"ساغر جیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، سے، سے، شعرا، اجرا، تہ، ہیئت |
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
||
سطر 22:
| mother =
}}
اردو ادب کی دنیا میں '''ساغر جیدی''' کے نام سے پہچانے جانے والی شخصیت کا نام قادر حسین
==بچپن اور تعلیم==
ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن کڈپہ میں ہی حاصل کی اور 1957ء میں SSLC سند حاصل
==ادبی سفر==
ابتدا میں آپ تلگو زبان میں نظمیں لکھیں اس میں آپ کو کسی استاد کی ضرورت محسوس نہیں
==ساغرؔ جیدی کی غزل گوئی==
ساغرؔ جیدی کے کل تین غزلوں کے مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔1974ء میں ایک اشتراکی شعری مجموعہ ’’لہجے‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا تھا۔ یہ کل پانچ شعرا کا اشتراکی مجموعہ ہے جس میں عقیل
موصوف کی غزلوں میں نئے الفاظ کی تراکیب، علامت نگاری، اظہار بیان کی آزادی پائی جاتی ہے۔ یوں تو ان کی شاعری موضوع ،اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ان کی غزل میں علائم کی فراوانی پائی جاتی ہے
{{اقتباس|بھٹکتا رہے گا وہ تاریک شب میں
جو احساس ساغرؔ سحر سے ہے خائف}}
سطر 47:
==ساغرؔ جیدی کی دوہا گوئی==
ہمہ اصناف کے پروردہ ساغرؔ جیدی نے نہ صرف صنف غزل کو اپنا یا بلکہ دوہے جو ہندی صنف سخن سے تعلق رکھتے ہیں اردو میں تخلیق کی ،نہ صرف تخلیق کی بلکہ ان تخلیقات کو کتابی شکل میں پیش کیا۔ ان کے اب تک پانچ دوہوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔1990 ء میں’’ ثبوت‘‘کے نام سے ایک دوہوں کا مجموعہ جس میں ایک دیوان(بغیر الف) ’’دو نیم‘‘ کے نام سے اور دوسرا
موصوف کے دوہوں میں تشبیہات، استعارات، علامت نگاری اور طنز و مزاح جیسی خصوصیات پائی جاتی ہے، انہیں اوصاف کو گنواتے ہوئے ڈاکٹر وصی اللہ بختیار ی لکھتے ہیں۔
’’ ڈاکٹر ساغر جیدی کی دوہا گوئی بھی تشبیہات سے مغتنم ہے۔ آپ کے دوہوں میں تشبیہ کارفرما نظر آتی ہے۔ بسا اوقات دوہے کا ایک مصرع مشبہ اور دوسرا مصرع مشبہ بہ معلوم ہوتا ہے۔ آپ کی تشبیہوں میں طنز کی ایک لطیف تہ داری پائی جاتی ہے۔ تحیر آفرینی اور بصیرت افروزی کی فضاء اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ رونق افروز ہے‘‘۔
سطر 86:
==ساغر ؔ جیدی کی رباعیات==
رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں فلسفیانہ حکیمانہ، صوفیانہ، اخلاقی اور عشقیہ مضامین کے علاوہ مختلف سماجی مسائل اور موضوعات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اکثر شعرا اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ کسی بھی وزن میں چار مصرعے کہہ کر رباعی لکھی جاسکتی ہے۔ جبکہ ماہرین عروض نے رباعی کے لیے مخصوص اوزان کی پابندی کو لازمی قرار دیا ہے۔ رباعی کے ہر مصرع میں ’’مخصوص وزن‘‘ کے چار چار کن ہوتے ہیں اور یہ چار اراکین بیس ماتراؤں پر مشتمل ہوتے
{{اقتباس|مٹی کا کٹورا بھی نہیں ہے گھر میں
اک دوسرا کُرتا بھی نہیں ہے گھر میں
سطر 107:
==نعت گوئی==
ساغرؔ جیدی نے سرکارِ دو عالم کی عقیدت میں ڈوب کر حضورؐ کی تعریف اور اوصاف بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی نعتوں میں درود و سلام کی خوشبو مہکتی ہے اور اپنی زندگی کو حضور کی سنتوں سے آراستہ کیا ہے اور ’’باخدا دیوانہ باش با محمد ہوشیار‘‘ کے فارسی محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے شعر کہا ہے، حضور کی تعریف میں لفظوں کا انتخاب بڑی ہنر مندی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ صحابہؓ کی نعتوں کا ترجمہ کرتے ہوئے اردو دوہوں میں انہیں منتقل کیا ہے۔ (مثلاً عائشہؓ اور ابو بکرصدیق ؓ کے عربی نعتوں کا ترجمہ دوہا صنف میں اظہار کیا ہے)
{{اقتباس|نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے کبھی ہم چاند کا چہرہ
تصور میں ہمارے ہے رخِ روشن محمدﷺ کا}}
سطر 117:
==نثر نگاری==
ساغرؔ جیدی ایک اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھے نثر نگاربھی ہیں۔ ان کے کل تین نثری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ دو نثری تصانیف تلگو زبان میں اور ایک اردوتصنیف شائع ہوچکی ہے۔ موصوف نے اردو اور ہندی ہی میں نہیں بلکہ تلگو زبان میں بھی کما حقہٗ عبور رکھتے ہیں، پہلی نثری تصنیف ’’صوفی دھاگے‘‘ کے نام سے سنہ2004ء میں شائع ہوچکی ہے جس میں
موصوف کا اردو نثری مجموعہ ’’باریکہ‘‘سنہ2007ء میں شائع ہوچکا ہے۔ اشاروں اور کنایوں سے ملمز یہ نثرپارے بہت ہی دقیق نامانوس عربی و فارسی الفاظ کے غماز ہیں۔ نثر میں بھی شاعرانہ مزاج چھلکتاہے۔ اس لیے مشہور و معروف نقاد پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے اس نثر پارے کو نثری نظم سے تعبیر کیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی موصوف کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے خط میں اس طرح گویا ہوئے ہیں:
’’آپ نے اس کتاب میں شامل تحریروں کو ’’ نثر پارے‘‘ کا نام دیا ہے اور درحقیقت یہ نثر نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی نثری نظم ہے۔ زبان میں استعارہ اور تلمیح کی کثرت مضامین میں معاصر زندگی پر جگہ جگہ تنقید ی رائے زنی، طنزاور اس پر سے زبان میں فارسی اور عربی کا گہرا وفور آج شاید ہی کسی اور شاعر کے پاس اتنا سامان یکجا مل سکے۔ افسوس ہے کہ آپ نے اس زمانے میں یہ نظمیں مجھے نہیں بھیجیں جب ’’شب خون‘‘ زندہ تھا۔ میں بے انتہا خوشی سے انہیں شائع کرتا‘‘۔
|