"سید احمد خان" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، دیے، رہیں، سے |
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی |
||
سطر 59:
سر سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں انہوں نے دربار کو جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی، دلوانا شروع کر دیا تھا۔ سرسید کہتے تھے کہ:<ref name= "LW4">{{cite book|title=The Life and Work of Syed Ahmed Khan, C. S. L.|publisher=Blackwood|last=GRAHAM|first=George Farquhar|pages=4|year=1885}}</ref>
" ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اُٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اُٹھا۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہو گئی۔ جب لال پردہ کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار میں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہیں رہا تھا۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اُٹھ کر ہوادار پر سوار ہوچکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد
== مرزا غالب سے تجدیدِ مراسم ==
سطر 148:
[[1859ء]] میں سرسید نے مراد آباد اور [[1862ء]] میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسو ں میں [[فارسی زبان|فارسی]] کے علاوہ [[انگریزی زبان]] اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔
[[1875ء]] میں انہوں نے [[علی گڑھ]] میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں
[[1863ء]] میں [[غازی پور]] میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئیں کتب کے اردو تراجم کرانا تھا۔ بعد ازاں [[1876ء]] میں سوسائٹی کے دفاتر [[علی گڑھ]] میں منتقل کر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اردو زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئ ۔
سطر 348:
بقول [[شبلی نعمانی|مولانا شبلی نعمانی]]،<br>
”اردو انشاءپردازی کا جو آج انداز ہے اُس کے جد امجد اور امام سرسید تھے“<br>
سرسید احمد
=== رہنمائے قوم ===
سطر 417:
=== مجموعی جائزہ ===
جب ہم سرسید کی ادبی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خود اپنی ذات میں دبستان نظر آتے ہیں۔ سرسید نے اپنی تصانیف کے ذریعے اپنے زمانے کے مصنفوں اور ادیبوں کو بہت سے خیالات دیے۔ ان کے فکری اور تنقیدی خیالات سے ان کا دور خاصہ متاثر ہوا۔ ان سے ان کے رفقاءہی خاص متاثر نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو ان کے دائرے سے باہر بلکہ مخالف تھے۔ خالص ادب اور عام تصانیف دونوں میں زمانے نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اور ادب میں ایک خاص قسم کی معقولیت، نیا پن، ہمہ گیری ایک مقصد اور سنجیدگی پیدا ہو گئی جس کے سبب ادب بیکاروں کا مشغلہ نہ رہا بلکہ ادب برائے زندگی بن گیا۔ اُن کے اپنے رفقاءنے اُن کے اس مشن کو اور بھی آگے
”سرسید کا ہم عصر ہر ادیب ایک دیو ادب تھا اور کسی نہ کسی رنگ میں سرسید سے متاثر تھا۔“
|