"دین" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← اس ک\1، ھیے، سے، سے، کے، یا، \1 رہے، انبیا
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 7:
 
== قرآن کریم میں ”دین“ کا استعمال ==
قرآن کریم میں دین، مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ہے۔ کبھی جزا اور حساب کے معنی میں تو کبھی قانون و شریعت اور کبھی اطاعت اور بندگی کے معنی میں۔
 
== دین کی مختلف جھات ==
سطر 16:
=== علم اخلاق ===
 
علم اخلاق تعلیمات اسلامی کا وہ حصہ ہے جو اچھی اور بری بشری عادتوں، انسانی نیک صفات اور ان کے حصول نیز ان سے مزین و آراستہ ہونے کو بیان کرتا ہے مثلا تقوی، عدالت، صداقت اور امانت وغیرہ۔مشہوروغیرہ۔ مشہور اسلامی فلاسفر شہید استاد مطہری کے الفاظ میں: " اخلاق یعنی روحانی صفات اور معنوی خصلت و عادات کی رو سے وہ مسائل،احکام اور قوانین جن کے ذریعے سے ایک اچھا انسان بنا جا سکتا ہے۔علمہے۔ علم اخلاق اسلامی تعلیمات کے اس حصے کی تشریح و تفسیر کرتا ہے۔{{حوالہ درکار}}
 
=== فقہ ===
سطر 35:
ایک آزاد فکر و نظر کے حامل شخص کی عقل اس سلسلے میں تحقیق و جستجو کو لازم اور ضروری شمار کرتی ہے اور اس کی مخالفت کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتی۔
ایک انسان کے ليے ضروری ہے کہ وہ عقلی حکم کی بنا پر تحقیق کرے کہ نبوت اور رسالت کا دعوی کرنے والے واقعی خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے یا نہیں؟ اور اس تحقیق و جستجو کے سفر میں وہاں تک بڑھتا چلا جائے کہ اس کو اطمینان حاصل ہو جائے کہ وہ سب کے سب غلط اور جھوٹے تھے یا پھر اگر برحق تھے تو ان کی تعلیمات کو سمجھے اوران پر عمل پیرا ہو جائے کیونکہ:
(1)# انسان ذاتاً اپنی سعادت ،سعادت، ترقی اور کمال کا طالب ہے اور یہ کمال و سعادت کی کشش اس کی خود پسندی سے سرچشمہ حاصل کرتی ہے۔ یہی خودپسندی انسانی کا رگزاریوں اور فعالیتوں کی اصلی محرک ہوتی ہے۔
(2) # پیغمبری کا دعوی کرنے والا یہ وعوی کرتا ہے کہ: ”اگرکوئی میری تعلیمات کو قبول کرلے اور ان پر عمل پیرا ہو جائے تو ابدی سعادت حاصل کرلے گا اوراگر قبول نہ کرے تو ہمیشہ کے ليے عذاب و سزا کا حقدار ہو جائے گا۔“
(3) # اس دعوے کی صحت کا احتمال ہے کیونکہ انسان نبوت کے مدعی کے دعوے کے باطل ہونے کا یقین نہیں رکھتا۔
(4) # کیونکہ انسان کی ابدی سعادت و شقاوت کا مُحتَمَل (Chance) بہت زیادہ ہے اور اس سے اہم مسئلہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔سکتا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی نابینا شخص کہیں جاتے ہوئے کسی ایسے شخص سے ملاقات کرے جو اس سے یہ کہے کہ اگر تم دس قدم بھی آگے بڑھے تو ایسے کنویں میں جا گرو گے کہ پھر کبھی اس سے باھر نہ نکل سکوگے اور اگر داہنے طرف دس قدم آگے بڑھے تو ایسے باغ میں داخل ھو جاؤ گے کہ ھمیشہ اس باغ میں موجود نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہو گے۔ نابینا شخص اگر دوسرے شخص کے قول کے صحیح ہونے کا احتمال دے تو اس کی عقل اس سے کہے گی کہ اس دوسرے شخص کے قول کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے یا کم از کم احتیاطاً اپنا راستہ موڑدے۔
 
لہذا ،لہذا، اگر انسان کو علم ھو جائے کہ گذشتہ طویل تاریخ میں ایسے والا صفات افراد آئے ہیں جنھوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ خداوند عالم کی طرف سے اس ليے بھیجے گئے ہیں تاکہ انسانوں کو ابدی سعادت سے ہمکنار کرسکیں اور دوسری طرف اس بات کا بھی مشاھدہ کرے کہ ان عظیم افراد نے اپنے پیغام کو پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے نیز ھدایت انسان میں کوئی کوتاھی نہیں کی ہے ساتھ ہی ساتھ مختلف النوع مشکلات و مسائل کا سامنا کیا ہے حتی اپنی جان تک دے دی ہے تو عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ان عظیم افراد کے دعوے کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے۔
(1) انسان ذاتاً اپنی سعادت ، ترقی اور کمال کا طالب ہے اور یہ کمال و سعادت کی کشش اس کی خود پسندی سے سرچشمہ حاصل کرتی ہے۔ یہی خودپسندی انسانی کا رگزاریوں اور فعالیتوں کی اصلی محرک ہوتی ہے۔
(2) پیغمبری کا دعوی کرنے والا یہ وعوی کرتا ہے کہ: ”اگرکوئی میری تعلیمات کو قبول کرلے اور ان پر عمل پیرا ہو جائے تو ابدی سعادت حاصل کرلے گا اوراگر قبول نہ کرے تو ہمیشہ کے ليے عذاب و سزا کا حقدار ہو جائے گا۔“
(3) اس دعوے کی صحت کا احتمال ہے کیونکہ انسان نبوت کے مدعی کے دعوے کے باطل ہونے کا یقین نہیں رکھتا۔
(4) کیونکہ انسان کی ابدی سعادت و شقاوت کا مُحتَمَل (Chance) بہت زیادہ ہے اور اس سے اہم مسئلہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی نابینا شخص کہیں جاتے ہوئے کسی ایسے شخص سے ملاقات کرے جو اس سے یہ کہے کہ اگر تم دس قدم بھی آگے بڑھے تو ایسے کنویں میں جا گرو گے کہ پھر کبھی اس سے باھر نہ نکل سکوگے اور اگر داہنے طرف دس قدم آگے بڑھے تو ایسے باغ میں داخل ھو جاؤ گے کہ ھمیشہ اس باغ میں موجود نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہو گے۔ نابینا شخص اگر دوسرے شخص کے قول کے صحیح ہونے کا احتمال دے تو اس کی عقل اس سے کہے گی کہ اس دوسرے شخص کے قول کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے یا کم از کم احتیاطاً اپنا راستہ موڑدے۔
 
لہذا ، اگر انسان کو علم ھو جائے کہ گذشتہ طویل تاریخ میں ایسے والا صفات افراد آئے ہیں جنھوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ خداوند عالم کی طرف سے اس ليے بھیجے گئے ہیں تاکہ انسانوں کو ابدی سعادت سے ہمکنار کرسکیں اور دوسری طرف اس بات کا بھی مشاھدہ کرے کہ ان عظیم افراد نے اپنے پیغام کو پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ہے نیز ھدایت انسان میں کوئی کوتاھی نہیں کی ہے ساتھ ہی ساتھ مختلف النوع مشکلات و مسائل کا سامنا کیا ہے حتی اپنی جان تک دے دی ہے تو عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ان عظیم افراد کے دعوے کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے۔
 
دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ نقصان یا ضرر سے بچنا ، عقل کے مسلم احکامات میں سے ہے اور یہ حکم، احتمال اور محتمل کے شدید یا ضعیف ھونے کی بنا پر، شدید یا ضعیف ہو جاتا ہے جتنا انسان کے ليے اس نقصان کے پہنچنے کا احتمال زیادہ ہو گا اور جتنا محتمل شدید ہو گا اتنا ہی اس نقصان اور ضرر سے متعلق عقل کاحکم بھی شدید اور سخت ہو جائے گا۔
دین کو قبول اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا پڑے گا کیونکہ یہ نقصان (محتمل) بہت عظیم اور خطرناک ہےلہذا احتمالی نقصان سے بچنے کے لیے عقل کا حکم بہت شدید ہوگا۔
 
دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ نقصان یا ضرر سے بچنا ،بچنا، عقل کے مسلم احکامات میں سے ہے اور یہ حکم، احتمال اور محتمل کے شدید یا ضعیف ھونے کی بنا پر، شدید یا ضعیف ہو جاتا ہے جتنا انسان کے ليے اس نقصان کے پہنچنے کا احتمال زیادہ ہو گا اور جتنا محتمل شدید ہو گا اتنا ہی اس نقصان اور ضرر سے متعلق عقل کاحکم بھی شدید اور سخت ہو جائے گا۔
(6) اپنی ذات سے محبت کے علاوہ ایک دوسرا سبب انسان کو ہمیشہ اس بات کے ليے اکساتا رھتا ہے کہ وہ دین سے متعلق تحقیق و جستجو کرے اور وہ حقائق سے متعلق شناخت حاصل کرنا ہے ۔ انسان فطرتاً حقیقت کا متلاشی ہے یہ حس ہمیشہ اس کی جان سے چمٹی رہتی ہے۔ یہی وہ حس ہے جو آدمی کو اس بات پر اکساتی رہتی ہے کہ وہ مسائل دینی کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے۔
دین کو قبول اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا پڑے گا کیونکہ یہ نقصان (محتمل) بہت عظیم اور خطرناک ہےلہذاہے لہذا احتمالی نقصان سے بچنے کے لیے عقل کا حکم بہت شدید ہوگا۔
(6)# اپنی ذات سے محبت کے علاوہ ایک دوسرا سبب انسان کو ہمیشہ اس بات کے ليے اکساتا رھتا ہے کہ وہ دین سے متعلق تحقیق و جستجو کرے اور وہ حقائق سے متعلق شناخت حاصل کرنا ہے ۔ہے۔ انسان فطرتاً حقیقت کا متلاشی ہے یہ حس ہمیشہ اس کی جان سے چمٹی رہتی ہے۔ یہی وہ حس ہے جو آدمی کو اس بات پر اکساتی رہتی ہے کہ وہ مسائل دینی کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کے بارے میں تحقیق و جستجو کرے۔
 
کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟اگر ہے تو وہ خالق کون ہے؟ اس کے صفات کیا ہیں؟ خدا سے انسان کا رابطہ کس طرح کا ہے؟ کیا انسان مادی بدن کے علاوہ غیر مادی روح بھی رکھتا ہے؟ کیا اس دنیوی زندگی کے علاوہ بھی دوسری کوئی زندگی ہے اگر ہاں تو اِس زندگی سے اُس زندگی کا کیا رابطہ ہے؟
سطر 60 ⟵ 55:
* اصول دین کیا کیا مطلب ہے؟
* درخت کے کتنے اجزاء ہوتے ہیں، غور کریں!
* اگر بیج بونے کے بعد درخت کو پانی ،پانی، ہوا اور روشنی نہ ملے تو کیا ہوگا؟
* اگر کوئی دین قبول کرنے کے بعد عمل نہ کرے تو کیا ہوگا ؟ہوگا؟
* دنیا میں مختلف مذاہب اور ادیان ہیں ایساکیوں ہے؟
 
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/wiki/دین»