"عزیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← ئے، ہو گئے، سے، سے
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 1:
{{انبیاء اسلام}}
{{ناحوالہ/ریتخانہ}}
حضرت عزیر علیہ السلام ۔السلام۔ [[بنی اسرائیل]] کے ایک نبی کا نام ہے۔
 
قرآن کریم میں ان کا ذکر اس طرح ملتا ہے ۔
{{تصویری قرآن|9|30}}
اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصارٰی نے کہا: [[مسیح (ضدابہام)|مسیح]] (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کا (لغو) قول ہے جو اپنے مونہہ سے نکالتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے قول سے مشابہت (اختیار) کرتے ہیں جو (ان سے ) پہلے کفر کر چکے ہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیںo
(التَّوْبَة ،التَّوْبَة، 9 : 30) (ترجمہ عرفان القرآن)
 
حضرت عزیر علیہ السلام [[بنی اسرائیل]] کے جلیل القدر پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ہیں، آپ حضرت [[ہارون علیہ السلام]] کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا زمانہ بنی اسرائیل کی قیدِ [[بابل]] سے رہائی کے بعد کا یعنی چھٹی صدی عیسوی کا زمانہ ہے۔ آپ نہ صرف [[کاہن]] ہی تھے بلکہ [[شریعت موسوی]] کے عالم بھی تھے اور ایک ماہر [[کاتب]] ہونے کی وجہ سے لوگوں میں بڑی قدرومنزلت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ آپ بڑے نیک اور خدا پرست آدمی تھے۔
 
آپ 458 – 457 قبل مسیح میں [[ارتخششتا اول]] ، شاہ [[ایران]]( 465 تا 424 قبل مسیح) کے عہد حکومت میں یہودی قیدیوں کی رہائی پر اُن کے سربراہ کی حیثیت سے یروشلیم آئے۔ یہ رہائی پانے والے یہودیوں کا دوسرا گروہ تھا جو تقریبا 5000 افراد پر مشتمل تھا۔ آپ اسی گروہ کی قیادت پر مامور کیے گئے تھے۔ آپ کے یروشلیم پہنچنے پر ہیکل کی تعمیر کا کام باقاعدہ انجام پا چکا تھا لیکن ابھی تک اُسے مختلف مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے پوری طرح استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ آپ نے ہیکل میں نہ صرف باقاعدہ عبادت کی ترویج کی بلکہ دیگر مذہبی رسوم کو بھی پھر سے نافذ کرنے کی طرف توجہ فرمائی، مثلاً عید فسح اور عید فطیر بڑے جوش و خروش سے منائی جانے لگیں۔ آپ کو اپنی قوم کی بعض مشرکانہ حرکات پر سخت ملال ہوا لیکن آپ نے بڑی ہمت اور بردباری سے کام لے کر انہیں شریعت خداوندی کی پوری طرح پیروی کی ترغیب دلائی۔ آپ نے یروشلیم شہر میں بہت سے تعمیری کام کروائے لیکن جس عظیم کارنامے کے باعث آپ تاریخ یہود میں آج تک یاد کیے جاتے ہیں وہ یروشلیم کی فصیلوں کی مرمت اور اُنہیں پھر سے تعمیر کروانے کا کام تھا۔ اس کام میں دارا شہنشاہ ایران نے آپ کی بہت مدد کی لیکن آپ یروشلیم کی تعمیر نو کے کام کو خداوند خدا کی طرف سے تفویض کی ہوئی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیتے رہے۔<br />
[[بائبل]] کی ایک کتاب ،کتاب، [[کتاب عزرا]] بھی آپ کے نام سے ہی منسوب ہے۔
==سو سال کی نیند==
 
آپ() ایک دقعہ ایک ویران جگہ سے گزر رہے تھے کہ آپ() نے اس جگہ کر دیکھ کر کہا کہ :-'فیامت کے روز اللہ مجھے کیسے زندہ کرے گا۔اسگا۔ اس وقت صبح کا وقت تھا آپ سو گئے نیند کے دوران ہی اللہ پاک نے آپ کی روح قبض کر لی اور آپ اس حالت میں تقریباً 100 سال تک سوتے رہے پھر سو سال بعد اللہ نے آپ میں دوبارہ روح پھونک دی اور آپ جی اٹھے جب آپ دوبارہ زندہ ہوئے تو اللہ نے آپ سے سوال کیا:-اے عزیر!تم کتنی دیر تک سوئے '۔کیونکہ۔ کیونکہ جب اپ کی روح قبض ہوئی تو صبح کا وقت تھا اور جب واپس پھونکی گئی تو عصر کا وقت تھا۔ تو آپ کو یہی تھا کہ آپ صرف چند گھنٹے سوئے۔ آپ نے اسی بنہ پر اللہ کو جواب دیا:-'میں دن کا کچھ حصہ سویا'۔پھر۔ پھر اللہ نے فرمایا:-'تو سو سال تک سوتا رہا' یہ سن کر آپ حیران رہ گئے پھر اللہ نے آپ کو کہا کہ اپنے کھانے کی طرف دیکھو وہ ابھی تک تازہ ہے اور اپنے گدھے کو دیکھو اس کی صرف ہڈیاں رہ گئی ہیں' یہ دیکھ کر آپ حیران رہ گئے پھر اللہ کے حکم سے وہ ہڈیاں کھڑی ہوگئیں اور ان پر گوشت چر گیا اور وہ گدھا زندہ ہو گیا ' پھر اللہ نے فرمایا:- 'دیکھ عزیر ہم نے اس کیسے زندہ کیا اسی طرح ہم قیامت کے روز تم کو بھی زندہ کريں گے'
یہ واقعہ "سورۃ بقرۃ" آیت نمبر "69" میں بھی موجود ہے۔۔۔۔۔
 
اس کے بعد آپ  نے فرمایا:-''بےشکبے شک میرا پروردگار ہر چیز پر قادر ہے''۔
 
یہ کہنے کے بعد آپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ ویران جگہ جہاں آپ رکے تھے وہ ایک بہت بڑی آبادی میں تبدیل ہو چکی تھی اپ اس آبادی میں گئے اور کچھ لوگوں سے کہا : کیا تم عزیر کو جانتے ہو۔ انہوں نے کہا ہاں ہم اسے جانتے ہیں وہ آج سے سو سال پہلے یہاں آیا تھا لیکن اب وہ مرچکا ہے اسے مرے ہوئے سو سال ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر عزیر() نے فرمایا:-میں ہی عزیر ہوں یہ سن کر وہ چونک گئے اور بستی کی سب سے بوڑھی عورت کو لے آئے اس کی عمر 120 سال تھی اور اس نے عزیر() کو دیکھا ہوا تھا لوگوں نے اسے بلا کر کہا کہ:- کیا یہ آدمی عزیر ہے؟ اس نے جواب دیا :-خدا کی قسم یہ عزیر ہی ہیں مگر کیسے؟
یہ دیکھ کر وہ تمام لوگ آپ(ع) پر ایمان لے آئے۔
 
اسی واقعہ کی وجہ سے ساتویں صدی عیسوی میں [[مدینہ]] کے یہودی آپ کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے۔ اور ان کے اس عقیدےکیعقیدے کی کوئی بنیاد نہیں تھی کیونکہ انہی ہی کی کتاب تورات بلکہ تمام آسمانی کتابوں میں لکھا تھا کہ کے خدا ایک ہے اور اس کی کوئی اولاد نہیں۔
 
{{اقوام وشخصیات قرآن}}