"حسین احمد مدنی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار درستی+ترتیب+صفائی (9.7) |
م خودکار: خودکار درستی املا ← طلبہ، اس ک\1، زیادہ، ہو گئے، سے، سے، ابتدا، صبر و شکر، جو، ہو گئی، دار العلوم |
||
سطر 42:
== ابتدائی تعلیم ==
آپ کے والد اسکول ہیڈ ماسٹر تھے۔ جب آپ کی عمر 3 سال کو پہنچی تو والد کی تبدیلی قصبہ ٹانڈہ میں
=== عصری بنیادی نصابی کتب ===
آمد نامہ، دستور الصبیاں، گلستان کا کچھ حصہ مکان پر اور اسکول میں دوم درجہ تک پڑھنا ہوا۔ حساب، جبرو مقابلہ تک مساحت اور اقلیدس مقالہ اولیٰ، تمام جغراقفیہ عمومی و خصوصی، تاریخ عمومی و خصوصی، مساحت علمی (تختہ جریب وغیرہ سے زمین ناپ کر باقاعدہ نقشہ بنانا) اور ہر چیز آٹح سال کی عمر تک بخوبی یاد
=== دیوبند میں تعلیم کا آغاز ===
یہان پہنچنے کے بعد [[گلستان سعدی|گلستان]] اور میزان شروع کی۔ بڑے بھائی صاحب نے محمود الحسن سے ابتدا کی درخواست کی چنانچہ مجمع میں انہوں نے مولانا خلیل احمد سے فرمایا آپ شروع کرادیں انہوں نے
حسین احمد مدنی کی زبانی:
دیوبند پہنچنے کے بعد وہ ضعیف سی کھیل کود کی آزادی
== اساتذہ سے حصول علم ==
سطر 64:
|مولانا محمود الحسن
|دارلعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد اور مولانا قاسم نانوتوی
سے علم حدیث حاصل کیا، حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے خلافت حاصل کی اور
|دستور المبتدی، زرادی، زنجہانی، مراح الارواح، قال
اقوال، مروات، تہذیب قطبی تصدیقات، قطبی تصورات، میر قطبی، مفید الطالبین، نفحۃ الیمن، مطول، ہدایہ اخیرن، ترمذی شریف، بجاری شریف، ابوداؤد، تفسیر بیضاوی، نخبۃ الفکر، شرح عقائد نسفی، حاشیہ خیالی، موطا امام مالک، مؤطا امام محمد
سطر 70:
|2
|مولانا ذولفقار علی
|مولانا محمود الحسن کے والد اور
|فصول اکبری
|-
سطر 80:
|4
|مولانا خلیل احمد سہارنپوری
|
|تخلیص المفتاح
|-
|5
|مولانا حکیم محمد حسن
|مولانا محمود الحسن کے چھوٹے بائی تھے۔ آُکے دور مین
|پنج گنج، صرف میر، نحو میر، مختصر المعانی، سلم العلوم، ملا حسن، جلالین شریف، ہدایہ اوّلین
|-
|6
|مفتی عزیز الّحمٰن
|
|شرح جامی، کافیہ، ہدایۃ النحو، منیۃ المصلّیٰ، کنز الدقائق، سرح وقایہ، شرح مائۃ عامل، اصول الشاشی
|-
|7
|،مولانا غلام رسول بفوی
|علوم عقلیہ و نقلیہ کے حافظ،1208ھ میں
|نور الانوار، حسامی، قاضی مبارک، شمائل ترمذی
|-
سطر 106:
|9
|مولانا حبیب الرّحمٰن
|
|مقامات حرہری، دیوان متنبنی
|-
سطر 118:
علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے مدینہ منورہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔
[[شوال]] [[1318ھ]] تک آپکا درس امتیازی مگر ابتدائی پیمانے پر رہا۔ 1318ھ میں ہندوستان آئے۔ ماہ [[محرم (مہینہ)|محرم]] [[1320ھ]] واپس دوبارہ مدینہ حاضری
=== عرب کے چند ممتاز شاگرد ===
سطر 128:
=== درس حدیث کے لیے تکالیف کا تحمل ===
شدید گرمیں دوپہر 12 بجے کا زمانہ ہو چھتری پیش کی جائے تو لینے سے انکار کر دیتے۔ بارش کے زمانہ میں راستہ کیچڑ آلود ہوتا لیکن حضرت دارالحدیث کی جانب محو سفر ہوتے۔ ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں چھتری ہوتی۔ کپڑے کیچڑ آلود ہوتے تو سواری پیش کی جاتی تو انکار کردیتے۔ شاگرد تانگے والے کو لے آتے بار بار اصرار کرنے پر ایک دفعہ کہنے لگے کہ کیچڑ سے ہم پیدا ہوئے، اگر اسمیں جا ملیں تو کیا ڈر ہے۔ ایک مرتبہ
== اہلیہ کی تدفین سے فراغت کے بعد درس بخاری ==
سطر 143:
=== ایام اسیری میں صدمات ===
حسین احمد مدنی جب مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے تو پورا خاندان اور بسا بسایا گھر چھوڑ کر گئے نکلے تھے۔ سفر صرف دو چار دنوں کا تھا مگر تقدیر میں طویل لکھا تھا۔ گرفتار ہوئے مصر کیجانب روانگی ہوئی، سزا ہوئی۔ پھانسی کی خبریں گرم ہوئیں۔ مالٹا کی قید پیش آئی۔ استاد کی قربت اور انکی پدرانہ شفقت نے ہر مشکل آسان اور قابل برداشت بنادی تھی۔ قیدو بند کی سختیاں
ایک دن کئی ہفتوں کی رکی ہوئی ڈاک پہنچی تو ہر خط مین کسی نہ کسی فرد خاندان کی موت کی خبر ملتی۔ اس طرح ایک ہی وقت میں باپ، جواں سال بچی، ہونہار بیٹے، جانثار بیوی، بیمار والدہ اور دو بھائیوں سمیت سات افراد خاندان کی جانکاہ خبر ملی۔ موت بر حق ہے مگر جن حالات میں حسین احمد مدنی کو یہ اطلاعات موصول ہوئیں انہیں برداشت کرنا پہاڑ کے برابر کلیجا چاہیے تھا۔<ref>شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒایک تاریخی و سوانحی مطالعہ، از فرید الوحید</ref>
سطر 159:
مولانا فرید الوحیدی ؒ خود راوی ہیں کہ حضرت مدنیؒ یتیموں اور بیواؤن کی عموما امداد فرماتے تھے۔ ایسے افراد میری نظر میں ہیں جنہیں بے روزگاری کے دور میں مستقل امداد دیتے رہے۔ ان میں مسلم اور غیر مسلم کی قید نہ تھی۔ جو لوگ مفلوک الحال ہوتے انکی امداد باضابطہ طور پر فرماتے۔ عید کے مواقع پر اگر آبائی وطن ہوتے تو خود رشتہ داروں کے ہاں عید سے پہلے جاتے اور عیدی تقسیم فرماتے۔
مولانا مدنیؒ اپنے یتیم بھتیجے کی شادی کے لیے 25،000 پچیس ہزار روپے جیب کی مالیت سے عالی شن گھر تعمیر کروایا۔بھتیجے کی وفات کے بعد انکی اولاد کا کہنا ہے کہ گرفتاری و قید تک ہمیں احساس بھی نہ ہونے دیا کہ ہم یتیم ہیں۔ غرض یہ کہ اس دور نفسا نفسی میں حقیقی پوتوں کے ساتھ پرخلوص مہرو محبت عنقا ہے۔ بھتیجے اور
=== مستحقین کی خبر گیری ===
|