"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، رہیں، سے
سطر 13:
اللہ کے وجود پر یقین کرنا تو اس قدر مشکل نہیں ۔ اللہ کی اس ساری کائنات کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی یہ باور کرلے کہ اس کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں البتہ قیامت پر یقین پیدا کرنا ایمان ہی کی دولت سے ممکن ہو سکتا ہے اورایمان اللہ کی دین ہے جسے چاہے دے، اس میں شک نہیں کہ اس کائنات اور اس کے اصولوں کو بغور دیکھنے سے قیامت کا وجود یقینی طور پر نظر آ سکتا ہے مگر یہ علم بھی اسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، جس کا سینہ ایمان کی روشنی سے منور ہو۔ تاہم قیامت کا یقین ہی تو ہے جو انسان کو گناہوں سے باز رکھتا ہے اور نیکی پر مائل کرتا ہے اور اسی قیامت کے یقین کے سبب ایک سپاہی شہادت کی طلب میں موت کی آغوش کو اپنی بہترین پناہ تصور کرتا ہے اور ایک دانائے راز سمجھتا ہے کہ وہ خدا جس نے اس کائنات کو عدل پر پیدا کیا، یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے گناہوں اور اپنی نیکیوں کا بدلہ نہ دیا جائے اور یہ بدلہ موت کے بعد قیامت میں ہی دیا جا سکتا ہے، اس زندگی میں تو دکھ اور خوشی عمل کی بنا پر بعض اوقات نہیں حاصل ہوتے۔ بعض بدکردار دندناتے پھرتے ہیں اور بعض نیکوکار رنج و مصائب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ’’ جو کوئی محنت کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے محنت کرتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ سارے عالم سے بے نیاز ہے ‘‘۔ ( العنکبوت 6 )۔ آدمی جہاد کرے یا کوئی دوسرا نیک عمل کرے ،اس میں سراسر اس کی اپنی بھلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بہت بڑا غنی ہے اور انسان تو جہاں ایک طرف عمل کا پابند ہے دوسری طرف اللہ کے فضل کا بھی محتاج ہے اور حق بات تو یہ ہے کہ انسان کو عمل کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس طرح ہمیں دو سبق حاصل ہوتے ہیں پہلا یہ کہ عمل کے بغیر کچھ نہیں ملتا البتہ فضل خداوندی کامعاملہ اس سے مستثنیٰ ہے، دوسرا یہ کہ محتاج اللہ نہیں بلکہ محتاج بندہ ہے اور جو محتاج ہوتا ہے وہ اپنی حاجت کے حصول کے لیے تگ و دو کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ساتھ فرما دیا۔ ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے
،ہم ان کے گناہ ان سے دور کرکے رہی ںرہیں گے اور ہم ان کو ان کے اعمال کا زیادہ اچھا بدلہ دے کر رہی ںرہیں گے۔ (العنکبوت 7 ) تو گویا کہ نیک کام کرنے سے آدمی کے گناہ بھی دھلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نیکی کا بدلہ استحقاق سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔
ساری تجارتو ں سے بہترین تجارت جہاد ہے۔ جہاد کرنے والا جہاد کے بدلے اللہ کی مغفرت اور جنت خریدتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’اے ایمان والو ! میں تم کو ایسی سوداگری بتاؤں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے بچائے۔ اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں مال اور جان سے لڑو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ وہ تمہارے گناہ بخشے گا اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور باغوں کے اندر ستھرے مکان ہوں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے او ر ایک اور چیز بھی جسے تم بہت چاہتے ہو اور وہ ہے اللہ کی طرف سے مدد عنقریب اور خوشی سنا دے ایمان والوں کو، اے ایمان والو ! تم اسی طرح اللہ کے مددگار ہو جاؤ ۔ جس طرح کہ عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میری مدد کرے گا تو انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ ( الصف 10 تا 14)۔
جہاد کے ظاہری فائدے یا تکالیف تو ہر آدمی کو نظر آ سکتے ہیں لیکن جہاد کے حقیقی فائدے باطنی ہیں جن کا تعلق آخرت سے ہے اور جو نظر نہیں آتے مگر اس آدمی کو نظر آ سکتے ہیں جس کا ایمان کامل ہو اور آخرت پر اس کا یقین ہو ۔
سطر 85:
جہاد اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام الناس کو فردا فردا، جتھوں یا تنظیمیوں کی صورت میں جہاد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔
== جہاد کی تلقین ==
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی سخت تلقین فرمائی ہے۔ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے فرمایا۔ ’’ اے نبی ﷺ ! آپﷺ جہاد کیجئے کافروں سے اور منافقوں سے اور ان پر سختی کیجئے، ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہہ ہے ‘‘۔ ( التحریم 9) اور اہل کتاب کے خلاف جہاد کے لیے فرمایا۔ ’’ اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ روز آخرت پر نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام ٹھہرائی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں، اس حال میں کہ وہ زیردست ہو کر رہی ںرہیں ‘‘۔ ( التوبہ 29) اور عامتہ المسلمین سے فرمایا ہے۔ ’’ اے ایمان والو ! اپناتحفظ کرواور پھر دستہ دستہ کوچ کرو یا اکٹھے ہو کر‘‘۔ ( النساء 71 ) اور نبی کریم ﷺ سے فرمایا۔ ’’ اے نبی ﷺ! آپ مسلمانوں کو جہاد کے لیے آمادہ کرتے رہی ں،رہیں، عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے اور اللہ بڑے ہی زور والا ہے اور بڑی سزا دینے والا ہے۔ ( النساء 84 )۔ فرمایا۔ ’’ اے مسلمانو ! اگر تم دنیاوی زندگی کی محبت میں محو ہو کر جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں ایک دردناک سزا دے گا اور تمہارے بدلے کوئی اور قوم پیدا کر دے گا اور تم اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے ۔
جہاد اس لیے کیا جاتا ہے کہ کفار کا زور ٹوٹ جائے اور وہ اسلامی ممالک پر چڑھ دوڑنے کی ہمت نہ پائیں ۔ کفار خدانخواستہ اگر اسلامی ممالک پرحملہ کرکے غالب آ جائیں توجہاں مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے خاک میں مل جانے کا خدشہ ہے وہاں خود اسلام کو خطرہ لاحق ہے لیکن انسانی طبیعت بالعموم آرام اور عیش کوشی کی طرف راغب رہتی ہے اور جنگ و جدل کی صعوبتوں سے کنارہ کش رہنا چاہتی ہے ۔ موت کا خوف بھی دلوں میں جاگزین ہوتا ہے اور اپنی پیاری چیزیں چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا مگر دفاع سے غفلت جہاں ایک طرف آزادی کی نعمت سے محروم کر دیتی ہے وہاں اخلاقی پاکیزگی اور علو ہمتی جیسی صفات سے بھی معرا کر دیتی ہے، اس لیے ہر کمانڈر اور ہر حاکم کایہ فرض ہے کہ وہ عامتہ المسلمین کو جہاد کی ترغیب دیتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا ’’ مسلمانوں کو قتال فی سبیل اللہ پر آمادہ کرتے رہی ئے۔ عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے‘‘۔ (النساء 84)
جہاں دوسرے مذاہب نے رہبانیت اور ترکِ دنیا پر زور دیا ہے وہاں اسلام کی ساری تعلیم ایک پاکباز، سپاہیانہ معاشرے میں زندگی گزارنے کے متعلق ہے۔ اسلام کے تمام عقائید اسی روش کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ خود مسلمان قوم کو ایک سرسری نظر سے دیکھنے سے ہی سپاہیانہ صفات اور سپاہیانہ اخلاق مثلا جرات، شجاعت، سخاوت، اولوالعزمی، صبر و رضا، ہمت و برداشت نظرآتے ہیں حتیٰ کہ مسلمان اپنے اس روبہ زوال دور میں بھی جہاں تک کہ ان مندرجہ بالاصفات کاتعلق ہے ،روئے زمین کی ساری قوموں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ جہاں تک جنگی تربیت کا تعلق ہے، مسلمان کی زندگی کا ہر پہلو ایک تربیت یافتہ سپاہی کی زندگی کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے ۔ اسلام کے سارے ارکان اسی فوجی تربیت کے اصول پر جاری و ساری ہیں۔ مسلمان کی روز مرہ کی زندگی اور زمانہ جنگ کی زندگی میں سرمو فرق نہیں ۔ مسلمان ایک پیدائشی سپاہی ہے اور تھوڑی سی تربیت اسے دنیا کا بہترین سپاہی بنا دیتی ہے ۔
سطر 95:
’’ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانھم بنیان مرصوص‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ اللہ تو ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اسی طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔( الصف 3 )۔ اللہ تعالیٰ نے اس تشبیہ میں بہت سی باتوں کو یکجا کر دیا ہے۔ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح لڑنے والے سپاہی جن باتوں کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے وہ فقط بہادری نہیں بلکہ ڈسپلن، باہمی محبت و موافقت، ایمان اور کئی ایک اور اچھی باتوں کا مظاہرہ بھی کر رہے ہوں گے ۔ ترکوں کے متعلق مشہور ہے کہ جب 1914 ء کی جنگ عظیم میں انہوں نے انگریزی فوج کو کوت العمارہ کے میدان میں گھیرے میں لیا تو انہوں نے لمبی لمبی زنجیروں سے قطار در قطار اپنے آپ کو جکڑ لیا ۔ چھ ماہ کے مسلسل محاصرے کے بعد انگریز جرنیل نے ہتھیار ڈال دیے ۔ روداد اس محاصرے کی بڑی خوفناک ہے۔
’’ہاتھ تلوار پربھروسہ اللہ پر‘‘۔ یہ ایک باریک بات ہے مگر اللہ جسے چاہے سمجھا دے ،ہاتھ تلوار پراور بھروسا اللہ پر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ پر بھروسا کرنے کے لیے ذرائع سے کلی طور پر قطع نظر کرکے اللہ کو آزمائش میں نہ ڈالنا۔ یعنی جہاں انسان کے لیے ذرائع کا حصول ممکن ہووہاں بھی ان ذرائع کواللہ پر بھروسا کرکے نظر اندار کر دینا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی آنحضور ﷺکے پاس آیا ۔ تو آپ ﷺنے پوچھا ۔ اونٹنی کہاں چھوڑی۔ تواس نے کہا۔ اللہ کے بھروسے پر باہر چھوڑ آیا ہوں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا۔ پہلے اونٹنی کا گھٹنا باندھ پھر اللہ پر بھروسا کر۔ اس کے مقابلے میں دوسری مثال یہ ہے کہ انسان ذرائع سے بے بس و مجبور ہو اور اللہ پر بھروسا رکھے ۔ جس طرح ایک بار آنحضرت ﷺصحرا میں کسی درخت کے سائے میں آرام فرما رہے تھے اور تلوار آپ ﷺنے درخت سے لٹکا رکھی تھی۔ دفعتہ ایک کافر آیا اور آپﷺ کی تلوار قبضے میں کرکے تلوار سونت کرکھڑا ہو گیا ۔ آپ ﷺکی آنکھ کھلی تو کافر نے کہا۔ محمدﷺ ! اب آپ کو میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے؟تو آپ ﷺنے بے دریغ فرمایا۔ ’’میرا اللہ ‘‘۔ یہ سن کر کافر پر ایسی دہشت طاری ہوئی ۔ کہ تلوار ہاتھ سے گر گئی ۔ آپ ﷺنے تلوار اٹھالی اور فرمایا۔ اب تو بتا۔ تجھے میرے ہاتھ سے بچانے والا کون ہے؟۔ کافر فورا ایمان لے آیا۔
رسول اللہ ﷺکے زمانے میں خندق کھودتے تھے ۔ آج کل مورچے کھودتے ہیں۔ اصولا خندق اور مورچے میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں حفاظت کے لیے کھودی جاتی ہیں۔ مورچہ کھودتے وقت عموما سپاہیوں میں ایک خاص قسم کا جذبہ نمودار ہوتا ہے ۔ جنگ خندق میں جب مدینہ کے گرد خندق کھودی جا رہی تھی تو مہاجرین و انصار خندق کھودتے۔ اپنی پیٹھ پر مٹی لادتے اوریہ کہتے جاتے ۔ کہ ’’ ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد صلعم سے جہاد اسلامی کی بیعت کی ہے۔ جب تک زندہ ہیں مسلمان رہی ںرہیں گے ‘‘۔ اور رسول اللہ ﷺان کو جواب دیے جاتے۔ ’’ اے میرے اللہ آخرت کی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں ۔ پس تو مہاجرین اور انصار میں برکت عطا فرما‘‘۔ رسول اللہ ﷺپتھر اٹھاتے جاتے اور فرماتے جاتے۔ لو لا ما اہتدیتنا۔’’ ہدائت اگر نہ کرتا۔ تونہ ملتی ہم کو راہ حق ‘‘۔ جنگ احزاب کے روز رسول اللہ ﷺمٹی اٹھاتے۔ مٹی سے آپ ﷺکے پیٹ کارنگ چھپ گیا تھا اور آپ ﷺ فرماتے جاتے تھے۔ ’’ اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے اورنہ نماز پڑھتے۔ پس تو ہم پر اطمینان نازل فرما اور جب ہم دشمن سے مقابلہ کریں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ بے شک ان لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے ۔ جب یہ کوئی فساد کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی بات میں نہیں آتے ‘‘۔
* عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
* غیر مسلح لوگوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔