"زحل" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا |
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، سائنس دان، گزرا، سے، ابتدا، سے، تہ |
||
سطر 14:
=== فضاء ===
زحل کی بیرونی فضاء میں 96.3 فیصد ہائیڈروجن اور 3.25 فیصد ہیلئم ہے۔ انتہائی معمولی مقدار میں امونیا، ایسیٹیلین، ایتھین، فاسفین اور میتھن بھی پائی جاتی ہیں۔ زحل کے بالائی بادل زیادہ تر امونیا کی قلموں سے بنے ہیں جبکہ زیریں بادل یا تو امونیئم ہائیڈرو سلفائیڈ سے بنے ہیں یا پھر پانی
ہیلئم سے زیادہ بھاری عناصر کی مقدار کے بارے یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
=== بادلوں کی تہیں ===
زحل کی فضاء مشتری کی طرح پٹیوں سے مل کر بنی ہے تاہم زحل کی یہ پٹیاں بہت دھندلی ہیں اور خط استوا کے نزدیک زیادہ پھیلی ہوئی ہیں۔ گہرائی میں یہ 10 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور درجہ حرارت منفی 23 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور یہ پٹی یا
زحل کے بے رنگ موسم میں کبھی کبھار طویل المدتی تبدیلی آتی ہے۔ 1990 میں ہبل خلائی دور بین نے استوا کے قریب ایک بڑا سفید بادل دیکھا جو وائجر کے سفر میں دکھائی نہیں دیا تھا۔ 1994 میں ایک اور چھوٹا طوفان دکھائی دیا۔ اس طرح کے طوفان زحل پر ہر سال آتے ہیں۔ زحل کا ایک سال زمین کے 30 سالوں کے برابر ہوتا ہے۔ اس سے قبل 1876، 1903، 1933 اور 1960 میں اس طرح کے طوفان بھی دیکھے گئے ہیں۔ 1933 کا طوفان مشہور ترین ہے۔ اگر یہ سلسہ اسی طرح جاری رہا تو اندازہ ہے کہ 2020 میں اگلا طوفان آئے گا۔
سطر 31:
== قدرتی چاند ==
زحل کے کم از کم 62 چاند ہیں۔ ٹائیٹن سب سے بڑا اور زحل کے گرد موجود تمام مادے کے 90 فیصد کے برابر ہے۔ اندازہ ہے کہ دوسرے بڑے چاند ریا کے گرد اس کا اپنا حلقوں کا نظام ہے۔ دیگر چاندوں میں سے 34 کا قطر 10 کلومیٹر سے کم ہے اور بقیہ 14 ایسے ہیں جن کا قطر 50 کلومیٹر سے کم ہے۔ عام طور پر ان چاندوں کو یونانی دیومالائی داستان کے کرداروں پر نام دیا جاتا ہے۔
== مہم کی
زحل کی چھان بین تین ادوار میں منقسم ہے۔ پہلے یعنی قدیم دور میں جب تمام تر مشاہدات انسانی آنکھ سے بغیر کسی آلے کی مدد کے کیے جاتے تھے جب دوربین ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ 17ویں صدی سے بتدریج دوربینوں میں جدت پیدا ہونے لگی اور زمین سے دوربین کی مدد سے مشاہدات کیے جانے لگے۔ اس کے بعد خلائی جہاز جیسا کہ خلائی جہازوں کی مدد سے مشاہدات کیے جانے لگے۔
=== قدیم مشاہدات ===
سطر 37:
اس کے علاوہ ہندو مت اور یہودیت میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔
=== یورپی مشاہدات (17ویں تا 19ویں صدی) ===
زحل کے حلقوں کو دیکھنے کے لیے کم از کم 15 ملی میٹر قطر کی دوربین کا ہونا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے 1610 میں پہلی بار ان حلقوں کا مشاہدہ گلیلیو نے کیا۔ تاہم گلیلیو کا خیال تھا کہ زحل کے گرد دونوں جانب دو چاند موجود ہیں۔ کرسچئن ہیخز نے مزید طاقتور دوربین کی مدد سے ان حلقوں کی شناخت کی۔ ہیخز نے ہی پہلی بار زحل کے چاند ٹائیٹین کا مشاہدہ کیا۔ کچھ عرصے بعد جیوانی ڈومینکو کیسینی نے ایاپیٹس، ریا، ٹیتھی اور ڈیان نامی مزید چاند دریافت
1789 تک مزید کوئی اہم دریافت نہیں ہوئی۔ تاہم اس سال ولیم ہرشل نے مزید دو چاند دریافت
1899 میں ولیم ہنری پکرنگ نے فوب کو دریافت کیا جو بے قاعدہ چاند ہے۔ دیگر چاندوں کے برعکس اس کی مدار میں حرکت الٹ سمت میں ہے۔ 20ویں صدی کے اوائل سے ہونے والی تحقیق سے 1944 میں یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچ گئی کہ زحل کے چاند ٹائیٹن پر باقاعدہ فضاء موجود ہے جو ہمارے نظام شمسی کے چاندوں کے لیے اچھنبے کی بات ہے۔
=== ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی کے خلائی جہاز ===
==== پائینئر 11 کا گزرنا ====
زحل کے نزدیک سے پہلی بار پائینئر 11 نامی خلائی جہاز 1979 میں گزرا تھا۔ یہ خلائی جہاز زحل کے بادلوں کی اوپری سطح سے 20٫000 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے سے
==== وائجر کا گزرنا ====
نومبر 1980 میں وائجر اول نامی خلائی جہاز زحل سے
تقریباً ایک سال بعد اگست 1981 میں وائجر دوم نے زحل کے چاندوں کے بارے ہمارے علم میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ زحل کے چاندوں کے بارے مزید واضح تصاویر ملنا شروع ہو گئیں اور زحل کی فضا میں ہونے والی تبدیلیاں اور حلقے بھی واضح ہونے شروع ہو گئے۔ بدقسمتی سے وائجر دوم کا متحرک کیمرا اس وقت پھنس گیا اور دو دن تک منصوبے کے مطابق تصاویر نہیں لی جا سکیں۔ زحل کی کشش کو استعمال کرتے ہوئے وائجر دوم کا رخ یورینس کی جانب کر دیا گیا۔
سطر 52:
==== کیسینی ہیخز خلائی جہاز ====
یکم جولائی 2004 کو کیسینی ہیخز نامی خلائی جہاز زحل کے مدار میں داخل ہو کر اس کے گرد گھومنے لگا۔ مدار میں داخل ہونے سے قبل اس خلائی جہاز نے زحل کے نظام کا اچھی طرح جائزہ لیا تھا۔ جون 2004 میں یہ فوب کے قریب سے
کیسینی پھر زحل کے سب سے بڑے چاند ٹائیٹن کے پاس سے
2005 سے
2006 میں ناسا نے مطلع کیا کہ کیسینی نے زحل کے چاند انکلیڈس پر مائع پانی ڈھونڈ لیا ہے۔ یہ پانی آتش فشانی گیزروں سے نکل رہا تھا۔ تصاویر میں برفانی سوراخوں سے مائع پانی نکلتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک سائنس دان کے مطابق ہمارے نظام شمسی کے دیگر چاندوں پر مائع پانی کئی کلومیٹر گہری برف کی
کیسینی خلائی جہاز کی بھیجی ہوئی تصاویر سے بہت سے دیگر حیران کن انکشافات بھی ہوئے ہیں جن میں ایک نئے حلقے کی دریافت بھی شامل ہے۔ جولائی 2006 میں کیسینی کی تصاویر نے ٹائیٹن کے قطب شمالی پر مائع ہائیڈروکاربن کی جھیلیں دریافت ہوئی ہیں۔ ان کی تصدیق جنوری 2007 میں ہوئی تھی۔ مارچ 2007 میں ٹائیٹن کی قطب شمالی کے قریب ہائیڈروکاربن کے سمندر دریافت ہوئے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا بحیرہ کیسپئن کے برابر ہے۔ اکتوبر 2006 میں زحل کے قطب جنوبی پر 8٫000 کلومیٹر قطر کا ہری کین یعنی [[سمندری طوفان]] بھی دریافت ہوا ہے۔
2004 سے 2 نومبر 2009 تک کیسینی نے زحل کے آٹھ نئے چاند دریافت
== مشاہدہ ==
زمین سے عام آنکھ سے دیکھے جانے والے پانچ سیاروں میں سے زحل سب سے دور ہے۔ اولین ستارہ شناس اسے 1781 تک ہمارے نظام شمسی کا آخری سیارہ مانتے تھے۔ اس سال یورینس کی دریافت ہوئی۔ زحل کے گرد موجود حلقوں کو دیکھنے کے لیے زیادہ تر افراد کو دوربین کی ضرورت پڑے گی جس کی طاقت کم از کم 20 ایکس ہو۔
|