"ساغر جیدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← کیے، سے، سے، شعرا، اجرا، تہ، ہیئت
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 22:
| mother =
}}
اردو ادب کی دنیا میں '''ساغر جیدی''' کے نام سے پہچانے جانے والی شخصیت کا نام قادر حسین ہے ۔ہے۔ پندرہ اپریل 1941ء کو شہر [[کڈپہ]] میں این۔ ایسایس۔ ۔عبد عبدالقادرالقادر تاجر کے ایک معزز گھرانے میں ان کی پیدائش ہوئی ۔
 
==بچپن اور تعلیم==
ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن کڈپہ میں ہی حاصل کی اور 1957ء میں SSLC سند حاصل کی ۔کی۔ 1972ء میں آپ نے راشٹریہ بھاشا پروینا کی سند حاصل کی، علاوہ ازیں 1975ء میں LLMS سند حاصل کی اورآپ کا پیشہ تجارت ،تجارت، کاشت کاری ،ٹرانسپورٹ کا کاروبار ،کاروبار، بسکیٹ فیکٹری رہا ہے اور یونانی طب میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اسی نسبت سے آپ کو ڈاکٹر ساغر جیدی کے نام سے دنیا مخاطب کرتی ہے۔ لوگوں کو اکثر یہ غلط گمان غالب رہتا ہے کہ موصوف کو اعلٰی تعلیم کی رجہ سے .Ph.D کی سند ملی ہے یا مختلف تصانیف کی وجہ سے آپ کو کسی یونیورسٹی سے ڈاکٹر کا خطاب ملا ہے۔
 
==ادبی سفر==
ابتدا میں آپ تلگو زبان میں نظمیں لکھیں اس میں آپ کو کسی استاد کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ہوئی۔ جتنی دلچسپی آپ کو ہندی اور تلگو زبان سے ہے اتنی ہی دلچسپی بلکہ یہ کہا جاے تو غلط نہ ہوگا کہ اس سے بہت زیادہ دلچسپی [[اردو]]، [[فارسی]] اور [[عربی]] سے ہے ۔ہے۔ اس نسبت سے آپ نے عربی و فارسی میں بنیادی معلومات حاصل کرنے کی غرض سے کڈپہ کے جید عالم حضرت سید یعقوب صاحب باقوی قادری مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہ کیا ،کیا، پھر 1978ء میں ڈپلومہ ان پرشین (Diploma in Persian ) کی سند حاصل کی ۔آپ۔ آپ کا شعری سفر غالباََ 1968ء کوشروع ہوا ۔ہوا۔ علم عروض ،عروض، علم شعر و سخن کی فنی لوازمات حاصل کرنے کی غرض سے مشہور استادَ سخن ابر حسن گنوری کے آگے زانوئے ادب تہ کیا ۔کیا۔ موصوف نے مختلف اصناف پر سہ زبانوں (اردو ،اردو، ہندی اور تلگو )میں اپنی تخلیقات شائع کیں۔ جن کی تعداد پچیس ہے ۔ہے۔ "لہجے " آپ کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو سنہ 1974ء کو منظر عام پر آیا ۔آیا۔ یہ ایک اشترکی شعری مجموعہ ہے ۔
 
==ساغرؔ جیدی کی غزل گوئی==
ساغرؔ جیدی کے کل تین غزلوں کے مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔1974ء میں ایک اشتراکی شعری مجموعہ ’’لہجے‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا تھا۔ یہ کل پانچ شعرا کا اشتراکی مجموعہ ہے جس میں عقیل جامدؔ ،جامدؔ، اشفاق رہبرؔ ،رہبرؔ، راہیؔ فدائی، ساغرؔ جیدی کی غزلیں اوریوسف صفیؔ کی نظمیں شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ضلع کڈپہ کی ادبی تاریخ میں جدید رجحانات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس مجموعہ کے ذریعہ ساغرؔ جیدی نے ببانگ دُہل یہ اعلان کیا کہ جدیدیت کو اپنا نے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور یہ بات بھی وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان شعرا نے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ قدم ملایا ہے اور اپنے اشعار میں جدیدیت کے تمام فنی لوازمات و قواعد کو اپنایا ہے۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’انتسللہ‘‘(اشتراکی مجموعہ) 1978ء میں شائع ہوکر اہل ذوق سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ ان کا تیسرا مجموعہ غزل ’’اثبات‘‘ ہے جو1991 ؁ء میں منظرِ عام پر آیا ہے، ان کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے نئے الفاظ کی تراکیب کو اپنایا ہے اور اپنے خیالات و جذبات کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے پیش کیا ہے۔
موصوف کی غزلوں میں نئے الفاظ کی تراکیب، علامت نگاری، اظہار بیان کی آزادی پائی جاتی ہے۔ یوں تو ان کی شاعری موضوع ،اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ ان کی غزل میں علائم کی فراوانی پائی جاتی ہے ۔ندرت۔ ندرت خیال پیش کرنے میں موصوف پیش پیش ہیں۔ مثلاً زاغِ ہوس، صداؤں کا ہتھوڑا، راتیں، ضیاء پتھروں کے درخت، قطراتِ شبنم، نبض شرر، پیاسی شعائیں وغیرہ جیسے الفاظ کی چُست بندش سے موصوف نے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے، چند شعر ملاحظہ ہوں ؂
{{اقتباس|بھٹکتا رہے گا وہ تاریک شب میں
جو احساس ساغرؔ سحر سے ہے خائف}}
سطر 47:
 
==ساغرؔ جیدی کی دوہا گوئی==
ہمہ اصناف کے پروردہ ساغرؔ جیدی نے نہ صرف صنف غزل کو اپنا یا بلکہ دوہے جو ہندی صنف سخن سے تعلق رکھتے ہیں اردو میں تخلیق کی ،نہ صرف تخلیق کی بلکہ ان تخلیقات کو کتابی شکل میں پیش کیا۔ ان کے اب تک پانچ دوہوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔1990 ؁ء میں’’ ثبوت‘‘کے نام سے ایک دوہوں کا مجموعہ جس میں ایک دیوان(بغیر الف) ’’دو نیم‘‘ کے نام سے اور دوسرا مجموعہ ،مجموعہ، ’’تحویل‘‘ جن کی رسم اجرا آندھرا پردیش کے گورنر سر جیت سنگھ برنالہ کے ہاتھوں ادا ہوئی۔ ان تین مجموعوں کے علاوہ2005 ؁ء میں مرن مئی کے نام سے ہندی میں شائع ہوچکا ہے جس میں دوہوں کے ساتھ ساتھ دوہا گیت بھی موصوف نے تخلیق کی ہے۔2009 ء میں اردو اکاڈمی آندھرا پردیش کی مالی اعانت سے ’’کیسر کیسر دوہے‘‘ کے نام سے ایک اور دوہوں کا مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے۔ علاوہ ازیں محبی ڈاکٹر وصی اللہ بختیاری ،ڈگری لکچرر، ڈگری کالج پلمنیر نے موصوف کے دوہوں کے مجموعوں پر ایک تحقیقی(ناکہ تنقیدی) جائزہ لیتے ہوئے ایک کتاب ’’ڈاکٹر ساغر جیدی کی دوہا گوئی‘‘ کے نام سے شائع کی۔ جس میں ڈاکٹروصی اللہ نے موصوف کی دوہا گوئی پر عمدہ بحث کی ہے اور تمام فنی لوازمات کو اجاگر کیا ہے۔
موصوف کے دوہوں میں تشبیہات، استعارات، علامت نگاری اور طنز و مزاح جیسی خصوصیات پائی جاتی ہے، انہیں اوصاف کو گنواتے ہوئے ڈاکٹر وصی اللہ بختیار ی لکھتے ہیں۔
’’ ڈاکٹر ساغر جیدی کی دوہا گوئی بھی تشبیہات سے مغتنم ہے۔ آپ کے دوہوں میں تشبیہ کارفرما نظر آتی ہے۔ بسا اوقات دوہے کا ایک مصرع مشبہ اور دوسرا مصرع مشبہ بہ معلوم ہوتا ہے۔ آپ کی تشبیہوں میں طنز کی ایک لطیف تہ داری پائی جاتی ہے۔ تحیر آفرینی اور بصیرت افروزی کی فضاء اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ رونق افروز ہے‘‘۔
سطر 86:
 
==ساغر ؔ جیدی کی رباعیات==
رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں فلسفیانہ حکیمانہ، صوفیانہ، اخلاقی اور عشقیہ مضامین کے علاوہ مختلف سماجی مسائل اور موضوعات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ اکثر شعرا اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ کسی بھی وزن میں چار مصرعے کہہ کر رباعی لکھی جاسکتی ہے۔ جبکہ ماہرین عروض نے رباعی کے لیے مخصوص اوزان کی پابندی کو لازمی قرار دیا ہے۔ رباعی کے ہر مصرع میں ’’مخصوص وزن‘‘ کے چار چار کن ہوتے ہیں اور یہ چار اراکین بیس ماتراؤں پر مشتمل ہوتے ہیں۔انہیں۔ ان اراکین کو عروضِ اصطلاح میں افاعیل بھی کہتے ہیں، عرو ض داں نے رباعی کے چوبیس اوزان کو دو گروہوں میں ’’شجرۂ اخرب‘‘ اور ’’شجرۂ اخرم‘‘ میں برابر بانٹا ہے۔ ان سب فنی لوازمات کو ہنر مندی کے ساتھ برتنے میں ساغرؔ جیدی بے انتہا کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی رباعیات میں انسانی اقدار، اخلاقی معیار، سادگی، سلاست، روانی، سوز و گداز، جدت، ندرت، شگفتگی اور شائستگی جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں، اس نوعیت کے چند رباعیات ملا حظہ ہوں ؂
{{اقتباس|مٹی کا کٹورا بھی نہیں ہے گھر میں
اک دوسرا کُرتا بھی نہیں ہے گھر میں
سطر 107:
 
==نعت گوئی==
ساغرؔ جیدی نے سرکارِ دو عالم کی عقیدت میں ڈوب کر حضورؐ کی تعریف اور اوصاف بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی نعتوں میں درود و سلام کی خوشبو مہکتی ہے اور اپنی زندگی کو حضور کی سنتوں سے آراستہ کیا ہے اور ’’باخدا دیوانہ باش با محمد ہوشیار‘‘ کے فارسی محاورے کو ملحوظ رکھتے ہوئے شعر کہا ہے، حضور کی تعریف میں لفظوں کا انتخاب بڑی ہنر مندی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ صحابہؓ کی نعتوں کا ترجمہ کرتے ہوئے اردو دوہوں میں انہیں منتقل کیا ہے۔ (مثلاً عائشہؓ اور ابو بکرصدیق ؓ کے عربی نعتوں کا ترجمہ دوہا صنف میں اظہار کیا ہے) ۔ موصوف کا ایک نعتیہ مجموعہ ’’صلو علیہ و الہی‘‘ کے نام سے سنہ2000ء میں شائع ہوچکا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؂
{{اقتباس|نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے کبھی ہم چاند کا چہرہ
تصور میں ہمارے ہے رخِ روشن محمدﷺ کا}}
سطر 117:
 
==نثر نگاری==
ساغرؔ جیدی ایک اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھے نثر نگاربھی ہیں۔ ان کے کل تین نثری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ دو نثری تصانیف تلگو زبان میں اور ایک اردوتصنیف شائع ہوچکی ہے۔ موصوف نے اردو اور ہندی ہی میں نہیں بلکہ تلگو زبان میں بھی کما حقہٗ عبور رکھتے ہیں، پہلی نثری تصنیف ’’صوفی دھاگے‘‘ کے نام سے سنہ2004ء میں شائع ہوچکی ہے جس میں حکمت ،حکمت، پند و نصیحت کی باتیں شامل ہیں۔ یہ ایک طرح تلگو ہی میں شائع کی گئی نصیحت آموز متصوفانہ نثری کتاب ہے۔ دوسری نثری تصنیف تلگو زبان میں ’’ہیروں کا تاج‘‘ سنہ2006ء میں شائع ہوچکی ہے۔ ساغرؔ جیدی کا کمال یہ ہے کہ ان تلگو نثری تصانیف کے نام بھی اردو سے تعلق رکھتے ہیں۔
موصوف کا اردو نثری مجموعہ ’’باریکہ‘‘سنہ2007ء میں شائع ہوچکا ہے۔ اشاروں اور کنایوں سے ملمز یہ نثرپارے بہت ہی دقیق نامانوس عربی و فارسی الفاظ کے غماز ہیں۔ نثر میں بھی شاعرانہ مزاج چھلکتاہے۔ اس لیے مشہور و معروف نقاد پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے اس نثر پارے کو نثری نظم سے تعبیر کیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی موصوف کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے خط میں اس طرح گویا ہوئے ہیں:
’’آپ نے اس کتاب میں شامل تحریروں کو ’’ نثر پارے‘‘ کا نام دیا ہے اور درحقیقت یہ نثر نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی نثری نظم ہے۔ زبان میں استعارہ اور تلمیح کی کثرت مضامین میں معاصر زندگی پر جگہ جگہ تنقید ی رائے زنی، طنزاور اس پر سے زبان میں فارسی اور عربی کا گہرا وفور آج شاید ہی کسی اور شاعر کے پاس اتنا سامان یکجا مل سکے۔ افسوس ہے کہ آپ نے اس زمانے میں یہ نظمیں مجھے نہیں بھیجیں جب ’’شب خون‘‘ زندہ تھا۔ میں بے انتہا خوشی سے انہیں شائع کرتا‘‘۔