"جامع مسجد قرطبہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، سے
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 82:
مسجد میں محراب و منبر کو ایک ممتاز مقام حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ جہاں باہر سے دیکھنے والوں کے لیے مسجد کا مینار اور گنبد مرکز نگاہ بن جاتے ہیں وہاں مسجد کے اندر محراب و منبر ہی وہ دو مقام ہیں جو ہر ایک کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ مسجد قرطبہ کی محراب (Niche) جس سنگ مر مر سے تیار کی گئی تھی وہ دودھ سے زیادہ اجلا اور برف سے زیادہ چمکیلا تھا۔ صناعوں نے اسے ہفت پہلو کمرہ بنا دیا تھا جس کے اندر کی جانب سنگ تراشی کے ذریعے خوبصورت گل کاری کا کام کیا گیا تھا۔ اس کے سامنے کی طرف قوس کی شکل کی جو محراب (Arch) بنائی گئی ہے اسے دونوں طرف سے دو ستونوں نے سہارا دے رکھا ہے۔ ہر جانب ایک ستون نیلگوں اور ایک سرخ ہے۔ اس محراب پر قوس ہی کی شکل میں پچی کاری (Inlay Work)کے ذریعے خوبصورت رنگین نقش ونگار(Arabsque) بنائے گئے ہیں جس کے گرداگرد کوفی رسم الخط میں قرآنی آیات لکھی گئی ہیں۔ محراب کی چھت ایک بہت بڑے صدف سے آراستہ ہے۔ قبلہ کی دیوار کے ساتھ ساتھ پچی کاری سے مزین تین بڑے بڑے دروازے ہیں جن میں سے درمیانی دروازے میں مسجد کی محراب واقع ہے۔ محراب کے قریب قبلہ کی دیوار نے تین عظیم قبوں (Vaults or Cupolas) کو تھام رکھا ہے۔ جن میں سے درمیانی قبے کے اندر پچی کاری کا خوبصورت کام کیا گیا ہے۔ قبلہ کی دیوار کے ساتھ جو دروازہ ”ساباط“پر بنایا گیا ہے اس کی ایک جانب وہ منبر تھا جو خوشبو دار اور قیمتی لکڑی کے 36ہزار ٹکڑوں سے بنایا گیا تھا۔ ٹکڑوں کو جوڑنے کے لیے سونے اور چاندی کے کیل لگائے گئے تھے۔ لکڑی کے ہر ٹکڑے پر سات درہم نقرئی خرچ آئے تھے (ابن بشکوال : نفخ الطیب)۔ جو لکڑی استعمال کی گئی تھی اس میں صندل، بقم، حدنگ، آبنوس اور شوحط شامل ہیں۔ یہ منبر آٹھ فنکاروں نے سات برس کی طویل مدت میں مکمل کیا تھا۔ منبر میں زیادہ آب و تاب پیدا کرنے کے لیے اسے جواہرات سے مرصع کیا گیاتھا۔ انقلابات زمانہ کی دستبرد سے اگر مسجد کا کوئی حصہ صحیح حالت میں بچ سکا ہے تو وہ یہی محراب ہے جس کی چمک اور تابانی آج بھی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے ۔
== ستون ==
امیر [[عبد الرحمن الداخل]] اور امیر [[ہشام اول]] کے عہد میں جو ستون مسجد قرطبہ میں استعمال کیے گئے وہ یا تو قرطاجنہ(Cartagena) سے لائے گئے تھے یا اربونہ(Arbonne) اور اشبیلیہ (Seville)سے ۔سے۔ لیکن یہ ستون تعداد میں اس قدر زیادہ نہ تھے کہ آئندہ کی تمام ضروریات کو پورا کر سکتے۔ لہذا [[عبدالرحمن الناصر]] (912-961)نے اندلسی سنگ مرمر سے مختلف رنگوں کے ستون ترشوائے۔ سنگ مر مر کے یہ ستون سفید، نیلگوں، سرخ، سیاہ، سبز، گلابی اور رنگ برنگ کی چتیوں والے تھے۔ سنگ سماق، سنگ رخام اور زبر جد سے بنائے گئے ان ستونوں پر سونے کی مینا کاری اور جواہرات کی پچی کاری کی گئی تھی۔ مجموعی طور پر ان ستونوں کی تعداد 1400سے زائد تھی۔ ان ستونوں پر نعلی محرابیں اس طرح سے بنائی گئی ہیں کہ یہ ستون کھجور کے تنے اور ان پر بنے چھوٹے بڑے محاریب کھجور کی شاخیں معلوم ہوتی ہیں۔ جس ترتیب اور وضع سے انہیں نسب کیا گیا تھا اس کی بناءپر کسی بھی زاویہ سے انہیں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان کسی دل فریب نخلستان میں کھڑا ہے اور اس کے سامنے ہزار ہا کھجور کے درخت صف بستہ کھڑے ہیں۔ چھت کو سہارا دینے والے ستونوں پر قائم محرابوں کے علاوہ بہت سی چھوٹی بڑی آرائشی محرابیں بھی بنائی گئی تھیں جو ایک دوسرے کو قطع کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ زیادہ تر بند محرابیں (Blind Arches) ہیں جن کے درمیانی حصوں کو گچ کاری (Stucco Work)، پچی کاری (Inlay Work)اور ٹائلوں کے کام سے آراستہ کیا گیا ہے۔
== دروازے ==
مسجد میں توسیع کے نتیجہ میں اس کے دروازوں کی تعداد نو سے بڑھ کر اکیس تک پہنچ گئی تھی۔ نو دروازے مشرق کی جانب اور نو مغرب کی جانب تھے۔ ان میں ہر طرف کے آٹھ دروازے مردوں کے لیے اور ایک ایک دروازہ عورتوں کے لیے مخصوص تھا۔ شمال کی جانب تین دروازے تھے ان تمام دروازوں کے کواڑوں پر صیقل شدہ پیتل کی پتریاں چڑھائی گئی تھیں جو سورج کی روشنی میں خوب چمکتی تھیں۔ اس کے علاوہ جنوب کی طرف سونے کے کواڑوں والا ایک بڑا دروازہ بھی تھا جو قصر خلافت سے ملانے والی ”ساباط“ نامی مسقف گزرگاہ پر بنا ہوا تھا۔ اسی راستے سے گزر کر امراءاندلس مقصورہ میں داخل ہوتے تھے۔ ساباط کے دروازے کی محراب پر گنجان پچی کاری کا کام کیا گیا ہے حتی کہ کوفی رسم الخط میں تحریر عبارتیں تک پچی کاری سے لکھی گئی ہیں۔