"سلطنت اشکانیان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خانہ معلومات کے اندراج کی درستی
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، ہو گئے، اور، سے، \1 رہا، سے، \1 رہی، امرا، موروثی، ہو گئی
سطر 40:
[[ملف:LocationParthia.JPG|framepx|thumb|left|سلطنت اشکانیان کا نقشہ]]
 
'''سلطنت اشکانیان''' یا '''سلطنت پارثاوا''' یا '''پارت''' یا '''پارث''' {{دیگر نام|انگریزی=Parthian Empire}} [[فارس]] یا [[ایران]] کی ایک قدیم سلطنت جس میں ایران کے موجودہ صوبہ جات [[خراسان]] اور [[گورگان]] اور [[وسط ایشیا|وسطی ایشیا]] کا ایک ملک [[ترکمانستان|ترکمنستان]] کا جنوبی علاقہ شامل تھا۔ اس کو آسان اردو میں "'''پارثی سلطنت'''" بھی کہا جاتا ہے جو بعد ازاں اور بھی وسیع ہوگئیہو گئی تھی-
 
==ابتدائی تاریخ ==
پارتی ادر ماد اور پارس کی طرح وسط ایشیا سے آئے تھے اور ان کی طرح آریا نسل سے تھے۔ پارتھیا کا ذکر سب سے پہلے دارا عظم کے کتبے میں ملتا ہے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم۔ 75) جسٹین Jasttain کے خیال میں پارتی سیکاتی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اسٹرابو Strabous کا خیال ہے کہ پارتی سیکاتی قبیلے کی ایک شاخ ہیں جو داہیDbes میں رہتے تھے۔ یہ لوگ داہی کو چھور کر خوارزم آئے جو کے خراسان کے شمال میں واقع ہے۔ پھر وہاں سے کر خراسان میں سکونت اختیار کرلی۔ (پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 225)
 
سکندرنے ہخامنشی خاندان کا خاتمہ کیا تو پارتی بھی محکوم ہوگئے۔ہو گئے۔ سکندرکے جانشین سلوکی Seleucids ہوئے، مگر پارت کے ایک سردار اشک Asaak یا ارشک Arsaces نے سیاسی قوت حاصل کرنے کے بعد 249 ق م میں سلوکی خاندان کے خلاف بغاوت کرکے سمرقند سے مرو کا علاقہ آزاد کرالیا اور ایک نئے خاندان کی بنیاد دالی۔ کچھ عرصہ تک اشکانی حکومت سلوکیوں کے متوازی چلتی رہی اور دونوں کے درمیان جنگ و جدل کا سلسلہ جاری رہا۔ سلوکس حکمران انطیوکس اعظم یا انطیوکس سوم Antiochus The Garet Or Antiochus 3ed نے اشکانی فرمانروا ارشک سومArsaces 3ed کو شکست دے کر اس کے پایہ تخت پر قبضہ کر لیا۔ مگر یہ قبضہ زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکا اور پارتیوں کی قزاخانہ جنگ سے مجبور ہوکر صلح کر لی اور ارشک کو پارتھیا کا بادشاہ تسلیم کر لیا اور ارشک نے انطیوکس کو ہمدان کا علاقہ واپس کر دیا، جس پر اس نے قبضہ کر لیا تھا۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 75۔ 76)
 
==توسیع اور استحکام==
ارشک ششم یا مہردادا اول Arsaces 6th Mithradates 1th (170۔ 138 ق م) نے سلوکی حکمرانوں کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آرمینا، خوزستان، پارس اور بابل پر قبضہ کر لیا۔ نیز سلوکی بادشاہ دمیترس دومDemetius 2ed کو شکست دے کر گرفتار کر لیا۔ اس واقع کے بعد سلوکی حکومت عملی طور پر ایران سے ختم ہوگئی،ہو گئی، پھر بھی چھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔
 
اس خاندان کا دوسرا نامور بادشاہ ارشک ہفتم یا فرہادف رہاد دومArsaces 7th or Phrates 2ed (138۔ 125 ق م) تھا جو باپ کی موت کے بعد ایران کے تخت پر بیٹھا۔ سلوکیوں کے مکمل اخراج کا سہرا اس کے سر رہا۔ دمیترس دوم Demetius 2edکی گرفتاری کے بعد سلوکس ہفتم Selecus 7th تخت پر بیٹھا۔ 139 ق م میں ایک بڑی فوج کے ساتھ ایران کی طرف بڑھا اور تین کامیاب جنگوں کے بعد اس نے آرمینا، سلوکیہ اور بابل پر قبضہ کر لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انطیوکس کی تاریخ دہرائی جائے گی اور اشکانی اطاعت پر مجبور ہوں گے۔ فرہادنےف رہادنے بھی اپنی کمزوری محسوس کرتے ہوئے مصالحت کی کوشش کی۔ مگر انطوکس فتوحات کے نشے میں سرشار تھا۔ مصالحت کے لیے ایسی سخت شرائط پیش کیں کہ فرہادف رہاد منظور نہ کرسکا مجبوراً آمادہ جنگ ہوا۔ ہمدان کے قریب سلوکیوں اور اشکانیوں کی آخری فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ جس میں انطوکس مارا گیا اور اس کے ساتھ ہی ایران سے یونانی حکومت ہمیشہ ہی ختم ہوگئی۔ہو گئی۔ سلوکی سیادت شام کے صوبوں تک محدود ہوکر رہے گئی۔
 
اس واقعہ کے بعد سک قبائل نے اشکانی علاقوں میں لوٹ مار کردی۔ اس لیے فرہادف رہاد کو ان کی طرف توجہ کرنی پڑی اور فرہادف رہاد سھتیوں سے جنگ کرتا ہوا مارا گیا۔ ارشک نہم یا مہر داد دومMithradates 2ed Arsaces 9th or (124۔ 80) میں سک قبائل کی سرکوبی کی اور اپنی حدودیں مشرق میں پنجاب تک وسیع کر لیں۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 78) '''
==رومیوں سے چبقلش==
 
پھر مہرداد اس نے آرمینا کے جو علاقے اشکانی حکومت کے قبضہ سے نکل گئے تھے دوبارہ فتح کئے۔کیے۔ مگر آرمینا پرسلوکیوں کا دعویٰ تھا، اس لیے دونوں حکومتوں میں کشمکش شروع ہوگئیہو گئی اور جب رومیوں نے شام پر قبضہ کیا تو یہ کشمکش رومیوں کی طرف منتقل ہوگئی۔ہو گئی۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 79)
 
80 ق م میں مہرداداکی موت واقع ہوگئیہو گئی اور اس کے بعد اشکانیوں کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ ایک طرف خانہ جنگی شروع ہوگئیہو گئی اور دوسری طرف رومیوں سے جنگوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ ارشک سیزدہم Arsaces 13th کے عہد میں حران کے مقام پر رومیوں کو شکست ہوئی اور رومی سلار کراسوس Carassus 53 ق م میں مارا گیا۔ اس واقع کے سترہ سال کے بعد 36 ق م میں دوسری جنگ ہوئی، اس میں بھی رومیوں کو شکست ہوئی اور رومی سالار انطونی Antony جان بچا کر بھاگ نکلا، مگر رومی آرمینا پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ہو گئے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 79)
 
ان دوشکستوں نے رومیوں کی ایشیا کی طرف پیش قدمی روک دی، مگر اس کامیابی کے باجود اشکانی حکومت کمزور ہوتی چلی گئی۔ پھر بھی یہ دو سو سال تک قائم رہی۔ اشکانی عہد کو مسعودی اور دوسرے مورخین نے ملوک الطوف کا دور بتایا ہے۔ اس کو اپنی انحاط کی آخری منزلوں پر ایک نئی طاقت کا سامنا کرنا پڑا۔ جو اسی ایران کی سرزمین سے ابھر رہی تھی،تھی اور ساسانی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اشکانی حکومت اس کا مقابلہ نہیں کرسکی اور 475 سال کے طویل عہد حکومت کے بعد اشکانیوں نے ساسانیوں کے لیے جگہ خالی کردی۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 80)
 
==دارلحکومت==
سطر 70:
 
==حکومت و انتظامیہ==
اس عہد کی دوسری حکومتوں کی طرح اشکانی باشاہت بھی شخصی، مورثیموروثی اور مطلق العنان تھی اور بادشاہ تمام طاقتوں کا سرچشمہ تھا، وہی واضع قانون تھا اور قانون کو نافذ کرنے والا بھی۔ عدالت ہو فوج ہر صیغے کے اعلیٰ اختیارت اسے حاصل تھے۔ وہ تمام قانونی اور دستوری بندشوں سے آزاد تھا۔ اس کی زات رائے زنی و تنقید سے بالاتر تھی۔ وہ اپنے اعمال میں خود مختیار تھا اور کسی دینوی طاقت کے وہ جواب دہ نہیں تھا۔ ملکی مصالح کے پیش نظر وہ بوقت ضرورت اپنے امراءامرا سے مشورے طلب کیا کرتا تھا اور یہ محض اس کی دور بینی اور دور اندیشی موقوف تھا، ورنہ کوئی فرد یا مجلس اس کی حاکمانہ حثیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی۔ شاہی احکامات و ہدیات ہرکاروں کے ذریعے بھیجے جاتے تھے اور ہر ستراپی میں ایسے لوگ بھی متعین تھے جو بادشاہ کو پوشیدہ طور پرخبریں بھیجا کرتے تھے ۔ بادشاہ کو ان پر اعتماد تھا اور ان کے ذریعہ وہ سلطنت کے حالات سے باخبر رہتا تھا۔ چونکہ اشکانی مذہب پر ایمان رکھتے تھے اور رعایا کے ہم نسل تھے، اس لیے ملکی رسم و رواج اور مذہبی قوانین کا بھی پاس و لحاظ تھا۔ پھر بھی مذہبی قوانین کواس نافذ کرنے والا کوئی طاقت ور طبقہ نہیں تھا مذہبی قوانین کی پیشوائی کا بھی بادشاہ کو حق حاصل تھا۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم،118 ۔ 117 (
 
انتظامی لحاظ سے مملکت علاقوں یا صوبوں میں بٹی ہوئی تھی، جس کوسٹراپی Satrapy کہتے تھے۔ ہر سٹراپی پر ایک سٹراپ Satrap مقرر تھا .۔ اس کی تقریری براہ راست بادشاہ کے ہاتھ میں تھی۔ وہ اپنے حلقہ میں آزادنہ حکومت کرتا تھا اور صرف بادشاہ کو جواب دہ تھا۔ ہر سٹراپی میں فوجیں بھی رہتی تھیں جن کا تعق سٹراپ سے ہوتا تھا۔ بوقت ضرورت بادشاہ ہر صوبے سے طلب کر سکتا تھا۔ صوبے کی مالیات کا تعلق بھی سٹراپ سے تھا، وہ مقرر رقم بادشاہ کو دیا کرتا تھا۔ شاہی احکامات و ہدایات ہر کارے کے ذریعہ بھیجی جاتی تھیں۔ ہر سٹراپی میں ایسے لوگ متعین تھے جو بادشاہ کو براہ راست پوشیدہ طور پر خبریں بھیجا کرتے تھے۔
سطر 77:
ایسے کچھ آثار ظاہر ہوتے ہیں کہ اشکانی بادشاہ مختیار کل نہیں ہوتے تھے۔ اعلیٰ اختیارات کی تین مجلسوں کاپتہ چلتا ہے، جس سے بادشاہ امور سلطنت میں مشورہ کرنا ہوتا تھا۔ ایک مجلس شاہی خاندان کے افراد پر مشتمل تھی اور ہر بالغ شہزادہ خود بخود اس کا رکن بن جاتا تھا۔ دوسری مجلس دینی رہنماؤں پر مشتمل ہوتی تھی، جسے مجلس مغزان کہتے تھے۔ تیسری مجلس کا نام مجلس سہتان تھا، جس میں پہلی دو مجلسوں کے نمائندے شریک ہوا کرتے تھے، تاہم بادشاہ مختارکل ہوتا تھا۔ مجلس سہتان جس کو بادشاہ کا اہل سمجھتی تھی اسے بادشاہ بنا لیتی تھی۔ لیکن بادشاہ کے فوت ہونے پر بیٹا نابالغ ہو یا باشاہت کے لیے ناہل ہو تو مجلس متوفی بادشاہ کے بھائی یا چچا کو باشاہ منتخب کر لیتی تھی۔ ان مجلسوں کو بادشاہوں کے اختیارات پر قید وبند عائد کرنے حاصل تھا۔ بھر بھی ان مجلسوں کی نوعیت اور حقیقت کے بارے میں پورا علم نہ ہونے کی وجہ سے ان پر سیر بحث نہیں کی جاسکتی ہے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 118۔ 119)
 
==امراءامرا==
اشکانی عہد میں اکثر ستراپیوں نے نیم آزادی حاصل کرلی تھی۔ بادشاہ ان کے داخلی معاملات میں کم ہی دخل دیتا تھا۔ اور ان کو اپنے طور پر زندگی بسر کرنے کی آزادی تھی، مگر سیاسی معملات میں وہ بادشاہ کے ماتحت تھے۔ اشکانی بادشاہوں نے انہیں آزادی دے رکھی تھی۔ ممکن ہے انہوں نے مرکزی حکومت کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے اس نظام کو گوارا کر لیا اور اس پر اکتفاکیا کہ ماتحت سٹراپیاں انہیں مقرر خراج اور وقت ضرورت پر فوج فراہم کر دیا کریں۔ یہی وجہ ہے مسعودی نے اشکانیوں کے دور کو طواف الملوک میں شمار کیا ہے۔ گبن Gibbon کا خیال ہے پارتی نظام یورپ کے جاگیرداری نظام سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ اشکانی عہد میں صوبہ داروں کو ویتا کسا Vitaxa کہتے تھے
 
==عسکری==
قدیم ایرانیوں کا فوجی نظام آشوریوں کے عسکری نظام سے ماخوذ تھا۔ فوج کے دو حصے سوار اور پیادہ ہوتے تھے۔ اشکانیوں کی طاقت کا دارو مدار سواروں پر تھا اس اسی طاقت پر مملکت قائم تھی۔ پیادہ اور سواروں کے علاوہ رتھ بھی ہوتے تھے جن کو گھوڑے کھنچتے تھے۔ عموماً بادشاہ خود ہی لشکر کی قیادت کرتا تھا یا کوئی بآثر امیر۔ فوج کے ساتھ نقارے بجتے تھے اور بادشاہ اپنی کنیزوں کے جھرمٹ میں میدان جنگ میں جاتا تھا۔ لیکن اشکانیوں نے فوجی تنظیم کی طرف توجہ نہیں دی، اس لیے ان کے دور میں فوجی تنظیم میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی بلکہ ان کے عہد میں باضابطہ فوجوں کی تعداد گھٹ کر حفاظتی دستے تک محدود ہوگئی۔ہو گئی۔ جنگ کے وقت حسب قائدہ بادشاہ مختلف ساتراپیوں سے فوج طلب کر لیتا تھا۔ اس طرح ان کے ہتیار بھی وہی رہے جو اس پہلے ہخامنشی اور آشوریوں کے دور میں رہے، یعنی تیر کمان، خنجر، بھالے، برچھے، چھرے تلواریں نیزے کمند ڈھالیں، پوستین، زرہیںز رہیں اور خود شامل ہیں۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 128 تا 129)
==سکے==
اشکانی بادشاہوں کے سکے جو دستیاب ہوئے ہیں۔ ان کے سکے نقرئی اور برنجی تھے، انہوں نے میں کوئی طلائی سکہ جاری نہیں کیا۔ ان کے سکوں پر ان کی شکلیں نقش تھیں اور انہیں تخت پر بیٹھے دیکھایا گیا تھا، نیر ان پر ’شاہ بزرگ‘ اور شاہ شہان‘ جیسے القاب تھے۔ یہ سکے مختلف اوزران اور قیمتوں کے اور ان سکوں کو ’درخم‘ کہتے تھے جو عربی میں درہم بن گیا۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 190)
'''معاشرہ اور ثقافت''' ملبوسات کے حالات کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اس قدر پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ فوجی ملازمت پسند کرتے تھے۔ شکار ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ شکار کئےکیے ہوئے جانور ان کی خوراک کا اہم حصہ تھے۔ شراب نوشی کا رواج عام تھا۔ شراب عام طور پر انگور کھجوروں سے کشید کی جاتی تھی۔ بانسری اور نقارہ ان کا پسندیدہ ساز تھے۔ رقص ان کی بڑی تقریب تھی۔ یہاں کے لوگ لمبے لمبے چوغے پہنتے تھے، جن کے ساتھ لمبے لمبے جیب ہوتے تھے۔ لباس کے رنگ مختلف ہوتے تھے۔ بعص کی پوشاکوں پر زری کا کام ہوتا تھا۔ ان کے بال عموماََ گھنگرویالے ہوتے تھے اور ڈاھاڑھیاں بھی رکھتے تھے۔ (پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول، 309) ایرانیوں میں سالانہ جشن منانے کا رواج رہا ہے، خصوصاً موسم بہار میں نوروز کا اور اور خزاں میں قہرگان کا جشن بڑے زور شور سے منایا جاتا تھا اور ایک دوسرے کو تحفہ تحائف بھیجتے تھے اور پر تکلف دعوتیں کرتے تھے۔ بیٹیوں کی پیدائش نامبارک خیال کی جاتی تھی۔ پانج سال تک کا بچہ ماں کی نگرانی میں رہتا تھا اس کی تعلیم و تربیت کا بار باپ ذمہ ہوتا تھا۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 167)
==فن تعمیر==
اشکانی عہد کی تعمیرات کے نشانات بہت کم دریافت ہوئے ہیں۔ یونانی روایات کے مطابق انہوں ایک شہر ہیکاتم پیلس آباد تھا جو اوئل میں ان کا دارلحکومت تھا، مگر اب تک اس کا تعین نہیں ہو سکا۔ اس کا محل وقوع کا تعین ہو جائے تو اس کی کھدائی سے شاید ان کے تعمیرات پر کچھ روشنی دالی جاسکتی تھی۔ ان کی یادگاروں میں دریائے دجلہ کے کنارے الخصر کے مقامات پر محل کے کھنڈر ملے ہیں، جن کی بنیادیں تو ایرانی طرز کی ہیں لیکن محرابیں رومی انداز کی معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح کنگادر اور ہمدان میں معبدوں کے چھوٹے کمرے ہیں، ان کمروں کے بعد مربع شکل کے تین کمرے ہیں جن کے اوپر بیضاوی قبے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی معتدد کمرے ہیں جن کا طول عرض مختلف ہے۔ تنرئین کے لیے اس پر سرخ پلاسٹر کیا ہوا ہے۔ اس طرح فروز آباد کے قریب سروستان Sarvitan میں اس طرح کا ایک محل ہے۔ (ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 180 تا 181)
 
==تجارت==
ایرانیوں کو ان کے سیاسی عروج کے ساتھ تجارتی اہیت بھی حاصل ہوئی، مگر ایرانیوں نے تجارت کی طرف کبھی خود اپنا نے کی کوشش نہیں کی، ان کے ملک کی تجارت غیر ملکی فنیقیوں، یہودیوں، بابلیوں اور یونانیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اگرچہ اہم اور بڑی شاہراہیں ان کے ملک سے گرتی تھیں اور مشرق اور مغرب کی تجارت ایران کے راستہ سے ہوتی تھی، اس لیے ایران کو اشکانی دور میں تجارتی اہمیت بھی حاصل تھی۔ کاروبار کی ہماہمی نے ایرانی شہروں کو تجارتی اہمیت حاصل ہوگئیہو گئی تھی۔ چینی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ تجارتی استوار کرنے کے لیے چینی وفود اشکانی دربار میں آتے رہتے تھے اور رومی ممالک سے تجارت کرنے کے لیے اجازت نامے حاصل کرتے رہے۔ 79ء؁ انہوں نے خلیج فارس اور خلیج عقبہ کے بحری راستوں کو استعمال کرنے کی اجازت طلب کی جو شاید منظور نہیں ہوئی۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 189)
 
==زبان و ادب==
سطر 102:
# ارشک سوم اردوان اول214 Artabanus 1th ؁ق م تا 196؁ ق م
# ارشک چہارم فری یا پت Fhriapatus 196 ؁ق م تا 181 ق م
# ارشک پنجم فرہادف رہاد اول Phrastes 1th 181؁ ق م تا 170؁ ق م
# ارشک ششم مہر داد اعظمMithradates the Grat 170 ؁ق م تا 138؁ ق م
# ارشک ہفتم فرہادف رہاد دومPhrastes 2ed 138؁ ق م تا 125؁ ق م
# ارشک ہشتم اردوان دومArtabanus 2ed 125 ؁ق م تا 124؁ ق م
# ارشک نہم مہر داد دومMithradates 2ed 124؁ ق م تا 80؁ ق م
# ارشک دہم سندروگSenaruces 80 ؁ق م تا 69 ؁ق م
# ارشک یاز دہم فرہادف رہاد سومPhrastes 3ed 69 ؁ق م تا 60؁ ق م
# ارشک دواز دہم مہر داد سومMithradates 3ed 60 ؁ق م تا 55؁ ق م
# ارشک سیز دہم ارُدُ اولOrotes 1th 55 ؁ق م تا 37 ؁ق م
# ارشک چہار دہم فرہادف رہاد چہارمPhrastes 4th 37 ؁ق م تا 2 ؁ق م
# ارشک پانز دہم فرہادف رہاد پنجمPhrastes 5th 2 ؁ق م تا 2 ء؁
# ارشک شانز دہم ارد دومOrotes 2ed ۲ ء؁ تا 2 ء؁ تا 6 ء؁
# ارشک ہف دہم وانان اولVonones 1th 6 ء؁ تا 16 ء؁
سطر 132:
 
==صنعت و حرفت==
اشکانی عہد کی صنعت و حرفت کے متعلق بہت کم معلومات ہوسکیں ہیں۔ کچھ ایسے شواہد ملے ہیں چھوٹے بڑے کارخانے ملک میں قائم تھے، قالین اور رنگ برنگے پردوں کے لیے ایران اس وقت بھی مشہور تھا اس کے بنے ہوئے نقش زردوز اور رنگین سوتی اور ریشمی کپڑے دوسرے ملکوں میں بھیجے جاتے تھے اور وہ ضروف پر طرح طرح کے نقش و نگار بنانا جانتے تھے۔ وہ زرگری کے فن سے بھی واقف تھے۔ فنکاراہ حثیت سے قابل قدر ہیں، ان پر رنگ و روغن کا خوبصورت اور پائیدار تھا، ان کو دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفال سازی نے انہوں نے غیر معمولی ترقی کی تھی اور بہت پہلے وہ اس فن سے آگاہ ہوگئےہو گئے تھے۔ اشکانی عہد تک ظروف کے علاوہ رنگین انیٹوں کے بڑے بڑے کارخانے ملک میں قائم ہوچکے تھے۔ (ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 187۔ 188)
 
==زراعت==