"روپیے کی تاریخ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، سے، سے، امریکا
سطر 1:
[[تصویر:Vinay bhanawat 786 Indian Currency Note collection world records India.JPG|thumbnail|دس روپے کے بھارتی نوٹوں کا بنڈل]]
[[تصویر:Indian one Rupee coin (YS).JPG|thumbnail|ایک روپیے کا سکہ]]
[[ہندوستان]] دنیا کی ان قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے جہاں چھٹی صدی قبل مسیح میں سکوں کا رواج عام ہو چکا تھا۔ روپے لفظ کو روپا سے مشتق سمجھا جاتا ہے جس کا مطلب چاندی ہے اور [[سنسکرت زبان]] میں روپيكم کا مطلب ہے چاندی کا سکہ۔ روپیہ لفظ اصلاً سنہ 1540ء - 1545ء کے درمیان میں [[شیر شاہ سوری]] کی طرف سے جاری کئےکیے گئے چاندی کے سکوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ اصل روپیہ چاندی کا سکہ ہوتا تھا جس کا وزن 11.34 گرام تھا۔ یہ سکے [[برطانوی راج]] میں بھی مستعمل رہے۔
 
بیسویں صدی میں [[خلیج فارس]] کے ممالک (خلیجی ممالک) اور عرب ملکوں میں [[بھارتی روپیہ]] کرنسی کے طور پر مقبول تھا۔ سونے کی اسمگلنگ اور بھارتی کرنسی کے بیرونی استعمال کو روکنے کے لیے مئی 1959ء میں [[ریزرو بینک آف انڈیا]] نے خلیجی روپیہ متعارف کرایا۔ ساٹھ کی دہائی میں [[کویت]] اور [[بحرین]] نے آزادی کے بعد اپنی کرنسی کا استعمال شروع کیا اور 1966ء میں بھارتی روپے کی گراوٹ سے بچنے کے لیے [[قطر]] نے بھی اپنی کرنسی شروع کر دی۔<ref>{{cite web|url=http://www.chiefacoins.com/Database/Countries/Qatar.htm|accessdate=25 فروری 2010ء|title=Qatar}}</ref>
 
== چاندی کا روپیہ ==
تاریخی طور پر روپیہ کی قدر چاندی پر مبنی تھی۔ انیسویں صدی میں اس کے برعکس نتائج سامنے آئے جب یورپ اور امریکہامریکا میں بھاری پیمانے میں چاندی کی تلاش ہوئی۔ اس وقت کی مضبوط معیشتیں سونے پر مبنی تھیں۔ چاندی کے حصول سے چاندی اور سونے کی اضافی قدروں میں بھاری فرق سامنے آیا اور اچانک بھارت کی کرنسی کی قیمت عالمی بازار میں گر گئی۔ یہ سانحہ "روپیے کی گراوٹ" کے نام سے معروف ہے۔
 
آغاز میں ایک روپیہ 16 آنوں، 64 پیسوں یا 192 پائی میں تقسیم کیا گیا۔ یعنی 1 آنہ 4 پیسوں یا 12 پائی میں منقسم تھا۔ تاہم سنہ 1869ء میں سری لنکا میں، 1957ء میں بھارت میں اور 1961ء میں پاکستان میں اعشاری نظام کے مطابق تقسیم ہوا۔
سطر 13:
روپیوں کو کاغذی نوٹوں میں سب سے پہلے بینک آف ہندوستان (1770-1832)، دی جنرل بینک آف بنگال و بہار (1773-75، وارن ہیسٹنگز کا قائم کردہ) اور دی بنگال بینک (1784-91) نے جاری کیا۔
 
آغاز میں بینک آف بنگال کی طرف سے جاری کئےکیے گئے کاغذی نوٹوں پر صرف ایک طرف ہی چھپا ہوتا تھا۔ اس میں سونے کی ایک مہر بنی ہوتی تھی اور یہ 100، 250، 500 روپیوں کے ہوتے تھے۔ بعد کے نوٹوں میں نسوانی شکل کا ایک بیل بوٹا بننے لگا جو کاروبار کی انسانی سازی کی علامت تھا۔ یہ نوٹ دونوں جانب تین رسم الخط اردو، بنگالی اور دیوناگری میں چھپتے تھے اور پیچھے کی طرف بینک کی مہر ہوتی تھی۔ انیسویں صدی کے آخر تک نوٹ برطانوی ہو گئے اور جعلی نوٹ کی روک تھام کے لیے ان میں دیگر کئی علامتیں چھاپی جانے لگیں۔
 
== مزید دیکھیے ==