"رئیس امروہوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏top: درستی
م خودکار: خودکار درستی املا ← بعد ازاں، کی بجائے، سے، \1 رہا، سے، \1 رہے
سطر 17:
سید محمد مہدی المعروف '''رئیس امروہوی''' [[ہندوستان|برصغیر]] کے بلند پایہ شاعر، ممتاز صحافی اور ماہرمرموز علوم تھے۔
 
آپ 12 ستمبر 1914ء کو یوپی کے شہر [[امروہہ]] کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔1936 میں صحافت سے وابستہ ہوئے، ابتدا میں امروہہ کے اخبارات قرطاس اور مخبر عالم کی ادارت کی۔ بعدازاںبعد ازاں روزنامہ جدت (مرادآباد) کے مدیر اعلیٰ رہے۔ آپ [[سید محمد تقی]] اور [[جون ایلیا]] کے بڑے بھائی تھے۔
 
تقسیم ہند کے بعد 19 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کر کے [[کراچی]] آ گئے اور روزنامہ جنگ سے منسلک ہونے کے بعد یہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کی ادارت میں جنگ [[پاکستان]] کاسب سے کثیرالاشاعت روزنامہ بن گیا۔ صحافتی کالم کے علاوہ آپ کے قصائد، نوحے اور مثنویاں اردو ادب کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ نثر میں آپ نے نفسیات و فلسفۂ روحانیت کو موضوع بنایا۔ 22 ستمبر 1988ء کو آپ نے اس دنیا سے کوچ کیا۔
سطر 47:
</div>
 
حوادث عالم کی توجیہ عقل کے سپرد کردی جائے گی تو سبب و مسبب اور علت و معلول کی گتھیاں سلجھانے کےکی بجائے عقل ان میں الجھ کر رہ جائے گی۔ رئیس امروہوی یہ کام عقل کے سپرد نہیں کرتے، عشق سے حادثات لیل و نہار کا سبب پوچھتے ہیں اورانہیں جواب ملتا ہے کہ </div>
 
یہ حادثات شب و روز بے سبب تو نہیں بدل رہا ہے کوئی خواب ناز میں پہلو </div>
</div>
محبت میں سب کچھ ہے مایوسی نہیں۔ وہ اپنے محبوب سے شکستہ دل کے باوجود مایوس نہیں۔ وہ ستم میں کرم کے ہزاروں پہلو دیکھتے ہیں۔ یہ انداز عشق کوہوس سے ممتاز کرتا ہے </div></div>
تمہیں فسردہ دلوں کا خیال ہی تو نہیں خیال ہو تو کرم کے ہزارہاہزا رہا پہلو</div></div>
نور و نار اور جمال و جلال ایک ہی حقیقت کمے دو رخ ہیں </div></div>
بس ایک آگ ہے جو حسن میں ہے گرمی ناز مزاج عشق میں ٹھہرے اگرتو سوز دروں</div></div>
سطر 107:
حسن کی کشش مشہور ہے ۔ دل محبوب کی طرف خود بخو دکھینچتا ہے یہ کیفیت شعوری ہے۔ مگر گریز کو جذب لاشعوری بتانا۔ رئیس کی فکر کا وہ کارنامہ ہے جس کی داد اہل فکر ہی دے سکتے ہیں </div></div>
جمال دوست کی جانب کشش ہے عین شعور رہا گریز تو وہ جذب لاشعوری ہے</div></div>
ایک بات کو مختلف روپ میں پیش کرنا، ایک مفہوم کو رنگا رنگ اسلوب سے ادا کرنا، ایک حقیقت کو گوناگوں الفاظ و عبارت کے جامے میں ملبوس کرنا جہاں شاعرانہ صلاحیتوں کا مظہر ہوتا ہے وہاں شاعر کے تخیل، تمول اور علمی سرمائے کا بھی اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے۔ رئیس امروہوی میں یہ خصوصیت بہت نمایاں ہے۔ جب ہم ان کی بعض منصومات مثلاً ”آفرینش نامہ“ دیکھتے ہیں تو پوری نظم جو تین صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اس کا ماحصل دو الفاظ اطلاق و قید یا مطلق و قید ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ شاعر نے ان فلسفیانہ اصطلاحات کی خشک زمین کو نہایت شگفتہ اور بہت ہی تروتازہ نظم سے باغ ہ بہار بنا دیا ہے پوری نظم زور بیاں، ندرت کلام اورشوکت الفاظ کا مرقع ہے۔ اسی طرح ”عدم“ کے عنوان سے جو نظم ہے وہ بھی رئیس امروہوی کا ادبی شاہکارہے۔شاہکا رہے۔ پوری نظم مرصع ہے۔ تلازم الفاظ اور مترادفات کا پرشوکت استعمال تاآنی کی یاد تازہ کرتا ہے۔ فی الجملہ منظومات سے شاعر کی وسعت نظر و فکر کی گہرائی مطالعے کی ہمہ گیری اور مشاہدے کی جامعیت کا پتہ چلتا ہے۔</div></div>
 
[[زمرہ:کراچی کے شعرا]]