"سید احمد خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← سے، دیے، رہیں، سے
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 59:
سر سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں انہوں نے دربار کو جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی، دلوانا شروع کر دیا تھا۔ سرسید کہتے تھے کہ:<ref name= "LW4">{{cite book|title=The Life and Work of Syed Ahmed Khan, C. S. L.|publisher=Blackwood|last=GRAHAM|first=George Farquhar|pages=4|year=1885}}</ref>
 
" ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اُٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اُٹھا۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہو گئی۔ جب لال پردہ کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار میں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہیں رہا تھا۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اُٹھ کر ہوادار پر سوار ہوچکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے ،سے، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے، پوچھا کہ " تمہارا بیٹا ہے؟" انہوں نے کہا، "حضور کا خانہ زاد! " بادشاہ چپکے ہو رہے۔ لوگوں نے جانا بس اب محل میں چلے جائیں گے، مگر جب تسبیح خانہ میں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ تسبیح خانہ میں بھی ایک چبوترا بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی دربار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترا پر بیٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتئ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلایا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ " دیر کیوں کی؟" حاضرین نے کہا ،کہا، " عرض کرو کہ تقصیر ہوئی " مگر میں چپکا کھڑا رہا۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ " سو گیا تھا! " بادشاہ مسکرائے اور فرمایا، " بہت سویرے اُٹھا کرو! " اور ہاتھ چھوڑ دیے۔ لوگوں نے کہا، " آداب بجا لاؤ! " میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں۔ میں نے نذر دی اور بادشاہ اُٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلے گئے۔ تمام درباری میرے والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے ۔ ۔لگے۔ ۔۔۔ ۔ اس زمانہ میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی۔"<ref name="hayatejaved">{{حوالہ کتاب | نام = حیات جاوید| مصنف = الطاف حسین حالی|مصنف ربط = الطاف حسین حالی| صفحہ = | صفحات = | باب = | ناشر = | جلد = | مقام اشاعت = | تاریخ اشاعت = | سال اشاعت = 1901}}</ref>
 
== مرزا غالب سے تجدیدِ مراسم ==
سطر 148:
[[1859ء]] میں سرسید نے مراد آباد اور [[1862ء]] میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسو ں میں [[فارسی زبان|فارسی]] کے علاوہ [[انگریزی زبان]] اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔
 
[[1875ء]] میں انہوں نے [[علی گڑھ]] میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم ۔ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد [[1920ء]] میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔
 
[[1863ء]] میں [[غازی پور]] میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئیں کتب کے اردو تراجم کرانا تھا۔ بعد ازاں [[1876ء]] میں سوسائٹی کے دفاتر [[علی گڑھ]] میں منتقل کر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اردو زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئ ۔
سطر 348:
بقول [[شبلی نعمانی|مولانا شبلی نعمانی]]،<br>
”اردو انشاءپردازی کا جو آج انداز ہے اُس کے جد امجد اور امام سرسید تھے“<br>
سرسید احمد خان ،خان، ”اردو نثر “ کے بانی نہ سہی، البتہ ”جدید اُردو نثر“ کا بانی ضرور ہے۔ اس سے پہلے پائی جانی والی نثر میں فارسی زبان کی حد سے زیادہ آمیزش ہے۔ کسی نے فارسی تراکیب سے نثر کو مزین کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی نے قافیہ بندی کے زور پر نثر کو شاعری سے قریب ترلانے کی جدوجہد کی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اردو نثر تکلف اور تصنع کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ سرسید احمد خان پہلے ادیب ہے جس نے اردو نثر کی خوبصورتی پر توجہ دینے کی بجائے مطلب نویسی پر زور دیا ہے۔ اس کی نثر نویسی کا مقصد اپنی علمیت کا رعب جتانا نہیں۔ بلکہ اپنے خیالات و نظریات کو عوام تک پہنچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا۔ نہایت آسان نثر میں لکھا، تاکہ اسے عوام لوگ سمجھ سکیں اور یوں غالب کی تتبع میں اس نے جدید نثر کی ابتداءکی۔
 
=== رہنمائے قوم ===
سطر 417:
=== مجموعی جائزہ ===
 
جب ہم سرسید کی ادبی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خود اپنی ذات میں دبستان نظر آتے ہیں۔ سرسید نے اپنی تصانیف کے ذریعے اپنے زمانے کے مصنفوں اور ادیبوں کو بہت سے خیالات دیے۔ ان کے فکری اور تنقیدی خیالات سے ان کا دور خاصہ متاثر ہوا۔ ان سے ان کے رفقاءہی خاص متاثر نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو ان کے دائرے سے باہر بلکہ مخالف تھے۔ خالص ادب اور عام تصانیف دونوں میں زمانے نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اور ادب میں ایک خاص قسم کی معقولیت، نیا پن، ہمہ گیری ایک مقصد اور سنجیدگی پیدا ہو گئی جس کے سبب ادب بیکاروں کا مشغلہ نہ رہا بلکہ ادب برائے زندگی بن گیا۔ اُن کے اپنے رفقاءنے اُن کے اس مشن کو اور بھی آگے بڑھایا ۔بڑھایا۔ [[الطاف حسین حالی|مولانا الطاف حسین حالی]]، [[مولو ی ذکا اللہ]] ، [[چراغ علی،]] [[محسن الملک]] اور [[ڈپٹی نذیر احمد|مولوی نذیر احمد]] جیسے لوگوں کی نظریات میں سرسید کی جھلک نمایا ں ہے۔ بقول [[ڈاکٹر سید عبداللہ]]<br>
”سرسید کا ہم عصر ہر ادیب ایک دیو ادب تھا اور کسی نہ کسی رنگ میں سرسید سے متاثر تھا۔“