"ابلیس" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، رہیں، سے
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1:
[[فائل:Iblis (The Shahnama of Shah Tahmasp).png|تصغیر|[[رزمیہ]] [[شاہنامہ]] میں ابلیس کی عکاسی]]
'''ابلیس''' کا اسم ذات۔ [[عبرانی]] لفظ ہے مگر اہل عرب اسے بلس سے ماخوذ کہتے ہیں جس کے معنی ناامید ہونے کے ہیں۔ چونکہ ابلیس کو اللہ سے کوئی امید نہیں رہی اس لیے ابلیس کہلایا۔ اسے شیطان اور عدو اللہ ’’خدا کا دشمن‘‘ بھی کہتے ہیں۔ [[قرآن]] اس کا ظہور ابتدائے عالم سے بتاتا ہے۔ اس نے [[آدم علیہ السلام|آدم]] اور [[حوّا|حوا]] کو بہکایا اور [[ممنوعہ پھل|شجر ممنوعہ]] کے کھانے کی اس لیے ترغیب دی کہ وہ کہیں ہمیشہ [[جنت]] میں ہی نہ رہیں۔ جب اللہ نے آدم میں روح پھونکی تو حکم دیا کہ تمام فرشتے اُسے سجدہ کریں۔ سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ میں آگ سے بنا ہوں اور آدم خاک سے ۔سے۔ اس پر راندہ درگاہ کر دیا گیا۔ اس نے اللہ سے قیامت کے دن تک کی مہلت طلب کی جو دے دی گئی اور لوگوں کو بہکانے کی طاقت بھی دے دی گئی۔
 
[[کتاب مقدس|بائبل]] میں بھی یہ قصہ قریب قریب اسی طرح مذکور ہے۔ علامہ زمخشری اسے [[جن]] مانتے ہیں۔ کیونکہ قرآن میں ہے۔ کان من الجن ’’وہ [[جن]] تھا‘‘ مگر بہت سے علما اسے فرشتہ مانتے ہیں۔ اور بعض علما نے یہ بھی کہا کہ جن بھی فرشتوں میں شامل تھے جو جنت کے محافظ تھے۔ مگر جن نارسموم سے پیدا کیے گئے۔ اور فرشتے نور سے تخلیق ہوئے۔ ابتدا میں جن زمین پر رہتے تھے۔ وہ آپس میں لڑنے لگے تو اللہ نے ابلیس کو ان کے پاس بھیجا۔ بعض روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ابلیس ارضی جنات سے تھا۔<ref>تفسیر طبری، جلد اول صفحہ 83</ref> انجام کار شیطان اور اس کے ساتھیوں کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ وہ اپنے دوستوں سے کہے گا کہ تم پر لعنت ہو۔ اب تم سدا جہنم میں رہو۔ شیطان ابتائے آدم کو بہکانے میں مشغول رہتا ہے۔ مگر نیک بندوں پر اس کا بس نہیں چل سکتا۔<ref>سورہ ص آیت 83</ref>