"سورہ یوسف" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← ہو گئے، غیر، سے، علما، گزارے، سے، اور، \1 رہا، بر سر اقتدار، گزرے، یا، کی بجائے، \1 رہے، کر دیں
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
سطر 73:
مصر پر اس زمانے میں پندرہویں خاندان کی حکومت تھی جو مصری تاریخ میں چرواہے بادشاہوں (
HIKSOS Kings
) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ عربی النسل تھے اور فلسطین و شام سے مصر جاکر 2 ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں سلطنت مصر پر قابض ہو گئے۔ عرب مؤرخین اور مفسرین قرآن نے ان کے لیے "[[عمالیق]]" کا نام استعمال کیا ہے جو مصریات کی موجودہ تحقیقات سے ٹھیک مطابقت رکھتا ہے۔ مصر میں یہ لوگ اجنبی حملہ آور کی حیثیت رکھتے تھے اور ملک کی خانگی نزاعات کے سبب انہیں وہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ یہی سبب ہوا کہ ان کی حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کو عروج حاصل کرنے کا موقع ملا اور پھر بنی اسرائیل وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، ملک کے بہترین زرخیز علاقے میں آباد کیے گئے اور ان کو وہاں بڑا اثر و رسوخ حاصل ہوا کیونکہ وہ ان غیر ملکی حکمرانوں کے ہم جنس تھے۔ پندرہویں صدی قبل مسیح کے اواخر تک یہ لوگ مصر پر قابض رہے اور ان کے زمانے میں ملک کا سارا اقتدار عملا{{دوزبر}} بنی اسرائیل کے ہاتھ میں رہا۔اسیرہا۔ اسی دور کی طرف سورۂ مائدہ آیت 20 میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ملک میں ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اٹھی جس نے ہکسوس اقتدار کا تختہ الٹ دیا۔ ڈھائی لاکھ کی تعداد میں عمالقہ ملک سے نکال دیے گئے۔ ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان بر سر اقتدار آ گیا اور اس نے عمالقہ کے زمانے کی یادگاروں کو چن چن کر مٹادیا اور بنی اسرائیل پر ان مظالم کا سلسلہ شروع کیا جن کا ذکر حضرت موسی{{ا}} علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے۔
مصری تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان چرواہے بادشاہوں نے مصری دیوتاؤں کو تسلیم نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے دیوتا شام سے اپنے ساتھ لائے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ مصر میں ان کا مذہب رائج ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام کے ہم عصر بادشاہ کو "[[فرعون]]" کے نام سے یاد نہیں کرتا۔ کیونکہ فرعون مصر کی مذہبی اصطلاح تھی اور یہ لوگ مصری مذہب کے قائل نہ تھے۔ لیکن بائبل میں غلطی سے اس کو بھی فرعون ہی کا نام دیا گیا ہے۔ شاید اس کے مرتب کرنے والے سمجھتے ہوں گہ کہ مصر کے سب بادشاہ فراعنہ ہی تھے۔
موجودہ زمانے کے محققین جنہوں نے بائبل اور مصری تاريخ کا تقابل کیا ہے، عام رائے یہ رکھتے ہیں کہ چرواہے بادشاہوں میں سے جس فرمانروا کا نام مصری تاریخ میں اپوفیس ملتا ہے، وہی حضرت یوسف کا ہم عصر تھا۔