بار بار خون کی بوتل چڑھانے سے جسم میں Iron کی مقدار نقصان دہ حد تک بڑھ جاتی ہے اور اس طرح [//en.wikipedia.org/wiki/Hemosiderosis Hemosiderosis] کی بیماری ہو جاتی ہے جو [[دل]] اور [[جگر]] کو بہت کمزور کر دیتی ہے۔ اس لیے بار بار خون لگوانے والے مریضوں کو iron chelating دوائیں استعمال کرنی پڑتی ہیں جو جسم سے زائید iron خارج کر دیتی ہیں۔ ایسی ایک دوا کا نام desferrioxamine ہے جو ڈرپ میں ڈال کر لگائ جاتی ہے۔ اس کی قیمت تقریباً 5000 روپیہ ماہانہ پڑتی ہے۔ یہ ہفتے میں پانچ دن لگانی پڑتی ہے اور ہر ڈرپ آٹھ سے دس گھنٹے میں ختم ہوتی ہے۔[http://www.biomedcentral.com/1756-0500/4/287]
 
جسم سے آئرن کم کرنے کے لیے کھانے کی گولیاں بھی دستیاب ہیں مگر وہ بہت مہنگی پڑتی ہیں مثلاً deferasirox) Exjade) اور (Ferriprox (deferiprone
[[تصویر:Spleen after spleenectomy.jpg|تصغیر|بی ٹا تھیلیسیمیا میجر میں مبتلا ایک بچے کی تلی جراحی کر کے نکال دی گئی ہے۔ یہ تلّی اپنی نارمل سائز سے 15 گنا زیادہ بڑی ہے۔]]