"سلیمان بن عبدالملک" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی املا
م خودکار: خودکار درستی املا ← ہو گئے، سے، \1 رہا، سے، بنا، دیے، ہو گئی
سطر 9:
== تخت نشینی ==
 
[[ولید بن عبدالملک]] کی وفات کے بعد سلیمان تخت نشین ہوا۔ اگرچہ ولید نے سلیمان کو ولی عہدی سے خارج کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اچانک موت کی بناءبنا پر وہ اپنے ارادوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا۔ [[حجاج بن یوسف]] اور [[قیتبہ بن مسلم]] اس معاملہ میں ولید کے ہمنوا تھے۔ سلیمان تخت نشین ہونے کے بعد انتقامی جذبہ سے کام لیتےہوئے اسلام کے ان نامور افراد کو اپنے عہدوں سے برخاست کر دیا۔ [[محمد بن قاسم]] کو بڑے ظالمانہ طریقے سے قتل کروا دیا گیا۔ [[قیتبہ بن مسلم]] بھی اسی انجام سے دوچار ہوا۔ [[موسٰی بن نصیر|موسی بن نصیر]] کے آخری ایام تنگ دستی اور پریشان حالی میں گزرے ۔ علاوہ ازیں حجاج کے زمانہ میں مقرر کیے گئے عاملوں کو ہٹا کر ان کی جگہ دوسرے حاکم مقرر کیے گئے۔یہ غلط اقدامات مجموعی حیثیت سے سلطنت کے وقار میں کمی کا باعث ہوئے۔ شخصی زندگی کے اس انتقامی پہلو کے علاوہ سلیمان کی شخصیت کے اچھے پہلو دن بدن نکھرتے چلے گئے۔ وہ کئی لحاظ سے اپنے پیشرو حکمرانوں کے مقابلہ میں بہتر تھا۔ ولید کے زمانہ کے تمام قیدیوں کو جنہیں بغیر کسی جرم کے یا محض شک و شبہ کی بناءبنا پر [[قید خانہ]] میں ڈال دیاگیا تھا رہائی ملی اور جیل خانے خالی ہوگئے۔ہو گئے۔
 
== محمد بن قاسم کا قتل ==
 
محمد بن قاسم حجاج کا رستہ دار تھا اور سلیمان کو حجاج سے نفرت تھی اس لیے تخت نشین ہوتے ہی سلیمان نے محمد بن قاسم کو معزول کرکے دار الحکومت واپس پلٹنے کے احکامات صادر کر دیے۔ 17 سال کا یہ نوجوان جس کی ہمت و شجاعت کی بدولت سندھ فتح ہوا اور برصغیر ہندو پاک میں پہلی بار کلمہ توحید کی منظم طور پر آبیاری ہوئی ، اپنوں ہی کے ہاتھوں افسوس ناک انجام سے دوچار ہوا۔ اس کے حسن انتظام اور رعایا پروری کا یہ عالم تھا کہ اس کی واپسی اور موت کی خبر سن کر سندھ کے لوگوں نے اس کی مورتیوں کو دیوتا کے روپ میں پوجنا شروع کر دیا۔ سلیمان نے اسے گرفتار کرکے عراق کے گورنر [[صالح بن عبدالرحمن]] کے ہاں روانہ کیا۔ حجاج نے اپنے زمانہ اقتدار میں صالح کے بھائی کو قتل کروایا تھا۔ چنانچہ صالح نے اب اپنے بھائی کے قتل کے بدلہ میں محمد بن قاسم کو جیل میں اذیتیں دے دے کر قتل کروایا اور اس طرح دنیائے اسلام اپنے نامور فرزند اور بہترین جرنیل سے محروم ہوگئی۔ہو گئی۔
 
== قیتبہ بن مسلم کا قتل ==
 
قیتبہ بن مسلم بھی حجاج کا وفادار ساتھی تھا ۔ اور سلیمان کی خلافت سے علیحدگی کے معاملہ میں ہمنوا تھا۔ لٰہذا سلیمان کی تخت نشینی کے بعد اسے یہ خطرہ لاحق تھا کہ ذاتی عناد یا گروہی تعصب کی بناءبنا پر سلیمان اس کو اپنے انتقام کا نشانہ نہ بنائے ۔ چنانچہ اس نے خلیفہ کو اپنی اطاعت اور وفاداری کے اظہار اور یقین دہانی کے لیے خطوط لکھے۔ سلیمان نے بھی اس کے خلاف ابھی تک کوئی عملی قدم نہ اٹھایا تھا۔ لیکن قیتبہ نے حفظ ماتقدم کے طور پر سلیمان کا خطرہ آنے سے پیشتر ہی بغاوت کر دی۔ خلاف توقع فوج نے ساتھ نہ دیا۔ قبیلہ بنو تمیم کے افراد میں سے ایک نے اسے قتل کرکے اس کا سر سلیمان کے پاس روانہ کر دیا۔ قتیبہ کے بعد یزید بن مہلب کو خراسان کا والی مقرر کیا گیا۔
 
== موسیٰ بن نصیر کی تذلیل ==
 
فاتح سپین [[موسٰی بن نصیر|موسیٰ بن نصیر]] بھی سلیمان کی آتش انتقام سے بچ نہ سکا۔ ولید نے موت سے قبل موسی کو [[دمشق]] واپس پہنچنے کے احکامات دئیےدیے تھے۔ موسیٰ بن نصیر غنیمت اور زر و جواہر کے ساتھ پایہ تخت واپسی کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔ ولید کے مرض الموت میں مبتلا ہونے کے بعد سلیمان کی خواہش تھی کہ موسی کا درود دمشق میں ولید کی موت کے بعد اور اس کی اپنی تخت نشینی کے وقت ہو لیکن موسیٰ بن نصیر اپنے محسن اور مربی کی خدمت میں جلد از جلد حاضر ہو کر تحفے اور تحائف اور مال غنیمت پیش کرنا چاہتا تھا۔ لہذا سلیمان کی خواہش کے خلاف نہایت سرعت سے پایہ تخت پہنچا ۔ ولید کی طرف سے موسیٰ کے بے حد عزت افزائی ہوئی۔ انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سلیمان نے تخت نشین ہونے کے بعد موسیٰ کے تمام اعزازات اور مناصب سے یکسر محروم کر دیا اور اس کی تمام جائداد ضبط کر لی۔ یہی نہیں بلکہ جب کسی صاحب اثر شخصیت کے ایماء پر موسی کو قید سے نکالا گیا تو سلیمان نے اس پر کئی لاکھ کا جرمانہ نافذ کر دیا۔ موسی اس قدر کثیر رقم بطور جرمانہ ادا کرنے کے قابل نہ تھا۔ کہاں فاتح سپین کی حیثیت سے شاہانہ تزک و احتشام اور کہاں اب ایک تنگ دست انسان جو دو لقموں کا بھی محتاج ہو۔ اسی کسمپرسی اور تباہ حالی میں اس کا انتقال ہو گیا۔ سلیمان نے اپنے کینہ کی مزید تسکین کی خاطر موسی بن نصیر کے بیٹے عبدالعزیز کو قتل کرا دیا۔ یہ تمام واقعات سلیمان کے کردار پر بدنما داغ ہیں۔
 
== فتوحات ==
سطر 33:
== سیرت ==
 
سلیمان کا کردار مجموعہ اضداد تھا۔ خدا ترسی ، نیک نفسی اور رعایا پروری کی بے شمار مثالیں ایسی موجود ہیں جس کی وجہ سے اسے بالعموم ایک اصلاح پسند شخصیت مانا جاتا ہے۔ اس نے حجاج کے مقرر کردہ ظالم عاملوں سے عوام کو نجات دلائی ، پینے کے لیے میٹھے پانی کا بندوبست کیا، ولید کے زمانہ کے قیدی رہا کر دئیےدیے گئے اور جیل خانوں کے دروازے کھول دئیےدیے گئے لیکن ان کارہائےکا رہائے خیر کے باوجود وہ بے حد کینہ پرور تھا۔ اس نے محض انتقامی جذبہ سے سرشار ہو کر دنیائے اسلام کے نامور سپہ سالاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور کچھ کو ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ بہرحال اس کے دور کا سب سے اہم اور قابل قدر کارنامہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا بطور خلیفہ تقرر ہے اور اسی بنا پر مورخین اسے مفتاح الخیر کا لقب دیتے ہیں۔
 
== وفات ==